صورتِ اشکِ تپاں ہوتی ہوئی
نعت آنکھوں سے رواں ہوتی ہوئی
کیا مدینے کے گلی کوچوں میں
عقل پھرتی ہے گماں ہوتی ہوئی
چھاؤں اُس پیڑ کی، سبحان اللہ
ہے یہاں تک بھی، وہاں ہوتی ہوئی
کفر کی روشنی ساری یک دم
سامنے ان کے دھواں ہوتی ہوئی
سُن کے اُس روحِ لطافت کا بیاں
حالتِ جسم بھی جاں ہوتی ہوئی
کیا سفر ہے کہ ہر اُس کی ساعت
کسی منزل کا نشاں ہوتی ہوئی
شیوۂ جوشِ ثنا سے یکسر
بے زبانی بھی زباں ہوتی ہوئی
اک ندامت جو نہاں ہے دل میں
اور چہرے سے عیاں ہوتی ہوئی
آرزو اُن کے بلاوے کی، ظفرؔ
اِس بڑھاپے میں جواں ہوتی ہوئی
٭٭٭
اسلام علیکم اعجاز عبید صاحب
اپ سے اردو فورم کی وساطت سے سرسری سی تعارف ہے.
اپ کا ویب پرجه جناب ستیہ پال انند صاحب کی توسط سے پڑه رها ہوں واقعی اچهے مضامیں اور شعری اصناف شامل ہیں .
ایک بات جو بتانا چاهتا ہوں شائید ضروری بجی نہیں مگر کچه نه کچه تو مکتوب میں لکهنا بهی تو ہے .
اس دفعہ اپکے پرچے میں ایک افسانہ الٹی شلوار چهپا ہے جو کہ اسے میں نے سال بهر پہلے فیس بک پر پڑها تها .افسانہ بہت ہی اچها ہے اس کے چهپنے پر مجهے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن میں یہ سمجه رہا ہوں کہ اگر غیر مطبوعہ مواد اس میں
شامل کیا جائے تو پرچے کی ایک شان میں اضافہ بڑهتا جائے گا
یہ میرا ایک حقیر سا مشوره ہے کوئی ضروری تاکید نہیں.
اپنا ایمیل ایڈریس اپکے ویب پر ثبت کیا ہے امید ہے مجهے نیا پرچہ میرے ایمیل پر بیجها جائیگا.
خیر اندیش
فیروز افریدی
پشاور