وہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم تھا۔ اسے تمام فلسفہ اور عقلی علوم کا بادشاہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس کے معتقدین کی تعداد لاتعداد تھی۔ اپنے علمی و عقلی علوم کے سبب اس نے اپنے خطے میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ اس کے مقتدیان نے اپنے اذہان میں اس کا ایک بت تراش لیا تھا، جس کی پوجا وہ غیر ارادی طور پر کیا کرتے تھے۔ ایک پوری نسل اس کے نظریات سے متاثر تھی اور اس کی شہرت کے چرچے جب ایک ملک سے سفر کرتے ہوئے دوسرے ملک پہنچے تو وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس نے تمام عقلی علوم رکھنے والوں کو للکار رکھا تھا کیونکہ اس کی تحقیقات کا دائرہ ہی اس قدر وسیع تھا کہ غرور کا لبادہ خود اس کے پاس زیب تن ہونے کے لیے آ گیا تھا سو اسے وہ لبادہ اوڑھنا پڑا۔ وہ ہر انسان کو للکارتا اور اسے حکم دیتا کہ تحقیق کرو اور مجھے غلط ثابت کر دو۔ اس کی للکار پر اس قوم سے ایک بھی فرد جرات تحقیق نہ کرتا اور اپنی کاہلی، سستی اور نا اہلی کی لذت میں اسی کے تحقیق شدہ فرمودات کو تسلیم کر لیتا۔ اسے اپنی قوم کا مزاج معلوم تھا لیکن ہر قوم کا مزاج ایک سا نہیں ہوا کرتا۔ بات جب ’ملک ہوش‘ تک پہنچی تو وہاں کے ایک شہری ’خرد‘ نے اس للکار پر لبیک کہا اور اس انقلابی کو ایک طویل خط لکھ بھیجا۔ اس خط کا لب لباب یہ تھا کہ ’’میں (بمعنی خرد) تمھاری للکار پر حاضر ہوتا ہوں اور بہت جلد تمھیں غلط ثابت کر دوں گا اور یہ جو تم اندھوں میں راجا بنے پھرتے ہو، تمھارے علم کی قلعی میں بہت جلد اتارنے تمھارے ہی شہر آ رہا ہوں لہذا تیار ہو جاؤ۔‘‘ اس کے بعد اپنے وطن سے اس انقلابی کے وطن کی طرف ہجرت کرتا ہوا پہنچ گیا۔
وہ انقلابی اور خرد، اب آمنے سامنے تھے۔ دربار سجا اور بھرا ہوا تھا۔ بے حد خوبصورت جوان اس انقلابی کے گرد تلوار پکڑے کھڑے تھے۔ انقلابی نے خرد کو اپنی تحقیق کے متعلق کہا:
’’آج اس معاشرے کی کایا پلٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ میری تحقیق سے ہی یہ معاشرہ جہل کی زد سے نکلا ہے۔ سنا ہے تم مجھے غلط ثابت کرنے آئے ہو؟ تو لو، یہ میرا سوال ہے، تم اس پر تحقیق کرو۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ تم اسی نتیجے پر پہنچو گے جس نتیجے کا میں اعلان کر چکا ہوں‘‘
دربار میں موجود تمام لوگوں کی نظریں اس شخص پر ٹک گئیں۔ انقلابی نے ایک سوال نامہ اپنے مرید کو دیا اور اس نے وہ سوالنامہ خرد کے سپرد کیا۔ سوالنامہ کھول کر جب خرد نے پڑھا تو جواب کے لیے ایک ہفتے کی مہلت طلب کی اور وہ اسے مل گئی۔ خرد وہاں سے نکل کر واپس اپنے وطن گیا اور اپنے دیگر دوستوں، جن میں دانش، عاقل اور دانا شامل تھے، سے مدد طلب کی۔ ان سب دوستوں نے نہ دن دیکھا، نہ رات اور نتیجہ بر آمد کر لیا لیکن نتیجہ اس انقلابی کے جواب کے بالکل بر عکس تھا۔ خرد نے دوستوں سے پھر گزارش کی کہ مزید تحقیق کرتے ہیں تاکہ مطلوبہ جواب میسر آ سکے، جس پر دانا بولا:
’’یہ تم کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو؟ کیا تم نے دیکھا نہیں ہم نے کس عرق ریزی سے چار دنوں میں یہ نتیجہ بر آمد کیا ہے تو کیا تمھیں لگتا ہے کہ یہ عاقل، دانش اور تم خود ’خرد‘ کیا بیوقوف ہو؟ سوال اس لیے قائم نہیں کیے جاتے کہ ان کا مطلوبہ جواب بر آمد کیا جا سکے بلکہ ایک سوال قائم ہی اس لیے ہوتا ہے کہ تم اس کی متنوع جہات تلاش کر سکو۔ تم مطلوبہ جواب کا تقاضا کر کے اس سوال کو محدود نہیں کر سکتے‘‘
دانا کی بات سے تینوں دوستوں (جن میں خرد بھی شامل تھا) نے اتفاق کیا اور پھر خرد وہ تحقیق نامہ لے کر دوسرے ملک یعنی انقلابی کے دربار میں واپس چلا گیا۔ خرد کے تحقیق نامے پر انقلابی تلملا اٹھا اور بولا:
’’تم بھٹکے ہوئے ہو اور گمراہ انسان ہو۔ میں نے آج تک تم جیسا جاہل انسان نہیں دیکھا، تم کم عقل، بیوقوف اور جاہل مطلق ہو۔ اس سوال کا جواب صرف وہی ہے جو میں اپنی تحقیق سے تم پر اور باقی سب پر واضح کر چکا ہوں۔‘‘
خرد بولا: ’’آپ اسے اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں، میرے خیال میں آپ کو ایک بار مزید تحقیق کر لینی چاہیے ہو سکتا ہے کہ آپ کے سامنے مزید پہلو آ جائیں‘‘
لیکن انقلابی نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور خرد کو کہا کہ تم میری نظروں سے دور ہو جاؤ کیونکہ تم جہالت میں سب کے امام اور باپ ہو۔ جب خرد وہاں سے جانے لگا تو اسی دربار سے چند لوگ خرد کے ساتھ چلنے لگے اور انقلابی کو چھوڑنے لگے۔ انقلابی دور اندیش تھا سو اس نے اسی ایک پل میں اپنا برباد مستقبل دیکھنا شروع کیا اور سر جھٹک کر مستقبل سے واپس حال میں آ گیا اور حال میں آنے کے بعد اپنے ایک غلام کو اشارہ کیا اور پھر اس کی نگاہوں نے ’خرد‘ کا احاطہ کر لیا۔
٭٭٭