آباد نگر میں رہتا تھا اور اُجڑی غزلیں کہتا تھا ۔۔۔ سیدہ قریشی

 

شرافت؟ میں نہیں سمجھا

پُرانی بات ہے شاید۔ ۔ ۔ !

مرحوم اسلم کولسری کا یہ شعر ان کی پوری زندگی کی ریاضت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ شہر جو منافقت کی مٹی سے تعمیر ہوا ہے اور جس پر ہوس اور لالچ کی فضائیں حکمرانی کرتی ہیں،  اسی میں اسلم کولسری اپنی دکان پر شرافت، دیانت اور نجابت بیچتے تھے۔ خریدار کون تھا؟ یہ وہ سوال ہے اور یہی وہ المیہ ہے جس پر لوگ بات کر رہے ہیں۔ کسی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ”بدقسمتی سے وہ شریف النفس اور خوددار تھے ‘‘۔ یہ سوچ پورے معاشرے میں پھیلی آلودگی کو ظاہر کرتی ہے۔ مگر اسلم کولسری کو سمجھنے کے لیے انہیں اس معاشرے کے مروجہ کامیابی کے اصولوں سے ہٹ کر دیکھنا ہو گا۔ اُن جیسے اُجلے اور ستھرے لوگ ہی معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں۔ وہ رب کا پسندیدہ بندہ تھا۔ ایسے ہی بندوں پر خالق آزمائشیں اتارتا ہے، مگر پھر بھی وہ سچے اور سیدھے راستے سے منکر نہیں ہوتے۔ اسلم کولسری ایک درویش اور صوفی منش انسان تھے۔ اُن کی پوری زندگی ایک ریاضت سے آراستہ تھی۔ صابر، شاکر، دوسروں کے دُکھ درد میں دل سے شریک ہونے والے،  اپنی محرومیوں کو چھپانے والے،  ستائش اور صلہ کی پروا کئے بغیر محبت کرنے والے،  دوسروں کو سراہنے والے،  مفاد پرستی اور منافقت سے دور! اپنی ہی طرز کے جو گی تھے کولسری صاحب! سادگی اور گہرائی اُن کی شخصیت کا خاصا تھا اور یہی اُن کی شاعری کی بنیادی خوبی ہے۔ آپ اسلم کولسری کو جاننا چاہتے ہیں تو اُن کے اشعار پڑھتے جائیے،  آپ کی ملاقات ”کولسر‘‘ کے خوب صورت انسان سے ہو جائے گی ؎

سلگنا، مسکرانا، راکھ ہونا شعر کہنا

بہت معصوم ہوتے ہیں محبت کرنے والے

وہ اپنے اشعار کی ہو بہو تصویر تھے ورنہ ہمارے ہاں ایسے تخلیق کار کثرت سے پائے جاتے ہیں جو اپنی تخلیق۔ ۔ ۔ شاعری، افسانہ یا کالم میں تو اصول پسند، دیانت کے علمبردار، سادگی اور قناعت کے پرچارک نظر آئیں گے مگر اپنی اصل زندگی میں وہ لالچی، مفاد پرست، خوشامد پسند، پرلے درجے کے موقع پرست، دھکے دے کر آگے نکلنے والے اور اپنی عظمت کا جھوٹا امیج تخلیق کرنے والے ہوتے ہیں۔ مگر یہاں تو بات ہو رہی ہے اسلم کولسری کی جس کے اجزائے ترکیبی ہی مختلف تھے۔ وہ اس عام سے معاشرے کے ایک بہت خاص، کم یاب انسان تھے۔ اگر وہ ایسے نہ ہوتے تو پھر وہ اسلم کولسری نہ ہوتے جنہیں آج ہم سب اس محبت سے یاد کر رہے ہیں۔ پھر اُن کے رخصت ہو جانے پر دلوں میں اس قدر گہرا ملال نہ ہوتا، آنکھیں اس طرح نم نہ ہوتیں،  اُن کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے ہمارے لبوں پر دعائیں نہ ہوتیں،  اُن کے رخصت ہو جانے سے ان کے دوستوں اور محبت کرنے والوں کے دل یوں غم آلود نہ ہوتے۔ اسلم کولسری کے اجزائے ترکیبی ہی مختلف تھے،  اسی لیے تو وہ اسلم کولسری تھے۔

میرے لیے وہ ایک محترم استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُن سے پہلا تعارف 2002ء میں ہوا جب میں نے ایک اردو روزنامہ جوائن کیا۔ میری پہلی اسائنمنٹ ادب کے حوالے سے تھی۔ ایک نووارد کی حیثیت سے میرے پاس شعراء اور ادیبوں کے رابطہ نمبر نہ تھے۔ اسلم کولسری صاحب کا نمبر مجھے مرحوم مظفر محمد علی صاحب نے دیا جو خود بھی بہت خوب صورت شخصیت تھے اور کہا کہ اِن سے رابطہ کر لیں آپ کی بہتر رہنمائی کریں گے۔ اُسی دن رابطہ ہوا اور پھر جب بھی اشعار کہتے ہوئے کہیں ذہن اٹک جاتا تو میں کولسری صاحب کو فون کر لیتی۔ وہ نہایت شریف النفس اور مہربان انسان تھے اور اب اُن کی وفات کے بعد پتا چلا کہ بے شمار لوگوں کے لیے وہ استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ مجھے اس بات کا ہمیشہ پچھتاوا رہے گا کہ مجھے اُن کی بیماری کی خبر نہ ہو سکی۔ اُن کی وفات کی خبر مجھے نامور ادیبہ سلمیٰ اعوان نے فون پر دی۔ وہ بہت افسردہ بھی تھیں اور کچھ تذبذب میں بھی کہ کیا یہ خبر سچ ہے۔ اسی تذبذب میں،  میں نے اپنے کولیگ عمار چوہدری کو فون کیا تو انہوں نے اس افسوسناک خبر کی تصدیق کی۔ انہی سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ گزشتہ چھ ماہ سے صاحب فراش تھے اور کئی ماہ سے آفس نہیں آ رہے تھے۔ یعنی ”مسافران رہِ عشق تھک کے بیٹھ گئے ‘‘۔ اعصابی بیماری نے اُن کا وزن کوئی 20 سے 22 کلو گرا دیا تھا اور پھر ایک صبح خاموشی سے وہ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ میرے نزدیک وہ ایک کامیاب زندگی جیے۔ ہاں معاشرے کے مروجہ اصولوں کی عینک سے دیکھیں تو وہ اس کامیاب زندگی کے معنی آپ کو سمجھ نہیں آئیں گے۔

اسلم کولسری کو اردو اب کا کیٹس کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ بھی کیٹس کی طرح سچائی کو خوب صورتی اور خوب صورتی کو سچائی سمجھنے والے تخلیق کار تھے۔ ۔ ۔ Beauty is truth, truth Beauty۔ ۔ ۔ کیٹس اپنی زندگی میں بے پناہ مسائل سے گزرتا رہا مگر زندگی کے ہر زاویے سے خوب صورتیاں تلاش کر کے اپنی شاعری میں بیان کرتا۔ کولسری صاحب نے بھی اپنی شاعری میں زندگی کی ان گنت خوب صورتیوں کو سمو دیا ہے، وہ چیزیں جو اب ناپید ہیں۔ لالٹین، تتلیاں،  جگنو، خوشبو، چوپال، چاند سارے،  گاؤں کا راستہ۔ ۔ ۔ وہ اپنے ساتھ اپنے کولسر کو ہمیشہ زندہ رکھتے اور حالات بدلنے کے باوجود اسی فضا میں سانس لیتے۔ اسی مٹی میں دفن ہونے کی خواہش انہوں نے اپنے بچوں سے بھی کی اور اپنے چند قریبی دوستوں سے بھی اور آج وہ اسی مٹی میں آسودہ خاک ہیں۔

ایک خاص حزن و ملال ان کی شاعری کا خاصا ہے۔ ویرانہ، نخل جاں،  کاش، نیند، عنبر، برسات،  کومل، جیون، ان کتابوں میں اردو زبان کی خوب صورت شاعری بکھری پڑی ہے۔ اس شاعری کے آئینے میں آپ کو اردو ادب کا ایک منفرد شاعر دکھائی دے گا۔ ایسا شعر تو اسلم کولسری ہی کہہ سکتا ہے ! ؎

کھل کے بیٹھو کہ ملنے آیا ہوں

میں اور کسی کام سے نہیں آیا

پرو کر دیکھ لو کاٹنے میں جگنو

کوئی اس شہر میں ایسے جیا ہے

اپنے بیٹے کی وفات پر کیسے دلگداز شعر کہے : ؎

سورج پہ مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے

ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے

تو جانبِ صحرائے عدم چل دیا تنہا

بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے

ان کے کچھ اشعار تو ضرب المثل بن گئے : ؎

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

اور ان اشعار میں انہوں نے اپنی شخصیت سمو دی ہے : ؎

جتنا بھی گدلا ہوں سائیں

تیرے دوار کھڑا ہوں سائیں

وقت کی بازی گاہ میں آ کر

سب کچھ ہار گیا ہوں سائیں

صدیوں کا سناٹا اوڑھے

محفل میں بیٹھا ہوں سائیں

اسلم کولسری بھولنے والی شخصیت نہیں،  وہ ہمیشہ یاد رہیں گے اور اس کی پیشین گوئی تو وہ اپنے اس شعر میں کر گئے ہیں ؎

آباد نگر میں رہتا تھا اور اجڑی غزلیں کہتا تھا

کچھ نام بھی شاید تھا اس کا، یاد آیا، اسلم کولسری!

رب کریم ان کے درجات بلند کرے آمین

٭٭٭

http://78.129.250.171/index.php/author/syeda-qureshi/2016-11-13/17514/19981037#tab2

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے