دیدہ بے خواب کے بھیگے ہوئے اصرار پر
میں ترے لہجے کی سختی بھی گوارا کر گیا
………
تتلیوں کی جستجو میں گھر سے نکلا تھا مگر
جھاڑیوں میں اڑ رہی تھیں سنسناتی گولیاں
………
رستے زخموں سے ڈھانپ رکھا ہے
جسم بارِ قبا نہیں سہتا
………
تیرے نام کی خوشبو شامل کر لیتا ہوں
خالی سانس تو سینے میں کنکر لگتا ہے
………
شرافت؟ میں نہیں سمجھا
پرانی بات ہے شاید
………
تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی
ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارہ سا
منصوبہ سفر ہی بڑا جاں گداز تھا
بیٹھے بٹھائے تھک کے ہوئے چوُرچوُر ہم
………
حسرتوں کی اداس بستی میں
مستعد مسئلوں کا پہرا ہے
………
ہاں اسی رستے پہ ہے شہر نگار آرزو
آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر
………
دیدہ بے خواب کے بھیگے ہوئے اصرار پر
میں ترے لہجے کی سختی بھی گوارا کر گیا
………
تتلیوں کی جستجو میں گھر سے نکلا تھا مگر
جھاڑیوں میں اڑ رہی تھیں سنسناتی گولیاں
………
رستے زخموں سے ڈھانپ رکھا ہے
جسم بارِ قبا نہیں سہتا
………
تیرے نام کی خوشبو شامل کر لیتا ہوں
خالی سانس تو سینے میں کنکر لگتا ہے
………
شرافت؟ میں نہیں سمجھا
پرانی بات ہے شاید
………
تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی
ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارہ سا
منصوبہ سفر ہی بڑا جاں گداز تھا
بیٹھے بٹھائے تھک کے ہوئے چوُرچوُر ہم
………
حسرتوں کی اداس بستی میں
مستعد مسئلوں کا پہرا ہے
………
ہاں اسی رستے پہ ہے شہر نگار آرزو
آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر
………
کٹ جائے گا پورا دن
شہر کے بھوکے بچے گن
………
لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے
ایک ٹوٹی سائیکل خالی ٹفن
………
جب بھی اس کی بات چلی ہے
میں شہ رگ سے بہہ نکلا ہوں
………
زخم برسانا انگارے پھینکنا
کتنے رنگیں ہیں تمہارے مشغلے
………
ان سے امید شفاء ہے اس دل بیمار کو
جن کا شیوہ زخم کاری ہے مسیحائی نہیں
………
بوڑھا چاند بھی جھک کر میری پتھر پتھر آنکھوں میں
اس کی صورت قطرہ قطرہ ٹپکاتا ہے رات گئے
………
دشمنی دو ٹوک سچی دوستی
سلسلے ہی مختلف تھے گاؤں کے
پاک تھے بے لوث تھے محفوظ تھے
بے در و دیوار ویہڑے گاؤں کے
جب بھی اسلم ڈوبنے لگتا ہے دل
یاد کر لیتا ہوں چہرے گاؤں کے
………
گاڑیوں کی بتیاں گنتے ہوئے
ایک بچہ سو گیا فٹ پاتھ پر
………
میری کٹیا کا چراغ اسلم اچانک بجھ گیا
اس کے ہاں روشن ہوئے جب قمقمے اشجار پر
………
رات ریستوران میں بیٹھے ہوئے میری طرف
اس نے دیکھا تھا کہ سارے شہر کی بجلی گئی
٭٭٭