انتخابِ شادؔ عارفی، نظمیں

نظمیں

               شاد عارفی

شوفر

 ’’ کھٹ کھٹ۔ کون؟ صبیحہ! کیسے؟ یونہی کوئی کام نہیں

پچھلی رات، بھیانک گیرج، کیا کچھ انجام، نہیں

میرا ذمّہ، میں آئی ہوں ، تم پر کچھ الزام نہیں

ہم ہیں اس تہذیب کے پَیرو ہم ہیں اس اخلاق کے لوگ

جس میں عصمت اک مفروضہ، عفّت جس میں ذہنی روگ

جذبوں پر پہرے بٹھلانا، کیا سودائے خام نہیں

’دو بچوں کے باپ‘ تو کیا ہے؟ دل کا ہو انسان جوان

تم بھی ایسے بن جاؤ نا۔ جیسے منجھلے بھائی جان

سالی اور سلہج پر لٹّو، بیوی سے حمّام نہیں

 ’’ان سے‘‘ یہ تہذیب میں اونچی، چھوٹے بھائی سے وقتی چاہ

شوہر آئے نہ آئے لیکن دیور کی تکتی ہیں راہ

خواہش کی تکمیل بھی جاری ، شادی بھی ناکام نہیں

نوکر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نمک اور مذہب کی تاویلوں سے باز آؤ

مردوں کی اس بے جا نیکی پر مجھ کو آتا ہے تاؤ

’ عورت کے ہونٹوں پہ ٹھپّہ‘‘ اب مقبولِ عام نہیں

ہفتہ کی اک رات،  جگالی جائے ، تو یہ عیب کہاں

ظاہر ہے پاپا، مامی کو حاصل علمِ غیب کہاں

 ’’ہر ہفتے اب غسل کی طے ہے ‘‘ یعنی اذنِ عام نہیں

جاتی ہوں ، گھبراتے کیوں ہو، یہ یکجائی ’’ بور‘‘ ہے کیا

 ’’ دو دِل راضی‘‘ کے بارے میں قاضی کا کچھ زور ہے کیا

لو یہ دس کا نوٹ ، تمھاری اُجرت ہے، انعام نہیں

٭٭٭

 

 

مہترانی

ٹھہراؤ مست بے پروا یہ کیا جھاڑو لگائی ہے

کہ ہر ہر ہاتھ پر قربان دِیدے کی صفائی ہے

وہ تبّت، یہ ترائی اور وہ لنکا بنائی ہے

یہ پیمانوں کے ٹکڑے یہ سبُو کے یہ سگاروں کے

یہ گلدستوں کے اُجڑے باغ  یہ ار مان ہاروں کے

یہ لاشے راکھ میں لپٹے ہوئے بکھرے شراروں کے

یہ کمرہ دیکھ تیری نوجوانی کی طرح مَیلا

قدم لیتا ہے اُٹھ اُٹھ کر غبارِ گیسوئے لیلا

چلی آ بے دھڑک اندر، جیا کے پاؤں مت پھیلا

ہٹو رستے سے ورنہ سر پہ خاک انداز دیتی ہوں

نہ جانے دو گے؟ جھاڑو کو پرِ پرواز دیتی ہوں

بڑے کمرے میں ہوں گی مالکن، آواز دیتی ہوں

گئی بھی دوست کے ہمراہ وہ دلّی ہوا کھانے

ہوا کھانے کے اندر جذب ہیں کالج کے یارانے

 ’’ نگوڑی بیگمیں ہیں یا کسی بھٹّی کے پیمانے‘‘

مری جاں ! تو ابھی تہذیبِ مشرق کی چمیلی ہے

ابھی اُلفت میں کچّی گولیاں شوہر سے کھیلی ہے

مزے میں آج کل وہ ہے جو آزادی کی چیلی ہے

میں کہتا ہوں اگر اندازِ مغرب تجھ کو چھُو جائے

تو پکّے آم کی صورت مرے پہلو میں چُو جائے

نہ میری آرزو کچلے نہ تیری آبرو جائے

جنھیں عفّت کا محمل اک تہی دامن محافہ ہے

دیانت سے جہاں مقصود اک رنگیں لفافہ ہے

وہاں کیا کیا ترقی ہے، وہاں کیا کیا اضافہ ہے

مرا رُتبہ ہو یا دیوان صاحب کی بلندی ہو

کوئی اعزاز نام آور ہو یا اقبال مندی ہو

نہیں آساں جو شوہر کی طرح بیوی نہ گندی ہو

یہی دیوان  صاحب، تھے جو نمبر دس کے آوارہ

جنھیں حاصل نہ تھا قانون کے خطرے سے چھٹکارہ

قلوپطرہ سی بیوی ہاتھ آنی تھی کہ پو بارہ

یہ وہ عورت کہ جس کی خود روی موٹر سے ڈولی تک

حجابِ دامنِ عصمت ہی کیا، مجروح چولی تک

شبابِ شعلہ خو کی موج دیوالی سے ہولی تک

بڑی دم باز، حیلہ جوُ، بڑی کھُل کھیلنے والی

جسے یہ سوچنا دُوبھر کہ یہ مہتر ہے، یہ مالی

بڑی ’’ بے تال‘‘ سازندہ جو ’’ سم‘ ‘تک بھی نہ دے خالی

لگا کر مجھ کو باتوں میں ، نہ ڈالو ہاتھ سینے پر

کہاں تک پنجۂ فولاد نازک آبگینے پر

جو ڈاکہ ڈال کر پی جائے لعنت ایسے پینے پر

طپنچہ سے ہرانا چاہتے ہو تم تو میں ہاری

ہوَس کے سامنے انسان کی جاتی ہے مَت ماری

تمھیں کچھ سوجھتا بھی ہے، مرا جمپر، مری ساری

اری سنتی ہے! بیرا دو روپے انعام لایا ہے

مگر وہ کون خدمت ہے یہ جس کے دام لایا ہے

ستمبر میں اضافہ کے لیے پیغام لایا ہے

٭٭٭

 

 

ساس

نمک سالن میں اِتنا تیز۔ توبہ

مزَعفر ڈالڈا آمیز۔ توبہ

بہو، اور ساس رستاخیز۔ توبہ

کِسے پیٹوں ، کِسے ڈالوں کٹاون

کہاں غائب ہے پن کٹّی کی ہاون

اری مُردار یہ ٹسووں کا ساون

ڈراتی ہے مجھے جھڑیاں لگا کر

گِرا دے چلمنیں چڑیاں اُڑا کر

کہوں کب تک نہ چل کولھے ہلا کر

یہی اسکول میں سیکھا ہے تو نے

 ’’بڑے بیباک‘‘ مغرب کے نمونے

پڑھایا ہے پڑوسن کی بہو نے

یہ وہ قحبہ، کہ اِک دن یاد آیا

مری ماما سے اک اُلّو منگایا

پکا کر اپنے شوہر کو کھلایا

جونہی کھایا کہ اس کی کٹ گئی مت

بدی پر جب اُتر آئی ہے جرأت

حدوں کو پار کر جاتی ہے عورت

اسی نے تجھ کو بھی تعویذ گنڈے

ہوائی قلعوں کے برجوں پہ جھنڈے

مرے سر تھی کھلا دوں ’ ان کو‘ انڈے

مگر میں نے کہا۔ اللہ توبہ

وہ خود چلتے ہیں سیدھی راہ توبہ

ترا لگتا ہے کلّو شاہ! توبہ

ترا شوہر ہے اس بندی کا بیٹا

وہ کب کرتا تھا۔ میں نے سر چَپیٹا

بُرا ہوتا ہے قسمت کا لپیٹا

خدا سمجھے، یہ ساری کون جامہ

جو پہنے ’’ساجدہ‘‘ بن جائے ’’ شاما‘‘

لونڈر، چھوڑ کر عطرِ شماما!

چھچھوندر کا سا بھپکا۔ مار ڈالا

یہ کس بھڑوے نے تھا پوڈر نکالا

نگاہوں کے لیے مکڑی کا جالا

مسلمانوں میں یہ بِندی کی پھِٹکار

صدا دیتی نہیں شیطان کی مار

یہ ہندو ماسٹرنی سے جو ہے پیار

لیے پھرتی ہے بِن شوہر کا بچّہ

مگر ’’ مس صاحبہ‘‘ ہونے کا غچّہ

یہ ’’ لے پالک‘‘ اری تو جان سچّا

تکے جاتی ہے منھ، کچھ پھُوٹ منہ سے

نکالا چاہتی ہے کام ’’ اونہہ‘‘ سے

دو ہتّر، سر پہ دوں ، سینے پہ گھونسے

٭٭٭

 

 

آپ کی تعریف

(۱)

ان کو ’’ادبارِ سخن‘‘ کہتے ہیں لوگ

مغبچوں پر شعر فرمانے میں طاق

داخلِ عادت ہے ’’ایرانی مذاق‘‘

 ’’قحط‘‘ میں ’’ارشاد سعدیؔ کے خلاف‘‘

عشق پر اصرار ، کستاخی معاف

اس تامّل میں کہ ہو جائے نہ جیل

مَلتے ہیں اشعار پر سانڈے کا تیل

بد قماش و ننگِ فن کہتے ہیں لوگ

ان کو ’’ادبارِ سخن‘‘ کہتے ہیں لوگ

(۲)

پیر ’’گلشن شاہ‘‘ سے بیعت ہیں آپ

سونگھتے ہیں پھول کھاتے کچھ نہیں

جھوٹ ہے، پیتے پلاتے کچھ نہیں

خلوتوں میں ’’مرغ و ماہی کے سوا‘‘

کر چکے ہیں ’’ترکِ حیوان و غذا‘‘

بخشتی ہے آپ کی مِیٹھی نظر

بانجھ کو اولاد اور کنواری کو بَر

بند کِیجے منھ بڑے حضرت ہیں آپ

پیر ’’گلشن شاہ‘‘ سے بیعت ہیں آپ

(۳)

آپ  ظلّ اللہ و عالی جاہ تھے

ناچنے میں آپ کا ثانی نہ تھا

 ’’بھاؤ‘‘ میں امکانِ ارزانی نہ تھا

غلبۂ کیف و نشاط و انبساط

بزم سے خارج حجاب و احتیاط

 ’’مابدولت‘‘ کا اعادہ بار بار

اور ’’ ایں جانب‘‘ سے ’’تاکیدِ وقار‘‘

انقلاب آیا تو پرِّ کاہ تھے

آپ ظلّ اللہ و عالی جاہ تھے

(۴)

یہ فلاں بیگم، یہ بیٹی، یہ بہو

تو نہ کہہ میری نہ میں تیری کہوں

کوئی مانع کوئی حارج ہو تو کیوں

 ’’ایک مقصد ، ایک مقصودِ نظر‘‘

اتّحادِ باہمیِ خیر و شر

اجتماعی استفادے کا سوال

لا نہیں سکتا رقابت کا خیال

ہوں ، اگر دامن ہیں محتاجِ رفو

یہ فلاں بیگم، یہ بیٹی، یہ بہو

(۵)

کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں

بلبلِ فردوس کے سالے ہیں یہ

بات اتنی ہے ذرا کالے ہیں یہ

چِھن چکی جاگیر، آمد بند ہے

اب فقط افیون میں آنند ہے

 ’’پھل پھلاری‘‘ بیچتے ہیں آج کل

 ’’بھوگتا ہے آدمی کرنی کے پھل‘‘

ہیں پریشاں حال، دیوانے نہیں

کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں

(۶)

لگ چکا ہے ان کی ڈاڑھی کو کلَف

یہ غلامانِ سیاست اقتدار

قوم کے کاندھوں پہ رہتے ہیں سوار

دیکھنے میں ’’ہستیِ معقول‘‘ بھی

 ’’پردہ دارِ عیب‘‘ زرّیں جھول بھی

چغلیاں کھاتے ہیں کردار و عمل

عقل کو لاحق ہے ’’کرسی‘‘ کا خلل

دیکھنا تالی پِٹے گی ہر طرف

لگ چکا ہے ان کی ڈاڑھی کو کلف

(۷)

لکھ پتی ہیں آپ۔ مِلیے آپ سے

کام چالو ہے ’’پرائے مال پر‘‘

آسرا گویا ہر اک دلّال پر

ناک، نقشہ، قد، کمر، کولھے، اٹھان

آنکھ ، پلکیں ، ہونٹ، سینہ، پیٹ، ران

بھیڑ بکری کی طرح عورت کا مول

ہِشت! اتنی عمر اور پٹّھوں پہ جھول

بھانپیے کردار منھ کی بھاپ سے

لکھ پتی ہیں آپ۔ ملیے آپ سے

(۸)

آپ ہیں شاہی حکیم ابنِ حکیم

کرتے ہیں مخصوص مردانہ علاج

نذرِ امساک و طلا شاہوں کے تاج

کشتۂ سیماب و سمّ الفار بھی

شحمِ خوکؔ و سوسمار  و مارؔ بھی

کیجیے مالش ابھی اور جائیے

 ’’ماحضر‘‘ پر تجربہ فرمائیے

اُمِّ سلمیٰ یہ ہے وہ بنتِ سلیم

آپ ہیں شاہی حکیم ابنِ حکیم

(۹)

یہ مدرّس ہیں کسی اسکول میں

پانچ بچّے ایک بیوی ایک ماں

بیس ماہانہ بہت ہیں ، کم کہاں ؟

ان کے جوتے بخیہ گر سیتے نہیں

سول بھی غائب اگر فیتے نہیں

ٹیوشن چاہیں تو کر سکتے نہیں

سر کھپا کر پیٹ بھر سکتے نہیں

لوٹ کر آئے ہوں جیسے دھول میں

یہ مدرّس ہیں کسی اسکول میں

(۱۰)

حافظِ قرآن ہیں ، قاری ہیں یہ

گھر پہ کچھ بچوں کودو آنے سبق

قرأت و تجوید پر سعیِ ادق

پاؤں میں جوتا نہ کپڑا تن پہ ہے

نیستی چھائی ہوئی مسکن پہ ہے

لیتے ہیں صدقاتِ عیدالفطر بھی

رہتی ہے دو روٹیوں کی فکر بھی

قوم سے مایوسِ غم خواری ہیں یہ

حافظِ قرآن ہیں قاری ہیں یہ

(۱۱)

معتصم باللہ نامی مولوی

آپ ہیں پرہیزگار و نیک خو

غسل کی تعلیم و ترتیبِ وضو

اب تہجّد، چاشت جب، ’’اشراق‘‘ تب

ہے تیمم کا مگر اطلاق کب؟

یہ صلہ اس درس، اس تدریس کا

خرچ سو کا اور وسیلہ تیس کا

عہدِ نو میں ہیں سپردِ مفلسی

معتصم باللہ نامی مولوی

(۱۲)

لکھنؤ ٹائپ پروفیسر ہیں آپ

اچکنیں گرمی میں اور جاڑوں میں سُوٹ

فخرِ آبا پر قصیدے جھوٹ موٹ

روز دو گھنٹے کو لیتے ہیں کلاس

اور لڑکے فیل ہو جائیں کہ پاس

پانسو تنخواہ اور ’’لاجنگ فری‘‘

ہائے تنظیمِ وطن کی زر گری

حافظِ قرآن سے بہتر ہیں آپ

لکھنؤ ٹائپ پروفیسر ہیں آپ

(۱۳)

مال پر ٹی۔ پی کلینک ان کا ہے

آپ کو تھی عالمِ بالا میں دِق

داخلِ فطرت ہے جرثوموں کی ’’شق‘‘

منتقل ہو کر چچا میں ، باپ میں

آپ کے دادا سے آئی آپ میں

پھیپھڑوں کا ’’ایکس رے‘‘ کر وائیے

فیس! کیا حاجت ہے۔ اچھّا لائیے

مشورہ ہر طرح مہلک ان کا ہے

 ’’مال‘‘ پر ٹی۔ بی کلینک ان کا ہے

(۱۴)

حِرص کی دِق کھائے جاتی ہے انھیں

یہ جو الجھن آپ کو آنتوں کی ہے

سب خرابی آپ کے دانتوں کی ہے

یہ مسوڑھا پیپ سے بھرپور ہے

دو روپے فی دانت کا دستور ہے

بد نما چہرے کا غم کیوں کیجیے

ایک بتّیسی نہ بنوا لیجیے

نِت نئی چالیں سکھاتی ہے انھیں

حرص کی دِق کھائے جاتی ہے انھیں

(۱۵)

یہ کروڑی مل ہزاری لال ہیں

ڈاکٹر بھی ہیں ، طبیب و وید بھی

مطمئن ہیں ان سے بکر و زید بھی

ماہرِ امراضِ چشم و بے سند

ہوں اگر روہے، بتاتے ہیں ’’رمد‘‘

نذر پکڑے بِن نہیں مِلتا دماغ

مفت کا پرچار۔ کورا سبز باغ

آدمیّت سے نرے کنگال ہیں

یہ کروڑی مل ، ہزاری لال ہیں

(۱۶)

ڈالیے یہ سب دوائیں صبح و شام

جی نہیں ، ہو گی نہ سُرخی دُور کیوں

پھٹ گیا یہ ’’زخم کا انگور‘‘ کیوں

اِس میں ’ پنکی‘ اِس میں ’ وہائٹ پینٹ ہے‘

ہر دوا مخصوص ہے پیٹنٹ ہے

’رِڈ بلُو‘ یہ ہے تو وہ’ سلور ڈراپ‘

تاکہ اصلیت سمجھ پائیں نہ آپ

سگرٹوں پر جن کے رکھ چھوڑے ہیں نام

ڈالیے یہ سب دوائیں صبح و شام

(۱۷)

ہیں تو ’’بی۔ اے‘‘ نام ایم۔ اے خان ہے

یہ شکایت ہے خداسے آپ کو

کیوں نہ مغرب میں اتارا باپ کو

عقد’ کالی ماں ‘ سے فرماتے نہ یہ

اور مشرق میں جنم پاتے نہ یہ

ناچتے جا جا کے’ رائل ہال‘ میں

پھانستے شہزادیوں کو جال میں

ان کی’ رنگت‘ پر تَوا حیران ہے

ہیں تو بی۔ اے نام ایم۔ اے خان ہے

(۱۸)

لائے ہیں لندن سے بوڑھی میم ساتھ

ڈالیاں ، تحفے، سفارش، مئے، شباب

’آئی سی ایس‘ کو کلیدِ فتحِ باب

’فیملی ممبر‘ بنے تھے اس کے ہاں

چشمِ مغرب میں شعورِ سن کہاں

الغرض پلٹے جو صاحب اپنے گھر

تھی یہ’ ناکارہ سلیپر‘ ہم سفر

آپ سے پہلے ملاؤ اس سے ہاتھ

لائے ہیں لندن سے بوڑھی میم ساتھ

(۱۹)

یہ صحافی ہیں پرائے ہاتھ پر

جہل و طغیانِ معمّہ کی قسم

ہیں ملازم چند اذہانِ قلم

جو لکھا کرتے ہیں ان کے نام سے

کام ہے جن کو شباب و جام سے

ہو نہ جائے مطبع و اخبار ضبط

قوم کی خدمت کو فرماتے ہیں خبط

جس طرح اندھا کوئی فٹ پاتھ پر

یہ صحافی ہیں پرائے ہاتھ پر

(۲۰)

یہ مدیرانِ سرِ اوراق ہیں

نثر ہے ان کو کسی چڑیا کا نام

شعر جیسے آشیانے زیرِ دام

دعویِ علمِ ہجا کیا کیا غلط

سر بسر انشا غلط املا غلط

چھاپتے ہیں فلم اسٹاروں کے راز

تاکہ ہُن برسائے ان پر فلم ساز

مشتہر ہیں ، شہرۂ آفاق ہیں

یہ مدیرانِ سرِ اوراق ہیں

(۲۱)

ان کو کہتے ہیں مدیرِ عام راہ

مصلحت اندیش کمیونسٹ ہیں

فکر کے عنوان سے اِن لسٹ ہیں

ہم خیالوں کے لیے بنتے ہیں ڈھال

تا نہ رسوا ہو پسِ پردہ کا حال

نظم سے وہ بند کر جاتے ہیں صاف

مقصدیت سے جو پڑتا ہے خلاف

ہیں عوامی مورچے کے خیر خواہ

ان کو کہتے ہیں مدیرِ عام راہ

(۲۲)

آپ سب گُرگے ہیں ’’عیدو میٹ ‘‘ کے

پھیرتے رہتے ہیں رُخ تحریک کا

عزم و ہمّت پر عمل تشکیک کا

جھونکتے ہیں مذہبی آنکھوں میں دھول

تاکہ دہریّت ہو مقبول و قبول

اور سُرخی سر پہ لہرانے نہ پائے

انقلابِ واقعی آنے نہ پائے

ورنہ پڑ جائیں گے لالے پیٹ کے

آپ سب گُرگے ہیں عیدو میٹ کے

(۲۳)

مکر و فن میں آپ عیدو میٹ ہیں

جانتے ہیں نوٹ بک قرآن کو

اور خلّاقِ جہاں شیطان کو

لیتے ہیں اس طرح اسٹالن کا نام

جیسے ہونٹوں پر زبردستی کا جام

بھاگتی ہے بھینس جیسے بِین سے

آپ جلتے ہیں چراغِ چین سے

نسبتاً لینن کے ڈپلیکیٹ ہیں

مکر و فن میں آپ عیدو میٹ ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے