گؤ دان سے پہلے ۔۔۔ اسلم جمشید پوری

’’گائے، اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ جانوروں میں گائے کی اہمیت سے کسے انکار ہے۔ دودھ کے معاملے میں گائے کا جواب نہیں۔ گائے کا دودھ جہاں صحت کے لیے انتہائی مفید ہے، وہیں بہت سی جسمانی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ یہ تو بتا آج گائے پر یہ لیکچر کیوں۔؟‘‘
’’بیچ میں نہ ٹوکو۔۔۔ گائے ایک پالتو جانور ہے۔ ہندوستان میں جسے ماں کا درجہ حا صل ہے۔ ہمارے ہندو بھائی گائے کو اپنی ماتا مانتے ہیں۔ اُسے پوجتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں بھئی۔۔۔ یہ تو مجھے بھی پتہ ہے۔۔ پھر کیا۔؟‘‘
مذاق مذاق میں دو دوست شکیل اور موہن سنجیدہ گفتگو پر اتر آئے تھے۔
’’یار ایک بار عجیب بات ہوئی۔ میں گاؤں گیا تھا۔ وہاں ہماری ایک تائی ہیں۔ بیروتی اور تاؤ ہر پال۔ جب سے ہم نے آنکھ کھولی، ہر پال تاؤ اور بیروتی تائی کو اپنے گھر سے کوڑا لے جا تے دیکھا۔ جب کوئی شادی بیاہ ہوتا، ہر پال تاؤ اور بیروتی تائی اپنے خاندان کے بڑے بچوں کو لے آتے۔ گھر، آنگن، موری، باہر کی سڑک، آس پاس کا علاقہ سب صاف کر دیتے۔ مجھے یاد ہے میرے دادا زندہ تھے۔ ہر پال تاؤ اکثر دادا کے سامنے زمین پر بیٹھ جاتے، اور گھنٹوں باتیں کرتے۔‘‘
’’اجی۔۔۔ چاچا۔۔۔ آج کل۔۔ یو دیس کنگے کو جاروے۔‘‘
ہر پال تاؤ، میرے دادا ابراہیم خاں کو چاچا کہتے۔
’’ہر پال۔۔۔ بات تو گمبھیر ہی ہے۔ شہرن میں لوگن کو دماگ کھراب ہو گو ہے‘‘
’’چاچا یو بابری مہجد کا ہے۔ پہلے تو کبھی یا کو نام نہ سنو‘‘
’’ہاں بھیا۔ کاں بتائیں۔ ارے عبادت کرو، پوجا کرو۔ یا میں جھگڑے کی کا بات ہے۔‘‘
’’سنا ہے مہجد ڈھانے کو پورے ملک سے لوگ اجودھیا جا رے ایں۔ گام سو، نریندر اورو اکے دوس بھی جارے ایں۔‘‘
’’چپ! چپ ہو جا‘‘
موہن لال نے شکیل کو بیچ میں ہی ٹوک دیا۔
’’تو یہ کیا لے بیٹھا۔ یہ سب تو مجھے کئی بار بتا چکا ہے۔ کہ ایودھیا سے لوٹتے سمے، نریندر اور واکے دوس کو ایکسیڈینٹ ہو گیا اور چاروں کی ارتھی گاؤں آئی تھی۔۔۔ یہی نا۔۔۔ بس بس کر۔۔۔‘‘ موہن نے اسے چپ کرا دیا تھا۔
’’دیکھو، شکیل۔۔۔ تو وہ گائے والی بات بتا۔ سنا ہے تاؤ۔ تائی کا گائے پریم بہت مشہور تھا۔‘‘
’’ہاں، بہت مشہور تھا‘‘
موہن لال نے شکیل سے گائے کی کہانی سنانے کو کہا۔
’’موہن ہوا یوں کہ بیروتی تائی کے گھر ہمیشہ ایک نہ ایک گائے رہا کرتی تھی۔ تائی اور تاؤ۔۔۔ گایوں کی خوب دیکھ بھال کرتے۔ صبح سویرے اُٹھ کرتا ئی گائے کے لیے سانی تیار کرتی۔ اس کے آس پاس کا گوبر صاف کرتی۔ تاؤ بھی اپنے کاموں سے نپٹ کر دودھ نکالنے میں لگ جاتے۔ دودھ گاؤں کے مکھیا کے یہاں جاتا تھا۔ جس کے بدلے مکھیا کبھی پیسے، کبھی اناج اور کبھی کپڑے وغیرہ بھجوا دیتے۔ تاؤ کی گائے بہت خوبصورت تھی۔ کالے جسم پر سفید رنگ کے چھینٹے، گو یا کالی سیاہ رات میں ٹمٹماتے تارے۔ پورے گاؤں میں تاؤ کی گائے کے چرچے ہوتے۔ وہ دودھ بھی بہت دیتی۔ دونوں وقت ملا کر پندرہ، کلو دودھ ہو جاتا۔ تاؤ دس کلو تو بیچ دیتے باقی اپنے استعمال میں لے آتے۔‘‘
’’۔۔۔ آگے بتا۔‘‘ موہن بے چین ہو رہا تھا۔
’’موہن۔۔۔ ایک بار پتہ کیا ہوا۔ تاؤ کی گائے چوری ہو گئی‘‘
’’ایں۔۔۔ کیسے۔۔۔؟‘‘ وہ شکیل کے قریب آ گیا تھا۔
’’تاؤ گائے اپنے اُسارے میں باندھتے تھے۔ اور وہ خودسامنے دالان میں سو تے تھے۔ ایک رات۔۔۔ بارہ بجے کھٹر پٹر سے تاؤ کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اُٹھ کر باہر آئے۔۔۔ گائے کو دیکھا۔ پھر سونے چلے گئے۔ انہیں نیند نہیں آ رہی تھی۔ جاڑوں کے دن تھے۔ ٹھنڈا پنا اصلی روپ دکھا رہی تھی۔ نجانے کب تاؤ نیند سے آنکھیں لڑا بیٹھے۔ شور شرابہ ہونے پر وہ گھبرا کر اُٹھے۔
’’اجی اٹھو۔۔۔ دیکھیو۔۔۔ ہماری گائے نا ہے۔‘‘ تائی کے جگانے پر تاؤ کی آنکھیں کھل گئیں۔
’’اری کا بکے اے۔۔۔ میں ۱۲ بجے تو دیکھ کر سویو ہوں۔ اب کا سمے ہورو اے۔‘‘
’’چار بجے ہیں۔۔۔ ہائے میری گائے۔۔۔‘‘
تائی نے سینہ پیٹ کر رونا شروع کر دیا۔ پورا محلہ جاگ گیا تھا۔ سب حیران تھے کہ ہر پال کی گائے کون لے گیا۔ چوروں کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے۔ تاؤ تو یو ہی بہت غریب تھے بڑی مشکل سے پیسے جمع کر کے ایک بچھیا خریدی تھی جو، جو ان ہو کر ایک خوبصورت گائے بن گئی تھی۔ وہ اور ان کی بیوی گاؤں کے بڑے لوگوں کے یہاں کام کر کے گذارا کرتے تھے۔
یوں تو گاؤں میں لوگ اندھیرا رہتے ہی اُٹھ جاتے ہیں۔ پر آج پورا گاؤں کچھ جلدی ہی بیدار ہو گیا تھا۔ ہر طرف ہر پال کی گائے کی چوری کی داستان تھی۔ مکھیا گری راج، پنڈت رام کشن، ٹھاکر اجے سنگھ جیسے گاؤں کے رئیسوں کے یہاں بھی خبر پہنچ گئی تھی۔ مکھیا گری راج ابھی ڈھنگ سے اُٹھے بھی نہیں تھے کہ ان کی بیٹھک پر شور سنائی دیا۔ بیٹھک میں ہر پال کا روتے روتے برا حال تھا۔
’’مکھیا جی۔۔۔ مکھیا جی۔۔۔ میں تو لٹ گئیو۔۔۔‘‘
گری راج جلدی سے کپڑے درست کرتے ہوئے باہر آئے۔
’’کیا ہوا۔۔۔ کا بات ہو گئی۔۔۔‘‘
’’میری گائے چوری ہو گئی۔۔۔ ہائے۔۔۔ میں مر گو، اب میں کا کرن گو،؟‘‘
’’ہر پال۔۔۔ رووئے مت۔۔۔ ہم پتہ لگان گے۔۔۔ اور تو پھکر نہ کر۔۔۔ چور کو چھوڑن گے نا۔‘‘
بات آئی گئی ہو گئی۔ کئی دن تک پورے گاؤں میں تاؤ ہر پال کی گائے کی چرچا زوروں پر رہی۔ مکھیا گری راج نے اپنے جاسوس اور کارندے چور کا پتہ لگانے کے کام پر لگا دیے۔ خوب چھان بین کے بعد بھی گائے کا کوئی پتہ سراغ نہیں ملا۔ گاؤں کے سبھی لوگ ہر پال سے ہمدردی کرتے۔ اُسے دلاسہ دیتے۔
۔۔۔۔ ۔۔۔
کوئی دو یا تین مہینے بعد۔ گاؤں سنائیں کی پینٹھ میں گری راج کارندوں کے ساتھ بیل خریدنے گئے ہوئے تھے۔ پینٹھ میں ایک سے ایک بیل، گائے، بھینس آئے ہوئے تھے۔ بھیڑ بکریاں بھی تھیں۔
’’سرکار یو جوڑی کتی اچھی ہے۔ یا کو رنگ، کد، چال، سب جچے ہے۔‘‘
گری راج کے منشی نول نے بیل کی ایک خوبصورت جوڑی کی طرف متوجہ کیا۔
’’ہاں بھئی نول جوڑی تو بڑھیا لگے ہے۔ ذرا دام تو پوچھ۔۔۔‘‘
’’ارے سرکار۔۔۔ ہر پال کی گائے۔۔۔‘‘
اچانک منشی نول زور سے چلا پڑے۔ انہوں نے دیکھا پاس ہی ہر پال کی گائے کو لیے دو نوجوان کھڑے تھے۔ مکھیا زور سے چلائے۔
’’ارے ہاں۔۔۔ یہ تو ہر پال کی گائے ہے۔۔۔ پکڑو سالوں کو۔۔۔ کون ہیں یہ۔۔۔‘‘
مکھیا اور ان کے کارندے ہر پال کی گائے لیے کھڑے نوجوانوں کی طرف شعلے کی طرح لپکے۔ ان جوانوں نے جودیکھا تو وہ گائے چھوڑ چھاڑ کر سرپٹ بھاگ لیے۔ بھاگنے کے معا ملے میں چور ہمیشہ، پکڑنے والوں سے تیز ہی ہوتے ہیں۔ وہ نوجوان ایسے بھاگے کے پل میں غائب۔ مکھیا کے کارندوں نے گائے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ واپسی پر گاؤں میں جشن کا سا ماحول تھا۔ ہر پال تاؤ تو مکھیا کے پیروں میں گر پڑے۔
’’اُٹھو بھئی، ہر پال۔۔۔ انت بھلا تو سب بھلا۔۔۔ تمہاری قسمت اچھی تھی جو یو ہمیں دکھائی پڑ گئی۔‘‘
تاؤ ہر پال اور تائی بیروتی گائے سے لپٹے جا رہے تھے۔ گائے بھی سکون سے اپنے مالکوں سے مل رہی تھی۔ ایک بار پھر تاؤ ہر پال کے گھر خوشیاں ناچنے لگی تھیں۔ ان کی گائے رنگ روپ میں ایسی ہی تھی کہ ہزاروں میں الگ نظر آئے۔
کچھ دیر کے لیے شکیل کی آواز بند ہو گئی تھی
’’پھر کیا ہوا شکیل۔۔۔ آگے بتاؤ۔۔۔‘‘ موہن بیچ میں بول پڑا۔
’’ہونا کیا تھا۔ تاؤ اور تائی کا گائے پریم روز بہ روز بڑھنے لگا۔ وہ اس کی دیکھ ریکھ، کھانا پانی بالکل اپنی اولاد کی طرح کرتے۔ گائے کی آواز سے ہی تائی پہچان جاتیں کہ اسے کیا ضرورت ہے؟ کب اُسے پانی چاہئیے اور کب کھانا۔ دونوں اس کی صفائی کا بہت خیال رکھتے۔ گرمیوں میں تاؤ روزانہ اُسے پانی سے نہلاتے۔ اس کے جسم پر تیل لگاتے، سینگوں کو چمکاتے۔
’’ارے ہر پال آج تو تیری گائے بہت چمک مار ری اے۔‘‘
گاؤں کے بابا ترکھا جب ہر پال سے کہتے تو ہر پال کی خوشی، دیکھنے لائق ہوتی، ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکان ہوتی، گویا کوئی بڑا انعام مل گیا ہو۔
’’ہاں۔۔۔ چاچا۔۔۔ آج میں نے گائے کی مالس کی ہے۔‘‘
تاؤ ہر پال کو پورے گاؤں میں زیادہ تر لوگ تاؤ ہی کہتے۔ ان کی زندگی بھی عجیب تھی۔ ان کے یہاں کئی پشتوں سے ایک ایک بیٹے کی روایت چلی آ رہی تھی۔ ان کے دادا بھی اکیلے تھے، باپ اور وہ بھی اور ان کے بھی ایک ہی بیٹا تھا۔ مہندر پال گاؤں کی پاٹھ شالہ سے پانچویں کرنے کے بعد سہکاری نگر کے اسکول میں داخل ہوا اوردسویں کے بعد شہر کے سرکاری اسکول میں چپراسی لگ گیا تھا۔ ہر پال تاؤ تو خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ وہ پورے گاؤں میں مٹھائی کی طرح خوشیاں بانٹتے پھرے۔ کسی نے تعریف کی تو کسی نے یوں ناک بھوں چڑھائے، گویا غلاظت ان کی طرف چلی آ رہی ہو۔
وقت گذرتے دیر نہیں لگتی۔ نیا پرانا ہو جاتا ہے اور پرانا ختم ہونے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ تاؤ اور تائی بوڑھے ہو چلے تھے۔ ان کی گائے بھی اب لاغر سی ہو گئی تھی۔ اس نے دودھ دینا تقریناً بند کر دیا تھا۔ دو چار کلو دودھ سے کیا ہوتا ہے۔ مہندر پال کی شادی کیا ہوئی چند برسوں میں دو بچے بھی آ گئے۔ گاؤں سے شہر دور تھا مہندر پال اپنے بچوں کو لے کر شہر چلا گیا تھا۔ گاؤں میں اب تاؤ، تائی اور ان کی گائے رہ گئی تھی۔ گائے نے دودھ دینا بند کر دیا۔ ہر پال تاؤ کے پاس کھیتی کی زمین نہیں تھی وہ اور ان کے پرکھے گاؤں کی گندگی اُٹھا اُٹھا کر ہی بڑے ہوئے تھے۔ وہ تو گاؤں کے رحم و کرم پر اپنی گائے پال رہے تھے۔ کسی کے کھیت سے ہرا کاٹ لاتے، کوئی بھس دے دیتا۔ جس کے بدلے وہ، ان کو دودھ دے دیا کرتے، لیکن اب دودھ نہیں تھا۔ ایسے میں کوئی کہاں تک مدد کرتا۔ تاؤ کے لیے گائے کا پالن پوسن مشکل ہو گیا تھا۔ مہندر بھی پیسے بھیج بھیج کے تھک چکا تھا۔ جب بجو کا ہی کھیت کو کھانے لگے اور پیٹ میں کینچوے پلنے لگیں تو کیا ہو گا۔؟ ہر پال تاؤ کا حال بھی ایسا ہی تھا۔ گائے نے گھر کا بجٹ بگاڑ دیا تھا۔ اس کے پیٹ بھرنے کے لیے دونوں میاں بیوی کو کبھی کبھی بھوکا بھی رہنا پڑتا۔ جبکہ اسی گائے نے کتنے پیٹ پالے تھے۔ تاؤ کے پاس نہ زمین تھی، نہ ہی کوئی ہنر۔ گاؤں کے گھروں کی موریاں، نالیاں صاف کرنا، کوڑا اُٹھانا۔ اس سے جو آمد ہوتی اور گائے کے دودھ سے ہی انہوں نے نے اپنے بیٹے کو پڑھایا تھا۔ مہندر پال نے کئی بار، باپ کو سمجھایا۔ ’’چاچا۔۔۔ کب تک کھدمت کرو گے۔ اپنا پیٹ کاٹ کر کب تک گائے کا پیٹ بھرو گے‘‘
’’بیٹا جب تک جان ہے۔۔۔ میں گائے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ ہماری ماتا ہے۔‘‘
’’چاچا۔۔۔ کیوں نہ اسے بیچ دیں۔۔۔‘‘
’’نا بیٹا۔۔۔ نا۔۔۔ ایسا وچار بھی پاپ ہے۔۔۔ یہ پشو بے جبان ہے۔ یانے پوری جندگی ہمارو ساتھ دیو ہے۔ اب انت میں ہم یائے بیچ دیں یوہر گج نہ ہوے۔‘‘
’’پر چاچا۔۔۔ یا کی دیکھ ریکھ کیسے ہووے گی۔ میرے بچے بھی بڑے ہو رے ایں۔ میں بھی کب تک کروں۔‘‘
’’یا پھر ایک کام کر لیو۔‘‘ مہندر کے دماغ میں ایک اور خیال پیدا ہوا۔
’’کیا۔۔۔؟‘‘ ہر پال سوالیہ نشان بن گئے۔
’’کیوں نہ ہم کسی مندر یا مٹھ میں گؤ دان کر دیں۔۔۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ ہر پال نے صرف ہنکار بھری۔
’’پُن کا پُن اور سمسیا کو ہل بھی۔‘‘
’’مہندر یو بات تو، تو نے پتے کی کہی ہے۔ بھگوان بھی کھوس ہو جاون گے۔ ہمارے پاپ دھل جان گے اور گائے ماتا سور کچھت بھی رے گی۔‘‘
باپ بیٹے نے بظاہر مسئلے کا حل نکال لیا تھا۔ لیکن ہر پال اور تائی کی گائے سے محبت، اتنی آسانی سے چھوٹنے والی نہیں تھی۔ دونوں گائے سے لپٹ کر روتے۔ گائے بھی انہیں ایک ٹک دیکھے جاتی گویا ان کی سب بات محسوس کر رہی ہو، اور ان کی مجبوری کو بھی سمجھ رہی ہو۔ کئی بار ہر پال اور بیروتی کے ہاتھ بھی چاٹتی اور ایک خاص قسم کی آواز نکالتی۔ بیروتی تائی اس کی آواز سن کر مضطرب ہو جاتی۔
’’یار شکیل۔۔۔ کیا تاؤ نے سچ مچ گؤ دان کر دو۔۔۔‘‘ خاموشی سے داستاں سنتے سنتے موہن بیچ میں بول پڑا۔
’’’ارے موہن۔۔۔ مجھے سنانے بھی دے گا یا ٹوکتا ہی رہے گا۔ اس وقت کہانی چڑھان پر ہے، اب نہ ٹوکنا‘‘
۔۔۔۔ ۔۔۔۔
وہ دن اور وہ لمحہ بھی آ گیا جب گائے کو شہر کے مشہور آشرم کو دان کرنے کی تیاری ہونے لگی۔ مہندر پال نے ایک چھوٹے ٹرک کا انتظام کر دیا تھا۔ ٹرک رات کو ہی گاؤں میں آ گیا تھا۔ وہ رات تاؤ ہر پال اور تائی بیروتی پر بہت بھاری تھی۔ دونوں نے گائے کو خوب اچھے کھانے کھلائے۔ تازہ روٹیاں اور پھل، ہری ہری سبزیاں، جو انہوں نے مکھیا سے اُدھار پیسے لے کر منگوائے تھے۔ رات بھر دونوں گائے کی خدمت کرتے رہے۔ دونوں نے اپنی اپنی چار پائیاں، اُسارے میں گائے کے پاس ہی ڈال لی تھیں۔ طے ہوا کہ ایک ایک کر کے دونوں جاگیں گے۔ مگر ایسی نوبت ہی کہاں آئی۔ دونوں کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ گائے ذرا بھی ہلتی ڈلتی اور اس کے گلے کی گھنٹی بجتی تو دونوں اُٹھ جاتے۔ جیسے مندر کی گھنٹیاں بج اُٹھی ہوں اور دیوی نے پکارا ہو۔
صبح سویرے ہی گاؤں کے لوگ گائے کو دیکھنے اور وداع کرنے آنے لگے تھے۔ ہر پال تاؤ نے گائے کو خوب مل مل کے نہلایا۔ پورے بدن پر تیل کی مالش کی۔ گائے کا بدن اب ڈھل چکا تھا۔ کھال لٹکنے لگی تھی لیکن انہوں نے پورے جسم پر خوب تیل رگڑا تھا۔ گیندے کے پھولوں کی ایک مالا، گلے میں ڈالی، ماتھے پے لمبا سا ٹیکا لگایا۔ تائی اور تاؤ کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کی آنکھیں بھی بھیگ رہی تھیں۔ تاؤ خود بھی گائے کے ساتھ آشرم تک جانے والے تھے۔ ان سے گائے کے بنا، رہا نہیں جا رہا تھا۔ گائے کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ ایک اونچی ٹھیک سے لگا ٹرک تیار کھڑا تھا۔ دوسری طرف لکڑی کا ایک چوڑا پٹرا لگایا گیا تھا۔ جوں ہی گائے کو ٹرک کی طرف لے جایا جانے لگا۔ تائی زور سے رونے لگی۔
’’ہے بھگوان۔۔۔ میری گائے ماتا کی رکھشا کریو۔‘‘
ہر پال کا دل رورہا تھا مگر زمانے کو دکھانے کو وہ ہمت سے کام لے رہے تھے۔ گائے پٹرے پر چڑھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ وہ بار بار اِدھر اُدھر ہو جاتی، اور تائی کی طرف دیکھ کر عجیب سی آوازیں نکالتی۔ دوسری طرف بیروتی کا کلیجہ منھ کو آ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے گاؤں کے آٹھ دس لوگوں نے دھکا دے کر گائے کو ٹرک میں چڑھایا۔ ڈرائیور نے ہر پال تاؤ کو آگے بیٹھنے کے لیے کہا۔
’’تاؤ۔۔۔ آپ آگے بیٹھ جاؤ۔۔۔‘‘
’’نا! میں تو گائے کے ساتھ ہی بیٹھن گو۔‘‘
اور ہر پال گائے کے پاس کھڑے ہو گئے۔ ٹرک روانہ ہوا۔ باہر تائی اور گاؤں کے لوگ اداس کھڑے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا گاؤں کی لاڈلی، ہنس مکھ اور چنچل لڑکی وداع ہو رہی ہے۔ گاؤں والوں پر خاموشی طاری تھی۔ ہوا رکی ہوئی سی سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ پیڑ پودے سب خاموش سر جھکائے کھڑے تھے گویا گو ماتا کے جانے کے غم میں ڈوبے ہوں۔ تائی رسہ تڑا رہی تھی۔ گاؤں کی عورتوں نے انہیں پکڑ رکھا تھا۔ ان کے رونے کی آواز میں بڑا درد بھرا تھا۔ گائے بھی بار بار عجیب طرح کی آزاویں نکال رہی تھی، اور اپنی زبان میں تائی کے گریے میں ساتھ دے رہی تھی۔ تاؤ نے گائے کی کولیا بھر لی تھی۔ ٹرک دھول اُڑاتا ہوا گاؤں سے رخصت ہو چکا تھا۔ گاؤں میں ہر پال کی گو محبت کے چرچے تھے۔
’’بھئی ہر پال نے کمال کر دو۔۔۔‘‘
’’گائے ماتا کی ایسی کھدمت کون کرے ہے؟‘‘
’’گؤ دان سو ہر پال کی کئی پستوں کے پاپ دھل جان گے۔‘‘
’’اگلے جنم ہر پال گام کو مکھیا بنے گو‘‘
شکیل خاموش ہو گیا تھا۔ کہانی تھم گئی تھی۔ شکیل کی آواز میں بھی لرزہ آ گیا تھا۔ اس سے قبل کہ موہن اسے ٹوکتا، وہ پھر شروع ہو گیا۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔
’’گائے سے لپٹے، ہنومان چالیسا پڑھتے اور رام کی جے جے کار کرتے ہر پال، سڑک کی دھچکیوں میں ہچکولے کھاتے، کبھی ٹرک کی ایک دیوار سے جا لگتے تو کبھی دوسری سے۔ گائے تھک کر بیٹھ گئی تھی۔ ہر پال بھی اس کے پاس ہی اکڑوں بیٹھ گئے تھے۔ ٹرک تیز رفتاری سے شہر کی طرف بھاگا جا رہا تھا۔ ٹرک ڈرائیور اپنی مستی میں تھا۔ اچانک شہر کے ایک چوراہے پر بھیڑ نظر آئی۔ لوگ ہاتھوں میں لاٹھی، ڈنڈے لیے شور شرا بہ کرتے اور نعرے لگاتے نظر آئے۔
’’گؤ ماتا کی رکھشا ہمارا کرتیو ہے۔‘‘
’’گو ہتھیا نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
’’ہم گو رکھشک ہیں۔۔۔ گو رکھشک‘‘
’’گو ماتا کی جئے۔۔۔‘‘
ڈرائیور نے بھیڑ سے ٹرک کو بچانے کے لئے ایک طرف سے تیزی سے نکالنے کی کوشش کی۔ ٹرک کی رفتار خاصی تیز تھی۔ نعرے لگانے والے ایک طرف کو ہو گئے۔ لیکن بھڑک اُٹھے۔ چلانے لگے۔
’’روکو۔۔۔ روکو۔۔۔‘‘
’’مارو۔۔۔ مارو۔۔۔ گائے لے جا رہا ہے۔۔‘‘
کسی نے ٹرک میں گائے دیکھ لی تھی۔
ڈرائیور نے بھیڑ کے ایک حصّے کو بچا لیا تھا لیکن آگے کچھ لوگ ٹرک کے بالکل سامنے آ گئے۔ مجبوراً اسے ٹرک روکنا پڑا۔ غصے سے بے قابو لوگ ٹرک پر چڑھ گئے۔ گائے کے ساتھ ہر پال کو دیکھا تو آگ ببولہ ہو گئے۔ ان کا حلیہ کسی نوکر جیسا ہی تھا۔ ہر پال کے اوسان خطا ہو گئے۔ لوگوں نے اُسے نیچے کھینچ لیا اور بے تحاشا مارنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگوں نے ڈرائیورکو فٹبال بنا لیا۔ ہر پال چیختے رہے۔
’’ارے ہم گائے کو آشرم دان کرنے لے جارے ایں۔‘‘
’’گؤ دان۔۔۔‘‘
’’چپ بے سالے۔۔۔ بڑا آیا دان کرنے۔۔۔ قصائی کو بیچنے لے جا رہا ہے۔۔‘‘
مارنے کے ساتھ ساتھ لوگ گالیاں بھی بک رہے تھے۔ وہ گڑ گڑاتے رہے لیکن بھیڑ نے ایک نہ سنی۔ ڈرائیور اور ہر پال کو خوب مارا اورگائے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اتنے میں پولس آ گئی۔‘‘
شکیل کی آواز بند ہو گئی تھی۔ موہن بھی گنگ ہو گیا تھا۔ جیسے وہ دونوں ہر پال اور ڈرایؤر ہوں اور چوٹ سے ان کے اعضاء شل ہو گئے ہوں۔
تھوڑی دیر بعد آواز پھر بلند ہوئی۔
’’آگے کیا ہوا؟‘‘
کچھ نہیں۔۔۔ گائے کو آشرم پہنچا دیا گیا۔ ہر پال اور ڈرائیور کو پولس نے دو تین دن تھانے میں رکھا۔ مسلمان ڈرائیور کو جیل ہو گئی۔ ہر پال کو پولس نے چھوڑ دیا تھا۔ ادھر تائی کو جب تاؤ کے گرفتار ہونے کی خبر ملی تو ان کو ایسا صدمہ پہنچا کہ وہ بے ہوش ہو گئی اور۔۔ اور۔۔ ہوش کی چڑیا دور دیس کی سیر کو چلی گئی۔
تین دن بعد ہر پال گاؤں پہنچے۔ وہاں نہ گائے تھی نہ بیروتی۔ لیکن انہیں ہر طرف، ہر شئے میں اپنی گائے نظر آ رہی تھی۔ استھی کلش میں بھی اسے کبھی گائے کا چہرہ تو کبھی بیروتی کی صورت دکھائی دیتی۔ بیر وتی اور گائے ایک دوسرے میں ضم ہو گئے تھے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے