شخصیت — شاد عارفی ۔۔۔ ڈاکٹر مظفر حنفی

شخصیت شاد عارفی

مظفر حنفی

 

’’ میں انتہا پسند واقع ہوا ہوں ‘‘۔
اپنی نظموں کے مجموعہ ’’ اندھیر نگری‘‘ میں شاد عارفی کا مندرجہ بالا اعتراف اُن کی شخصیت کے تجزیے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ کلام کے آئینہ خانے میں تو شادؔ کے ہاں ذات کو کائنات میں پھیلا دینے والی روش اختیار کی گئی ہے اور شاعری میں وہ آپ بیتی کوایسے انداز میں کہہ گزرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں کہ وہ جگ بیتی نظر آنے لگے۔ بقول سردار جعفری:
’’ وہ شخصیت جو اُن کی شاعری کے پردے سے اُبھرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ایک حساس انسان کے درد مند دل کی ساری دھڑکنیں موجود ہیں ۔ بعض شاعروں کی شخصیت کے لیے اُن کی شاعری ایک طرح کا حجاب بن جاتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ شادؔ کی شاعری اُن کی دلنواز شخصیت کو بے نقاب کر دیتی ہے۔
لیکن شادؔ عارفی کی شخصیت کا مطالعہ اُن کی نثری تخلیقات، تنقیدی مضامین اور خطوط کی روشنی میں کیا جائے تو۔۔۔۔۔ ’’ وہ تنگ نظر، احساس کمتری کا شکار اور چڑچڑے بھی نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی ان میں انتہائی سخاوت، ذہنی اور قلبی فراخدلی اور فیاضی، جرأت مندی،اخلاص، اعلیٰ ذہانت و جودت طبع جیسی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں ، وہ واقعی ایک زندہ اور حرارت سے بھر پور شخصیت کے مالک تھے۔ ‘‘
ان کے استاد شفقؔ رام پوری کا قول ہے کہ وہ ’’ فطرت سے شاعر پیدا ہوئے تھے۔ مزاج میں شوخی، قدرتی تھی۔ اس طرح اُن کی شخصیت خوش رنگ عنبر بیز پھولوں کا ایک ایسا گلدستہ ہے، جس میں خشک ڈالیاں ، زرد پتّے اور نکیلے کانٹے بھی شامل ہیں ۔ وہ مجموعۂ اضداد تھے۔ اپنی شخصیت کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا اُنھیں خود بھی احساس تھا چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’ میری سوانح حیات کا احاطہ ٹیڑھی کھیر ہے اس لیے کہ اس میں جلیبی کے سے پھیر اور اُونٹ کے سے ’کیف خلقت‘ کے اتنے موڑ،اتنی اُلجھنیں اور ایسے ایسے نشیب و فراز ہیں کہ سفینہ چاہیے اُس کے لیے۔‘‘
ایک اور مقام پر اِسی بات کو دوسرے انداز میں کہا ہے:
’’ وصی صاحب ! میری زندگی نَو بہ نَو اور رنگ برنگ روپ کی حامل ہے؟ یہاں اتنا بتاتا چلوں کہ میری فطرت انتہا پسندرہی ہے۔‘‘
در اصل شادؔ عارفی کی شخصیت کا یہ پودا ایک ایسی سرزمین میں کچھ اس قسم کی آب و ہوا پا کر پروان چڑھا تھا کہ اس میں حسین، خوشبودار اور رنگ برنگے پھولوں کے ساتھ نیش عقرب کی سی جلن رکھنے والے کانٹوں کی موجودگی فطری اور لازمی تھی۔ رام پورویسے ہی متشرع لوگوں کی بستی ہے،شادؔ صاحب کے والد مدرسۃ العالیہ کے فارغ التحصیل مولوی تھے اور اس مولویت کو اُن کی تھانیداری نے کٹّر پن میں تبدیل کر دیا تھا، ماں ایک عالمِ وقت کی بیٹی تھیں ،چنانچہ اس گھر کی فضا، جہاں شادؔ عارفی نے آنکھیں کھولیں ، مذہبیت اور قدامت پرستی سے مملو تھی۔ باپ اور نانا اُنھیں مولوی بنانا چاہتے تھے جو شادؔ عارفی نہ بن سکے لیکن گھریلو ماحول کے زیرِ اثر مذہب اور کسی حد تک قدامت نے بچپن میں ہی اُن کے دل و دماغ میں اس طرح گھر کر لیا تھا کہ عمر بھر پوری طرح اس سے دست کش نہ ہو سکے۔ اس بات کے شواہد اُن کی نثری و شعری کاوشوں میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں ۔ مثلاً___’’ میں رام پور کے بیشتر جاہل پٹھانوں کی طرح کٹّر حنفی ہوں ۔‘‘ اور :
’’ فخر ہے مجھ کو کہ جاہل ہے مری ’گھر والی‘
ایسی جاہل ہے کہ پابندِ نماز و روزہ
شرع کی حد میں کھلا رکھتی ہے ماتھا موزہ
ملکہ گھر کی، پہ مجبور سبق آموزہ
ذہن آزادیِ بے باک سے قطعاً خالی‘‘
کمیونزم کے متعلق شادؔ عارفی کے خیالات کچھ اس قسم کے ہیں :
’’ مولانا! اس سے کم لفظوں میں کمیونزم کی تعریف کسی کے بس کی نہیں کہ کمیونزم کے اندر اسلامی بہترین تصورات لے کر اُس میں کچھ خباثتیں شامل کر لی ہیں ، مثلاً عبادت، ریاضت اور باطنی پاکیزگی کوئی چیز نہیں ۔
عروج زیدی لکھتے ہیں :
’’ میں نے ایک مرتبہ اُن کے گلے میں لٹکنے والے تعویذوں کے بارے میں استفسار کیا تو فرمایا کہ کسی آئندہ موقع پر اس بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا،سرِ دست یہ مقطع سن لیجیے:
میں فدائے پنجتن ہوں شادؔ، لیکن میرے دوست
اس عقیدے پر اڑے ہیں ،پانچویں کالم میں ہوں ‘‘
لیکن شادؔ عارفی کی اس مذہبیت میں کٹّر پن کے ہمراہ آزاد خیالی بھی شامل تھی۔ رسوماتِ ظاہری کی بہ نسبت مذہب کی روح سے اُن کا تعلق بہت پختہ تھا جس کے ساتھ وسیع المشربی بھی فطرت میں داخل ہو گئی تھی اور تنگ نظری و تعصب کی گرد پاس نہ پھٹکنے پاتی تھی۔ طاہرہ اخترؔ کہتی ہیں :
’’ لڈّن ماموں کٹّر سنّی تھے،اللہ رسول کے دل سے قائل تھے مگر مذہب کی ظاہری پابندیوں سے آزاد تھے۔ انھیں مسجد میں بہت ہی کم دیکھا گیا مگر درود و وظائف کے قائل تھے،میّت والے گھر کا کھانا کبھی نہیں کھاتے یہاں تک کہ سعید اللہ ماموں (لڈّن ماموں کے حقیقی بھائی) کا انتقال ہوا تو آپ دو تین دن تک گھر سے غائب رہے۔ لوگ ان کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا رہے۔ کچھ لوگ انھیں کمیونسٹ بھی سمجھتے تھے۔۔۔۔۔ اُن کے شاگردوں میں ہندو،مسلمان، سکھ سبھی شامل تھے۔ رام پور میں اُن کے کئی سکھ شاگرد ہو گئے تو اُنھوں نے لڈّن ماموں کو گرو گوبند سنگھ کے جلوس میں مدعو کیا۔ رامپور میں گرو گوبندسنگھ کا جلوس بہت شان سے نکلتا ہے۔ لڈّن ماموں اس میں برابر شریک ہوتے تھے۔ اُن کے شاگرد اُنھیں ایک سجے ہوئے ٹرک کے بالائی حصے میں بٹھاتے تھے، اُن کے گلے میں ہار بھی ڈالتے۔ اس شرکت پر بہت سے لوگوں کو اعتراض تھا اور کچھ مَن چلے لوگوں نے لڈّن ماموں پر چوٹیں بھی کیں لیکن وہ برابر اس قسم کے جلوس اور جلسوں میں شریک ہوتے رہے۔
اُن کے مزاج کی یہ دلچسپ پہلو دار مذہبیت جگہ جگہ اُن کے ہاں جھلکتی ہے۔ آج عام طور پر اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ ترقی پسندنقادوں نے شادؔ عارفی کو اُن کی زندگی میں وہ اہمیت نہیں دی، جس کے وہ مستحق تھے۔ اس حق تلفی کے اسباب بھی ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ میرے خیال میں شادؔ عارفی کی مذہبیت ہے۔ آزادی سے قبل وہ رامپور جیسی کٹّر ریاست میں ، جہاں محمد علی جوہرؔ جیسے لیڈر کا اپنے وطن میں داخلہ ممنوع تھا، انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بنیاد ڈالنے میں پیش پیش تھے لیکن خود انھیں کا بیان ہے:
’’ رامپور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام تاباں صاحب کی معرفت میری نگرانی میں ہوا مگر آگے چل کر بات خدا اور مذہب کے ساتھ گستاخی تک پہنچی تومیں اور میرا منجھا ہوا شاگرد ہادی مصطفی آبادی اس سے الگ ہو گئے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی مجھ سے بنیادی اختلاف رکھتی ہے اور میرے بارے میں نقد و نظر کے تحت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
یہ ایک ایسا سچ ہے جس کا اعتراف اب اہم ترین ترقی پسندنقادوں اور فنکاروں کو بھی ہے مثلاً سردار جعفری کہتے ہیں :
’’ شادؔ اپنی زندگی میں جس توجّہ کے مستحق تھے وہ انھیں نہ مل سکی۔‘‘
سجاّد ظہیر فرماتے ہیں :
’’ یقیناً شاد عارفی موجودہ دَور کے اہم ترین ادیبوں سے تھے،میں نے شادؔ صاحب کے مجموعے میں سے نثری حصہ پڑھ ڈالا اور بہت لطف آیا۔ معلوم نہیں وہ کون ترقی پسند تھے جو خواہ مخواہ اُن سے اُلجھ پڑے۔ میں اس مناقشے سے واقف نہیں تھا۔ بہر حال استادوں کو چھیڑ دینا عام طور پر مفید ہی ہوتا ہے ورنہ بھلا اتنی بہت سی معلومات (بہت سی چڑچڑے پن کی باتوں کے ساتھ) کون فراہم کر سکتا تھا؟ ‘‘
اور فیض احمد فیضؔ تسلیم کرتے ہیں :
’’ میں شادؔ عارفی کے کلام کا دل سے معترف ہوں اور ان سے رنجش کا کبھی کوئی قصہ نہیں ہوا۔
ظاہر ہے اُن کی زندگی میں شادؔ عارفی کو نظر انداز کرنے کی وجہ وہی مذہبیت ہے جس کا احساس خود شادؔ کو بھی تھا یہی مذہبیت شادؔ عارفی کے اس دوسرے عشق میں ناکامی کا سبب بھی بنی جو انھیں ایک دوسرے مذہب کی لڑکی سے ہوا تھا اور جس میں ناکامی کا احساس اُنھیں دیمک کی طرح تمام عمر چاٹتا رہا۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں :
’’ لڑکی میرے ساتھ بھاگنے تک پر آمادہ تھی لیکن میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ در اصل اپنی شرافت سے زیادہ ایک مسلمان کے کردا پر دھبّہ آتا تھا۔
شادؔ کی یہ مذہبیت، خشک اور تنگ نظر کٹھ ملائیت سے قطعی مختلف چیز تھی۔
باپ کی طرف سے شادؔ عارفی کا سلسلۂ نسب یاغستان کے ڈوڈال، پنج میرال اور رزّڑ قبائل سے ملتا ہے اور ماں خالص رزّڑ پٹھان کی نواسی تھیں ۔ عمر کے ابتدائی اٹھارہ سال تک شادؔ عارفی نے گھر کا جو نقشہ دیکھا تھا، اُس میں نانا لوہارو کے والی ریاست کے بچوں کے اتالیق تھے اور باپ تھانیدار۔ ماں کے نانا ریاست کے مشہور سردار تھے اور شادؔ کے ماموں شہر رام پور کے کوتوال۔ فطری طور پر انھوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں ابتدا ہی سے خوش آئند خواب دیکھے ہوں گے اور معاشرے میں اپنے لیے نمایاں جگہ کی توقع کی ہو گی لیکن ہوا یہ کہ نو عمری میں ہی اُن پر ایک ایسے خاندان کا بوجھ آ پڑا جو اُن کی ضعیف ماں اور بڑے بھائی کے بے سہارا بچوں پر مشتمل تھا۔ اب تک شادؔ عارفی کی شخصیت کا نفسیاتی ارتقا جن راستوں پر ہوا تھا حالات اس کے قطعاً برخلاف پیش آئے۔ اپنی اور اپنے لواحقین کی ضروریات کے تحت تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے انھیں ٹیوشن کرنے پڑے اور مقامی کارخانوں کی ’وے مینی‘ اور کلرکی جیسی چھوٹی چھوٹی ملازمتوں سے واسطہ پڑا۔ عام زندگی میں اُن کے افلاس کی پیدا کردہ یکرنگی اُن کے مزاج میں صد رنگی کی موجب بن گئی __ ’’ حساس اس درجہ تھے کہ گفتگو کے لہجے سے قائل کے ما فی الضمیر کو سمجھ لیتے، مصلحت کی خاطر تصنع اور زمانہ سازی سے کام لینا اُنھیں بالکل نہ آتا تھا۔ ‘‘مخالفین کی ریشہ دوانیوں اور اپنی افتادِ طبع کے باعث وہ کوئی بھی ملازمت جم کر نہ کر سکے۔ افسرانِ بالا کی کمزوریوں پر نکتہ چینی کرنا اُن کی عادت میں داخل تھا۔ بیشتر جگہوں پر افسروں کی وہ گرفت جو عام اہلکاروں کے لیے روز مرّہ کی چیز ہوتی ہے، شاد عارفی کے لیے باعثِ توہین ہو جاتی اور وہ ملازمت کو ٹھکرا دیتے۔ چالیس سال کی عمر میں شادی ہوئی تو بیوی جلد ہی تپِ دق کی شکار ہو کر راہی ملکِ عدم ہو گئیں ۔ افلاس و پریشانی کے ان حالات میں معاشرے میں اپنی حیثیت انھیں بہت حقیر محسوس ہوئی اور شادؔ عارفی نے اپنے احساسِ کمتری کواحساسِ برتری میں بتدیل کرنے کے لیے اپنی اعلیٰ نسبی کی آڑ پکڑ لی جو ایک ایسی چیز تھی جسے کوئی بھی انقلاب تبدیل نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اپنے خطوط اور مضامین میں جگہ جگہ وہ نجیب الطرفین افغانی النسل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں :
’’ میں خالص افغانی ہوں ۔ آج بھی دو ہار ساری کی ساری سات چچاؤں کے ساتھ افغانستان میں ہے۔ ننہار بھی خالص افغانی ہے۔‘‘
’’ ہم لوگ خالص افغانی ہیں ، والد و والدہ نانا، نانی، سب افغانی۔ آج بھی میرے سات چچا افغانستان میں ہیں ۔ زمین، بندوقیں اور خان کا حق محفوظ ہے۔‘‘
اُن کی انتہا پسندی اس معاملے میں بھی دخیل ہے چنانچہ سوداؔ کی تُنک مزاجی میں انھیں افغانیت کی کارفرمائی نظر آتی ہے:
’’ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ مرزا سوداؔ میں مرزا ہونے کے باوجود کوئی افغانی رگ ضرور تھی جو ہر خلافِ مزاج بات پر پھڑک اٹھتی تھی۔
ادبی دنیا میں شادؔ عارفی کی بڑھتی ہوئی شہرت نے مقامی شاعروں اور ادیبوں میں اُن کے خلاف حسد کا مادّہ پیدا کر دیا، جو اُن کے منہ پر تعریفیں کرتے تھے لیکن غیبت میں نکتہ چینیاں ہوتیں اور اُن کے خلاف ریشہ دوانیاں کی جاتیں ۔ دوست بن کر نقصان پہنچانے والوں نے بھی بڑی تکلیفیں پہنچائیں ۔ چار پانچ روپیہ میں مشاعرے کر کے اُنھیں لوگوں سے ٹکرایا۔ اس سلسلے میں انجمن بازیاں ہوئیں ،گروپ بندیاں کی گئیں ۔
’’شادؔ صاحب کے مانجھے کی کاٹ کوئی برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لیے تمام اُستادانِ سخن نے اُن کے خلاف متحدہ محاذ بنا رکھا تھا۔‘‘
اپنے ساتھ ان زیادتیوں کا شادؔ عارفی کو پورا پورا احساس تھا جس کا اظہار انھوں نے مختلف مقامات پر کیا ہے۔ مثلاً:
’’ میں ریاست سے ٹکرا کر تباہ ہوا، دس سال سے ملازمت سے موقوف ہوں ، پراوڈنٹ فنڈ حکومت نے بلا وجہ ضبط کر لیا،والدہ صاحبہ کی پنشن بند کر دی تھی وہ پانچ سال تک میرے ساتھ فاقے کرتے کرتے مر گئیں ،گھر بیچ کر اُن کا کفن دفن کیا اور گھر گھر مارا مارا پھر رہا ہوں ۔ حد یہ ہے کہ یہ مکان، جس کی چھت چھنی کی طرح ہے، شہر کے اندر چودھواں مکان ہے، دن میں دھوپ، رات کو اوس اور بارش اور گرمی، سب سے پالا پڑتا ہے‘‘۔
اور طرح طرح سے ذلیل کرنے کی کوششیں کی گئیں ، اُس کے پاس اپنی اعلیٰ نسبی کا احساس ہی سر بلندی کے ساتھ زندہ رہنے کا واحد سہارا تھا۔ خود اس احساس کے زیرِ اثر بھی انھیں مشکلات کے دو ایسے ہفت خواں پار کرنے پڑے کہ اُن کی زندگی جہنم کا نمونہ بن گئی۔ اوّل تو یہ کہ اُن کے بڑے بھائی سیّد احمد خاں نے جب اپنی پہلی بیوی کے انتقال پر ایک ساقط النسب عورت سے شادی کر لی تو شادؔ عارفی نے اُن سے قطعِ تعلق کر کے بھائی کے اُن بچوں کو،جو پہلی بیوی کے بطن سے تھے، اپنی کفالت میں لے لیا اور اپنی بے روزگاری کے عالم میں اُن کی تعلیم و تربیت اور شادی وغیرہ کے سلسلے میں عمر کے آخری دور تک پریشان رہے،دوم یہ کہ اُن کا پہلا عشق محض اسی اعلیٰ نسبی کے احساس کی بنا پر ناکام ہوا اور اُن کی محبوبہ، جو نسبی حیثیت سے اُن کے مرتبے سے کچھ کم تھی، دوسری جگہ بیاہ دی گئی۔ عام زندگی میں شادؔ عارفی جتنے دلیر تھے،اُسے دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اگر اُن میں اپنے نجیب الطرفین افغانی ہونے کا بڑھا ہوا غیر ضروری احساس نہ ہوتا تو وہ ماحول سے بغاوت کر کے اپنی اس ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتے تھے۔ دوسرے عشق میں بھی ناکامی کا ایک باعث اُن کا یہ احساس بھی تھا کہ وہ افغانی الاصل مسلمان ہیں ۔ احساسِ ناکامی کے یہ زخم شادؔ کے دل میں عمر بھر ہرے رہے۔
ادھر انھوں نے گرد و پیش میں بکھری ہوئی ناہمواریوں اور سماج کی خامیوں پر طنز کر کے عام لوگوں میں بھی اپنے بے شمار دُشمن پیدا کر لیے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :
’’ آج تک ہمارے شعرا مغرب کے مسموم اثرات کو نشانۂ طنز بناتے آئے تھے تاہم اس طنز کا دائرہ کچھ زیادہ وسیع نہ ہو سکا اور اسی لیے جب دورِ جدید کے شعرا نے زندگی اور سماج کے چھپے ہوئے ناسوروں پر تیز نشتر چلانے کا آغاز کیا تو اُن کے طنز کی چبھن کو بڑی سختی سے محسوس کیا گیا۔ اس ضمن میں شادؔ عارفی۔۔۔۔۔۔۔۔ کی طنزیہ نظمیں قابلِ ذکر ہیں کہ ان میں زندگی اور سماج کی بیشتر مریضانہ کیفیتوں اور پنہاں نا ہمواریوں کو ہدفِ طنز بنایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ شادؔ عارفی کی بیشتر نظمیں سماج کے مرکز ’ گھر‘ کی بعض نا ہمواریوں کو اُجاگر کرتی ہیں ‘‘۔
شادؔ عارفی کی جن خداداد پریشانیوں اور ردِّ عمل کے طور پر خود ساختہ مصیبتوں کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، اُن کے نتیجے میں چڑچڑاپن، بہت جلد سیخ پا ہو جانا، خود ترحّمی، زود حسی،تشکک مزاجی، اور انانیت نے اُن کی فطرت میں گھر کر لیا۔ آئے دن کی بیماریوں نے ان کمزوریوں کو مزید بڑھاوا دیا۔ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لینا، اُس کا بہت گہرا اثر قبول کرنا اور اُتنی ہی شدّت کے ساتھ Reactکرنا ان کے مزاج میں داخل ہو گیا۔ جزوی اختلاف کے وہ قائل نہ تھے کسی سے ذرا سی ناراضگی کا موقع ملتا تو سلام دعا تک ترک کر دیتے تھے۔ منافقوں کے ساتھ ساتھ اپنے مخلصین پر سے بھی ان کا اعتماد اُٹھ چکا تھا۔ اگر ان کے مزاج سے گہری واقفیت نہ ہو تو کسی کا شادؔ عارفی کے ساتھ زیادہ دن تک نباہ لے جاتا مشکل تھا۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے، ان کا اوّلین شعر ہے:
ہو چکا ہے خیر سے ہشیار تُو
اپنے دُشمن پر اُٹھا تلوار تُو
والد بچپن میں تلوار کے ہاتھ سکھایا کرتے تھے، جسمانی طور پر حد درجہ کمزور ہونے کے باعث یہ زود رنج،نجیب الطرفین افغان، سپہ گری کا پیشہ تو نہ اختیار کر سکالیکن عمر بھر تلوار کا کام قلم سے لیتا رہا۔ اُن کی شخصیت اور فن،ایلیٹ کے مشہور ’ غیر شخصی نظریے‘(Impersonal Theory) کو غلط ثابت کرتے ہیں جس کے مطابق فنکار بحیثیت انسان ایک علیحدہ شخصیت رکھتا ہے اور بحیثیت فنکار ایک دوسری شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ شادؔ عارفی کی شخصیت اور فن میں کوئی تضاد نہیں ۔ جہاں بھی اُنھیں اپنی یاکسی دوسرے کی حق تلفی کا احساس ہوتا تھا وہ مخالف کے لیے شمشیر برہنہ بن جاتے تھے۔ معاشرے نے اُن کی حق تلفی کی تو انھوں نے اپنی دھار دار غزلوں اور آتشیں نظموں سے اُس کے ناسور کریدے۔ دوستوں ، عزیزوں اور ہم وطنوں نے اُنھیں تکلیف پہنچائی تو اُن کی بھی نظموں ، غزلوں ، رباعیوں ، قطعوں اور خطوں کے ذریعے خبر لی گئی۔ ’’ زن مرید شوہر‘‘،’’ مہترانی‘‘، ’’ مرے محلے کے دو گھرانے‘‘، ’’ پرانا قلعہ‘‘، ’’ میرے پڑوس میں کچی شراب بکتی ہے‘‘، ’’ ٹکڑ گدے‘‘ وغیرہ اُن کی اسی قسم کی نظمیں ہیں ۔ ان کے خطوط میں بھی قدم قدم پر اس افتادِ طبع کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ جب معاصرین و ناقدین نے انھیں نظر انداز کیا تو وہ مختلف اوقات میں نیازؔ فتح پوری، آل احمد سرورؔ،ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر سیّد عبد اللہ، رشید احمد صدیقی، خواجہ احمد فاروقی، سردار جعفری،اثر لکھنوی، ظ۔ انصاری،مجروح سلطان پوری، وقار عظیم، فراق گورکھ پوری، ماہر القادری، ارشدؔ کاکوروی،سجادؔ ظہیر، حامد حسن قادری،محی الدین قادری زورؔ، مجنوں ؔ گورکھپوری، جگرؔ مراد آبادی، سیّد احتشام حسین، عبادتؔ بریلوی، جوشؔ ملیح آبادی، معین احسن جذبیؔ، اخترؔ انصاری، ابرا حسنی، سلیمان اریب، امتیاز علی عرشی، صہبا لکھنوی، حنیف رامے اور بے شمار دوسرے لوگوں سے معرکہ آرائی کرتے رہے۔ اس طرح کم از کم اپنی زندگی تک انھوں نے ایسی فضا برقرار رکھی کہ نقاد اُن پر لکھتے ہوئے خوف کھاتے تھے۔ ’’ نثر و غزل دستہ‘‘ ( شادؔ عارفی کے مضامین اور جزو کلام مرتبہ راقم الحروف) کے مضامین اس امر کا بیّن ثبوت ہیں ۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں :
’’ عام انسانی تاریخ کی طرح تاریخ ادب میں بھی کچھ شخصیتیں اپنے حق سے زیادہ بلند جگہ پا جاتی ہیں اور کچھ ایسے اندھیرے میں پڑ جاتی ہیں جہاں اُن کے صحیح خد و خال نظر نہیں آتے لیکن غور کیا جائے تو اکثر و بیشتر اس کے ڈھکے چھپے اسباب ہوتے ہیں ۔ بعد کے مورّخ اور ناقد انھیں نظر انداز نہیں کر سکتے، یہی صورت حال شادؔ عارفی کے ساتھ پیش آئی۔ انھوں نے نظمیں اور غزلیں لکھیں ، طنز یہ شاعری کی، مضامین اور خطوط لکھے لیکن انھیں وہ اور ویسی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو اُن سے کم صلاحیت رکھنے والے ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کو حاصل ہوئی۔ اس میں کچھ تو رام پور کی ادبی فضا کا ہاتھ تھا، کچھ اُن کے افتادِ مزاج کا اور کچھ اُس رنگِ سخن کی کساد بازاری کا، جس کے وہ تاجر تھے۔ ‘‘
ایسا بھی نہیں تھا کہ شادؔ اپنے متعلق محض توصیفی مضامین پسند کرتے ہوں اور جائز تنقید کو برداشت نہ کر پاتے ہوں ۔ اُن میں خود تنقید کا مادّہ بھی تھا اور منصفانہ تنقید کو قبول کرنے کی اہلیت بھی۔ بڑے نقادوں کی بات الگ ہے،اپنے شاگردوں کو بھی شادؔ اپنی تخلیقات پر بے لاگ اظہار رائے کی اجازت دیتے تھے۔ مثلاً مسرّت حسین آزادؔ کو لکھتے ہیں :
’’ اپنی سنجیدہ اور بیباک رائے ظاہر کرنے میں قطعاً تکلف نہ کرو،جہاں بھی میرے ہاں ادبی، فنّی اور غیر ذمے دارانہ بیان دستیاب ہو اس پر جی کھول کر تبصرہ اور نقد ضروری ہے۔ ‘‘
لیکن اُن کو چلتی پھرتی رایوں اور تعلقات کے تحت لکھے ہوئے تبصروں سے چڑ تھی اور مستثنیات کو چھوڑ کر ہمارے ہاں بیشتر یہی طریق نقد رائج ہے۔ اس طرح نقادوں کی بے اعتنائی شادؔ عارفی کے لیے بے حد مضرت رساں ثابت ہوئی اور وہ اس نفسیاتی تسکین سے بھی محروم ہو گئے جو کم از کم اپنی ادبی اہمیت کے چرچے سُن کر فنکار کو میسّر آتی ہے۔
یعنی چھوٹے اور بڑے کی کوئی قید نہ تھی، شاد کو کسی کی کوئی بات ناگوار لگنے کی شرط تھی پھر انھیں قلم سنبھالتے دیر نہ لگتی۔
حکیم عمّی میاں نے شادؔ عارفی کو عشق کی ناکامیوں سے پیدا شدہ مجنونانہ کیفیت اور اختلاج قلب کا علاج یہ بتایا تھا کہ پتنگیں اُڑایا کرو اور کبوتر بازی سے شوق کرو، شادؔ نے دل کھول کر پتنگیں اُڑائیں اور کبوتر بازی کی، اس طرح اُنھیں آسمان پر نگاہیں جمانے کی ایسی عادت پڑی کہ پھر نیچے نہیں دیکھا۔ عین ممکن ہے کہ اس انتہا پسندی کے سر چشمے انھیں مشاغل سے پھوٹے ہوں جن میں انسان آسمان کو چھو لینے کی کوشش کرتا ہے۔
جو رسالے اُن کے پاس آتے تھے اُن پر متعدد جگہ اپنا نام مختلف طریقوں سے لکھنے کا اُنھیں خبط سا تھا، غالباً اس طرح وہ اپنی جانب سے ناقدین ادب کی بے التفاتی کا کفارہ ادا کرتے تھے، بہر حال انھوں نے خود اپنے نام کو اتنی بار اور اتنے مختلف انداز سے لکھا کہ اپنی انفرادیت قائم کر گئے۔ ایک ہی تخلیق کو مختلف اوقات میں مختلف رسائل میں کئی کئی بار شائع کرانے کا اُن کا شوق بھی اس خیال کی تائید کرتا ہے۔ اسی احساس کے زیرِ اثر رسالوں میں اپنی تخلیقات کی نمایاں مقامات پر اشاعت سے بہت خوش ہوتے تھے۔ ’’ مدیر رومان‘‘ کراچی کو لکھتے ہیں :
’’کل ’ رومان‘ ملا۔ اپنی غزل دیکھی اور اس طرح د یکھی __ فقیر کے قدم ہوں جیسے تاجِ بادشاہ پر__ اس قدر دانی سے خوش ہو کر یہ نئی غزل کسی بھی آنے والے شمارے کے لیے حاضر ہے۔
اسی طرح غیر نمایاں مقام پر اپنی تخلیق کی اشاعت انھیں بہت ناگوار گزرتی تھی۔ نامناسب مقام پر اپنی غزل کی اشاعت سے برافروختہ ہو کر حنیف رامے کے خط میں رقم طراز ہیں :
’’ اگر ’’ نصرت‘‘ میں غزلوں کی اتنی ہی کثرت ہے کہ ان کا ’ ہزار گلہ‘ کھینچا جائے تو میں اپنی معذوری میں ہی اپنی عاقبت سمجھتا ہوں ۔‘‘
’’ ایک تھا شاعر‘‘ میں شاد عارفی کی ایک غزل ’ عکسِ تحریر‘ کے طور پر شامل ہے جس میں اُن کے قلم سے مدیر کے لیے ہدایت درج ہے کہ غزل پورے صفحے پر شائع کی جائے اسی نمایاں نظر آنے کے احساس کے تحت اکثر مقامات پر ’ توتا‘ اور ’ حضرۃ‘ جیسے الفاظ لکھ کر فٹ نوٹ لگاتے تھے کہ اُن کا لکھا ہوا املا ہی صحیح ہے۔
اپنے احساس کمتری کا اُنھیں بخوبی علم تھا اور اس پر غالب آنے کے لیے وہ شعوری طور پر کوشاں بھی رہتے تھے، مثلاً ایک جگہ لکھا ہے:
’’ میں چھریرے جسم کا لڑکا رہا،اس لیے فٹ بال میں دو مرتبہ تنو مند فارورڈوں سے ٹکر ہوئی اور دونوں مرتبہ دونوں گرے مگر مخالف کپڑے جھاڑ کر خود اُٹھ کھڑا ہوا اور مجھے دوسروں نے اُٹھایا۔ اس احساس کمتری نے فٹ بال سے نفرت پیدا کر دی شاعری کی تو اس میں صدر نشینی کی خواہش ہنوز چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔
شادؔ عارفی کا غائر مطالعہ اُن کی ایک اور نفسیاتی کمزوری ہم پر واضح کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اُن کے دونوں عشق دنیاوی اعتبار سے ناکام رہے۔ یعنی ہر چند کہ اُن کی محبوباؤں نے محبت کا جواب محبت سے دیا لیکن شادؔ اُن میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی نہ کر سکے اور اپنے مذہبی رجحان نیز اعلیٰ نسبی کے احساس کی وجہ سے اُن کی جنسی تسکین کا سامان بھی نہ ہو سکا بعد ازاں غالباً ان عشقوں میں ناکامی کے ردِّ عمل کے طور پر خاصی تاخیر کے ساتھ بھی چالیس سال کی عمر میں انھوں نے شادی بھی کی تو اہلیہ ڈیڑھ سال سے زیادہ ساتھ نہ دے سکیں اس طرح انھوں نے تقریباً تمام عمر تجرّد میں گزار دی۔ ایسا لگتا ہے کہ جنسی آسودگی حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے عشقوں کا ذکر چٹخارے لے کر کرتے ہیں اور معاشرے میں جنسی خامیاں بطور خاص تلاش کر کے اُن کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور اُن پر کھل کر طنز کرتے ہیں ۔ اس طرح شخصیت کی یہ اُلجھن اُن کے فن میں صحت مندانہ طور پر داخل ہو گئی۔
مزاج میں کسی حد تک وہم کو بھی دخل تھا۔ ایک بار انجکشن لگوانے سے محض اس وہم کی بنا بر انکار کر دیا کہ اس طرح وہ مر جائیں گے۔ تعویذ پہنتے تھے۔ ’’ کہتے تھے کہ اکبر نام کے کسی شخص کو کبھی پریشان حال نہیں دیکھا، اس نام میں برکت ہے۔۔۔۔۔ میّت والے گھر کا کھانا کبھی نہیں کھاتے تھے۔ ‘‘
ایسی ہی کچھ نفسیاتی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ جو شادؔ عارفی کو اُن کے ماحول اور معاشرے کی دین تھیں ، فطرتاً وہ انتہائی غیور، خوددار، کشادہ قلب،منصف مزاج، اقربا پرور، انسان دوست، سادہ لوح، خلیق،ملنسار، صاف گو،جری اور خوش دل انسان تھے۔ بہت جلد اثر قبول کرنا اور فوراً من جانا اُن کی سادہ لوحی کی دلیلیں ہیں اور اس کا اعتراف اُن کے کٹّر سے کٹّر مخالف نے بھی کیا ہے۔ مولانا ابراؔ حسنی، جواُن کے دیرینہ مخالف تھے،لکھتے ہیں :
’’ وہ منکسرمزاج بھی انتہائی تھے۔ جب موڈ درست ہو تا تو اپنے بڑے سے بڑے مخالف سے بھی اس طرح ملتے جیسے کبھی کوئی بات ہی نہیں ہوئی اور اُس کی راہ میں آنکھیں بچھا دیتے، ہر ہر حرکت سے خلوص، فدائیت اور یگانگی کا نمایاں مظاہرہ ہوتا جس میں تصنع، بناوٹ یا نمائش کا شائبہ بھی نہ ہوتا۔‘‘
اس ضمن میں اُن کے ہمعصر مقامی اُستاد شاعر،محشر عنائتی،ایک واقعہ بیان کرتے ہیں :
’’ ایک مشاعرہ ہونے والا تھا۔ صاحبِ مشاعرہ سے میرے کافی تعلقات تھے اور کچھ رشتہ بھی ہوتا تھا۔ وہ پانوں کا خاصدان اور سگریٹ کا ڈبّہ پہلے میرے سامنے لائے زاں بعد شادؔ صاحب کے پاس لے کر گئے اس پر شادؔ صاحب بھڑک اُٹھے، سبب پوچھا تو فرمایا،مجھے ذلیل کیا گیا۔ میں قریب پہنچ کر اُن کا ہاتھ تھام لیا اور کہا کہ آپ کے چلے جانے سے ان کا مشاعرہ صفر ہو جائے گا، یہ غلطی ان سے بر بنائے رشتہ داری ہو گئی___ شادؔ صاحب راضی ہو گئے اب وہ وہی میرے ۳۰ء تا ۳۶ء والے دوست تھے۔ ‘‘
کشادہ قلبی کا یہ عالم تھا کہ ___ ’’دورانِ ملازمت میں شرکتِ مشاعرہ کے لیے نذرانہ تو کجا زادِ سفر بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ ‘‘
بھائی کے بچوں کی پرورش اور ماں کی خدمت میں تمام عمر گزار دی۔ نرم دل اتنے کہ دوسروں کی ذرا سی تکلیف کا حال سُن کر اپنے پہاڑ جیسے غم بھول جاتے اور اُس کی دل دہی کرنے لگتے۔ ایک بار راقم الحروف نے انھیں اپنے حالاتِ زندگی لکھ بھیجے تو جواب ملا:
’’ تمھارا مفصل لفافہ پڑھ کر میرا دل بھر آیا اور میں اپنی مصیبتیں بھول گیا، ان حالات میں میں تم سے اپنا رونا نہیں رو سکتا۔‘‘
مروت اُن کی فطرت میں داخل تھی۔ انتہائی زود رنج ہونے کے باوجود بے مروّت صرف اسی وقت تک رہتے جب تک کہ مخالف سے اُن کی آنکھیں چار نہ ہوں جہاں رو در رو بات ہوئی، اُن کی با مروّتی دلوں کے غبار کو دھو ڈالتی تھی۔
وہ اپنا احتساب کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے تھے، ایسے ہی ایک موقع پر لکھتے ہیں :
’’ احباب کا خیال ہے کہ مکان کی مرمّت کے لیے آپ کو یہ نذرانہ قبول کر لینا چاہیے حالانکہ میرا دل نہیں چاہتا مگر ’ نفسِ راحت خور‘ مجھے اکسا رہا ہے۔ ‘‘
غیرت اور خود داری کے معاملے میں تو شادؔ عارفی اپنی مثال آپ تھے۔ مرتے مر گئے لیکن فاقہ کشی کے عالم میں بھی کسی کا زیر بار احسان ہونا گوارا نہ کیا،مجروحؔ سلطان پوری نے مکان کی مرمت کے لیے رقم پیش کی تو اُسے رد کر دیا، پروفیسر آل احمد سرور، کچھ مخلص احباب اور بعض شاگرد چاہتے تھے کہ حکومت سے اُن کے لیے وثیقے کی درخواست کی جائے۔ لیکن شادؔ کی غیرت نے اسے بھی گوارا نہیں کیا۔ اپنی بے سرو سامانی کا نقشہ سامنے تھا لہٰذا اس خیال سے کہ کہیں اُن کی تجہیز و تکفین دوسروں کی اعانت سے نہ ہو، انتقال سے بہت پہلے ہی سلطان اشرف کے پاس اپنی نظموں اور غزلوں کے معاوضے کی رقم جمع کر دی جو بعد ازاں اُن کے کفن دفن میں صرف ہوئی۔ عمر کے آخری دس بارہ سال، جب اُن کا کوئی بھی ذریعۂ معاش نہ رہا تھا اور وہ مسلسل بیمار رہتے تھے،ایسے گزرے کہ فرشتہ بھی ڈگمگا جاتا، لیکن اس حال میں بھی شادؔ عارفی نے اپنی آن پر دھبّہ نہ آنے دیا۔ شاگردوں سے حقِ اصلاح کے طور پر اور رسائل و جرائد سے تخلیقات کے معاوضے کی شکل میں جو تھوڑی سی رقم مل جاتی (ظاہر ہے اُردو کے رسائل کتنا معاوضہ دے سکتے ہیں ) شادؔ عارفی نے اُسی میں اپنے لواحقین کے ساتھ گزر بسر کی۔ بالکل آخری وقت میں ، جب اُن کے حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو گئے تو ’ بزم ارباب ادب‘ رام پور نے جو ’ فروغِ اُردو لائبریری‘ بھی چلا رہی تھی، اُن کے پاس اعزازی طور پر آنے والے رسائل و کتب کو نصف قیمت پر خریدنے کی بات طے کر لی مکاتیب شاد بنام عہدیداران ’ بزم اربابِ ادب‘ ( مشمولہ ’’ ایک تھا شاعر ‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ) میں جا بجا انھیں رقومات کا ذکر ہے۔ سلطان اشرف بھی، جن کے نام خطوط میں شادؔ عارفی نے اکثر فرمائشیں اور تقاضے کیے ہیں ، ’’بزم اربابِ ادب کے عہدیداروں میں سے ایک تھے۔ فضاؔ کوثری کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا بھی ہے:
’’پاکستانی رسائل فروغِ اُردو لائبریری میں فائل ہو جاتے ہیں ۔ تمھیں کس طرح بھیجے جائیں ،فائل خراب ہو جائیں گے۔ میں اپنے سب رسالے لائبریری کو دے دیتا ہوں ، وہ مجھے اس کے عوض بہت کجھ فراہم کرتے ہیں ۔‘‘
عام طور پر دنیائے ادب میں شادؔ عارفیؔ کو یگانہ جیسا خشک مزاج اور خود پرست شاعر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقتاً وہ ایک شگفتہ مزاج، سادہ لوح اور انسان دوست آدمی تھے۔ خلیل الرحمن اعظمی کے الفاظ میں :
’’ وہ ایک انوکھی اور نرالی شخصیت کے مالک تھے اور اُن کے اندر بعض ایسی ادائیں تھیں ، جو اُنھیں سے مخصوص تھیں ۔۔۔۔۔۔ مرحوم طبعاً بت معصوم اور بھولے بھالے تھے، اُن کا روٹھنا اور بہت جلد مَن جانا بالکل بچوں کا سا ہوتا تھا۔ عزیزوں اور دوستوں سے بے حد محبت کرتے تھے اور اُن کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ خلوت پسند اور بندبندسے آدمی بھی نہیں تھے اور نہ اپنے بارے میں زیادہ باتیں کرتے تھے۔ میں نے انھیں اپنی شاعری کے بارے میں عام لوگوں سے گفتگو کرتے کبھی نہیں دیکھا اور نہ وہ اپنا دکھڑا ہر ایک سے رونا پسند کرتے تھے۔ جس زمانے میں وہ فاقہ مستی کی زندگی گزار رہے تھے اور اُن کو پے بہ پے کئی صدموں سے دوچار ہونا پڑا تھا، اُس وقت بھی میں نے اُنھیں شگفتہ پایا۔ اُن کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتیں ۔ ان کو ایسے ایسے واقعات، لطیفے، ادبی چٹکلے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ایسی تجربے کی باتیں معلوم تھیں اور ان کو اس مزے سے سناتے تھے کہ ان کے پاس بیٹھنے والے کبھی ان سے بور نہیں ہوتے تھے۔ شادؔ صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی اور میں اُن کا اتنا گرویدہ ہو گیا تھا کہ اُن سے بار بار ملنے کو جی چاہتا۔‘‘
وہ بچوں کے ساتھ بچّے اور جوانوں کے ساتھ جوان تھے۔ محلے کے تمام بچّے انھیں پاپا کہتے تھے اور اُن سے بے حد مانوس تھے۔ جوانوں میں اکبر علی خاں شادؔ عارفی سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر یوں کرتے ہیں :
’’ ایک دن دل پکّا کر کے پہنچ گیا اور ان سے شاگردی کی درخواست کی۔ چھوٹتے ہی پوچھنے لگے کہ، ’عشق وشق کیا ہے؟‘‘ یہ کسے توقع تھی کہ ایسا بے تکلف سوال کریں گے،میں نے کہا،نہیں ، تو بولے،پھر شاعری تمھارے بس کی نہیں ۔ انھوں نے وہ قصّے چھیڑ دیے جب آتشؔ جوان تھا۔ اور پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو بڑے ہی دلچسپ آدمی ہیں ‘‘۔
موقع ملنے پر اپنے معاشقوں کی روداد بڑے اشتیاق اور پوری تفصیل کے ساتھ سناتے تھے۔ اُن سے ملاقات کے بعد عابد رضا بیدارؔ لکھتے ہیں :
’’ صاف گوئی اور تلخ گوئی کی صفات سے متصف ہونے کے باوجود بڑے خوش طبع، ہنس مُکھ، بذلہ سنج اور ظریف تھے، بات بات پر قہقہہ لگا کر ہنسنے والے۔ آپ جاتے تو آپ کے ساتھ گھنٹوں دلچسپ باتیں کر سکتے چاہے آپ کی اُن سے پہلی ہی ملاقات ہو، بس دو چار منٹ رسمی ملاقات ہوتی،اس کے بعد وہ آپ کے مدتوں کے ساتھی بن چکے ہوتے۔ بالکل ساتھی، بڑوں میں بڑے اور چھوٹوں میں چھوٹے۔ رام پور میں ترقی پسندادب کا ملجا اور ماوا۔ باہر سے نئے ادیب اور شاعر آتے تو اس تبرّک کی زیارت کے بغیر اُن کا سفر ادھورا رہ جاتا تھا۔ دوسرے کو یہ محسوس نہ ہونے دیتے کہ اُس سے کسی بھی طرح بور ہوئے ہیں اور جب تک ملاقاتی خود ہی جانے کے لیے آمادگی ظاہر نہ کرتا، کسی قسم کی کسلمندی بیماری میں بھی ظاہر نہ کرتے۔ ‘‘
جان و مال کا خوف کیے بغیر سچ بات کہہ گزرنے کی جرأت جیسی شادؔ عارفی میں تھی اُس کی مثال اردو ادب میں مشکل سے ملے گی:
’’اس کا تجربہ آزادی سے کچھ عرصہ قبل یا بعد ایک محفل میں ہو بھی گیا۔ نواب صاحب نے خاص ’ باغ پیلیس‘ میں مشاعرہ کی نشست کی، شادؔ صاحب اگرچہ وہاں نہیں جاتے تھے، لیکن شاید نواب صاحب اس زمانے میں اُن کی شہرت کی وجہ سے اُن سے خوش تھے یا پھر مصاحبوں نے سفارش کی اور شادؔ صاحب کو بھی یار لوگ پکڑ لے گئے ( غالباً اس زمانے میں جوشؔ صاحب رام پور آ گئے تھے اور نواب صاحب کے یہاں مقیم تھے) شادؔ نے وہاں جس قسم کی نظمیں سنائیں ، اس کے بعد پھر کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ شاد صاحب کو ’پیلیس باغ‘ لے جاتا۔ ریاست کے زمانے میں کبھی نواب صاحب سے نہیں ڈرے۔
شادؔ کی کشادہ قلبی، فراخدلی، دلیری اور نوجوانوں کی ہمت افزائی کے متعلق بھی ایک واقعہ سنئے۔ مسعود اشعرؔ ہی کا بیان ہے:
’’ انھیں دنوں ہم نے فرسودہ غزلوں کے مشاعروں سے تنگ آ کر ایک مناظمہ کرانے کی ٹھانی، شادؔ صاحب کو اس میں آگے رکھا، شاہدؔ عشقی اور ہادی مصطفی آبادی اس میں پیش پیش تھے، بعض ایسے نو جوان شاعر بھی تھے جو شادؔ صاحب کے مخالف استادوں کے شاگرد تھے۔ لیکن شاد صاحب نے بڑی فراخدلی کے ساتھ اُن کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ اس مشاعرے کا صدر شاد عارفی کو ہونا چاہیے تھا لیکن انھوں نے اس میں بھی اجتہاد کرایا اور ہندی کے ایک شاعر، کلیان کمار ششی کو اس کا صدر بنا دیا۔ بہت دنوں تک اس مناظمہ کی دھوم رہی اور اس میں جس قسم کی نظمیں پڑھی گئی تھیں اس سے اُستادوں کی ناراضگی بڑھ گئی۔ رام پور میں شاید یہ پہلا مشاعرہ تھا جہاں آزاد نظم نہ صرف خاموشی سے سنی گئی بلکہ اسے داد بھی ملی۔ شاد صاحب نے کبھی آزاد نظم نہیں کہی لیکن اس میں اپنے شاگردوں کی ہمیشہ ہمت بڑھائی۔‘‘
عام اُستادوں کی روش کے بر خلاف ادبی محفلوں میں مبتدیوں کے بے عیب اشعار پر جی کھول کر داد دیتے تھے۔ کسی کو اپنا شاگرد بنانے پر جلد رضا مند نہ ہوتے تھے، بالفرض کسی نوجوان شاعر نے کسی طرح اُنھیں راضی بھی کر لیا تو اُس کی غلط توقعات پوری نہ ہوتی تھیں اور وہ بہت جلد اُن سے علیحدگی اختیار کر لیتا تھا۔ گووند رشکؔ نے کچھ ایسی ہی توقعات کے ساتھ اُن کی شاگردی اختیار کرنی چاہی تھی، انھیں لکھتے ہیں :
’’ یہ طریقۂ کار اچھا نہیں ، چنانچہ بہ قسم کہہ سکتاہوں کہ میں نے اپنے کسی شاگرد کی سفارش نہیں کی، ہاں یہ کہہ کر کبھی کوئی غزل بھجوا دی کہ مال دیکھ کر، ’اگر کھرا ہو‘ چھاپ دو۔ اگر تم چاہو تو اس طرح کے تعارفی خط لکھ سکتا ہوں ۔‘‘
ہونے والے شاگرد کو جتا دیتے کہ جو جی میں آئے اور جس رنگ میں چاہو لکھو، میں زبان و بیان کی خامیوں کی طرف اشارہ کر دوں گا، درست خود تمھیں کرنا ہو گا۔
اپنی مفلوک الحالی کے باوجود اقربا نوازی کا یہ حال تھا کہ اپنا آبائی مکان ایک عزیز کو رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہوئے بہت سستے داموں فروخت کیا حالانکہ محلِ وقوع کے لحاظ سے دوسرے اُس کی زیادہ قیمت دینا چاہتے تھے۔ بڑے بھائی نے پہلی بیوی کے انتقال کے بعد ایک ساقط النسب عورت سے شادی کر لی تو خاندان نے اُن سے قطع تعلق کر لیا اور شادؔ عارفی نے مرحومہ کے لڑکے اور لڑکی کی پرورش اپنے ذمّہ لے لی، اپنی غربت کے باوجود لڑکے کو پڑھایا، لکھایا، شادی کی، ملازمت دلائی اور جب وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا تو اس سے کسی قسم کی امداد کے طالب نہ ہوئے۔ لڑکی کی شادی بھی انھیں نے کی اور بیوگی کے بعد پھراس کے کنبے کی کفالت کا بار اپنے سرلے لیا:
’’ روایتی شاعروں ،مشاعرے بازوں ، تک بندوں اور اُستادی کا ڈھونگ رچانے والوں سے بہت چڑتے تھے اور اُن کے شعروں کی تشریح انوکھے اندازسے کرتے تھے کہ لوگ ہنسی کے مارے لوٹنے لگتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ فحش لطیفوں اور گالی گلوچ سے بھی باز نہیں آتے تھے۔‘‘
شادؔ عارفی نحیف الجثّہ،دھان پان سے، معراجؔ لکھنوی کے الفاظ میں بیس سیر کے آدمی تھے۔ قد میانہ،رنگت سانولی اور چہرہ کتابی تھا۔ صحت ہمیشہ خراب رہتی، دمے کے مریض تھے۔ پچکے ہوئے گال اور جسم میں ہڈیاں اور کھال ہی رہ گئی تھی۔ صورت شکل قطعاً غیر شاعرانہ، بال خورے کی وجہ سے ہمیشہ داڑھی مونچھیں صاف رکھیں ۔ سر کے بال بھی بعض مقامات سے اُڑ گئے تھے۔ بالوں کی اس بیماری کا انھیں بہت احساس تھا۔ جوانی میں سنہرے فریم کی اور آخر عمر میں گول شیشوں اور موٹے کالے فریم والی عینک استعمال کرتے تھے۔ کپڑوں کے سلسلے میں بھی لا اُبالی تھے، سیدھا سادہ لباس پہنتے تھے۔ مخصوص مواقع پر شیروانی، ورنہ عام طور پر قمیص پاجامہ، قمیص کے کالر پر ایک رومال لگا ہوا۔ گرمیوں میں جواہر کٹ اور سردیوں میں مرزیٔ پہنتے تھے اور گلے میں رومال کی جگہ مفلر لپیٹے رہتے۔ موسم کے لحاظ سے کبھی اونی کبھی سوتی رام پوری ٹوپی استعمال کرتے۔ سوٹ بوٹ میں انھیں زندگی میں شاید ایک آدھ بار ہی دیکھا گیا۔ لیکن فوٹو کھنچواتے وقت کبھی کبھی قمیص پر ٹائی باندھ لیا کرتے تھے۱؎ حقّہ اور بیڑیاں بکثرت پیتے تھے غالب کی طرح آم انھیں بھی بہت مرغوب تھے اور اکثر خطوط میں اپنی اس رغبت کا ذکر کیا کرتے۔ ہلکے سبُک رنگ پسند کرتے تھے اور بھینی خوشبو والے ہلکے عطروں کے شائق تھے طبی معلومات بھی خاصی وسیع تھیں ۔ حافظہ بہت اچھا تھا جس کے سہارے حوالے کی کتب کے بغیر ہی جید عالموں ، محققوں اور نقادوں سے علمی و ادبی بحثوں میں بازی لے جاتے تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں خاصے حُسن پرست واقع ہوئے تھے۔ ایک جگہ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ میری طالب علمانہ زندگی کا وہ دَور جوکسی بھی ’ خوشنما‘ جلد، سے متاثر ہو جاتا تھا، کافی زرخیز رہا ہے۔ ‘‘
نظیر اکبر آبادی کی طرح شادؔ بھی زندگی کے معمولی سے معمولی واقعات اور ہنگاموں میں دلچسپی لیتے تھے اور اُسی سے اپنی شاعری کا مواد اخذ کرتے تھے، بچوں کے ساتھ بڑی شفقت کا برتاؤ کرتے تھے۔ عمر کے مختلف ادوار میں انھیں مختلف مشغلوں سے شغف رہا، بچپن میں فٹ بال، بیت بازی اور غلیل وغیرہ سے دلچسپی تھی۔ طالب علمی کے زمانے میں کرکٹ اور ٹینس وغیرہ کا شوق تھا۔ عہدِ شباب میں پتنگ بازوں کی صفِ اوّل میں شمار کیے جاتے تھے اور کبوتر بازی میں رام پور میں نام پیدا کیا، بٹیروں سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ جوانی میں انھیں شکار کا بھی بہت شوق تھا۔ ماہر القادری لکھتے ہیں :
’’رام پور کے مشاعروں اور ادبی نشستوں میں شادؔ عارفی کو نہیں دیکھا، جب بھی دریافت کیا معلوم ہوا وہ شکار کھیلنے گئے ہیں ۔ ‘‘
اس شوق کو ابھارنے میں نواب حامد علی خاں کے میرِ شکار زبر استاد کا ہاتھ تھا۔ اس شغف کی نشاندہی اُن کی نظموں ’’ جبر و قدر‘‘، ’’ شکار ماہی‘‘، ’’ پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر‘‘ وغیرہ سے بھی ہوتی ہے۔ آخر عمر میں شطرنج، پچیسی( چوسر) اور تاش کھیلنے کے علاوہ معمے حل کر کے،چڑیوں کو دانہ کھلا کر، شاگردوں اور دوستوں کو خط لکھ کر جی بہلاتے تھے۔ مطالعہ کا شغف آخری دم تک رہا۔ جلد سونے اور علی الصبح جاگنے کے عادی تھے۔ حساب کتاب میں کمزور، لکھتے ہوئے الفاظ اور نقطے بھول جانے کے عادی،تحریر میں قوسین اور واوین کے اس درجہ شوقین کہ بعض مقامات پریہ قطعاً غیر ضروری نظر آتے ہیں ۔ اپنی ذات کی حد تک بڑے غیر محتاط اور کھانے پینے کے معاملے میں بلا کے بد پرہیز تھے، برسوں سے سانس کے مریض تھے۔ پھیپھڑے کمزور تھے اور معدہ و جگر خراب،خوراک بھی بہت کم تھی لیکن جاڑوں میں رساول اور برسات میں آم کھائے بغیر نہیں رہتے تھے۔
موقع پڑنے پر گالیاں بھی خوب دے لیتے تھے۔ کبھی کبھار بے تکلف دوستوں کی محفل میں مغلظات سے مملو واقعات،فحش لطیفے اور اشعار بھی سُناتے تھے، مقامی لوگوں میں رشید احمد خاں مخمور، ہادی مصطفی آبادی، جاوید کمال، مسعود اشعر، رام ناتھ نازاں ؔ ، کلیان کمار ششی، منہاج الدین مینائی، امتیاز علی کھنڈارا، صدیق خاں ، مندا خاں ، سلطان خاں سحرؔ، یوسف خان فلکؔ، فضل احمد خاں ، محمد احمد خاں ، قیصر خاں ، منّے میاں صابرؔ، اور سلطان اشرف وغیرہ سے زندگی کے مختلف ادوار میں اُن کے تعلقات وسیع رہے۔ بدر تسلیمی، مسیحاؔ نظامی، محشر عنایتی، راز یزدانی،امتیاز علی عرشیؔ وغیرہ سے تعلقات بنتے بگڑتے رہتے تھے:
معززین تقریبات میں بہت کم شریک ہوتے تھے۔ شعر پڑھنا تو اُنھیں آخر عمر تک نہیں آیا، اپنے ٹھیٹ رامپوری لہجے میں نظم اس طرح پڑھتے جیسے کسی کو خط پڑھ کرسُنا رہے ہوں ۔ اس گھبراہٹ کے عالم میں شعر سُناتے کہ یہ ہوش بھی نہ رہتا کہ کس شعر پر داد مل رہی ہے اور مکرّر سُننے کی فرمائش ہے۔
عمر کے بالکل آخری حصّے میں بیماری کی وجہ سے گوشہ گیر سے ہو گئے تھے، گھر سے بہت کم نکلتے تھے۔
عام طور پر شادؔ عارفی اس وقت فکر سخن کرتے تھے جب طبیعت میں اعتدال ہو،کبھی برہمی کے عالم میں اپنی رات کی نیند حرام کر کے طویل نظمیں کہہ لیتے تھے جو طنز یہ اور کڑوی کسیلی ہوتی۔ ‘‘ صبح کی چائے پینے کے بعد اُن پر بالعموم ایک خاص موڈ طاری ہوتا، جس میں فکرِ سخن کرتے تھے۔ شادؔ کی ایک بڑی خصوصیت اُن کے ذہن کی زرخیزی اور پُر گوئی بھی تھی،اُنھیں کبھی یہ کہتے نہیں سُنا گیا کہ آج کل شعر نہیں ہو رہے ہیں یا فلاں فلاں پریشانیوں کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکا۔
یہ ہے شادؔ عارفی کی شخصیت جو اپنی فطرت سے نہ نور ی تھے نہ ناری تھے:
ہم تھے سو ہوئے نذرِ تگ و تازِ معیشت
اب کون حریفِ رسن و دار رہا ہے
( شادؔ عارفی)
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے