خوف گنبد میں روشن آنکھیں ۔۔۔ شائستہ فاخری

 

’’سورج طلوع ہوتے ہی اس کی پہلی کرن کے ساتھ اس بد چلن کو سنگسار کر دیا جائے۔ جو جتنے پتھر اس پر پھینکے گا اس انسان کے اتنے ہی گناہ معاف ہوں گے۔‘‘

سرغنہ کے اس فرمان کے جاری ہوتے ہی بھیڑ نے اپنے گناہوں کی معافی کے لئے چھوٹے بڑے پتھروں کو اکٹھا کرنا شروع کیا، دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے بڑے پتھروں کے کئی ٹیلے تیار ہو گئے۔ سرغنہ کے اس حکم نے اس بھیڑ میں اضافہ کر دیا۔ کچھ لوگ گڑھا کھودنے میں لگ گئے اور کچھ صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ لوگ اس پر طرح طرح کی خیال آرائی کر رہے تھے۔ وہ بد چلن تھی، اس کا دامن داغدار تھا۔ اس کا کردار مشکوک تھا۔ اس کی عیاشی کے ثبوت مل چکے تھے اور اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ وہ اپنے کمرے کی بند چار دیواری میں چپ چاپ بیٹھی اپنے خلاف پھیلتی نفرت اور بغاوت کو سمجھ رہی تھی۔ وہ خوف زدہ تھی۔ اندیشوں میں گھری ہوئی تھی۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم چکی تھی کیونکہ آنے والے وقت کی دہشت نے اسے ذہنی طور پر مجروح کر دیا تھا۔ پیچھے پلٹ کر دیکھتی ہے تو زندگی کے پائیدان سے پیر پھسلتا جاتا ہے۔ آگے دیکھتی ہے تو موت سامنے کھڑی ہے۔ بہت سارے الزامات کے بعد بھی جب لوگوں کا جی نہیں بھرا تو اس ایک اکیلی عورت پر ایک اور میخ ٹھونک دی گئی۔ وہ جادوگرنی ہے۔ اپنے کالے جادو سے وہ ان سب کی کاوشوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے کہ اس نے لوگوں کی بینائی کو اپنے سحر میں لے لیا ہے تاکہ موت کا مقرر کردہ وقت ٹلتا رہے۔ وہ سب کچھ سنتی رہتی، دیکھتی رہتی اور خود بھی اس آدھے سچ پر حیران ہوتی کہ جو کچھ وہ دیکھ سن رہی تھی وہ مکمل طور پر غلط نہیں تھا۔ لوگوں نے اسے بند دروازے سے جھانکتے دیکھا تو سرغنہ کا ایک اور فرمان جاری ہو گیا۔ دروازے کے سامنے دیوار چن دی جائے تاکہ اگر رات کے اندھیرے میں اس کا گھر سے بھاگنے کا منشا ہو تو ناکام کیا جا سکے۔ دروازے کے سامنے دیوار اٹھ گئی اب اس کے سامنے ایک ہی راستہ تھا۔ وہ چھوٹا سا روشن دان جس کے لوہے کی سلاخیں اسے اپنے قیدی ہونے کا احساس دلاتی تھیں۔

وہ جانتی تھی کہ وہ بے گناہ ہے اور سامنے بھیڑ جو کہ رہی تھی یا پھر جو وہ دیکھ رہی ہے وہ پورا جھوٹ نہیں تھا۔ آج تیسرا دن تھا۔ تین راتیں اور تین دن۔۔ اس پر سے قیامت بن کرگزر چکے تھے۔ اسے سنگسار کرنے کے لئے چھوٹے بڑے پتھروں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ آدھے سے زیادہ آبادی اسے پتھروں سے لہو لہان کر کے اپنے اپنے گناہوں کی معافی کی طلب گار بنی اس کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔ ان سب کا سرغنہ جس کے حکم پر اسے سزا دی جا رہی تھی وہ بھی ارد گرد چکر کاٹ رہا تھا۔

وہ اپنی موت کی تیاری کا جشن دیکھ رہی تھی۔ اس کا خوف اپنی انتہا پر پہنچ کر پست ہو چکا تھا۔ اب اس کے اندر نہ زندگی سے محبت باقی بچی تھی نہ موت کا خوف اسے دہلا رہا تھا۔ مگر اس کے سامنے جو منظر تھا وہ یقیناً اسے حیرت زدہ کر رہا تھا۔ اس کے گھر کے سامنے بنجرر تیلی زمین کو تین دنوں سے کھودا جا رہا تھا۔ سورج کا جلال جب سرد پڑتا اور ڈھلتی دوپہر پتھر کی حدت کو ٹھنڈا کرنے لگتی۔ بھیڑ گڑھا کھودنے میں جٹ جاتی تاکہ اس کا نیچے کا آدھا دھڑ اس میں گاڑا جا سکے۔ گناہ اور سزا کے عذاب میں گرفتار اس کے جسم کو پتھروں سے سنگسار کیا جائے۔ شام ہوتے ہوتے گڑھا تیار بھی ہو جاتا۔

سرغنہ کا حکم تھا کہ جب سورج کی پہلی کرن دھرتی پر پڑے اس ایک کرن کے ساتھ اس ناپاک عورت کے جسم پر پتھر پھینکے جائیں۔ اس نے لوگوں کو سمجھایا جو جتنے پتھر مارے گا اس کے اتنے گناہ کم ہوں گے۔ اپنے اپنے گناہوں کی گلو خلاصی کے لئے بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔ لوگ منتشر ہو کر چھوٹے بڑے پتھروں کے ٹیلے کے ارد گرد اکٹھا ہو کر رات گزرنے کا انتظار کرتے اور جب سیاہی گھٹنے لگتی، بھور کا اجالا پھیلنے لگتا لوگ مستعد ہو کر اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھا کراس ایک اکیلی عورت کو باہر کھینچ لانے کا انتظار کر رہے ہوتے کہ بھیڑ میں سے چیخیں بلند ہو اٹھتیں۔

گذشتہ رات پتھریلی زمین پر کھودا ہوا وہ گڑھا اس طرح بھرا ہوا ملتا جیسے اس پر کبھی کدالیں اور پھاؤڑے چلے ہی نہ ہوں۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے جب سرغنہ آئے گا اور اس پٹے ہوئے گڑھے کو دیکھے گا تو کس قدر ناراض ہو گا۔ اور کس کس پر اس کی ناراضگی کا قہر ٹوٹے گا۔ اس عورت سے زیادہ بھیڑ خوف زدہ تھی۔ سرغنہ آیا بھی۔۔ ڈانٹ، پھٹکار۔۔۔ حکم نہ ماننے کا الزام بھی لگا مگر بھیڑ مجبور تھی۔ تین دنوں سے گڑھا کھودا جا رہا تھا لیکن صبح ہوتے ہی وہ گڑھا پٹ جاتا تھا اور زمین سمتل بن جاتی۔ لوگوں نے الزام لگایا۔ وہ بد چلن، بد ذات ہی نہیں جادوگرنی بھی ہے۔ وہ ہوا میں تحلیل ہو کر اس گھر سے لا پتہ بھی ہو سکتی ہے۔ اور اگر لا پتہ ہو گئی تو آبادی کی ساری عورتیں بے لگام ہو جائیں گی۔ سرغنہ کی حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس کے حکم کے کوئی معنی ہی نہیں رہ جائے گا۔ خوف کی چادر نے بھیڑ کے ساتھ ساتھ اس سرغنہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سب اس عورت کو برا کہہ رہے تھے اگر کم بخت بد چلنی نہ کرتی اور شرافت سے جیتی رہتی تواسے سنگسار کرنے کا حکم کیوں دیا جاتا۔ اس ایک کی وجہ سے ہی پوری آبادی پر خوف اور دہشت کا سایہ پھیل گیا تھا۔ آخر ماجرا کیا ہے۔ دن بھر محنت سے کھودا گیا گڑھا صبح کی پہلی کرن کے ساتھ پٹ کیوں جاتا ہے۔ زمین سمتل کیوں ہو جاتی ہے۔ بھیڑ نے سرغنہ کو سمجھایا۔ ’’آپ صبح ہونے کا انتظار نہ کیجئے۔ جیسے ہی گڑھا پورا کھود دیا جائے اسی آن اس بد چلن کواس میں آدھا گاڑ کر پھر سنگسار کر دیا جائے۔ سرغنہ سوچ میں پڑ گیا مگر اگلے ہی لمحے وہ خوف میں مبتلا ہو گیا۔ آج اگر بھیڑ کی رائے مان لی جاتی ہے تو عین ممکن ہے کہ ہر معاملے میں اس کے ہر فیصلے میں بھیڑ کی رائے اور رضا مندی شامل ہونے لگے۔ اور اس کے سر پر رکھی پگڑی اس سے چھن جائے۔ وہ بھیڑ کا ایک عام انسان بن جائے۔ خوف نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔ ’’نہیں ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ میں اپنے فیصلے کو بدل دوں۔‘‘

وہ عورت گھر کے اندر مقید تھی۔ وہ روشندان کے پاس کھڑی بھیڑ کی باتیں سن رہی تھی۔ اس کے اندر اب خوف کے سا رے طلسم ٹوٹ چکے تھے۔ قید ہوتے ہوئے بھی وہ خود کو آزاد محسوس کر رہی تھی۔ کیونکہ زندگی کا لگاؤ اپنی زنجیریں توڑ چکا تھا مگر اس کی حیرانی اپنی جگہ اب بھی موجود تھی۔ آخر وہ بد چلن کیسے ثابت ہوئی۔ بھیڑ میں لوگوں کی ہی آپسی چہ میگوئیوں سے اسے علم ہوا کہ ہر رات اس کے بند گھر سے اس کے بولنے کی آواز باہر جاتی ہے۔ کوئی مرد اس سے باتیں کرتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتی ہے کہ اس گھر میں تنہا رہتی ہے۔ نا محرم کیا کوئی محرم مرد بھی اس گھر کی چار دیواری میں داخل نہیں ہوا کیونکہ وہ دنیا سے بیزار سب سے کنارہ کشی کئے ایک مدت سے اس چار دیواری کے اندر اپنا سفر مکمل کر رہی ہے۔ پھر بھیڑ نے اس کے گھر سے مرد کی آواز کیسے سنی۔ خوف کی ایک تیز لہر اس کے جسم میں روند گئی۔ کون مرد ہے جو اس کے گھر میں چھپا ہے اور اندھیرا ہونے پر باہر نکلتا ہے۔ نیند میں غافل وہ اس مرد کی آواز نہیں سن پاتی مگر پوری آبادی گواہ ہے اس کی آواز کی۔ سچ مچ اگر دروازے کے باہر پتھروں کی دیوار نہ اٹھا دی جاتی تو وہ گھر کی چار دیواری لانگھ کر باہر بھاگ جاتی۔ خواہ بھیڑ پتھروں سے اسے مار مار کر سنگسار ہی کیوں نہ کر دیتی۔ اس کے جسم کے روئیں روئیں میں خوف سرایت کر گیا۔ گھر میں پھیلی نیم تاریکی کو دور کرنے کے لئے اس نے چراغ جلایا اور گھر کا کونا کونا چھان مارا مگر اسے کہیں کوئی مرد نظر نہیں آیا۔ اسے لگا کہ واقعی وہ کسی جادوئی حصار میں قید ہو گئی ہے۔ گھبرا کر وہ روشن دان کے پاس پہنچی اور چیخ چیخ کر خود کو گھر سے باہر نکالنے کی فریاد کرنے لگی۔ اسے اپنا پورا گھر طلسماتی لگا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ وہ چیخ تو رہی تھی۔ لب جنبش تو کر رہے تھے مگر آواز ندارد۔ بھیڑ تک اس کی کوئی آواز نہیں پہنچ رہی تھی۔ بھیڑ کی نگاہیں گڑھے پر ٹکی تھیں۔ وہ کسی بھی حال میں آج کی رات رائیگاں نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ سب گڑھے کے ارد گرد اکٹھا ہو کراس کی پہرہ داری کر رہے تھے کہ دیکھتے ہیں کیسے آج زمین سمتل ہوتی ہے۔

اچانک اس عورت کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اسے اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر کچھ سرسراہٹ محسوس ہوئی اس کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں۔ وہ خوف زدہ ہو کر چاروں سمت دیکھنے لگی۔ کمرے کے ایک کونے میں اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس کی نگاہیں ایک مرکز پر آ کر ٹھہر گئیں۔ ایک بچہ کمرے کے کونے میں کھڑا تھا۔ آنکھوں میں معصومیت تھی مگر چہرہ بد رنگ تھا۔ ہاتھ پیر ٹیڑھے تھے، کھال مرجھائی ہوئی تھی۔ وہ بے بسی سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس عورت نے کانپتی ہوئی آواز میں سوال کیا۔ ’’تم کون ہو؟

’’میں تمھارے اندر کا خوف ہوں۔‘‘

’’خوف! مگر میں تو خوف زدہ نہیں ہوں۔۔‘‘ اس عورت نے جھوٹ کا سہارا لیا۔

’’تم نے مجھے اپنے جسم میں پال رکھا ہے۔ تم اپنے اندر نئے نئے خوف پالتی جاتی ہو اور میں اس کے بوجھ سے اتنا دب جاتا ہوں کہ رات ہوتے ہی جب تم سو جاتی ہو تو میں پھڑپھڑا کر باہر نکل آتا ہوں۔‘‘

’’تو تم ہو جو رات میں بولتے ہو؟‘‘

’’ہاں تم نے مجھے مجبور کیا کہ میں تمھارے جسم سے باہر آؤں اور بے معنی اور وہمی خوف کو تار تار کر دوں۔‘‘

’’تم میرے خوف کو کیسے تار تار کر سکتے ہو؟‘‘ عورت نے سوال کیا۔

’’خواہش اور بندگی تمھارے خوف کو تار تار کر سکتی ہے۔‘‘

’’خواہش اور بندگی! میں تمھاری بات سمجھی نہیں۔۔۔‘‘

اس مخلوق نے بات آگے بڑھائی:

’’میں نے تجھ سے محبتیں کیں، ایک کو خواہش کہا

اور دوسری کو محبت،

محبت میں نے تیری بندگی کے لئے کی

کہ تجھ سے بڑھ کر محبت کا اور کون اہل ہے

تیری خواہش میرے جینے کا، میرے زندہ رہنے کا آسرا ہے

جیسے لوگ جینے کے لئے شغل ڈھونڈتے ہیں

اور میں نے تیرے آسرے میں جینے کا شغل اور زندہ رہنے کی خواہش

بہلا دی اور اب

مجھے کچھ بھی نظر نہیں آتا تیرے بغیر، جیسے روشنی کے بغیر

بینائی اندھا پن ہے

اب میں کیسے کہوں کہ میں تجھے دیکھتا ہوں اور کیسے کہوں کہ

میں جس شے کو پکارتا ہوں وہ پکار میری ہے یا وہ شے میری آنکھوں کا اثر ہے۔‘‘

اس عورت نے جواب دیا۔

’’میری موت میرے سامنے ہے، مجھے سنگ سار کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے اور تم مجھے محبت کا درس دے رہے ہو۔‘‘

’’اے عورت! میں تمھارے خوف کو مارنے میں نا اہل ہوں کیونکہ میں خود تمھارے خوف کی پیداوار ہوں۔‘‘

’’اگر تم مجھ سے کلام نہ کرتے تو میں آج بد چلنی کے الزام میں سنگسارنہ کی جاتی۔ میری موت کے تم ہی ذمہ دار ہو۔‘‘

عورت کی بات سن کر خوف کانپ اٹھا۔ ’’نہیں، نہیں مجھ میں اتنی بساط نہیں کہ میں کسی کی زندگی یا موت کا ذمہ دار ٹھہرایا جاؤں۔ تم جس سے کلام کرتی تھی وہ میں نہیں یہ درویش ہے۔‘‘

دیکھتے ہی دیکھتے وہ بچہ ایک بزرگ آدمی کی شکل میں تبدیل ہونے لگا جس کے بال سفید تھے، داڑھی سینے تک بڑھی ہوئی تھی، پیشانی پر شکنیں تھیں مگر آنکھیں نور کی روشنی سے چمک رہی تھیں۔

عورت اسی حالت میں خوف زدہ کھڑی رہی۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے پھر سوال کیا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘

’’میں تمھارے اندر کا درویش ہوں۔‘‘

’’میرے اندر کا۔۔!؟ عورت نے پھر سوال کیا۔

’’ہاں تمھارے اندر کا۔۔ میں ہر انسان میں موجود رہتا ہوں۔ کچھ مجھے سلا دیتے ہیں۔ کچھ جگا دیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو مجھے مار کر ختم کر دیتے ہیں مگر میں ابدی نیندکبھی نہیں سویا۔۔۔ جو مجھے آواز دیتا ہے میں اس کے جسم سے باہر آ کر اس کے سوالوں کا جواب دیتا ہوں، اس سے باتیں کرتا ہوں۔‘‘

’’تو تم ہو جس کی آواز بھیڑ نے سنی؟ تمھاری وجہ سے مجھے سنگسار کیا جا رہا ہے۔‘‘

عورت کی بات سن کر درویش کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہنے لگے۔ انھوں نے افسردہ لہجے میں کہا۔

’’اے عورت، سن!

’’دل رنگین ہے الف اللہ سے ،ب کی میں نے خبر نہیں پائی

ب جو پڑھوں تو سمجھ نہیں آئے، لذت ہے جو الف کی آئی

ع اور غ کو میں کیا جانوں، بات الف سمجھائی

بلہیا قول الف گئے پورے دل کی کرے جو صفائی‘‘

یہ کہتے ہوئے درویش نے بات آگے بڑھائی۔ ’’سن مظلوم عورت! تو نے الف سے دل کی صفائی تو نہ کی۔ ع غ کے خوف کو پال کر اپنی زندگی تو نے اپنے ہی ہاتھوں تار تار کر لی۔‘‘

عورت درویش کی بات کا مفہوم سمجھ گئی۔ سچ ہے اس کے جسم میں جتنے روئیں ہیں اس نے اتنے ہی خوف اپنے اندر پال رکھے ہیں۔ آج خوف کے اس مکڑ جال سے نکلے تو کیسے نکلے۔ سنگساری سے بچے تو کیسے، جان کی امان پائے تو کیسے۔۔ اس نے ایک ساتھ کئی سوال درویش سے کر ڈالے۔ جواب میں درویش نے کہا۔

’’تن کے سونے شر میں باہو

پڑھ پڑھ علم دکھائے سب کو تیری دانائی ہو

دودھ اگر پھٹ جائے باہو، کیا آئے بالائی ہو

سونا ہاتھ میں لے کر باہو، ہاتھ نہ بدلے رائی ہو

ٹوٹے دل جو راضی کرے، اس نے منزل پائی ہو

بت پڑھنے والا باہو، فاضل ہو گا کیسے ہو

جس نے لفظ حقیقت پایا، بخت اس کے اونچے ہو

ہفت افلاک کرے جگ روشن، پھر بھی ظلمت ناچے ہو

ہو حق کی قندیل نہیں تو، سارے علم ہیں قصے ہو۔۔‘‘

عورت نے پھر کہا۔۔ ’’اے درویش! میرے پورے جسم میں خوف خون بن کر سرایت کر چکا ہے۔ میری روح خوف کی اسیر ہے۔ میں تیری ان صوفیانہ باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘‘

’’تو پھر۔۔۔ تو وہ کر جو میں کہتا ہوں۔‘‘

’’تو کیا کہتا ہے درویش!؟‘‘ عورت درویش سے باتیں کر رہی تھی۔ مگر آنکھیں روشندان سے باہر کی بھیڑ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ جن کے ہاتھوں میں چھوٹے بڑے پتھر تھے۔ وہ اپنے اپنے گناہوں کو کم کرنے کے لئے بے حد بے تابی سے صبح کی پہلی کرن کا انتظار کر رہے تھے کہ کب چار دیواری میں قید وہ عورت باہر نکلے۔ اور کب اسے اس گڑھے میں آدھا دفنا کر سنگسار کیا جائے۔

عورت کی آنکھوں میں خوف کے گہرے سائے منڈلا رہے تھے۔ درویش نے آگے بڑھ کر اس کی پھٹی پھٹی آنکھوں پر اپنی ہتھیلی رکھ دی اور پھر یہ قول پڑھا۔:

’’’تو‘ کو ڈھونڈوں، ’میں‘ کو ڈھونڈوں، پاؤں ’تو‘ ہی ’تو‘‘

’’تو‘ اور ’یہ‘ اور ’میں‘‘

سب دیکھوں لا میں تھے موجود

وہ جو سچو کہلاتا تھا، کیا جانے اب کس اور گیا

نرم کلی سے پھول بنا، اور مجھ کو تکتا رہتا تھا

کوئی خبر نہیں جان اور جسم کو لے کے کون سی سمت گیا

کس کنج میں چپ بیٹھا، جو چلتا پھرتا رہتا تھا

سچو تو اس سمت گیا جس سمت سے اس کا بلاوا تھا‘‘

عورت نے درویش کی ہتھیلی کو اپنی آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے کہا۔

’’اے درویش! اگر تو میرے اندر موجود تھا تو پھر اچھی طرح جانتا ہو گا کہ میں بے قصور ہوں۔ میرے اوپر عائد کردہ بد چلنی کا الزام بے بنیاد ہے۔ اگر کوئی مورد الزام ہے تو خود تو ہے۔ اگر تو رات کی تنہائی اور اندھیرے میں میرے وجود سے باہر نکل کر مجھ سے باتیں نہ کرتا تو آج مجھے سنگسار نہ کیا جاتا۔ حالانکہ جب تو بولتا تھا تب میں نیند میں غافل ہوتی تھی۔ مجھے کچھ بھی علم نہیں کہ کیا ہوا۔‘‘

درویش نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’اے عورت! تو میرے ساتھ چل، اس جگہ جہاں خوف ایک بے معنی شے ہے۔ کیونکہ وہاں محبت کی سرشاری پھیلی رہتی ہے۔ اپنی رضا قضا کے سپرد کر کے زہر بھری تلخ زندگی کو شکر کی مانند شیریں کیوں نہیں بنا لیتی۔‘‘

۔۔ اور پھر عورت نے دیکھا کہ اس کا جسم ہوا میں تحلیل ہوتا ہوا ایک پرندہ بن گیا۔ درویش بھی اپنا جسم چھوڑ کر پرندے کی شکل میں آ گیا تھا۔ وہ دونوں روشن دان کی آہنی سلاخوں کو پار کر کے کھلے آسمان میں اڑنے لگے۔ بھیڑ گڑھے کی پہرہ داری میں اس حد تک ڈوبی تھی کہ کسی نے ان پرندوں کو سلاخوں سے باہر جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بشری پیکر کے تمام حدود کو پار کر کے وہ دونوں کھلے آسمان میں آزادانہ اڑ رہے تھے۔ اڑتے اڑتے انھیں ایک سمندر دکھائی دیا۔ صاف شفاف پانی جس میں ان کے عکس صاف نظر آ رہے تھے۔ پھر وہ ایک جزیرے کے پاس پہنچے۔ جیسے ہی ان کے پیر جزیرے کی زمین سے ٹکرائے وہ دونوں پرندے اپنی اصلی شکل میں آ گئے۔۔۔ ایک عورت۔۔ ایک درویش۔۔۔

عورت حیرانی سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ جزیرے پر کچھ عورتیں اور مردپہلے سے موجود تھے۔ وہ اپنے آپ میں اس قدر سرور و کیف میں تھے کہ انھیں ان کی آمد کا احساس ہی نہیں ہوا۔ وہ سب اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے وجد کی حالت میں رقص کرتے ہوئے محبت کے نغمے گا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر عورت کی حیرت اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی کہ وہاں موجود سبھی عورتوں اور مردوں کے جسم سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ ان کے ارد گرد نورانی ہیولہ بنا ہوا تھا۔ ان کا پیکر چاندی کی مانند چمک رہا تھا۔ وہاں کے سورج میں حدت نہیں تھی۔ ہوا میں تندی نہیں تھی۔ ہریالی نے رنگ برنگے پھولوں کی چادر تان رکھی تھی۔ فضا خوشگوار اور خوشبو سے معطر تھی۔ درویش عورت کو اور عورت اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ جہاں ب ت ع غ کا خوف نہیں تھا۔ اور ہر سمت الف کی رنگینی پھیلی تھی۔ اچانک عورت کو احساس ہوا کہ درویش اس کے قریب آ رہا ہے۔۔ قریب اور قریب۔۔ اتنے قریب کہ وہ اس کے وجود کو اپنا ہی وجود سمجھ بیٹھی۔ اچانک کسی نے پھسپھسا کر اس کے کان میں کہا۔

’’میں درویش نہیں، تمھارے اندر کا وہ نور ہوں جو تمھاری روحانیت کو وحدانیت کی روشنی سے منور کرتا ہے۔‘‘

۔۔۔ اور پھر اس نے دیکھا کہ وہ بھی جزیرے کی تمام عورتوں کی طرح نورانی ہو گئی ہے۔ انھیں کی طرح اس کے ہاتھ اوپر اٹھ گئے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی خوف کے محبت کے ترانے گانے لگی۔ سرشاری کی حالت میں اس نے رقص کرنا شروع کر دیا۔ اس کے پاؤں تھرک رہے تھے۔ جسم جھوم رہا تھا اور ہونٹوں پر عشقیہ بول تھے۔

اچانک تھرکتے پاؤں زمین سے چپک کر ساکت ہو گئے۔ جھومتا جسم خوف کے لرزے میں آ گیا۔ ہونٹوں پر عشقیہ بول تھرتھراتے ہوئے کانپ اٹھے۔ اس کی نگاہوں کے سامنے ہرا گنبد تھا۔ یہ وہ گنبد تھا جس کے حصار میں قید اس کی زندگی کا بیشتر حصہ خوف کے گہرے سائے میں گزرا تھا۔

اس نے یکلخت آنکھیں کھول دیں۔ خواب اور حقیقت کے درمیان اس نے خود کو جھولتے ہوئے پایا۔ بغل میں اس کی کمسن بیٹی بغل میں سوئی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے ذہن سے خوف کے عفریت سے نجات پانے کے لئے یادوں کا سہارا لیا۔ اب یادیں ہی تو بچی تھیں۔ ماضی سے حال تک جھولتی ہوئی یادیں۔ مستقبل تو ہمیشہ اس کے سامنے سوالیہ نشان کی طرح کھڑا رہا۔

اس نے ایک گہری نگاہ بیٹی کے چہرے پر ڈالی۔ وہ بھی کسی زمانے میں اس کی طرح زندگی کے نشیب و فراز سے لا علم والدین کی محفوظ چار دیواری میں آزاد پرندے کی طرح ادھر ادھر پھدکا کرتی تھی۔ بالغ ہوتے ہی ماں نے بڑا سا دوپٹہ اس کے سینے پر پھیلا دیا۔ گھر کے مذہبی ماحول نے اسے وقت سے پہلے دنیا کی اونچ نیچ سے روشناس کرا دیا تھا۔ مگر ساری باتیں کتابی تھیں۔ عملی زندگی میں وہ صفر تھی۔ کم سنی کے فطری جذبے گاہے بہ گاہے اس کے اندر اچکا کرتے اور وہ اپنی نا سمجھی سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتی رہتی۔

ان ہی دنوں بیرون ملک سے اس کے چچا زاد بھائی چند دنوں کے لئے اس کے گھر آیا ہوا تھا۔ عمر میں اس سے کئی سال بڑا۔ ایک شام والدین کی غیر موجود گی میں وہ اس کے قریب آیا۔ قریب۔۔ بہت قریب۔۔۔ اتنے قریب کہ حدوں کی دوریاں مٹ گئیں۔ اور پھر درمیان میں کچھ بھی حائل نہ رہا۔ اس رات چچا زاد بھائی نے گناہوں کی لذت کا پہلا چمچہ اس کے منھ میں ڈالا۔ ساتھ ہی خوف کا پہلا بیج بھی اس کی زمین میں بو دیا۔ خوف اس حد تک بڑھا کہ نرم زمین گھنا کٹیلا خوف کا جنگل بن گئی۔ چچا زاد بھائی کے واپس جاتے ہی جسمانی تبدیلی کا خوف اسے ستانے لگا۔ خوف کا یہ دائرہ پار کیا تو والدین کو خبر ہونے کا خوف گہرایا۔ اس کا دائرہ بھی پار ہوا تو شوہر کے علم ہو جانے کا خوف اسے ستانے لگا۔ خوف کی یہ حد بھی پار ہوئی تو ہرے گنبد کا خوف اسے لرزانے لگا۔ پھر ملک الموت کا خوف، سوال جواب کا خوف، اعمال کے حساب کتاب کا خوف، جہنم کے دہکتے انگاروں کا خوف۔۔۔

اس شب گناہوں کی لذت نے اس کے وجود میں خوف کا جو پہلا بیج بویا تھا وہ ہر سانس میں اس کی قیمت ادا کرتی چلی گئی۔

شوہر بیمار ملا جو اسی ایک چمچہ لذت کی سزا ہے۔ بیٹے کی امید میں بیٹی۔۔ دنیا میں گناہ یہ بھی اسی لذت کی سزا ہے۔ شوہر بے وقت مر گیا۔ اس کا سبب بھی وہی لذت ہے۔۔۔۔ خوف اور سزا کا ایک لمبا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔۔ خوف اس کے وجود کو اپنے خول میں سمیٹ چکا تھا۔

اس نے ایک گہری سانس لے کر خود کو سمجھانا چاہا کہ عورت کا جسم ہی خوف کی مٹی سے بنا مجسمہ ہے۔

نہیں اب وہ اپنے اندر کسی نئے خوف کو نہیں پالے گی۔ اس کے اوپر بچی کے مستقبل کو سنوارنے کی ذمہ داری ہے۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے جھک کر بیٹی کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اسی ایک بوسے نے اسے خوف کے گہرے کنویں میں پھر ڈھکیل دیا۔ گناہوں کی لذت کی شرساری اس کے گھر کے کس کونے سے کب اس کی بیٹی پر بھی ٹوٹ پڑے اور وہ بھی اس کی طرح ہی لامحدود خوف میں گرفتار ہو جائے۔ ایک نیا اندیشہ۔۔۔ ایک نیا خوف پھر اس کے اندر جاگ اٹھا۔

آنکھوں میں تھمے آنسوؤں کے بے شمار قطرے اس کے چہرے کو بھگو گئے۔ اس نے روشن دان سے باہر بھور کے آسمان کو دیکھا۔ فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ فریاد کے لئے دونوں ہاتھ اوپر اٹھ گئے۔ اس کے قدم آہستہ آہستہ روشن دان کی طرف بڑھنے لگے۔ سامنے ہی مسجد تھی۔۔۔۔ اور پھر خوف سے لرزتی آنکھیں ہرے گنبد کی پناہ میں آ گئی۔

دروازے پر ہونے والی دستک نے یکلخت اسے چونکا دیا۔ اس وقت کون ہو سکتا ہے! دستک پھر ہوئی۔ بے حد مانوس اور جانی پہچانی اور اپنی سی۔۔۔ اپنوں کو کھوئے ہوئے برسوں ہو گئے۔ پھر یہ کون آیا!! اسے حیرانی ہوئی اور پھر دستک لگاتار ہونے لگی۔ اس نے دروازے کی جھری سے باہر جھانکا۔ نیم تاریکی میں کوئی آدمی اٹیچی ہاتھ میں لئے دروازے پر کھڑا تھا۔ بغیر کچھ سوچے اس نے آہستہ سے دروازہ کھول دیا۔ ایک بے ربط چیخ اس کے ہونٹوں پر آ کر دم توڑ گئی۔ اسے اپنا وجود سائکلون کی زد میں آئے زرد پتے کی مانند لگا۔

’’میں۔۔۔‘‘ آنے والے نے کچھ کہنا چاہا۔

’’اتنے زمانے کے بعد۔۔۔۔‘‘ عورت نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

’’میں نے اپنے ابو اور امی کی رضا مندی لے لی تھی مگر میرے خط کے جواب میں تمھارے والدین نے لکھا تھا کہ تم۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’بس، خاموش!‘‘ عورت نے انتہائی اجنبی لہجے میں ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور پلٹ کر کمرے کے اندر دیکھا۔ اس کی بیٹی اسی طرح گہری نیند میں تھی۔

’’کیا مجھے اندر آنے کو نہیں کہو گی؟‘‘

تیس سال پہلے یہی وہ جملہ تھا جس نے اس رات گناہوں کی لذت میں خوف کا پہلا بیج اس کی مٹی میں بویا تھا۔

اس نے غور سے آنے والے کو دیکھا۔ آدھے سے زیادہ سفید بالوں سے ڈھکی ہوئی شکن آلودہ پیشانی، جھکی جھکی شرمندہ آنکھیں، اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر سفر کی ایک لمبی تھکان تھی۔ جس کا اس عورت نے ذرا بھی اثر نہیں لیا۔ وہ دو قدم پیچھے ہٹی اور آہستہ ہاتھوں سے دروازے کے دونوں پٹ بند کرنے لگی۔

’’میں آج بھی اکیلا ہوں۔‘‘

اس کی سماعت سے ٹکرانے والا یہ جملہ اکیلے پن کے کئی نشتر اس کے جسم میں پیوست کر گیا جس کی ناقابل برداشت تکلیف کو وہ بھی ایک مدت سے جھیلتی آ رہی تھی۔ اس نے چٹخنی چڑھائی اور اپنے نڈھال ہوتے جسم کو دروازے کا سہارا لے کر گرنے سے بچایا اور پھر اس نے دونوں ہتھیلیوں سے منھ ڈھک کر نکلنے والی چیخوں کو اپنے اندر گھونٹ لیا۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے