آسمانِ ادب کی بدر منیر ڈاکٹر منیر زہرہ (مینا نقوی) ۔۔۔ عارفہ مسعود عنبر

یہ مرادآباد شہر کی خوش قسمتی ہے کہ اس شہر کو اللہ رب العزت نے وہ نایاب گوہر عطاء فرمائے ہیں جن کی جلاء نہ صرف مرادآباد میں بلکہ سارے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ مراداباد شہر نے اردو ادب کو ایسی ادبی شخصیات بخشیں جنہوں نے اردو ادب کی تاریخ میں مرادآباد کی آبرو کو ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔ پھر چاہے وہ ذکی مرادآبادی ہوں یا، نظام مرادآبادی، نیر مرادآبادی ہوں یا، اثر مرادآبادی، جوہر مرادآبادی ہوں یا، جگر مرادآبادی یا پھر، قمر مرادآبادی اس شہر نے بہت سے عظیم فنکاروں، دانشوروں و شعراء کو اپنی وسیع و عریض بانہوں میں پناہ دی اور پروان چڑھایا۔۔
پورے چاند کی چمک اور حسن سے کون متاثر نہیں ہوتا یہ اور بات ہے کہ چاند کو خود اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ اس کی ضو باریاں دنیا کے گوشے گوشے کو صرف اجالے ہی عطاء نہیں کر رہیں بلکہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو مَحبّت کا ذخیرہ بھی بخش رہی ہیں، کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ، ایسا ہی ایک نام ہے آسمانِ ادب کی بدر منیر ڈاکٹر منیر ذہرہ، عرف مینا نقوی صاحبہ کا جو آسمانِ ادب پر حسین اور ضو بار قمر کی مانند روشن ہیں اور غزل و دیگر اصنافِ سخن کے حوالے سے اردو ادب کی شعاؤں میں اضافہ فرما رہی ہیں۔۔
مجھے مسرّت ہے کہ ڈاکٹر مینا نقوی مرادآباد سے تعلق رکھتی ہیں اور آسمان ادب میں ایک درخشاں ستارے کی مانند جلوہ افروز ہیں، اور اسی زرخیز سر زمین مرادآباد پر میری بھی پیدائش ہوئی ہے، اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا فخر بھی ہے کہ میرے اجداد اس سرزمینِ شعر سے وابستہ تھے جسے آج بھی علم و ادب کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے، جس سرزمین نے علامہ باغ سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ (جانشین داغ دہلوی) جیسی عظیم ہستی پیدا کی، جس شہر کی مٹی نے عندلیب شادانی، تفکر سنبھلی، نیرنگ سنبھلی، ظفر سنبھلی جیسی معتبر اور با صلاحیت اور اہل علم شخصیات کو جنم دیا، ان مرتب ہستیوں نے دنیا کے شعر و ادب میں عالمگیر پیمانے پر شہرت حاصل کرتے ہوئے سنبھل کے نام کو روشن کیا۔۔ مراداباد میں پیدا ہو کر بھی سنبھل سے وابستگی قائم رہی اور بچپن سے ہی پاپا سے اجداد کے ادبی قصے سنتے ہوئے بڑی ہوئی، شاید میرے ادبی رجحان کا سبب یہی ہے۔
مینا نقوی جیسی باصلاحیت اور ادبی خاتون کا نام زیر قلم لاتے ہوئے قلبی مسرت کا احساس ہو رہا ہے جس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مینا صاحبہ مرادآباد سے تعلق رکھتی ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مینا صاحبہ ایک خاتون ہیں اور اس مرد غالب معاشرے میں کسی خاتون کو صرف اپنی صلاحیتوں کے بل پر مقام حاصل کرنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہے۔ کچھ لوگ عظمتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں اور عظمتیں انہیں ورثہ میں ملتی ہیں اور کچھ لوگ اپنی محنت لگن۔ اور کاوشوں کے بل بوتے انہیں حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مینا بھی انہیں با وقار شخصیات میں شمار کی جاتی ہیں جنہوں نے عظمتوں کو اپنی محنت کے بل پر حاصل کیا ہے
کسی بھی فنکار کی تخلیقی تہ داری تلاش کرنے کے لیے اس کی شخصیت کی عکاسی نہایت ضروری ہے، ڈاکٹر صاحبہ سے میرے ادبی رابطے رہے ہیں جن سے مجھے آپ کی شخصیت کی عکاسی میں کافی مدد ملی۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک سنجیدہ خاتون ہیں علم و دانش اور قدر دانی کی بہترین مثال ہیں۔ مینا صاحبہ آج معاشرے میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ اسی معاشرے میں جس میں خواتین زمانۂ قدیم سے ہی احتسال کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ صنفِ نازک سمجھ کر ہمیشہ خواتین کی صلاحیتوں کو کچلا جاتا رہا ہے۔ مردوں نے ہمیشہ عورت کو آگے بڑھنے سے روکا ہے اور تاریخ گواہ ہے جس نے بھی یہ جرت کی اس پر طرح طرح کے الزامات عائد ہوے ہیں۔ عورت کی پرواز سے پہلے ہی اس کے پروں کو تراش دیا جاتا ہے اور اگر کسی نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف دبی دبی آواز نکالی بھی تو اسے بے تہذیب، بے ادب، بے حیا، بد کردار جیسے خطابات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ مینا صاحبہ بھی اسی مرد غالب معاشرے کا ایک حصہ ہیں اور انہوں نے آسودگیاں بھی دیکھیں اور نا آسودگیاں بھی، محرومیاں بھی دیکھیں اور نا ہمواریاں بھی۔ رشتہ داروں اور احباب کا ہرجائی پن بھی برداشت کیا اور شکوک اور شبہات کے ذائقے بھی چکھے، لیکن ان غیر موافق حالات میں بھی مینا صاحبہ نے خود کو ثابت کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے معاشرے میں ایک عالی مقام حاصل کیا۔ راقم بھی آپ ہی کے نقشِ پا پر چل کر اپنے ادبی سفر کو جاری رکھنا چاہتی ہے، ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی ہمّت، حوصلے، اور بلند خیالی کی خواتین کے لیے ایک خوبصورت مثال قائم کی اور اس مردانہ سماج سے ہمّت اور حوصلے کے ساتھ لڑیں، جس چنگاری کو لوگ بجھا دینا چاہتے تھے وہ آتش کی طرح بھڑک اٹھی اور اس مشعل نے اپنے قلم کی روشنی سے ملک بھر میں اجالا کر دیا۔
میں مدت سے مینا صاحبہ کی غزلیں، نظمیں، کویتائیں وغیرہ پڑھتی رہی ہوں لیکن اس وقت تک آپ کو ادبی شخصیت کے طور پر ہی جانتی تھی لیکن آپ سے بات چیت اور رابطے کے بعد آپ کی شخصیت کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا۔۔ اپ نہ صرف مجھے بیٹی کی طرح ملیں بلکہ بے شمار مَحبّتوں سے نوازا بلکہ میری غزلیات مقالات اور تحاریر کی بھی بھر پور پذیرائی کر کے مجھے حوصلہ بخشا۔۔ آپ کے شعری مجموعے “کرچیاں درد کی” ’’دھوپ چھاؤں” ”بادبان” اور ’’سائبان‘‘ وغیرہ کے مطالعہ کے بعد آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں کی پرتیں پے در پے کھلتی چلی گئیں۔۔
ڈاکٹر منیر ذہرہ 20 مئ 1955 کو نگینہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد سید التجا حسین زیدی نگینہ کی نیک اور مہزب ہستیوں میں سے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی ابتدائی تعلیم نگینہ کے ہی دیانند ویدک انٹر کالج میں ہوئی۔ اس کالج میں ہونے والی گیت سبھا اور دوسرے کلچرل پروگرامز میں مینا صاحبہ شرکت کرتی رہیں اور یہیں سے انہوں نے لفظوں کو گیت اور غزلوں کی شکل دینا شروع کی۔ 1972 میں نگینہ کا یہ نگینہ مرادآباد کی پیشانی میں جڑ دیا گیا اور مینا صاحبہ شادی ہو کر نگینہ سے مرادآباد آ گئیں۔ لیکن شادی کے بعد بھی آپ کی کاغذ اور قلم سے دوستی ختم نہیں ہوئی اور مینا صاحبہ نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود سخن کاری کا سلسلہ جاری رکھا اور آج تک جاری ہے۔ مینا صاحبہ ایک شاعرہ ہیں ادیبہ ہیں کویتری ہیں لیکھیکا ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ادبی کاموں میں پیش پیش رہنے والی شخصیت ہیں۔ شاعری آپ کی روح میں سمائی ہے
غزل کو میں نے غزل نے مجھے تلاش کیا
اور اس تلاش میں اردو نے میری رہنمائی کی
یہ شعر اردو کی عَظمت اور مینا صاحبہ کے فکری شعور کی پاکیزگی بھی بیان کرتا ہے۔
بیسویں صدی کے اخیر میں ایک انقلاب آیا۔ جب کسی غزل نے غزل کہہ کر سب کے دلوں پر تسلط کر لیا تھا۔ ایک خوبصورت اور دلفریب شاعری لوگوں کی روح میں اتر رہی تھی اور اس حسین غزل کا نام تھا پروین شاکر۔ جس کی رومانی اور نیچرل شاعری نے ہر دل پر اثر کیا۔ ان کے اشعار قلب اور روح کو معطّر کرنے والے تھے پروین کے مجموعے کلام ”خوشبو” نے میری روح میں اتر کر ذہن کو خوشبوئے سخن سے معطر کر دیا۔ ان کا لفظ لفظ دل کی آواز محسوس ہوا۔ مینا صاحبہ کے کلام کے وسیع مطالعے کے بعد آپ کے کلام میں بھی وہی خوشبو وہی مہک محسوس ہوئی اور بہت سی یکسانیتیں سامنے آئیں، ممکن ہے یہ احساسات میرے ذاتی احساسات ہوں لیکن جو محسوس کیا، وہی قلم بند کر رہی ہوں پروین شاکر اور مینا نقوی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں

وہ رت جگے وہ گئی رات تک سخن کاری
شب گزاری ہیں کچھ ہم نے بھی ریاضت کی ۔۔ پروین شاکر

رت جگے یوں تو ازل سے تھے میری آنکھوں میں
دل کی بستی میں یہ وحشت کبھی ایسی تو نہ تھی ۔۔ مینا نقوی

درد پھر جاگا زخم پھر تازہ ہوا
فصل گل کتنی قریب آئی اندازہ ہوا ۔۔ پروین شاکر

آپ کیا روح کو دے سکیں گے سکوں
صرف زخموں پہ مرہم لگا دیجیئے ۔۔مینا نقوی

یاد کیا آئی روشن ہو گئے آنسو کے گھر
جنگلوں میں شام اتری جل اٹھے جگنو کے گھر ۔۔ پروین شاکر

شب کی تنہائی میں یادوں کی سرگوشی سی
دھوپ اندھیروں میں دبے پاؤں صحرا آئی ہے ۔۔ مینا نقوی

یہ کہنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ مینا نقوی کی غزلیں اپنے عہد کا آئینہ ہیں جن میں زندگی کے تجربات اور مشاہدات کی سچی عکاسی ہے
اعزاز کسی کو ہے مثالوں میں کوئی ہے
لب پر ہے کوئی نام خیالوں میں کوئی ہے
ہر خانے میں لکھ دی گئی جب مات ہماری
تب جانا کہ شطرنج کی چالوں میں کوئی ہے
مینا صاحبہ کو احباب نے بھی بڑی اذیتیں پہنچائی ہیں
ایسا لگتا ہے بہ جائے گی دل کی بستی
آنکھ یوں اشکوں کا سیلاب لئے بیٹھی ہے
در بدر پاؤں، بدن زخمی, نگاہیں بوجھل
اج وحشت کوئی احباب لیے بیٹھی ہے
مینا صاحبہ خود کو اچھی طرح پہچانتی ہیں
شمع ہوں میں اجالوں کی پہچان ہوں
رات بھر کی مگر صرف مہمان ہوں
روشنی کی ضرورت ہوں مینا مگر
اور کتنا جلوں میں پریشان ہوں
مینا صاحبہ کے 9 شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں سائبان، بادبان، درد پتجھڑ کا، کرچیاں درد کی شامل ہیں۔ آپ کو کئی انعامات بھی ملے ہیں، جیسے منزل اردو اکیڈمی اتر پردیش اور بہار اردو اکیڈمی سے انعام یافتہ اگھن دہلی اور غالب انسٹیٹیوٹ سے بیسٹ شاعرہ 2018 کا ایوارڈ۔ مینا صاحبہ صرف غزل کی ہی شاعرہ نہی ہیں، بلکہ نظم، کویتا، مکتک کہانی، کتابوں کے پیشِ لفظ، کتابوں پر تبصرے وغیرہ بھی عمدہ لکھتی ہیں۔
(ماخذ: روزنامہ اودھ نامہ، لکھنؤ، یہ مضمون مینا نقوی کی حیات میں ہی لکھا گیا تھا)
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے