کوکھ
شائستہ فاخری
کسی جادوگر کے طلسمی تماشے کا کردار بنی وہ جل دھارا کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ اس کے دونوں گداز سینوں سے ٹپکتی ہوئی دودھ کی ننھی ننھی بوندیں جل کے دھارا میں دودھیا نقطے کی شکل میں پھیل رہی تھیں۔ چند قطرے سوکھی پیاسی زبان کی خوراک بھی بن رہے تھے۔ یہ زبان تھی اس ننھی جان کی جو پچھلے دو چار دنوں سے بستی والوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ ایک لا ینحل مسئلہ۔ ۔ ۔ اپنے بازوؤں میں بچی کو سمیٹے وہ لگا تار اسے نہارے جا رہی تھی۔
تباہی کے درد ناک منظر کو جھیلنے کے بعد بچھے کھچے لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ آنکھوں میں تجسس تھا، کچھ آنکھیں حیرت زدہ اور متفکر تھیں۔ مگر ایک جوڑی آنکھیں ایسی بھی تھیں جن میں شرمندگی تھی، خوف تھا اور ساتھ ہی ساتھ پھڑپھڑاتے دل سے اٹھتی ایک کراہ بھی تھی جو دعا بد دعا کے مکڑ جال سے نکلتی ہوئی اس شخص کے لب سے ٹکرا رہی تھی کہ کاش ایک بار پھر سے جل دھارا کو جلال آ جائے اور وہ قدرت کا قہر بن کر ٹوٹ پڑے ایک اکیلی اس پر جو دھارا کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ کاش کہ جل دھارا دو حصوں میں بٹ جائے اور وہ ہمیشہ کے لئے اس میں غرق ہو جائے۔ اور اسی کے ساتھ سدا کے لئے اس اندھیری کالی رات کا وہ سچ بھی غرقاب ہو جائے جو اسے اس وقت مرغ بسمل کی طرح تڑپا رہا تھا۔
خاموشی کا سفر طے کرتے ہوئے چند لمحے اور گزر گئے۔ اس شخص کی لرزتی آنکھیں ایک بار پھر جل دھارا کی طرف اٹھیں۔ کینوس پر ابھری تصویر کی طرح منظر ساکت تھا۔ رنگ و بو کے زاوئیے میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا تھا جیسے پورے ماحول پر آسیبی سایہ گھر گیا ہو۔ شانت ہوتی ہوئی جل دھارا کے بیچ وہ اسی طرح کھڑی تھی عقل حیران تھی۔ لوگ دیوی کی ناراضگی کا سبب نہیں جان پا رہے تھے۔ کس سے کیا بھول ہوئی کہ جو کبھی نہیں ہوا وہ بستی میں گھٹ گیا۔ اچھی خاصی، گدرائے جوبن والی، پر شباب سڈول جسم والی عورت اور جل دھارا میں اترتے ہی اچانک کیسے پتھر کی ہو گئی۔ ناف کے نیچے سے اس کا دھڑ پتھر کا ہو چکا تھا۔ جبکہ اوپری دھڑ اب بھی عام عورت کی طرح تھا اور معصوم فرشتے جیسی بچی اس کی گود میں اسی طرح محفوظ تھی جیسے کہ ماں کی کوکھ میں بچہ ہوتا ہے۔ وہ شخص جسے لوگ سردار کے نام سے جانتے تھے اور جو سچ کا بھیدی تھا، اس نے گھبرا کر ان آٹھوں عورتوں کی طرف نگاہ اٹھائی جو بدستور جل دھارا کے کنارے کھڑی گن ناک ماتمی چہرہ بنائے اپنے دونوں بازو پھیلائے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ ان کے سینوں سے بھی مسلسل دودھ کی پتلی دھارا بہہ رہی تھی۔
دل بہلانے کے لئے سردار پچھلی باتیں یاد کرنے لگا۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی کی تو بات ہے جب بستی پوری طرح پرسکو ں ہوا کرتی تھی۔ فضا خوشگوار، لوگ خوش مزاج۔ اس کی وجہ لوگ جل گدھارا کو مانتے تھے۔ کیونکہ اس بستی کی وہ دیوی تھی اور دیوی خوش رہے اس لئے ساری بستی وہی کرتی تھی جو پرانے بڑے بوڑھے انھیں بتاتے آئے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں۔ ۔ اچھا سوچو، اچھا کرو اور خوب جیو۔ محنت کرو اور خو ش رہو۔ لوگ بتاتے ہیں کہ جب یہاں بستی بسی تھی تو ایک دن دیوی نے پرکٹ ہو کر یہی سندیش لوگوں کو دیا تھا۔ اور لوگ آج تک اسے پوری طرح مانتے بھی چلے آ رہے ہیں۔ رشتوں کا چھل، اس بستی کا سب سے بڑا گناہ تھا۔ یہ چھل کس نے کس کے ساتھ کیا کہ ماں جیسی دیوی کو جلال آ گیا۔ سردار کی آنکھیں جھک گئیں۔ پچھلے چند دنوں سے اس کی طبیعت کی بے چینی اور بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے لئے وقت جیسے تھم گیا ہو۔ معاملہ بھی تو بے حد پیچیدہ اور سنگین تھا۔
بات یوں تھی کہ درد ایک کوکھ کا تھا اور اس درد کی دعوے دار تھیں نو مائیں۔ ۔ اتنا یقین تو سب کو تھا کہ درد اور کرب تو صرف ایک کوکھ کو ہی سہنی پڑی ہو گی مگر یہ آٹھ کوکھ کیوں چیخ اٹھیں۔ عجیب قصّہ ہے۔ بالکل دادی ماں کی سنائی ہوئی دیو مالا کی کہانی جیسا۔ مگر یہ کہانی ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ ثبوت کے طور پروہ ننھی جان جوفساد کی جڑ مانی جا رہی تھی، سب کے بیچ موجود تھی۔ کبھی ٹکر ٹکر سب کو دیکھتی، اور کبھی چیخ چیخ کر رونے لگتی، تھک جاتی تو کسی کے کندھے پر سر رکھ کر سو جاتی۔ اٹھتی تو بھوکی ہوتی۔ اپنی بھوک مٹانے کے لئے وہ انگوٹھاچوسنا شروع کر دیتی۔ لگاتار چوسنے سے اس کا انگوٹھا سفید پر جاتا مگر اس کی بھوک نہ مٹتی۔ وہ پھر آنسو بہانے لگتی، روتی اور دیر تک روتی رہی۔ گھنٹوں اس کی رلائی لوگوں کے دل کو رہتی۔ پچھلے چار دنوں سے یہ سلسلہ جاری تھا۔
مگر یہ سلسلہ شروع کہاں سے ہوا؟ اس کی حقیقت کو سوچ سوچ کر سردار پریشان ہوتا۔ آنکھیں خشک تھیں مگر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ لحیم شحیم شخصیت کا مالک رعب دار سردار اس وقت اپنے آپ کو ایک دبکا ہوا چوہا محسوس کر رہا تھا کہ کہیں کوئی بل نظر آ جائے اور وہ اس میں پناہ لے۔ مگر ایسا کچھ ممکن نہیں تھا۔ سچائی کا سامنا اسے کرنا ہی تھا۔
اپنے ذہنی دباؤ کو ہلکا کرنے کے لئے اس نے چار دن پہلے کی پر سکون رات کو یاد کیا جب ہلکی خنکی بھری ہوائیں چل رہی تھیں۔ لوگ ہر رات کی طرح اس رات کو بھی کھانا کھانے کے بعد جل دھارا کے کنارے چہل قدمی کر رہے تھے کیونکہ یہاں کا معمول تھا کہ سونے سے پہلے بستی والے جل دھارا کو کرتے تھے تاکہ دیوی ساری رات بستی کی حفاظت کرتے رہیں اور لوگ امن چین کی نیند سو سکیں۔ ہمیشہ کی طرح نیلے آسمان پر چاند نکلا، تارے جھلملائے، چکور چکوریاں اونچی اڑان میں جیسے چاند کو چھو لینے کی چاہ میں دائرہ بنائے چکر کاٹنے لگیں۔ کبھی کبھی کہیں دور ٹوٹتے تارے لپکتے شعلوں کی طرح نظر آ جاتے۔ تاروں کا ٹوٹنا بستی والے اشبھ مانتے تھے۔ سردار کا دل اس وقت بری طرح سے دہل اٹھا جب اس نے صاف شفاف جل کی دھارا میں ٹوٹتے تارے کاعکس دیکھا۔ وہ گھبرا کر گھر واپس آ گیا اور چپ چاپ بستر پر لیٹ کرسونے کی کوشش کرنے لگا۔ بند پلکوں میں پتلیاں پھڑ پھڑاتی رہیں۔ اور بوجھل آنکھوں کی نیند کہیں ویرانے میں دم توڑتی رہی۔ رات گزر گئی۔ صبح ہلکی سی جھپکی ہی آئی تھی کہ بے تحاشا اٹھتی چیخ پکار نے اسے بد حواس کر دیا۔ وہ ننگے پاؤں بغیر سر پر پگڑی باندھے دوڑتا ہوا گھر سے باہر نکلا۔ اور پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سردار کی آنکھیں آنسوؤں سے دھندلا گئیں۔ کیونکہ اس کے آگے کا منظر وہ یاد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خوش حال بستی جل دھارا کے قہر سے اجڑ چکی تھی۔ بسے بسائے مضبوط گھر پانی کی طوفانی دھاروں میں ریت سے بنے گھروندے کی طرح بہ گئے۔ گھٹتی سانسیں پانی میں دم توڑنے لگیں۔ لاشیں تنکوں کی طرح دھارا کی اچھال پر ہچکولے کھا رہی تھیں۔ کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا مرد، کیا عورت۔ ۔ ۔ ۔ جل دھارا نے کسی کو نہیں بخشا۔ وہی جل دھارا جس کی عبادت کی جاتی تھی۔ بستی والے جس کی پوجا کرتے تھے، منتیں مانگتے تھے اور منتیں پوری ہونے پر پھولوں کی مالا جل دھارا پر چڑھاتے تھے۔ پھر ایسا گناہ کس سے ہو گیا۔ کہ ماں جیسی جل دھارا کو جلال آ گیا۔ بستی اجڑ گئی۔ ایک جوڑی پشیمان آنکھیں اس سچ کو جانتی تھیں ، پہچانتی تھیں مگر خاموش تھیں۔ ایک سچ کو قبول کرنے کا مطلب تھا کہ کئی سچ سامنے آ جاتے۔ وہ سچ کی پردہ داری خاموش کھڑا بھیڑ کا ایک حصہ بنا ہوا تھا۔ وہ کیسے بھول سکتا تھا کہ بستی والے اس کے پاک کردار کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ بہر حال جو سامنے تھا وہ یہ تھا کہ بستی اجڑ چکی تھی مگر اتنے جلال کے باوجود اس ننھی جان کو جل دھارا نگل نہ سکی۔ اگل دیا اس نے۔ آٹھ ننھے وجود جل دھارا کی گود میں سو گئے۔ اسی ایک بچی پر مادر حق کے دعوے کے لئے نو اجڑی ہوئی مائیں آگے بڑھیں۔ ایک بچی کے لئے نو کوکھ کیسے دعویدار ہو سکتی تھیں ؟ ہر عورت اپنے آپ میں سچائی کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھی۔ بچی کس ماں کی گود میں ڈالی جائے اس سوال نے بستی والوں کو پریشان کر رکھا تھا۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ فیصلہ سردار کرے گا کیونکہ وہی اکیلا ایک شخص تھاجس پر کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی تھی۔ وہ ان تمام کمزوریوں سے اوپر تھا جو انسانی کردار کوسطح سے نیچے گراتی ہیں۔ فیصلہ سب کے بیچ ہونا تھا۔ جل دھارا کے کنارے عدالت لگ گئی۔ اس بچی کو روتا ہوا دیکھ کر وہ نو مائیں بھی رونے لگیں۔ آہ و زاری کرنے لگیں۔ ممتا کی چھاؤں دینے کے لئے سبھی الگ الگ ناموں سے اسے پکارنے لگیں۔ مگر بھوکی پیاسی بچی سردار کی مضبوط بانہوں کی گرفت میں تھی۔ اسے چپ کرانے کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ چیختے چیختے ننھی جان تھم کر نڈھال ہو گئی اور سردار کے کندھے پر سر رکھ کرسو گئی۔ عدالتی کاروائی شروع ہو گئی۔
گھنٹوں ذہنی مشقت کے بعد آخر کار سردار کے حکم پر نو ماؤں کو ایک قطار سے کھڑا کر دیا گیا۔ گنتی شروع ہوئی۔ ایک۔ ۔ دو۔ ۔ تین۔ ۔ چار۔ ۔ ۔ !بستی والے گنتی کر رہے تھے اور ادھر سردار کی جسم کے ساتھ نظریں بھی تھر تھرا رہی تھیں۔ سردار کی آواز میں آج کپکپاہٹ تھی۔ اس کی کئی پشتیں سربراہ رہی ہیں۔ ان کی عزت، آن بان، شان پر کوئی ترچھی نظر اٹھانے والا فرد پیدا نہیں ہوا تھا۔ ایسا بستی والوں کا ماننا تھا۔
اچانک شور اٹھا۔ ۔ ایک عدد عورت کم ہے۔ گنتی پھر شروع ہوئی۔ ایک۔ ۔ دو۔ ۔ تین۔ ۔ چار۔ ۔ ۔ ۔ ! گنتی کرتی ہوئی انگلیاں آٹھویں عورت پر آ کر رک گئی۔ نویں عورت کہاں گئی؟؟ کئی بار گنا گیا مگر گنتی ایک سے آٹھ تک ہی رہی۔ آخر نویں عورت کہاں لاپتہ ہو گئی؟ کیا پہلا جھوٹ پہلے ہی قدم پر پیچھے ہٹ گیا۔
نویں عورت کی گمشدگی نے سردار کے وجود کو زلزلے میں ڈھکیل دیا ہو۔ پریشانی کے عالم میں سردار نے سوئی ہوئی بچی کو بے خیالی میں جل دھارا کے کنارے بنے چکنے پتھر کے چبوترے پر لٹا دیا۔ یہ وہی پتھر تھاجس پر بیٹھ کر لوگ سمادھی میں لین ہو کر دھیان لگاتے تھے۔ اسی پتھر پر اس کالی اندھیری رات میں سردار نے گوتم کو دھیان میں ڈوبے دیکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیوی کے دھیان میں مگن گوتم۔ ۔ ۔ ۔ کتنی دیر تک سردار ہنستا رہا۔ ۔ خوب ہنستا رہا۔ ۔ زور زور سے ہنستا رہا۔ ۔ ۔ گوتم کی آنکھ کھل گئی۔ ۔ ۔ دھیان بھنگ ہو گیا۔ تب سردار نے ہاتھ اٹھا کر آ شیرواد دیا تھا۔ دیوی تمھارا کلیان کریں۔ ۔ ۔ تمھاری نسل پروان چڑھے۔ ۔ تمھارا نام امر رہے۔ گوتم سردار کے قدموں میں لوٹ گیا تھا۔ یہی مانگنے تو وہ جل دھارا پر آیا تھا اور سردار نے جیسے اس کے دل کی پکار سن لی تھی۔
ادھر بچی چبوترے کی سختی کو برداشت نہ کر سکی۔ اس کی آنکھ کھل گئی۔ بھوک کی شدت سے وہ چیخ چیخ کر پھر رونے لگی۔ اچانک شور اٹھا۔ ’’ سردار نویں عورت جل دھارا میں ہے۔ ‘‘
’کیا؟‘ سردار کے ساتھ ساتھ سب کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ دھارا میں بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ اس کا آدھا دھڑ جل دھارا میں ڈوبا ہوا تھا۔ کوئی ہلچل نہیں ، کوئی زندگی نہیں۔ پتھرائی بے نور آنکھوں سے وہ اپنے اجڑے سنسار کو دیکھ رہی تھی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس کی ناک کے نیچے کا حصہ پتھر کا بن چکا تھا جبکہ ناف کے اوپر وہ عام عورتوں کی طرح تھی۔ ممتا کی گرماہٹ اب بھی اس کے سینوں میں محفوظ تھی اور نگاہیں بچی پر جمی ہوئی تھیں۔
بڑھتے ہوئے شور کو سردار کی آواز نے دبا دیا۔ ’’یہ عورت بھی دعویداری میں آگے آئی تھی۔ اس لئے اس کی گنتی بھی دعویداروں میں ہو گی۔ چاہے یہ آدھی پتھر کی ہی کیوں نہ بن چکی ہو۔ نسل بڑھائی جاتی ہے ناف کے نیچے سے اور پروان چڑھتی ہے ناف کے اوپر سے۔ یہاں بڑھانے کی نہیں پروان چڑھانے کی بات ہے۔ اس لئے اس کے دعویداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔ ‘‘
لوگوں نے تالی بجا کر سردار کے فیصلے کا استقبال کیا۔
بچی لگاتار رو رہی تھی۔ مگر بھیڑ کے شور میں آواز دبی ہوئی تھی۔ سردار کا حکم ہوا۔ ’ باری باری سے سب کی گود میں بچی کو ڈالا جائے۔ جس کی گود میں بچی چپ ہو جائے گی، وہی اس کی ماں کہلائے گی۔ ‘‘
ہر عورت اپنی باری آنے پر بانہیں پھیلا کر ممتا سے بچی کو اپنے سینے سے چپکا لیتی۔ خود کو محفوظ سمجھ کر بچی چپ ہو جاتی۔ آٹھوں عورتیں خوش ہو گئیں۔ انھیں لگا ان کے دعوے سچ ہو گئے۔ مگر نویں عورت کے لئے اب کیا کیا جائے۔ سردار آگے بڑھا۔ بچی کو اپنی گود میں لیا اور جل دھارا میں اتر گیا۔
عورتوں کی گود سے جدا ہوتے ہی بچی پھر رونے لگی۔ سردار نے جل دھارا میں کھڑی ہوئی نویں عورت کی گود میں بچی کو ڈال دیا۔ لمحے بھر کے لئے نویں عورت کے جسم میں ہلچل سی ہوئی۔ دونوں بانہیں اٹھیں۔ اس نے بچی کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ روتی ہوئی بچی چپ ہو گئی مگر سردار حیران ہو اٹھا یہ دیکھ کر کہ بچی چپ تو ہے مگر اس کی آنکھوں قطرہ قطرہ آنسو بہ رہے ہیں۔ ان بہتے ہوئے آنسوؤں کے معنی گہرے تھے جنھیں سردار سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے جلدی سے بچی کو واپس اپنی گود میں لیا اور جل دھارا سے باہر نکل گیا۔ سردار کے لئے فیصلہ لینا اور بھی مشکل ہو گیا۔ کیونکہ کسی کا بھی دعوی کمزور نہیں پڑا تھا۔ فیصلہ اگلے دن کے لئے ٹال دیا گیا۔
اگلے دن پھر جل دھارا کے کنارے عدالت لگ گئی۔ آٹھوں عورتیں سردار کے سامنے ایک قطار میں کھڑی ہو گئیں۔ نویں عورت بدستور جل دھارا میں تھی۔ اس کی آنکھیں بچی کی جانب تھی اور بچی سردار کی گود میں مسلسل رو رہی تھی۔ چپ کرانے کا ایک ہی طریقہ تھا۔ جلد سے جلد اس کی بھوک مٹا دی جائے۔
سردار کی آواز بھیڑ کے شور کو دباتی چلی گئی۔ ’’ آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ بچی بھوکی ہے۔ رو رہی ہے۔ وقت کا پہلا تقاضا ہے کہ اس کی بھوک مٹا ئی جائے۔ اس لئے ہر عورت بھوکی بچی کو اپنے سینے کے قریب لائے گی۔ جس نے اس کو جنا ہو گا اس کی چھاتی سے دودھ ٹپکنے لگے گا۔ کیونکہ یہ خدائی شان ہے کہ کوکھ سے جنا ہوا بچہ بھوکا ہوتا ہے تو اس کی ماں کی چھاتی سے خود بخود ٹپکنے لگتا ہے۔ جو اس بچی کی بھوک مٹائے گی وہی عورت اس کی ماں ہے اور اسے ہی یہ بچی سونپی جائے گی۔
ایک بار پھر عورتیں امتحان کی گھڑیوں سے گزرنے لگیں۔ ایک۔ ۔ دو۔ ۔ تین۔ ۔ چار۔ ۔ ۔ ۔ ! اس خدائی کرشمے کو دیکھ کر لوگوں کی سانسیں تھمنے لگیں۔ انگلیاں دانتوں تلے دبنے لگیں۔ خود سردار پریشان اور پشیمان تھا کہ کہیں اس کا قول جھوٹا نہ پڑ جائے۔ فیصلہ لینے میں وہ کہیں نا اہل نہ ثابت ہو جائے۔ بچی خاموش ہو چکی تھی۔ اس کی بھوک مٹ رہی تھی۔ باری باری سے وہ ہر عورت کے سینے سے ٹپکتے دودھ کو پی رہی تھی۔ آٹھوں عورتیں خوش تھیں کہ سبھی کے سینوں میں دودھ اتر رہا تھا۔ سب کے دعوے سچے ثابت ہو رہے تھے۔ سردار کی نگاہیں نویں عورت کی طرف اٹھی جو جل دھارا میں آدھی ڈوبی اب بھی کھڑی تھی۔ اس کی دونوں بانہیں بچی کی طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ حیرانی کی بات تو یہ تھی کہ بچی ابھی اس کی گود میں پہنچی بھی نہیں تھی اور اس کے سینے سے بہتا ہوا دودھ جل دھارا میں ٹپکنے لگا تھا۔ قطرہ قطرہ ٹپکتی دودھ کی ننھی ننھی بوندیں جل دھرا میں گر کر اسے مزید مقدس بنا رہی تھیں۔
سردار کی گود میں بچی آ چکی تھی۔ اور اس قدم جل دھرا کی طرف بڑھ رہے تھے۔ بچی نویں عورت کی گود میں آتے ہی اپنا سر اس کے سینے میں چھپانے لگی۔
بچی دودھ پی رہی تھی اور ایک جوڑی گنہگار آنکھیں اپنے اوپر نادم تھیں۔ سردار جل دھارا سے معافی مانگ رہا تھا اس رات کے گناہ کی جب قہر کی ابتداء کا بیج نویں عورت کی کوکھ میں آیا تھا۔
وہ رات اماوس کی تھی۔ ہر اماوس کی رات جل دھارا کے کنارے میلا لگتا تھا۔ لوگ ناچتے، گاتے، شراب پیتے جل دھارا کی شان میں قصیدے پڑھتے اور پھر صبح کی پو پھٹنے سے پہلے اپنی اپنی منتیں مانگ کر واپس بستی کو لوٹ جاتے۔ رات اندھیری تھی، گھور اندھیری۔ میلے میں جانے کے لئے بستی والوں نے اپنے گھروں سے نکلنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ آج گوتم کو اپنا پورا دھیان لگا کر دیوی ماں سے منت مانگنی تھی۔ اپنی عورت کی پیاسی کوکھ کو ہرا کرنے کے لئے۔ اس کے لئے وہ کڑا سے کڑا تپ کرنا چاہتا تھا۔ رشیوں جیسا سیدھا سادا سچا انسان گوتم۔ اپنی پیٹھ سیدھی کرنے کے لئے لیٹا ہی تھا کہ مرغے کی تیز بانگ کی آواز گونجی۔ گوتم ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اِندر دیو کا اثر تھا یا کسی کی بد نصیبی کا اعلان۔ مرغے کی بانگ پر گوتم نے بستر چھوڑ دیا۔ خالی ہوئے بستر کے دوسرے کنارے پروہ اپنے تنہا جسم کے ساتھ اکیلی رہ گئی۔
گوتم دیوی کا دھیان لگا کر سمادھی میں لین ہونے کے لئے جل دھارا کی طرف بھاگا جا رہا تھا اور ادھر اس کی بیوی سمبھوگ سے سمادھی تک کے درمیانی سفر میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ گوتم نے اسے پیاسا چھوڑ دیا تھا اور پیاسے جسم سمبھوگ کو پچھاڑ کر سمادھی کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے۔ جسم کی پیاس روح کو پیاسا بنا دیتی ہے اور پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیوی کیا۔ ۔ ۔ اور دنیا کیا! سب شونیہ پر ٹھہر ے ایک تصوراتی کھنڈر بن جاتے ہیں۔
ہاں اس رات کی ہی تو بات ہے۔ آسمان پر چاند نہیں نکلا تھا۔ ٹمٹماتے تارے کہیں دور منھ چھپائے گہری نیند سوئے تھے۔ ہلکی خنکی کے ساتھ ہوا کی سرسراہٹیں سردار کے ململ کے کرتے کو اڑاتی ہوئی اس کی خوشبو کو تیز جھونکے کو فضا میں پھیلا رہی تھی۔ قدم آہستہ آہستہ جل دھارا کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں کا جشن اس کے انتظار میں تھا۔ اچانک سردار کے کانوں میں ٹھنڈی سسکاریاں ٹکرائیں۔ قدم ٹھٹھک گئے۔ شراب کے سرور میں اضافہ ہوا۔ آنکھوں میں مستیاں اتر آئیں۔ کھلے دروازے میں سردار داخل ہو گیا۔ سر پر بندھا ہوا برا سا کلف دار صافہ اتر گیا۔ خوشبو میں رچا بسا سفید ململ کا کرتا کب اتر کر زمین پر گر پڑا، اس کا علم نہ سردار کو ہوا اور نہ اس نویں عورت کو جو مکمل طریقے سے خود کو سردار کے سپرد کر چکی تھی۔
سردار چلا گیا۔ جل دھارا کے جشن میں شامل ہونے کے لئے۔ ۔ چبوترے پر دھیان مگن بیٹھے گوتم کو دیکھ کراسے کتنی ہنسی آئی تھی۔
اچانک لوگوں کی چیخ پکار اور آٹھوں عورتوں کو آہ و بکا نے جیسے سردارکو ہوش میں لا دیا۔ وہ ماضی سے نکل کر پھر سے موجودہ حالات پر آ گیا۔
جل دھارا میں کھڑی نویں عورت کی گود سے بچی غائب تھی اور وہ عورت دھیرے دھیرے سرسے پیر تک پتھر کی مجسمہ بنتی جا رہی تھی بالکل اہلیہ کی طرح۔
بستی کے لوگ دم بخود تھے۔ ان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اب جو منظر تھا وہ بھی نا قابل یقین تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا۔ پردے کی عزت کھلے آسمان کے نیچے، ننگے سر، ننگے پیر، کھلے بال ماتم کرتی، گود میں اسی معصوم جان کو اٹھائے دیوی ماں کو پکارتی تیز قدموں سیاس سمت کو بڑھ رہی تھی جہاں کی ویران اور اجاڑ پڑی بستی نئی فصل کے لئے اس کے انتظار میں تھی۔ یہ دسویں عور ت سردار کی بیوی تھی اور اس کی گود میں سردار کی بچی۔ ۔
آٹھوں عورتیں جل دھارا کی بھینٹ چڑھی اپنی بچیوں کو غمناک یادوں کے ساتھ وہیں کنارے پر بیٹھی رہ گئیں۔
آج اماوس کی پھر گہری اندھیری رات تھی۔ اندھیرا اپنے شباب پر تھا۔ لوگ ماں جیسی جل دھارا کے ارد گرد اکٹھا تھے۔ بستی کے لو گ خوشحالی کے پر سکون نغمے گا رہے تھے۔
٭٭٭