انتہائے کمال سے گوشۂ جمال تک (قسط ۵) ۔۔۔ قرۃ العین طاہرہ

سفر نامہ عمرہ قسط ۵

 

زیارات سے واپسی پر نمازِ ظہر سے پہلے مسجد نبویﷺ میں پہنچ چکے تھے۔ شاہد گائیڈ کو کہہ چکے تھے کہ بس میں رکھے گئے کھجوروں کے دونوں ڈبے ہوٹل مونا کے مرکزی استقبالیہ پر پہنچا دے۔ یہ کھجوریں مسجد قبلتین کے باہر کھڑے ایک ٹرک سے خریدی گئی تھیں۔ مسجدِ قبا اور مسجد قبلتین میں نوافل تو ادا کر لیے تھے لیکن اس دعا کے ساتھ کہ کم از کم مسجدِ قبا میں ایک مرتبہ پھر نوافل کی ادائگی کا سبب بنا دے۔ کھجور مارکیٹ بھی لے جایا گیا، پچھلی مرتبہ تو دکاندار خریدنے سے پہلے کھلے دل سے کھانے کے لیے پیش کرتے تھے اب کی مرتبہ ایسا کچھ نہ تھا۔ بلکہ عجوہ کھجور کی گھر یعنی ہوٹل مونا آنے کے بعد، پیکنگ کھول کر دیکھی گئی تو وہ ایسی سخت، خشک لکڑی کی مانند تھیں کہ جنھیں واپس کرنا پڑا۔

اب ہم مسجدِ نبوی میں سکون سے درود شریف پڑھتے اور دیگر ذکر و وظائف کرتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے لیے ہم اپنے ہوٹل نہ جانا چاہتے تھے کہ وقت ضائع ہو گا، لیکن ہمیں حرم نبویﷺ کے قرب و جوار میں کوئی جگہ کھانے کے لیے نہ ملی۔ بہت دل چاہتا تھا کہ گیٹ نمبر ۸ جس کے سامنے بازار تھا، جہاں کھجور یں، جائے نماز، تحائف، پھل اور سب سے بڑھ کر چائے، کافی وغیرہ کے سٹال کی موجودگی بہت مزا دیتی ہے، وہیں کھانے کا بھی کچھ بند و بست ہو جائے۔ پہلے روز بلکہ شب، عشا کے بعد ہم چائے کافی کے متلاشی اس بازار میں گھوم رہے تھے، جاوید بھائی دن میں وہ سٹال دیکھ چکے تھے اس لیے مشکل نہ ہوئی۔ وہاں پہنچ کر دو چائے کا آڈر دیا گیا جو کہ چینی اور دودھ کے بغیر ہو گی، ایک کافی جس میں دودھ تو ڈالا جائے لیکن چینی نہیں، ایک کپ کافی جس میں دودھ چینی سب کچھ ہو، چائے والا بلکہ چائے والے دونوں چکرا کے رہ گئے کہ ہم سب اپنی اپنی پسندیدہ چائے کافی۔۔ ۔ لائٹ کافی، سٹرانگ کافی میں کوئی کمی نہ دیکھنا چاہتے تھے اور انھیں مسلسل مشورے دے رہے تھے۔ اگر وہ مکہ کے ہوتے تو یلیٰ معافی کہہ کر ہمیں خاموش کروا دیتے بلکہ بری طرح ڈانٹ دیتے، لیکن یہ مدینہ کے خوش مزاج میزبان تھے اور ہماری فرمائشوں سے لطف لے رہے تھے۔ وہاں سے چائے، کافی اور کیک لے کر سامنے کھلی جگہ پر بنے بنچوں پر بیٹھ کر مزے سے کھاتے پیتے رہے۔ بعد میں ہمارا معمول بن گیا، جب بھی جی چاہتا اسی مقام پر بیٹھ کر چائے کافی پی لیتے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ اسی بازار میں کہیں کوئی کھانے کی جگہ بھی مل جائے لیکن وہاں ایسا کوئی انتظام نہ تھا۔ کھانے کی تلاش میں کبھی گیٹ نمبر ۱۵ سے باہر جاتے تو کبھی گیٹ نمبر ۲۲ سے اور آج بھی کافی تلاش کے بعد کافی دور ایک ایسے ریسٹورنٹ میں پہنچے جہاں انڈونیشینز اور ملائیشینز کھانے زیادہ تھے بہرحال کھانا کھایا اور پچھلے عمرے پر جن پاکستانی ہوٹلز سے کھانا کھایا کرتے تھے انھیں یاد کیا۔

واپسی پر مجھے موبائیل میں سم ڈلوانی تھی لیکن بینک نماز کے وقفے کے لیے بند تھا۔ مسجد نبوی واپس پہنچے اب ہم باب عثمان ۲۵ نمبر گیٹ سے اندر گئے۔ روضہ رسولﷺ جانے کا وقت، وقت سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ عصر کی نماز کے بعد میں اکیلی ہی سم لینے چلی گئی کہ شاہد نے کہہ دیا تھا کہ ہم جو اتنی دور سے گیٹ ۲۲ پر آئیں گے اور پھر تمھیں لے کر اس بنک تک آئیں گے، جگہ پہچان لو یہاں آ کر سم لے لینا۔ تو میں اب سم کے انتظار میں بنک میں بیٹھی تھی باہر بہت لمبی قطار لگی تھی۔ ذرا دیر بعد ہی مڑ کر دیکھا تو شاہد صاحب بھی اندر آتے دکھائی دیے۔ سم لے کر باہر نکلے تو جاوید بھائی کو بھی منتظر پایا، کہ وہ دونوں بھی نماز عصر ادا کرتے ہی نکل آئے تھے کہ تم اکیلی کیسے جاؤ گی۔

باب عثمان میں دروازے کے ساتھ ہی لائبریری موجود ہے، میں اپنی کتابیں ’’عجب اک سلسلہ ہے‘‘ اور ’’دسترس میں آسمان‘‘ دینے کے لیے لے گئی، وہاں موجود منتظمہ نے حسب معمول و عادت بات سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی، وہاں موجود ایک خاتون نے انھیں عربی میں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ اپنی کتابیں اس مکتبہ میں ہدیہ کرنا چاہتی ہیں تو کہنے لگیں کہ ام عائشہ کو دے دیں وہ پڑھ کر اجازت دیں گی تو ہم یہ کتابیں یہاں رکھ لیں گے۔ آپ ایسا کریں کہ یہ کتابیں یہاں رکھ جائیں، وہ آنے ہی والی ہیں۔ لیکن میں نے تو کتابوں سمیت وہاں سے نکلنا بہتر سمجھا کہ عجب اک سلسلہ ہے میں ایک پورا باب انھیں معلمہ سے متعلق تھا۔ اور اب بھی ہم دو تین مرتبہ ان کے وعظ سے مستفید ہو چکے تھے جس میں بہت سے تکرار کے پہلو نکلتے تھے لیکن ہم خوف فسادِ خلق خدا کی بنا پر خاموش رہتے۔

۳۰ نومبر بدھ کے روز مسجد قبا جانے کی نیت تھی کہ کل تو تمام زائرین کے ساتھ گئے تھے، نوافل ادا تو کیے تھے لیکن اس دھڑکے کے ساتھ کہ ہماری وجہ سے دیگر زائرین کو دیر نہ ہو جائے یہ اور بات کہ جب ہم بس میں پہنچے تو بس تقریباً خالی تھی لوگ عبادت و خریداری میں مصروف تھے۔ تو اب ہم نماز فجر کی ادائگی کے بعد گیٹ نمبر سات سے نکل کر اس وین کے متلاشی تھے جو ہمیں سیدھا مسجدِ قبا لے جائے لیکن وہاں تو تمام ڈرائیور حضرات زیارہ زیارہ کا شور مچاتے تھے، صرف قبا جانے کے لیے کوئی آمادہ نہ تھا، دو ایک ٹیکسی والوں سے بات کی وہ منہ مانگا کرایہ چاہتے تھے، ابھی ان سے گفت و شنید جاری تھی کہ ایک وین ڈرائیور مسجد قبا جانے کا مژدہ سناتے ہوئے ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنے لگا اور ہم دو دو ریال فی نفر، اس میں جا بیٹھے۔ اب مرحلہ شروع ہوا وین بھرنے کا، اس نے خاصے آوازے لگائے لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ کہنے لگا میں ذرا دوسرے گیٹ تک چکر لگا لوں وہاں بھی ناکام رہا۔ ہمیں دیر ہو رہی تھی کہ ہم آج مسجد قبا میں زیادہ وقت گزارنا چاہتے تھے ہمیں وہ تسلی دیتا جا رہا تھا کہ میں سیدھا مسجدِ قبا ہی جا رہا ہوں لیکن اس نے پوری مسجدِ نبویﷺ کا بیرونی چکر لگا کر ہماری وہ خواہش پوری کر دی کہ کسی وقت اس مسجد کی چاروں اطراف کا جائزہ لیں گے، کہ حضور پاکﷺ کے عہد مبارک میں مدینے کا رقبہ اتنا ہی تھا جو اب حرم میں سم اچکا ہے۔ مسجد قبا پہنچ کر پہلے ناشتے کا ارادہ کیا تاکہ سکون سے عبادت کر سکیں لیکن وہاں ہمارا روز مرہ کا ناشتہ یعنی نان پراٹھے انڈے سالن کچھ دستیاب نہ تھا، مجبوراً چائے کافی اور ڈونٹس وغیرہ پر گزارا کیا، ایک صاحب تسبیحات کا تحفہ دے رہے تھے انھوں نے مجھے اور ثروت باجی کو تسبیحات دیں۔ اب ہم مسجد قبا کی بالائی منزل پر جاتے تھے، آج نسبتاً کم خواتین تھیں، ہم نے ایک کونہ مختص کیا تحیۃ المسجد کے بعد اسلاف کے ایصالِ ثواب کے لیے اور اخلاف کو ہدیہ کرنے کی نیت سے نوافل کی ادائگی کا آغاز کیا، آدھ گھنٹے بعد صلوۃ التسبیح شروع کی۔ مکہ میں مسجد عائشہ اور مدینہ میں مسجد قبا ہی ہیں جہاں خدائے لا مکاں کے ہم اسیر زمان و مکان بندوں کو حرمین شریفین کے علاوہ جہاں کچھ روحانی بالیدگی کا نامعلوم سا احساس، حاضری میں ہلکی سی حضوری کی کیفیت سے سرشار کرتی اور اپنی ذات و زندگی کی رائگانی کے احساس کو کم کرتی ہیں۔ واپسی پر ٹیکسی لی اور حرم نبویﷺ پہنچے۔

عصر کے بعد ثروت باجی کو ایک خاتون سے محو گفتگو پایا معلوم ہوا کہ حیدرآباد دکن سے تعلق ہے، سکول ٹیچر ہیں۔ میں چاہتی تھی کہ کوئی انڈیا اور بنگلہ دیش کا مناسب بندہ ملا تو اپنی کتابیں وہاں کسی لائبریری میں رکھوانے کے لیے ضرور دوں گی۔ چند منٹوں کی گفتگو میں ہی احساس ہو گیا کہ اس کام کے لیے یہ بہترین ثابت ہوں گی لیکن دیکھا تو میرے تھیلے میں آج صرف ایک ہی کتاب تھی، تاثراتِ حج پر مشتمل ’’دسترس میں آسمان‘‘ انھیں ’’افشاں قدیر کی خدمت میں، بہت محبت کے ساتھ‘‘ لکھ کر پیش کی، اس درخواست کے ساتھ کہ اپنے سکول کی لائبریری میں رکھوا دیں، کہنے لگیں میں آپ کو صاف بتا رہی ہوں میں لائبریری میں بالکل نہیں رکھواؤں گی۔ وہاں جو تھوڑی بہت کتابیں ہیں کبھی کسی نے کھول کر نہیں دیکھیں، میں حج پروگراموں میں شرکت کرتی ہوں۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین کی حسبِ مقدور مدد و رہنمائی کرتی ہوں، تو یہ کتاب مجھے اس سلسلے میں بہت کام آئے گی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کتاب صحیح ہاتھوں میں دی گئی۔

۳۰ نومبر، جمعرات کو روزہ رکھنے کی نیت تھی۔ حدیثِ مبارکﷺ ہے ’’اعمال سوموار اور جمعرات کے دن اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں، چنانچہ مجھے یہ پسند ہے کہ میرے اعمال اس حالت میں پیش کیے جائیں کہ میں روزے دار ہوں‘‘ رات کا کھانا لیتے ہوئے میری سحری کے لیے بھی انتظام کر لیا گیا۔ آج میں نے کہہ دیا تھا کہ میں فجر کے بعد واپس نہیں آؤں گی بلکہ عشا کے بعد واپسی ہو گی۔ فجر کی نماز باب عبد المجید میں ہی ادا کی۔ تسبیح و اذکار کے بعد صلوۃ التسبیح ادا کی اور نو بجے کے بعد بابِ عثمان کی طرف چل دی، ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ روزہ ہے خود کو مشقت سے دور رکھنا ہے لیکن ایک آس تھی کہ شاید روضہ رسولﷺ کی زیارت کی کوئی سبیل نکل آئے، اس آس پر ہر تھکن قربان۔۔ میں باب عبد المجید گیٹ نمبر ۱۳ سے باہر صحن میں نکل آئی ایک طویل مسافت کے بعد بابِ عثمان گیٹ نمبر ۲۵ پر تھی۔ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اس وقت تک تو ریاض الجنۃ کی زیارت کے لیے خواتین کو لے جایا جا چکا ہو گا اور میری باری آنے سے پہلے ہی باب بند ہو چکا ہو گا لیکن ہوا یہ کہ جیسے ہی میں نے قدم اندر رکھا، غالباً یہ اسی روز کی بات ہے یا کسی اگلے روز کی، دروازے پر ہی مجھے ایک شناسا چہرہ نظر آیا، پروین صادق، دروازے پر شرطیاں پڑتال میں مصروف ہوتی ہیں، جی چاہتا ہے ان سے جلدی سے جان چھڑا کر اندر پہنچا جائے۔ پھر بھی میں نے پلٹ کر اس خاتون کی جانب نگاہ کی اور اپنے ہی خیال کی تردید کی۔۔ ۔ تیزی سے اندر پہنچی

معلوم ہوا کہ ریاض الجنۃ جانے کے لیے تمام در وا ہیں، میں بہت تیز تیز قدموں سے اکیلی چلتی جا رہی تھی ورنہ تو جب بھی اس جنت کے گوشے میں جانے کا اتفاق ہوا ایک پر شوق ہجوم ہمراہ ہوا کرتا تھا اور اندر داخل ہونے تک بے شمار وقفے برداشت کرنا ہوتے تھے اور میں آج بالکل آرام کے ساتھ چلتی سبز قالینوں تک پہنچ گئی۔ دل میں شکر الحمد للہ اور زبان پر درود شریف کے کلمات تھے۔ یاد نہیں چھ، آٹھ کتنے نوافل پڑھے، لیکن خوشی و طمانیت کا احساس لیے ریاض الجنۃ سے واپس ہوئی، مجھے باب عبد المجید جانے کے لیے ایک طویل فاصلہ طے کرنا تھا لیکن اب میں باب عمرسے اندر داخل ہوئی اور صحن کے اندر ہی اندر چلتی ہوئی باب عبد المجید میں جہاں ہم عمومی طور پر نماز ادا کیا کرتے تھے، پہنچ گئی۔ عصر کے بعد سے ہی افطار کے لیے تیاریاں شروع ہو گئیں۔ افطار کے وقت کی گئی دعا کو شرف قبولیت بخشا جاتا ہے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ وقت مٹھی میں ریت کی مانند پھسلتا جاتا ہے۔ اپنے لیے، بہن بھائیوں کے لیے، عزیزوں کے لیے اور ان سب کے لیے جن کا خیال اللہ میاں نے دل میں ڈال دیا، بہت دعا کی۔ بھائی خالد جہانگیر کا بیٹا اچانک کمپیوٹر لگاتے ہوئے کرنٹ لگنے سے آخری سفر پر روانہ ہوا۔ گجرات میں تھے تو یہ دل دکھا دینے والی خبر ملی، اسلام آباد پہنچتے ہی ان سے ملنے گئے۔ دائمی جدائی کا صدمہ باپ کے لیے ناقابلِ برداشت دکھائی دیتا تھا۔ تو سارے عمرے کے دوران، اس کی مغفرت، جسے کبھی دیکھا بھی نہ تھا اور اس کے والد کے صبر کی دعا ہمراہ رہی۔

افطار سے پہلے پہلے کالج، اسلامک یونی ورسٹی، اردو یونی ورسٹی، واہ و گجرات و اسلام آباد و کراچی و دبئی کے ساتھی و عزیز سبھی یاد آتے رہے، دعا مانگنے کا سلیقہ سیکھنا ہو تو ثروت باجی سے، میں تو بس انتہائی بے ترتیبی سے دعا مانگتی ہوں۔ یہی حال تسبیحات کا ہے، بس یہ یاد رہتا ہے کہ درود شریف پڑھنا ہے، وقفے وقفے سے درودِ پاک کا ورد جاری رہتا ہے، دانش نے ایک چھوٹی سی درود شریف کی کتاب دی تھی خواہش ہوا کرتی تھی کہ دن میں کم از کم ایک مرتبہ وہ ضرور پڑھ لوں۔ دعاؤں کی قبولیت کا یقین دعا اور بار بار دعا کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ اللہ نے ہماری دعا قبول نہیں کی تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس نے اس دعا کے عوض ہماری کسی برائی کو دور کیا یا کسی نقصان سے بچا لیا۔ جب کوئی بندہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کامل الحیا کو شرم آتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا یا جائے۔ یہاں مجھے ایک بات یاد آئی ہم بہت باتوں کو معمولی جان کر ان پر توجہ نہیں دیتے لیکن وہ اتنی غیر اہم نہیں ہوتیں۔ ایک روز میں ہاتھوں کا پیالہ بنائے دعا مانگ رہی تھی کہ میرے ساتھ بیٹھی ترک خاتون نے میرا دایاں ہاتھ جو میں نے بائیں ہاتھ کے نیچے رکھا ہوا تھا، اٹھا کر اوپر رکھ دیا، مجھے احساس ہوا کہ ایک مرتبہ حج کے موقع پر ایک عربی نے مجھے بائیں ہاتھ میں سیب پکڑے دیکھ کر کہا تھا، یمین، یمین رحمان، یسار یسار شیطان تو نادانستگی میں ہم بہت کچھ غلط کر رہے ہوتے ہیں۔ تو دعا سب کے لیے کی دل سے کی اس نیت کے ساتھ کی کہ جلد یا بدیر قبول ہو گی۔

کہا جاتا ہے کہ مسلمان بھائی کے لیے اس کی عدم موجودگی میں کی گئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اے اللہ دانش، آمنہ، رائم، ریوا، صائم، سرمد، ماریہ، نوفل، نافع، فارد اور منزہ سبھی دیارِ حبیب اور درِ کعبہ حاضری کے لیے بلاوے کے منتظر ہیں، ان سب کے لیے، تمام مسلمانوں کے لیے ایسے اسباب پیدا فرما کہ وہ یہاں سجدۂ شوق ادا کر سکیں۔ آمین

’’اے اللہ بڑھاپے کی اذیت سے بچا، اخیر عمر میں صحت و رزق کی فراوانی عطا فرما۔۔ بھلا کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور کون ہے جو اس کی تکلیف دور کرتا ہے۔

اے اللہ کوئی بھی امر سہل نہیں سوائے اس کے کہ آپ اسے آسان فرما دیں۔

اے اللہ بے شک میں غیر نفع بخش علم، نا مقبول عمل اور نہ ڈرنے والے دل اور غیر مقبول بات سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بے شک میں کفر، محتاجی اور عذابِ قبر سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔

لوگو اپنے رب سے چپکے چپکے اور عاجزی سے دعا مانگو۔ اللہ ضرور سنتا ہے۔‘‘

(جاری ہے)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے