سدرا سحر عمران کی نظمیں ۔۔۔ تبسم فاطمہ

 

سدرا سحر عمران کی نظمیں آپ پڑھیں تو انقلابی شاعر مخدوم سے لے کر سارا شگفتہ اور باغی لب و لہجے کی شاعرہ کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض تک کی نظموں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ پھر سوال اٹھتا ہے، تو اس میں نیا کیا ہے؟ در اصل پہلی بات تو یہ ہے کہ سدرا نے کسی کا اثر قبول نہیں کیا۔ سدرا کی شاعری رومانیت کے بالکل ہی مخالف سمت میں سفر کرتی ہے۔ یعنی اس انقلابی نوجوان لڑکی نے شاعری کی ذمہ داری قبول کرتے ہی، پہلے اس روایت کو توڑا، جہاں پروین شاکر کی عورت مرد کے پرائے ہوتے احساس پر عورت کے وجود کو اتنا زخمی کر جاتی تھی کہ عورت ہونے کا تصور ہی بوجھ لگنے لگتا تھا۔ یہ عورت سدرا کی شاعری میں کہیں موجود نہیں ہے۔ وہ عورت کو کسی مرد کے لئے کمزور نہیں پاتی۔ اور نہ ہی مرد کے لئے دوسری باغی شاعرات کی طرح گلے شکوے کی داستان لے کر آتی ہے۔ سدرا کی شاعری، اس کی نظمیں اس معاملے میں جدا ہیں کہ اس نے پاکستان بننے سے لے کر اب تک کی تاریخ میں اس عورت کو جینے کی کوشش کی ہے، جس کا عکس کچھ کچھ تہمینہ درانی کے ناولوں میں بھی نظر آتا ہے۔ وہ عورت جو مارے باندھے ایک سماج میں قید، ایک چہار دیواری میں پستی ہوئی صرف گناہ کا استعارہ یا علامت بن کر رہ گئی ہے۔ سدرا سوال اٹھاتی ہے۔ ہم گناہ کیوں ہیں؟ گناہ کا استعارہ؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں بیرونی سجاوٹ یا دکھاوے کے ساتھ ایک ایسی زندگی جینے پر مجبور کیوں کیا جاتا ہے، جہاں ہم اپنی آواز، اپنی آگ، اپنے احساس، اپنے جذبات سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ ہم ایک ایسی مورت ہوتے ہیں، جو اوپر سے زندہ ضرور نظر آتی ہے مگر جسے اندر ہی اندر ختم کیا جا چکا ہے۔ بیٹے، بھائی، والد، اور شوہر تک کے اس مرد اساس معاشرہ میں ہماری اپنی کوئی پہچان ہوتی ہے، نہ ہمارا کوئی وجود ہوتا ہے۔ ہم ایسے جیتے ہیں، جیسے جیا نہیں جاتا۔ اور ایک دن ہم ایسے مر جاتے ہیں، جیسے مرا بھی نہیں جاتا۔ اور دنیا کو الوداع کہتے ہی ہماری یادوں کو بھی ایسے کھرچ دیا جاتا ہے، جیسے ہم کبھی ہوں ہی نہیں۔

’’ماں! میں کسی گناہ گار لمحے کی بددعا سہی

مگر میرے حصے کی زمین میں

میرے بدن سے نکالی ہوئی زکوٰة

نہ رکھی جائے

ماں! اپنے خدا سے پوچھ

کیا اس نے مجھے

اس ذائقے کے بدلے واپس لے لیا

جو مرنے والے کی

آخری خواہش تھا‘‘

(خواب گاہ سے آخری آرام گاہ تک)

**

’’عورت سلاخوں سے خوف نہیں کھاتی

یہ اپنی آنکھیں

کسی کے گریبان میں ڈال آئے تو

اس کے پاؤں گھر کی چاردیواری میں جلنے لگتے ہیں ‘‘

(عورت کو برقع میں۔۔۔۔ )

صدیوں سے داستان غلامی، بندشوں کے درمیان جیتے ہوئے عورت کا، صرف گناہ کی علامت بن جانا نہ صرف زخمی کر جاتا ہے بلکہ پاکستان سے بھارت تک کے سماجی منظر نامے کو بھی لہولہان کر جاتا ہے۔ یہاں بھی ہزاروں مظلوم عورتیں ہیں۔ عصمت دری کے روز ہونے والے واقعات ہیں اور ان واقعات سے الگ بھی وہ عورت موجود ہے، جو کبھی بنی ہی نہیں۔ پیدا ہی نہیں ہوئی۔ صفر میں رہی۔

’’پھاڑ کر پھینک دیں گے

وہ تمام پرسے

جو مصنوعی آنسوؤں سے لکھے گئے ہیں

نوچ لیں گے وہ طویل داڑھیاں

جو تبلیغ کر رہی ہیں

قاتلوں کے خدا کی

نماز جنازہ سے وقت ملا تو

ان کی نفلی عبادتوں کو جوتوں تلے مسل دیں گے ‘‘

(کوئی تابوت موسی کے صندوق سے نہیں بدلا)

**

 

وہ آدمی۔۔۔۔

جس نے ہماری آزادی

اور ایک رخصت میں اضافہ کیا

اس کی یاد میں اس بار شمعیں

اس قبرستان میں روشن کی جائیں

جہاں اس کے ایک سو بتیس خواب دفن ہیں

(جنم دن سے پہلے دو منٹ کی خاموشی)

**

 

’’عورت پہننے کا فن ایسا ہی ہے

جیسے جوتوں کی دکان پر

مختلف رنگ، ڈیزائن اور کوالٹی کے جوتے پہن پہن کے دیکھنا

لیکن عورت پہننے کا فن سیکھ لینے کے بعد

مرد، مرد نہیں رہتا

مردار ہو جاتا ہے

(خوش خوراک بدن)

سدرا سحر عمران کی نظمیں اسی نہ ختم ہونے والے خلا سے جنمی ہیں اور پورے سماج کو خبردار کرتی ہیں کہ کیا ہم 22 ویں صدی کی دنیا کو اسی صفر میں، گمشدہ عورت کے وجود کے ساتھ لیے جا رہے ہیں؟ عورت کب تک گناہ یا گناہ کا استعارہ رہے گی؟

در اصل سدرا کے موضوعات نے ہی سب سے پہلے مجھے متوجہ کیا۔ یہ لب و لہجہ عام نہیں ہے۔ اور یہ صرف ایک سسکتی ہوئی آواز نہیں ہے کیونکہ سدرا سماج سے سیاست تک کی کھال ایسے ادھیڑتی ہے، جیسے کوئی قصائی جانوروں کی کھال بے دردی سے اس کے جسم سے الگ کرتا ہے۔ سدرا کی نظمیں مکمل نفسیاتی تجزیہ سے گزرتی ہوئی پورے نظام کو آڑے ہاتھوں لیتی ہیں۔ یہاں شرافت اور سماج سے مذہب تک کی دردناک آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ یہاں پاکستان کے ساتھ وہ وحشی دنیا بھی موجود ہے، جہاں ترقی کے خیالی نعروں کے درمیان دبی کچلی ہوئی عورت کے باغی تیور آسانی سے سنے جا سکتے ہیں۔ در اصل پاکستانی انقلابی شاعری کی تاریخ میں سدرا کی آواز ایک ایسی آواز بن کر ابھری ہے جسے دبایا نہیں جا سکتا۔ انسانی نفسیات سے گزرتی اور مضبوط انقلاب کی ترجمانی کرتی یہ نظمیں اردو شاعری کے لئے نئی بھی ہیں اور منفرد بھی۔ یہ دور تک جاتی ہوئی اور پھے لتی ہوئی ایک ایسی آواز ہے جہاں رومانی نغموں کا شور نہیں ملے گا، بلکہ ایک ایسی زخمی عورت نظر آئے گی، جو صدیوں کے سفاک اور بے رحم منظروں کو ایک نئے منظر نامہ میں تبدیل کرتی ہوئی جینے کا فن سیکھ رہی ہے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے