مظفرؔ حنفی : منفرد شاعرِ برِ صغیر ۔۔۔ منور احمد کنڈے

اس میں کوئی شک نہیں کہ مظفرؔ حنفی صاحب ایک قد آور شخصیت ہیں اور ان پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے اور ذہین و با شعور قاری تشنگی محسوس کرتے ہوئے یہی کہے گا ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!‘‘ میں بھی مظفرؔ حنفی صاحب کے کلام کے مداحین میں ایک ادنیٰ سا درجہ رکھتا ہوں یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں صرف مبتدی شاعر اور علم و فن کا بہت ہی چھوٹا سا قلمکار ہوں۔ نثر نگاری کے فن سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا۔ بڑی مشکل سے جسارت کر رہا ہوں کہ اپنے جذبۂ عقیدت کا اظہار چند ٹوٹی پھوٹی سطروں میں بشکلِ مضمون کروں۔
اردو غزل کے منظر نامہ پر اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو بہت کم نام ایسے ملتے ہیں جو نہ صرف مستقل لکھ رہے ہیں بلکہ اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے شعرائے کرام کی اگر فہرست بنائی جائے تو ایک اہم اور معتبر نام پروفیسر مظفرؔ حنفی صاحب کا سامنے آئے گا جو بیک وقت اپنی فنی بصیرت، بالغ نظری اور ہنر مندی کی بدولت کہیں بحیثیت نقاد کہیں مترجم کہیں شاعر، کہیں افسانہ نویس اور کہیں بچوں کے ادیب کی حیثیت سے قارئین کے دلوں کو اپنے سچے جذبے اور لطیف احساسات کے پھولوں کی خوشبو سے معطر کرتے نظر آتے ہیں۔ بحیثیت شاعر اُن کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے یہاں بھرپور تخلیقیت ہے ، تجربات ہیں ، مشاہدات کی فنکارانہ گرمی ہے۔ اُن کی غزلیں اُن کے مزاج، ماحول اور اس عہد کی عکاسی کر رہی ہیں ، جس عہد میں وہ جی رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے سماج میں رونما ہونے والے حالات کی بڑی فن کاری کے ساتھ تصویریں اُتاری ہیں جو اہلِ شعور کو سوچ اور فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ اُن کی غزلوں میں فکر اور جذبے کی امتزاج نے جو شاعرانہ نزاکتیں پیدا کی ہیں وہ مظفر صاحب کو ان کے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہیں۔ سیدھی سادی اور عام فہم زبان کے ذریعہ اظہاریت کی بے باکی اور فکری بلندیوں کی عریاں حقیقتوں کو اُجاگر کرنے میں مظفرؔ حنفی نے اپنے شعری نگار خانے کو جس خوبصورتی کے ساتھ سجایا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فن کار کو زبان، قواعد فن اور شاعری کا پختہ شعور حاصل ہے۔ اس شعور کی پختگی کے سبب ان کے یہاں آفاقیت ہے۔ ابدیت ہے۔
انہوں نے ایک نئے لہجے کی بنیاد ڈالی ہے جس کا اسلوب بھی ان کا اپنا ہے۔ جو انہیں اپنے استاد شادؔ عارفی سے ورثہ میں ملا ہے۔ مگر مظفر حنفی صاحب نے اس طنزیہ لہجے کو اور آبدار بنا کر وہ آئینہ سماج کے سامنے پیش کیا جس میں از خود اس کی بھیانک تصویر سامنے آئی ہے۔ شادؔ عارفی کے وہ شاگرد ضرور ہیں مگر انفرادیت کے ساتھ مظفرؔحنفی صاحب غزل کے ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کی بنیاد روایت پر ضرور رکھی مگر جدّت کے ساتھ فن کی پابندی کو ضروری سمجھا۔ چنانچہ اس خوبصورت امتزاج کے نمونے ہمیں بڑی آسانی سے اُن کی شاعری میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کو اپنے استادی سلسلہ پر ناز ہے فرماتے ہیں۔
ہے شادؔ عارفی سے مظفرؔ کا سلسلہ
اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے
یہ طنزیہ زبان مظفرؔ انہیں کی ہے
مطعون رام پور جو ہیں شادؔ عارفی
مظفرؔ حنفی صاحب کا یہ طنزیہ کاٹ دار لہجہ ہی اُن کی شناخت بھی ہے اور اسی پر انہیں فخر بھی ہے۔ ایک جگہ اس بات کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔
؂ کل اے مظفرِ حزیں طنز ہی رنگ لائے گا
میری غزل غزل نہیں لے دے کے طنز ہی سہی
واقعہ یہ ہے کہ مظفر حنفی صاحب نے سماج میں رونما ہونے والے حالات کو من و عن پیش کر کے اُن حالات کے تناظر میں معاشرے کی اُن اقدار کی نشاندہی کی ہے جن سے معاشرہ متاثر ہو رہا ہے۔ اور اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ ان طنزیہ اشعار کے ذریعہ مظفرؔ حنفی کی انسانی ہمدردی اور کائنات کے حسن سے اُن کی محبت اور قومی درد کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ قومی رہنماؤں سے مخاطب ہو کر ان کا یہ انداز آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
؂ آپ میں رہبری کے سبھی وصف ہیں
حوصلہ پست ہے پاؤں میں لنگ ہے
شعر کا حسین طنز قاری کو بتا رہا ہے کہ قومی رہنماؤں کی لغزش کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پوری قوم اس کا شکار ہے۔ یہی تیکھا اور کھردرا لہجہ مظفرؔ حنفی کا طرۂ امتیاز ہے۔ اپنے اس لہجہ کے سبب وہ دور سے پہچان لئے جاتے ہیں۔ وہ ایک کوش کلام، خوش فکر اور زود گو شاعر ہیں۔اُن کی شاعری فنی و فکری لطافتوں سے معمور ہے۔ ان کے لہجہ کی یہی تلخی اور طنز کی یہی نشتریت الفاظ کا لباس پہن کر گرد و نواح کے مناظر کی مسلسل نمائندگی کرتی ہے۔ یہی تلخ اور تیکھا لہجہ ان کے سچے حقیقی تجربوں کا آئینہ ہے جس میں زندگی کی کڑ وی سچائیوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ ان موضوعات میں جس فن کارانہ انداز میں وہ رنگ بھرتے ہیں اس سے ان کی شخصیت کی تہہ داریوں کا قائل ہونا ہی پڑ تا ہے۔ وہ بات سے بات نکالنے کے فن میں ماہر ہیں انہوں نے مختلف سماجی پہلوؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ مثلاً
؂ آپ آئے ہیں گواہی کے لئے
آستیں تک آپ کی رنگین ہے
؂ قوم سے چندے وصولے ہیں بہت
اب ذرا خیرات بھی جاری کریں
مندرجہ بالا اشعار سے مظفرؔ حنفی صاحب نے زندگی اور سماج کے زخموں کو جس سلیقے کے ساتھ کریدا ہے وہ ان کے تیور اور اسلوب کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ اور یہی ان کا سچا اور کھرا اسلوب ہے جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
ہر سچے فن کار کے یہاں خود داری اور انا ضرور پائی جاتی ہے۔ فردوسیؔ اور میرؔ جیسے عظیم المرتبت شعرائے کرام کی اسی انا اور خود داری نے محمود غزنوی اور نواب آصف الدولہ کو یہ احساس کرا دیا تھا کہ آپ بادشاہِ وقت ہو سکتے ہیں مگر فن کار آپ کی ہاں میں ہاں نہیں ملا سکتا۔ آج کے اس دور میں بھی اچھے اور سچے فن کاروں کی کمی نہیں ہے جنہوں نے اپنے اشعار میں خود داری اور انا کا تذکرہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ نظم کیا ہے۔ جس کے ذریعہ شاعر اپنی شخصیت کا اظہار دو مصرعوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتا ہے جس سے شاعر کی مکمل شخصیت اور اس کے مزاج اور شعری رویہ پر روشنی پڑ تی ہے۔ انیسؔ ہوں کہ دبیرؔ ہوں حالیؔ ہوں کہ غالبؔ، اقبالؔ ہوں کہ جوشؔ و فراقؔ، ان تمام حضرات نے اپنی انا کا اظہار اپنے اشعار کے ذریعہ قاری پر روشن کیا اور ان کو یہ حق حاصل بھی ہے کیوں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی عروسِ سخن کے گیسو سنوارنے کے لئے وقف کر دی ہے۔ انا کا اظہار مظفرؔ حنفی نے مختلف معنوں میں کیا ہے اور وہ معنی ان کے طنزیہ لہجہ کی کمک پا کر خاصے کی چیز بن جاتا ہے۔ انا کے اس اظہار میں بھی اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہیں۔
؂ انا تھی مظفرؔ کی خنجر بکف
وہاں اور کوئی نہ تھا یا اخی
؂ مری خود آگہی اس طرح آئینہ دکھاتی ہے
انا کا جذبۂ خود سے مجھے پاگل نہیں کرتا
؂ سسکتے رہو تلملاتے رہو
مظفرؔ سنانِ انا تیز تھی
؂ ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا
اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اُٹھا کے دیکھ
؂ انفرادی رنگ رکھتا ہے مظفرؔ شعر میں
اس کے مصرعے پر کوئی مصرعہ تو پہنچائے ذرا
؂ راہِ عام سے بچ کر شعر کہنے والوں سے
آپ کے مظفرؔ کا نام بھی ضروری ہے
بے شک ان کی متاعِ سخن نے اردو غزل کو بڑے سلیقے کے ساتھ نہ صرف آبرو مند کیا ہے بلکہ اپنے رنگ و آہنگ سے ایک نیا اور چُٹیلا وقار بخشا ہے جو ان کو تا دیر شعر و ادب کی دُنیا میں زندہ رکھے گا اور آنے والی نسل اس سے کسبِ فیض کرے گی۔
جناب مظفرؔ حنفی نے اپنی غزلوں کے مقطعوں سے بھی کام لیا ہے جو ہمیں ایک طرف ان کو سمجھنے مکیں مدد کرتے ہیں دوسری طرف ان کے شعری مزاج پر روشنی ڈالتے ہیں۔
؂ سنیئے تو مظفرؔ کا ہر اک شعر کہے گا
میں ٹوٹے ہوئے ساز کی بے چین صدا ہوں
؂ مظفرؔ وہ مرے فن کی بلندی دیکھتے کیسے
ادھر تو دیکھ کر تنقید کی دستار گرتی ہے
؂ کتنا ہی عطر ملئے اُس پر مبالغے کا
جھوٹی غزل مظفرؔ پھر بھی نہیں مہکتی
سبھی ان کے طرزِ احساس کی توثیق کرتے ہیں۔ ترش اور تیکھی غزلیں کہنے والے مظفرؔ حنفی ایسے اشعار کہنے پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔
؂ وہ کنوار پن میں دبی دبی وہ حیا بار سے مضمحل
مری اک نگاہ کے لمس سے وہ متاعِ حسن نکھر پڑی
؂ میں اکثر سوچا کرتا ہوں چاند نہیں لیکن پھر بھی
سورج ڈھلنے پر وہ کیوں بالائے بام آتا ہے
؂ ہاں اے نگاہِ ناز ذرا دیکھ بھال کے
دل کو فریب کھانے کی عادت نہیں رہی
؂ تمام عمر کٹی احتیاطِ پیہم میں
قریب آ نہ سکے آپ کو بلا نہ سکے
مندرجہ بالا اشعار میں جن جذبات کی عکاسی اور رومانی معصومیت کا اظہار دیکھنے کو ملا ہے وہ شاعر کے جمالیاتی مزاج کو مزید خوشنما بنا دیتا ہے۔ جناب مظفرؔ حنفی کا یہی خوش آہنگ لطیف اسلوب اپنے تیکھے لب و لہجے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ان اشعار میں بھی اپنی شناخت کر رہا ہے اور اپنی انفرادیت کو قائم کئے ہوئے ہے۔ اور یہی انفرادیت ان سے بہ بانگ دہل کہلواتی ہے۔
؂ نہ پوچھئے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے
کھری زبان میرے جسم و جاں کا حصہ ہے
جس کا مظفر حنفی کو پورا حق ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے