آفتاب ملت، تاریخ دکن اور نظام کی خدمات‘‘ خصوصی نمبر
مدیر اعلی : محسن خان مبصر :ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
ریاست آندھرا پردیش کا دارالخلافہ حیدرآباد اردو زبان و ادب کے آغاز و ارتقاء اور نشو نما میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اردو ادب کی تقریباً اصناف کا آغاز دکن کے علاقہ سے ہوتا ہے اردو کا پہلا صاحب ِدیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کا تعلق بھی حیدرآباد سے ہی ہے ۔اردو کی پہلی جامعہ جامعہ عثمانیہ کا قیام بھی حیدرآباد میں ہی عمل میں آیا ۔یہاں پر دارالترجمہ نے بھی اپنی دیرینہ خدمات بھی انجام دیں ۔ اور اب اردو کی پہلی قومی یونیورسٹی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بھی حیدرآباد میں قائم کی گئی ہیں ۔اردو صحافت کے فروغ میں بھی اس علاقہ نے اپنا نمایاں رول انجام دیا ہے۔روزنامہ رہنمائے دکن وسیاست حیدرآباد کے قدیم روزنامے ہے جو آج بھی اردو صحافت میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں ۔ماہنامہ سب رس ادارہ ادبیات اردو کا قدیم رسالہ ہے جو اپنے معیار اور انفرادیت کے باعث اردو دنیا میں مقبول عام ہے۔شہر اردو حیدرآباد سے آج بھی کئی معیاری اور معلوماتی رسائل نکل رہے ہیں ۔اور اس فہرست میں ایک تازہ اور خوشگوار اضافہ ماہنامہ آفتابِ ملت ہے ۔ جس کا رسم اجراء حال ہی میں جناب بیرسٹر اسد الدین اویسی رکن پارلیمنٹ حیدرآباد کے ہاتھوں انجام پایا۔ اور اس رسالے نے اپنی ابتدائی اشاعتوں سے ہی اردو کے تہذیبی اور سماجی حلقوں میں اپنی شناخت بنا لی ہے۔ یہ کام کسی سینئیر صحافی نے نہیں بلکہ مولانا آزاد اردو نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبہ جرنلزم سے فارغ نو آموز صحافیوں نے انجام دیا ہے۔ جس کارسم اجراء حالیہ دنوں ۔
ماہنامہ آفتاب ملت کا آغاز جنوری 2014ء سے عمل میں آیا۔زیر تبصرہ شمارہ ماہ فروری کا ہے جو کہ خصوصی شمارے کے طور پر پیش کیا گیا جس کا موضوع ’’تاریخ دکن اور نظام کی خدمات‘‘ ہے۔آفتاب ملت کے مدیر شیخ منیر الدین ہیں اور ایڈیٹر انچیف محسن خان اور جوائنٹ ایڈیٹر ایوب خان ہیں ۔ یہ دھن کے پکے اور جذباتی نوجوان ہیں ۔ اور اپنے اساتذہ اور دیگر ماہرین صحافت کے مشوروں سے ماہنامہ آفتاب ملت کو ایک معیاری اور منفرد رسالہ بنانا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے تشکیل تلنگانہ کے ماحول میں اس خصوصی نمبر کا اجرا کیا۔ما ہ فروری کی اس خصوصی اشاعت میں 10 مضامین شا مل ہیں ۔جن میں حیدرآباد دکن اور آصف سابع سے متعلق5مضامین شامل ہیں ۔اس شمارے میں ’’گوگل ری یونین قلی قطب شاہ سے سلطنت آصفیہ اور سقوط حیدرآباد تک‘‘،مکرم نیاز،’’شہر حیدرآباد‘‘،’’سید حبیب امام قادری ‘‘،’’نظام کے خلاف منہ کھولتا تعصب‘‘،سید زین العابدین،’’آصف سابع کی علمی و ادبی خدمات‘‘،راقم الحروف کا،اور’’ جامعہ عثمانیہ کی اردو خدمات‘‘، شیخ فہیم اللہ کے مضامین شامل کیئے گئے ہیں ۔ان مضامین کے علاوہ اس شمارے میں مسئلہ کشمیر کی تاریخی اصلیت،ظہور حسین بھٹ ،یہ فقط سازش ہے دین و مروت کے خلاف،رفیع الدین قاسمی ،ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار:ٹیپو سلطان،رفیع الدین قاسمی،دنیا میں فساد برپا کرنے والا کون،سلمان احمد کا،اور ایک شام مجتبی حسین کے نام ، رپورٹ بھی شامل ہیں ۔
زیر تبصرہ رسالہ کا اداریہ ایڈیٹر انچیف محسن خان نے رقم کیا ہے جس میں انہوں اس رسالہ کے خصوصی اشاعت کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’افسوس کہ بعض غیر ذمہ دار سیاستداں کچھ نہ جانتے ہوئے غیر ضروری ریمارکس کی سیاست کھیلنے لگے ہیں ان میں سے بعض تو تاریخ سے یکسر نا بلد ہیں اور بعض اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل اور مفادات کے حصول کے لئے یہ راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ان میں سے بعض متعصب لیڈر س بھی ہیں جو محض اپنے تعصب کی بناء ایسی باتیں کر رہے ہیں ۔جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم نے آفتاب ِملت کے اس شمارے کو ’’تاریخ دکن اور نظام کی خدمات‘‘ جیسے موضوعات سے خاص کیا ہے تاکہ قارئین کو حقائق کا پتہ چلے ان بے بنیادریمارکس کرنے والے سیاسی قائدین کی اصلیت سامنے آ جائے۔‘‘(ص3)
مدیر اعلی کے اداریہ سے اس خصوصی شمارے کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔اس شمارے میں شامل مضامین میں پہلا مضمون ’’گوگل ری یو نین قلی قطب شاہ سے سلطنت آصفیہ اور سقوط حیدرآباد تک‘‘ سید مکر م نیاز تعمیر نیوز (جدہ) کا شامل ہے جو کہ تحقیقی مضمون ہے جس کو انٹرنٹ پر اردو ادب کے مواد کو ملحوذ رکھ کر لکھا گیا ہے ۔اس مضمون کی اپنی ایک علیحدہ انفرادیت ہے۔اس مضمون میں مکرم نیاز نے قلی قطب شاہ،بھاگ متی،تاریخ فرشتہ،سلطنت آصفیہ ،آصف سابع،جامعہ عثمانیہ ،گوگل تصاویر، پولیس ایکشن،سندرلال رپورٹ،جیسے موضوعات پر گوگل میں موجود مواد کے حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ان کا یہ مضمون روایتی مضامین سے ہٹ کر ایک تحقیقی و تجزیاتی مضمون ہے اردو ادب کے اس عصری منظر نامہ میں اسطرح کا کوئی اور مضمون شاذ و نادر ہی لکھا گیا ہو۔مضمون نگار نے اس مضمون کو لکھنے کے مقصد کو بیا ن کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’گذشتہ دنوں جب سیاست کے ایوانوں میں مملکت آصفیہ اور حضور نظام میر عثمان علی خان کے خلاف ہر زہ سرائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہو اتو تاریخ دکن سے جزوی واقفیت رکھنے والے افراد اور اداروں نے اپنا فرض جانا کہ عوام کو گذشتہ واقعات اور حقائق کی روشنی سے سرفراز کیا جائے۔سائبر ورلڈ کو اپنا انتہائی وقت دینے والے ہم جیسے دیوانوں کے ذہن میں ایک خیال در آیا۔‘‘(ص5)
مکرم نیاز نے اپنے اس مضمون میں بہت ہی اچھے انداز سے پیاز کی پرت در پرت کی طرح گوگل سرچ پر موجود اردو سے متعلق معلومات کا انبار کھڑا کر دیا ہے۔
زیر تبصرہ رسالہ کا دوسرا مضمون’’ شہر حیدرآباد ‘‘ کے عنوان پر سید حبیب امام قادری کا شامل ہے۔ انہوں نے اس مضمون میں قلی قطب شاہی دور ،آصف جاہی عہد اور سقوط حیدرآباد کا تذکرہ کیا ہے اورساتھ ہی مجلس اتحاد المسلمین کے قیام اور اس کی تاریخ کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’مجلس اتحاد المسلمین شہر میں فسادات کے زمانہ میں مسلمانوں کو دفاعی موقف اختیار کرنے کی ترغیب دی مسلمانوں میں ایک نیا سیاسی شعور بیدار کیا ۔آج مجلس اتحاد المسلمین پارٹی کے ایک رکن پارلیمان،7ایم یل اے ،اور 43کارپوریٹر منتخب ہوئے ہیں اور شہر کا میئر بھی مجلس کا ہے‘‘ ص(21)
ایک اور مضمون ’’نظام کے خلاف منہ کھولتا تعصب‘‘ کے عنوان پر سید زین العابدین کا شامل ہے جس میں انہوں نے ریاست اسمبلی میں نظام کے خلاف زہر افشانی کے حالات کو بیان کیا ہے۔اس کے بعد راقم الحروف کا مضمون’’ آصف سابع میر عثمان علی خان کی علمی و ادبی خدمات‘‘ شامل ہے۔اس رسالہ میں شامل ایک اور مضمون’’ حیدرآباد اور جامعہ عثمانیہ کی اردو خدمات‘‘ پر شیخ فہیم اللہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس خصوصی نمبر سے مجموعی طور پر اس حقیقت کو ظاہر کیا گیا کہ نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان آصف سابع یا دیگر سلاطین آصفیہ متعصب نہیں تھے بلکہ رواداری کے ساتھ ہوں نے حکومت کی۔ جس نظام کے دربار میں مہاراجہ سر کشن پرشاد جیسے لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں اور جس نظام کی مذہبی رواداری کی مثالوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہوں ان کے خلاف موجودہ دور کے چند مٹھی بھر فرقہ پرست عناصر کا زہر بھرنا ٹھیک نہیں ۔ اس طرح آفتاب ملت کی یہ اشاعت نظام حیدرآباد کے کارناموں کو بھر پور طور پر اجاگر کرتی ہے۔
بہر حال بہت کم عرصہ میں آفتاب ملت شہر حیدرآباد اور دیگر علاقوں میں شہرت حاصل کر رہا ہے اس کا دیدہ زیب ٹائٹل پر کشش ہے۔ 48صفحات پر مشتمل شمارے کی قیمت 20روپیئے رکھی گئی ہے اور سالانہ 200روپیئے امید کے آفتاب ملت بہت کم عرصہ میں سارے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے معیار اور تحقیقی مضامین کی بناء پر پسند کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔مزید تفصیلات محسن خان سے فون نمبر 9397994441پرحاصل کی جا سکتی ہیں ۔
٭٭٭