زندگی جھوٹ ہے سب حیلے بہانے کر لو
موت اک سچ ہے کلیجے سے لگانا ہو گا
بیکلؔ اتساہی
حسانِ وقت، پدم بھوشن عالی قدر سرِ معانی بیکلؔ اتساہی کا اصل نام لودی محمد شفیع خاں تھا۔ آپ یکم جون ۱۹۲۸ء بروز جمعہ موضع گورر موا پور، اُترولہ ضلع گونڈہ کے ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد لودی محمد جعفر خاں اور والدہ بسم اللہ بی بی خلیل زئی پورے علاقے میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ بیکلؔ اتساہی کی پرورش و پرداخت نہایت صحت مند، جاگیردارانہ لاڈ و پیار سے رعب و جلال کے گھن گرج ماحول میں ہوئی۔ بیکلؔ اتساہی دینی و ادبی، تعلیمی و سیاسی اجلاس اور مشاعروں کی آبرو تھے۔ عزت و اکرام کی زندگی گذار کر وہ درویش صفت شاعر آج ۳ ؍ربیع الاول ۱۴۳۸ھ / ۳ ؍ دسمبر ۲۰۱۶ء بروز سنیچر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا، کیا شان کی موت ہے کہ جس ذاتِ پاک رحمت عالم و عالمیان صلی اللہ علیہ و سلم کے گیت زندگی بھر گاتے اور سناتے رہے اسی پاک ذات کے مبارک مہینے میں بارگاہِ حقیقی سے طلبی نصیب میں آئی۔ گذشتہ شب افواہوں کے چلتے اُن کی صاحب زادی ڈاکٹر صوفیہ بلقیس سے برین ہیمبریج کی جاں کاہ خبر نئی دہلی سے ملی۔ انھوں نے بتایا کہ رام منوہر لوہیا اسپتال میں زیر علاج ہیں لیکن ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے۔ آج علی الصبح یہ افسوسناک اطلاع ملی کہ بیکلؔ صاحب سفر آخرت کو سدھار گئے، ان للہ و انا الیہ راجعون! برادر عزیز مدثر حسین رضوی کے توسط سے جناب اعجازؔ اتساہی ابن بیکلؔ اتساہی سے بھی بات ہوئی انھوں نے بتایا کہ کل بروز اتوار۴؍ ربیع الاول ۱۴۳۸ھ/ ۴؍ دسمبر ۲۰۱۶ء بعد ظہر بلرام پور میں تدفین عمل میں آئے گی۔ بیکلؔ صاحب جلالۃ العلم حضور حافظ ملت قدس سرہٗ کے چہیتے مریدوں میں تھے۔ آپ ہی کی کاوش سے حافظ ملت علیہ الرحمہ نے بغیر فوٹو کے حج فرمایا اس سفر حج میں بیکلؔ صاحب بھی ساتھ ساتھ رہے۔ ۱۹۷۲ء میں مجلس شوریٰ عربک یونی ورسٹی مبارک پور، اعظم گڑھ بنائی اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپ مذہب، ادب، تعلیم اور سیاست کے میدانوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ہندوستانی پارلمینٹ کے رکن بھی رہے۔ ہندوستانی حکومت نے ان کی خدماتِ جلیلہ کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ۱۹۷۶ء میں ’’ پدم بھوشن‘‘ اعزاز سے نوازا۔ پنڈت نہرو جب ملک کے وزیر اعظم تھے اس وقت وہ اکثر یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے حب الوطنی پر مشتمل گیت اپنے مخصوص ترنم میں گایا کرتے تھے۔ آپ تاعمر ادب کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت میں بھی مصروف رہے۔ مختلف سیاسی و سرکاری کمیٹیوں کے رکن رہے۔ مختلف اداروں نے آپ کی ادبی و سماجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف اعزازات سے نوازا جس کی فہرست کافی طویل ہے۔
نعت گوئی بیکل ؔ صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ بیکل ؔاتساہی کی نعت گوئی بالخصوص نعتیہ گیت نگاری اردو نعت کے سفر میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یوں تو بیکلؔ نے اردو کی ہر صنف کو اپنی جودتِ طبع سے جگمگایا۔ بلکہ غزل کی ہیئت کے علاوہ دیگر ٭٭۔ اس)ے باز خواں۔ ان حکاماہیئتوں میں بھی انھوں نے مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے گل بوٹے بکھیرے۔ حمد، مناجات، نعت، درود، سلام، مناقب، قصائد، مرثیے، دوہے، غزلیں ، نظمیں، گیت، گیت نما، ہائیکو، ماہیے، ترائیلے وغیرہ وغیرہ اصناف پر ان کی تقدیسی، بہاریہ، غزلیہ، قومی اور طفلی شاعری پر مبنی ایک کلیات بہ نام ’’ کلیات بیکلؔ ‘‘ ۱۱۰۵ ؍ صفحات کو محیط جناب فاروق ارگلی کا مرتبہ فرید بک ڈپو دہلی سے منظر عام پر آ چکا ہے۔ بیکل ؔاتساہی کی شعری کائنات کی تفصیل ذیل میں پیشِ خدمت ہے :خزینۂ نعت و سلام کے تحت : (۱) نغمۂ بیکل (۲) حسنِ مجلّیٰ(۳) تحفۂ بطحا(۴) سرورِ جاوداں (۵) بیانِ رحمت (۶) جامِ گل (۷) توشۂ عقبیٰ (۸) نورِ یزداں (۹) والضحیٰ (۱۰) والنجوم (۱۱) والفجر ہیں جب کہ غزل غزل بیکل کے ضمن میں (۱) غزل سانوری (۲) پروائیاں (۳) موتی اُگے دھان کے کھیت (۴) موسموں کی ہوائیں (۵) دوہا پورم بیکل کے مجموعوں کے نام ہیں۔ اسی طرح قومی شاعری کے حوالے سے (۱) اپنی دھرتی چاند کا درپن (۲) رنگ ہزاروں خوشبو ایک (۳) مٹی، ریت، چٹان (۴) کومل مکھڑے بیکل گیت (۵) نظماوت۔ جب کہ بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں اور گیتوں کے مجموعے کا نام ’’ بچوں کی پھلواری ‘‘ ہے۔ آپ کی شعری خدمات پر کئی رسرچ اسکارز نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں۔ راقم الحروف ناچیز مشاہدؔرضوی پر بیکلؔ صاحب بڑا کرم فرماتے تھے۔ اکثر ٹیلی فونک رابطہ رہتا تھا۔ ناچیز کی نعت گوئی پر آپ نے دسمبر ۲۰۱۰ء میں اپنا گراں قدر تاثر بھی قلمی صورت میں ارسال کیا تھا جو میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ آپ بڑے نفیس انداز میں خطوط لکھا کرتے تھے اور فون پر اُن کی گفتگو بھی شفقت آمیز رہا کرتی تھی۔ بڑوں کا ادب کرتے تھے۔ اصاغر نواز تھے۔
بیکلؔ اتساہی کی شاعری میں ہندوستانیت کا بڑا گہرا رچاؤ پایا جاتا ہے۔ پاسبانِ ملت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ نے بیکلؔ مرحوم کے بارے میں لکھا ہے کہ : ’’ ہمالہ کی ترائی، کھیتوں کی ہریالی، درختوں کی قطار ، پھولوں کی مہکار، پپیہے کی رت، کوئل کی پکار، بلبل کی نوا سنجی، چکور کا اضطراب، کسانوں کی مشقت، مزدوروں کا افلاس، گاؤں کا پیار اور دیہات کا بے لوث اخلاص یہی وہ مناظر قدرت اور شواہد فطرت کا نکھرا ہوا ماحول تھا جس کی حسین گود میں اس بچے نے آنکھ کھولی۔ ‘‘( ماہ نامہ شاعر جنوری ۲۰۱۰ء) شاید یہی وجہ ہے کہ بیکلؔ اتساہی کی نعتوں، سلام، مناقب، قصائد، نظموں، غزلوں اور گیتوں میں فطری مناظر سے والہانہ شیفتگی اور لگاؤ پایا جاتا ہے۔ بیکل ؔاتساہی عہدِ حاضر کے اُس مہان بھارتیہ شاعر کا نام ہے جن کے نطق سے بیک وقت خسروؔ، جائسیؔ، تلسیؔ، کبیرؔ، سورؔ، میراؔ اور رسکھانؔ کی سُر لہری سنائی دیتی ہے۔ بیکلؔ کا طرزِ بیان دیس کی مٹی سے عقیدت، دیش واسیوں سے محبت، پاکیزہ انسانی جذبوں اور محسوسات کی مرقع آفرینی اور سماج میں پھیلی نا انصافی، نابرابری اور ظلم و استحصال کے خلاف صدائے حق بن کر رسیلے نغموں میں ڈھل جاتا ہے۔ بیکلؔ اتساہی شخصی طور پر ایک سچے اور پکے مسلمان تھے۔ وہ صوفی منش صاحبِ سلسلہ تھے۔ وقت کے عظیم محدث حافظ ملت شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی (بانی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور) کے مرید تھے۔ امام نعت گویاں مولانا احمد رضا بریلوی کے پیغامِ عشقِ رسالت کے امین تھے۔ محبتِ رسول اُن کی زندگی کاسرمایہ تھا۔ اُن کی نعتیہ شاعری سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کے بے پناہ اور والہانہ عشق و محبت کا آئینہ ہے۔ آپ کی شعری کائنات میں ۱۱ ؍ مجموعوں پر مشتمل نعت و سلام اور مناجات و مناقب کا اتنا بڑا خزینہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ جس سے بیکلؔ صاحب کی قادرالکلامی، روحانی پاکیزگی اور والہانہ عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ کی نعتوں میں محتاط وارفتگی ہے۔ خلوص و للہیت ہے۔ جذبات کی صداقت ہے۔ احساسات کی پاکیزگی ہے۔ بیکلؔ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی نعتوں میں مختلف علاقائی بولیوں، مثلاً اودھی، بھوجپوری اور پوربی وغیرہ کے الفاظ کو نہایت فطری انداز میں جذب کر کے محض اردو کا دامن وسیع نہیں کیا بلکہ ایک نئے اسلوب کی طرح ڈالی جسے بہ قول ڈاکٹر کرامت علی کرامت : ’’ اتساہیؔ شیلی کے نام سے پکارا جا سکتا ہے۔ ‘‘بیکلؔ کے چند نمائندہ نعتیہ اشعار ؎
جب حُسن تھا ان کا جلوہ نما انوار کا عالم کیا ہو گا
ہر کوئی فدا ہے بِن دیکھے دیدار کا عالم کیا ہو گا
جدھر سے وہ گزر گئے حیات بانٹتے گئے
حیات کیا، حیات کو ثبات بانٹتے گئے
جمالِ مصطفی کا نور ہے دل کے نگینے میں
سمندر میں سفینہ ہے، سمندر ہے سفینے میں
ہر ایک سانس چلی ضبط و احترام کے ساتھ
بسوے طیبہ جو شوقِ سفر مہکنے لگے
میں مانتا ہوں اے عقل والو! مرا محمد(ﷺ) خدا نہیں ہے
مگر دلوں پہ یہ نقش کر لو کہ وہ خدا سے جدا نہیں ہے
لذتِ یادِ نبی، حب نبی، ذکرِ نبی
تو نہیں ہے تو دو عالم میں کوئی چیز نہیں
غم کے ماروں کا سہارا ہے ترا لطف و کرم
رہ گیا حشر میں ایمان و عقیدت کا بھرم
دولتِ کون و مکاں ہے ترے دیوانے کا غم
تیری توقیر سے کونین کی تقدیر بنی
اردو ادب میں ’’ گیت ‘‘ کی صنف کو بام عروج تک پہنچانے اور اسے مقبولِ عام بنانے میں بیکلؔ اتساہی کا نام ناقابلِ فراموش ہے۔ بیکلؔ نے گیتوں کی روایت کو اردو شاعری میں ایک لافانی مقام تک پہنچا دیا ہے۔ انھوں نے گاؤں کے عوام کی زندگی اور دبی کچلی انسانیت کے کرب سے اردو شاعری کو روشناس کرایا ۔ نظم نما گیتوں کے ذریعے بیکلؔ نے جو کارنامے انجام دئیے وہ فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ بہ قول ظ انصاری : ’’ بیکلؔ غزلوں کو لوگ گیتوں کی، گیت کو غزل کی چاشنی دے کر ایسا آمیزہ تیار کرتے ہیں جو زود ہضم بھی ہو اور پُر کیف بھی۔ بیکلؔ گیتوں اور غزلوں کو یک جان کر کے نہایت کامیاب بلکہ میں کہوں گا مستقبل کی عام پسند اردو شاعری کے دل رُبا نمونے پیش کر چکے ہیں۔ بیکلؔ کے یہاں گنگا کی ترائی یا ویشالی کی اصل گپھا ہے، بلرام پور کے کھیتوں، باغوں اور جنگلوں کی سگندھ ہے۔ بیکلؔ کے پیش رَو ہم وطن سردار جعفری نے بجا طور پر ان کے کلام کو ’اردو گیت ‘کہا ہے۔ واقعی ان پر دھات لوک گیت کی ہے، قلعی اردو شاعری کی۔ سرل، سادھارن گیتوں میں تجلیِ فردوس کا بانکپن، مشعلوں کے سیال، جبینِ شفق ، جیسی تراکیب بیکلؔ بھرنے سے نہیں چوکتے غرض بحر طویل کے اس شناور نے شاعری سے اپنی شرطوں کے ساتھ معاملہ کر رکھا ہے۔ ‘‘ ( ماہ نامہ شاعر جنوری ۲۰۱۰ء ص ۱۵)بیکلؔ کے مشہور گیتوں سے چند بند ؎
ندیاں کھا گئیں گاؤں
بادل پی گئے چھپر چھاؤں
گیت
سب ڈوب گئے
—-
ندیا پیاسیکھیت اُپاسے، اجڑے ہیں کھلیان،
میں کیسے گیت سناؤں
روٹی کھا گئی بھوکی دھرتی سورج پی گیا پانی
چاند نے چھین لیا پیراہن، ننگی ہوئی جوانی
دھرم کرم انجان،
میں کیسے گیت سناؤں
—-
ڈالی ڈالی پھول پھول کروٹ لیں انگارے
شبنم شبنم پتی پتی شعلے بانہہ پسارے
سانسوں سانسوں قید ہے خوشبو، آنکھوں آنکھوں رنگ
میں کس کے گیت
لکھوں
نئے عہد کا سب رنگ فن کار بیکلؔ اتساہی کا غزلیہ رنگ و آہنگ بھی اپنی جگہ پوری آب و تاب کے ساتھ ادبی افق پر جگمگ جگمگ کر رہا ہے۔ ان کی غزلوں میں داخلی اور خارجی حقائق کی کہانیاں پیوست ہیں۔ بیکلؔ کی غزلوں میں عموماً اضطرابی کیفیات، اداسی، مایوسی، سماجی نابرابری، لوٹ کھسوٹ، بے عملی، لاقانونیت وغیرہ کا احساس ہوتا ہے۔ بیکلؔ کی غزلیات کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ وہ چند مخصوص موضوعات حسن و عشق، فلسفہ، تصوف، سیاست وغیرہ تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان کی شاعری میں وارداتِ قلبی اور کیفیاتِ ذہنی کے علاوہ حیات و کائنات کے بیشتر موضوعات کا بڑے فنکارانہ طور پر ابلاغ دکھائی دیتا ہے۔ وہ غزل کے فنی رموز و اسرار سے واقف ہیں۔ وہ غزل کے مزاج کے مطابق اپنے اشہبِ قلم کو مہمیز دیتے ہوئے عصری حسیت کے مکمل ادراک کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر غزلیہ اشعار بکھیرتے ہیں، بیکلؔ کا غزل رنگ نشانِ خاطر کریں ؎
یہ شہر منصفوں کا، وہ نگر ہے مجرموں کا
یہاں قاتلوں کے جلسے وہاں سادھوؤں کے پہرے
حسن تھا حسنِ کشش تھا کہ ترا حسنِ ادا
جانے کیا بات تھی جو تجھ پہ مرا دل آیا
چاندی کے گھروندوں کی بات جب چلی ہو گی
مٹی کے کھلونوں سے بہلائے گئے ہوں گے
عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا
دورِ حاضر کی بزم میں بیکلؔ
کون ہے آدمی نہیں معلوم
ہنگاموں کے شہر میں کوئی دل کی بزم سجائے ہے
میراؔ کی رچنائیں کھو گئیں جیسے ڈھول مجیروں میں
جلوۂ طور سے شمعِ حرم یا حلقۂ نور سے حسنِ صنم تک
ایک اکیلے تم ہو حقیقت، باقی سب افسانے ہیں
بیکلؔ نے دوہے بھی لکھے اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ بہ قول نظام صدیقی: ’’ بیکلؔ اتساہی کی ’نودوہا نگاری‘ دوہا شکنی کی ایک معنی خیز تخلیقیت کشا کاوش ہے۔ ‘‘ بیکلؔ دوہوں کی عظیم اور قدیم روایت اور اس کی روح سے روشناس تھے۔ لوک ادب میں دوہا امیر خسرو ؔاور بوعلی شاہ قلندرؔ سے پہلے بھی مقبول تھا۔ بیکلؔ کی نگاہوں میں کبیرؔ، گرونانکؔ، شیخ فرید الدین گنج شکرؔ، ملک محمد جائسیؔ، تلسیؔ داس، سورداسؔ، رسکھاؔن، ملا داؤدؔ، سہجوؔ بائی، میرا ؔبائی، بہاری ؔاور امیر خسروؔجیسے نامور دوہا نگاروں کی شعری کائنات کا پورا منظر نامہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بیکلؔ کے دوہوں کے رنگ و روپ، زبان و بیان، لہجہ اور فکر و احساس میں دوہے کی قدیم ترین روایت پائی جاتی ہے یہ بھی سچ ہے کہ بیکلؔ نے اپنے دوہوں کو جدیدیت کے آہنگ سے بھی ہم رشتہ کیا۔ ان کی دوہا نگاری میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے عناصر مکمل آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں۔ بیکل ؔ جس طرح اردو گیت میں منفرد مقام پر فائز ہیں اسی طرح دوہا نگاری میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ بیکلؔ نے اردو دوہا نگاری اور ہندی دوہا نگاری سے الگ تھلگ ایک جیتی جاگتی اور جگمگاتی پہچان بنائی ہے۔ بہ قول نظام صدیقی: بیکلؔ کی منفرد نَو دوہا نگاری کا اسلوب اردو دوہا نگاری کی ساخت اکبر میں بہ ذاتِ خود مختلف جمالیاتی اور اقداری ساخت اصغر ہے جونئی دوہا نگاری کے لسانیاتی، اسلوبیاتی اور ساختیاتی مستقبل کا نشانِ امتیاز بھی ہے ۔ ‘‘ بیکلؔ کے دوہا پورم سے چند دوہے خاطر نشین کیجیے ؎
دوجا ہوتا ہی نہیں جب تم ہوتے پاس
رتبہ ہجر کو دے گیا مومنؔ کا احساس
—-
گوری پنگھٹ سے چلی بھرے گگریا نیر
غزل بھجن سب تیاگ دیں غالبؔ اور کبیرؔ
—-
ندیاں بہیں ہواؤں میں، ساگر تھوکے دھول
اُپجیں شعلے برف سے، اُگے راکھ سے پھول
—-
شبنم سے آتش ملے، ملے سنگ سے خون
دھوپ کھلائے چاند کو، اندھے کا قانون
نئے عہد کے سب رنگ فن کار بیکلؔ اتساہی کی شعری کائنات کافی وسعت اور ہمہ گیریت کی حامل ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں ان کے شعری و فنی در و بست کو کماحقہٗ اجاگر کرنا ناممکن ہے۔ بیکلؔ کی شاعری کا ایک اجمالی تعارف قارئین کی نگاہوں میں آ جائے اور بیکلؔ کی جانب سے مشاہدؔ نوازی کے لیے ہدیۂ عقیدت کے طور پر بہ عجلت یہ چند سطریں بیکلؔ اتساہی کی نذر کرتے ہوئے اُن کے درج ذیل اشعار پر قلم روکتا ہوں ؎
سنا ہے مومنؔ و غالبؔ نہ میرؔ جیسا تھا
ہمارے گاؤں کا شاعر نظیرؔ جیسا تھا
بساطِ شہرِ سخن دسترس میں تھی اُس کے
وہ بادشاہ، مگر مجھ فقیر جیسا تھا
٭٭٭