غزلیں ۔۔۔ ظہیرؔ احمد

اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ
آئینہ مت دکھائیے، جھوٹا کہیں گے لوگ

شاخیں گرا رہے ہیں مگر سوچتے نہیں
پھر کس شجر کی چھاؤں کو سایہ کہیں گے لوگ

واقف ہیں رہبروں سے یہ عادی سراب کے
دریا دکھائیے گا تو صحرا کہیں گے لوگ

شہرت کی روشنی میں مسلسل اُچھالئے
پتھر کو آسمان کا تارا کہیں گے لوگ

آغازِ داستاں ہے ذرا سنتے جائیے
آگے تو دیکھئے ابھی کیا کیا کہیں گے لوگ

جو کچھ برائے زیبِ بیاں کہہ رہے ہو آج
کل اُس کو داستان کا حصہ کہیں گے لوگ

لوگوں کو اختیار میں حصہ تو دیجئے
اربابِ اختیار کو اپنا کہیں گے لوگ

فردِ عمل پہ کر کے رقم اپنے فیصلے
اپنے لکھے کو بخت کا لکھا کہیں گے لوگ

شکوہ کرو نہ دیدۂ ظاہر پرست کا
جیسے دکھائی دیتے ہو، ویسا کہیں گے لوگ

کس شہرِخود فریب میں جیتے ہو تم ظہیرؔ
اپنا سمجھ رہے ہیں نہ اپنا کہیں گے لوگ
٭٭٭

آخر میں کھلا آ کر یہ راز کہانی کا
انجام سے ہوتا ہے آغاز کہانی کا

اس عہدِ تصنع کی ہر بات ہے پردوں میں
عنواں نہیں ہوتا غماز کہانی کا

تکرار بناتی ہے اب جھوٹ کو سچائی
تشہیر بدلتی ہے انداز کہانی کا

لے آتا ہے منظر پر،جب چاہے نیا کردار
رکھا ہے مصنف نے در باز کہانی کا

بننا ہی تھا آخر کو افسانۂ رسوائی
یاروں کو بنایا تھا ہمراز کہانی کا

مر کر بھی نہیں مرتے کردار محبت کے
رکھتا ہے انہیں زندہ اعجاز کہانی کا

افسانۂ ہستی میں وہ موڑ بھی آتا ہے
جب ساتھ نہیں دیتے الفاظ کہانی کا
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے