صغیر افراہیم کی پریم چند شناسی ۔۔۔ پروفیسر طارق سعید

اردو فکشن کا شاید سب سے بڑا نام پریم چند ہے۔ انھوں نے جس طرح سے اردو فکشن میں اپنے قلم سے بیسویں صدی کے ہندوستان کی عکاسی کی ہے اور جن مسائل کو ابھارا ہے، ویسی نظیر کسی دوسرے فنکار کے یہاں نظر نہیں آتی۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی زبان و ادب سے ہو۔ پریم چند ہندوستان کے ایک سچے ترجمان تھے اور انسانیت کے علم بردار۔ انھوں نے ناول اور افسانہ دونوں کے وقار کو بلند کیا۔ انھوں نے اگر شاہکار ناول گؤ دان لکھا ہے تو ’’کفن‘‘ جیسا لا زوال افسانہ بھی لکھا ہے جسے عالمی ادب کے سامنے پیش کرنے میں اردو فکشن کا سرِ افتخار بلند ہو جاتا ہے۔ پریم چند کی پرورش و پرداخت تو اردو زبان و تہذیب کے زیر سایہ ہوئی مگر عمر کے درمیانی حصے سے انھوں نے ہندی زبان کو بھی گلے لگایا اس طرح اردو ہندی دونوں زبان و ادب میں ان کی قدر و قیمت بیش بہا ہے۔
منشی پریم چند کی اسی عظمت کے پیش نظر متعدد صاحبِ فکر و نظر اور دانشور وں نے اپنے آپ کو ایک طرح سے پریم چند شناسی کے لیے وقف کر دیا۔ انھوں نے مختلف زاویۂ نظر سے پریم چند کی زندگی اور ان کے فکر و فن کا جائزہ لیا۔ پریم چند شناسوں میں مدن گوپال، ڈاکٹر قمر رئیس، امرت رائے، مانک ٹالا، ڈاکٹر جعفر رضا، ہنس راج رہبر، مہدی جعفر، یوسف سر مست، علی اصغر انجینئر، علی احمد فاطمی، ابن کنول، صغیر افراہیم کے نام لیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اردو ہندی کا شاید ہی ایسا کوئی دانشور ہو گا جس نے منشی پریم چند کے فکر و فن پر ایک آدھ مضمون نہ لکھا ہو۔ یہاں ان کی فہرست سازی مقصود نہیں ہے۔ عظیم فنکاروں کے فن کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا ہے ان کے فکر و فن کی نت نئی جہتیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ اسی لیے جب ہم قمر رئیس صاحب کے یہاں دیکھتے ہیں تو پریم چند کی شخصیت کا روپ جو نظر آتا ہے وہ جعفر رضا کے یہاں بدل کر دوسری صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ہنس راج رہبر اسے کسی اور شکل میں پیش کرتے ہیں مدن گوپال ان کی کچھ اور تصویر بناتے ہیں یہاں تک کہ امرت رائے جو ان کے بیٹے ہیں وہ اسی صورت کو کسی اور رُخ سے ظاہر کرتے ہیں گویا ’’قلم کا سپاہی‘‘ سے ’’قلم کے مزدور‘‘ تک پریم چند کے متعدد رنگ روپ ظاہر ہوتے ہیں۔ ان میں عہد حاضر کے معروف نقاد پروفیسر صغیر افراہیم نے بھی منشی پریم چند کے فنون کو بالکل منفرد وژن سے جانچا پرکھا ہے جس کی بنا پر ہم انھیں پریم چند شناسی کا ایک نیا پریم چند شناس کہہ سکتے ہیں۔ پروفیسر قاضی عبدالستار اُن کی اس سعی محبت کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر صغیر افراہیم اپنے ہم عصروں میں سب سے کم عمر صاحب تصنیف ہیں۔ ’’پریم چند ۔۔۔ ایک نقیب‘‘ بالغ ہوتی ہوئی نگاہ نقد کا پریم چند کے حضور میں محض ایک خراجِ عقیدت ہی نہیں بلکہ اردو فکشن کی تنقید کے کینوس کو وسیع اور محترم کرنے کی مبارک کوشش ہے جس کے لیے وہ ستائش کے مستحق ہیں۔‘‘
’’پریم چند ۔۔۔ ایک نقیب‘‘ یقیناً جس وقت لکھی گئی اس وقت مصنف کی عمر بہت کم تھی۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا پھر دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۹ء میں اور ہندی ایڈیشن ۱۹۹۶ء میں۔ گویا اس کے دو اردو کے اور ایک ہندی کا کل ملا کر تین ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اس طرح اگر اس کے پہلے ایڈیشن کا سنہ ۱۹۸۷ء دیکھا جائے تو تقریباً ۳۳ سال پہلے یہ کتاب صغیر صاحب نے اپنی کم عمری میں لکھی۔ کل ۱۶۰ صفحات ہیں اور چھ مضامین ہیں جو اس طرح ہیں:
(۱) پریم چند پر مختلف تحریکوں کے اثرات
(۲) ہوری— ایک علامتی کردار
(۳) شاہکار تخلیق—کفن
(۴) افسانہ نگار— پریم چند
(۵) مختصر سوانحی خاکہ
(۶) واردات —– تجزیاتی مطالعہ
ان عنوانات سے پریم چند شناسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ دیباچہ اول و دوم اور کتابیات ہے۔ یہ کتاب فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اتر پردیش کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔ ناشر مصنف خود ہے۔ طباعت مسلم ایجوکیشنل پریس علی گڑھ کے زیر اہتمام ہے۔ فلیپ پر پروفیسر کے پی سنگھ اور بی۔ پی۔ مادھو کے تاثرات ہیں جب کہ پشت پر صغیر افراہیم کی تصویر کے نیچے قاضی عبدالستار صاحب کے بڑے قیمتی الفاظ تعارف کے طور پر درج ہوئے ہیں۔ انھوں نے چند جملوں میں کتاب کی اہمیت و افادیت ہی نہیں بلکہ فکشن تنقید کی ضرورت بھی واضح کر دی ہے۔
تمام مضامین سے پہلے کسی نہ کسی دانشور کا ایک پیراگراف پریم چند کی مدح سرائی میں درج ہے۔ اس سے اس مقالے کا اور پریم چند کے فکر و فن کا گہرا تعلق ہے۔ پہلے مقالے کے عنوان کے اوپر پروفیسر رشید احمد صدیقی کا یہ قول درج ہے:
’’پریم چند کے ناول اور کہانیوں میں ان کے عہد تک ہندوستان کی معاشی، سیاسی، طبقاتی اور عوامی کش مکش کا بڑا واضح اور تابناک نقشہ ملتا ہے۔‘‘
رشید احمد صدیقی کو اردو کا تاثراتی نقاد مانا جا سکتا ہے مگر ان کے جملوں میں جو سادگی اور سچائی کا لطف ملتا ہے اس کی نوعیت ہی الگ ہے، تحریر کا حسن صرف زبان کی چاشنی نہیں ہے اس کے اندر حقیقت کا پرتو بھی ہے۔ ان کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ ’’غزل اردو زبان کی آبرو ہے‘‘ آج بھی غزل کی حرمت پہ دال ہیں جب کہ غزل کی مخالفت میں بڑے سے بڑے سورما آئے اور خاک کے ڈھیر ہو گئے۔ اس اقتباس کی معنویت کو پریم چند کے فکر و فن کی روشنی میں کسی بھی عہد میں بے معنی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ اقتباس صغیر افراہیم نے اپنے مقالے کے لیے مشعل کے طورر انتخاب کیا ہے پر اس کی روشنی میں انھوں نے شاید اپنے مقالے ’’پریم چند پر مختلف تحریکوں کے اثرات‘‘ کی وہ بنیادی وجہ تلاش کی ہے جس کا اشارہ رشید احمد صدیقی کے اقتباس میں پنہاں ہے۔ رشید احمد صدیقی کے الفاظ ذہن میں رکھیے اور صغیر افراہیم کے مقالے کا آغاز دیکھیے:
’’پریم چند ہندوستان کے عہد غلامی کے ادیب اور طلوع ہوتی ہوئی آزادی کے نقیب ہیں۔ اس دور کے مسائل اور ان کے تقاضے مخصوص تھے۔ آج ان میں نمایاں فرق آ چکا ہے۔ وسائل میں اضافہ، تعلیم کے شعبہ میں وسعت، انداز فکر میں تبدیلی، سماجی قدروں میں سدھار، آزاد ہندوستان کا عطیہ ہے پریم چند کی تحریریں اپنے وقت کے تقاضوں کی آئینہ دار اور ایک فنکار کے دل کی دھڑکن ہیں۔ اُن کی تخلیقات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پریم چند کے ذہن کے اُن دریچوں سے گذریں جن سے ہو کر مختلف افکار و نظریات نے اُن کی تخلیقات کو جنم دیا ہے۔ اُس پر منظر کا تجزیہ کریں جس کے پسِ پردہ اصل محرکات کروٹیں لیتے اور فکر و کاوش کا روپ اختیار کر کے ادب کے سانچوں میں ڈھلتے رہے۔ وہ حالات وہ حادثات جن سے پریم چند دو چار ہوئے جب اس فنکار کی گرفت میں آئے تو ادبی ملبوسات کا ایسا مظہر بنے کے لاکھوں ذہنوں کے لیے لمحۂ فکریہ ثابت ہوئے۔‘‘
صغیر افراہیم نے پھر مختلف تحریکوں اور رُجحانات کے ذریعہ پریم چند کی ذہنی و فنّی تربیت کا جائزہ لیا ہے جس نے دھنپت رائے کو یا نواب رائے کو پریم چند بنانے میں مدد کی ہے۔ ان کی تحریکوں میں ’’راجہ رام موہن رائے‘‘ کی کدو کاوش کا سب سے پہلے ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے بنگال میں ’’برہمو سبھا‘‘ نے بنیاد کا پتھر رکھا اور پھر یہ ’’برہمو سماج‘‘ کے نام سے ملک کے ایک بڑے حصے میں پھیل کر سماجی نظام کو نئی روشنی عطا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس اسی تحریک کا پریم چند پر علمی و عملی دونوں طرح سے اثر ہوا۔ صغیر افراہیم اس جانب روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’راجہ رام موہن رائے کا یہ کارنامہ بلا شبہ ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے لیکن تاریخی اہمیت کا حامل ان کا ایک کام اور بھی ہے۔ اس زمانے کے بعض ہندو مرد ایک سے زائد شادیاں کرتے نتیجہ میں وہ اپنے مرنے کے بعد کئی عورتوں کو بیوہ چھوڑ جاتے۔ ہندو سماج میں بیواؤں کے لیے دوسری شادی کا کوئی تصور نہیں تھا۔‘‘
راجہ رام موہن رائے نے اس رسمِ قبیح کو اپنی تحریک کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش کی اور اس کا اثر پریم چند کی زندگی اور تحریر دونوں میں ہوا۔ پریم چند نے ایک بیوہ سے شادی کی اور اپنے قلم کے ذریعہ ان کے مسائل پہ روشنی ڈالی۔ صغیر افراہیم پریم چند کی ان تحریروں کی جانب یوں توجہ دلاتے ہیں:
’’انھوں نے ’’آہ بیکس‘‘ ، ’’بیٹی کا دھن‘‘ ، ’’نوک جھونک‘‘ ، ’’معصوم بچہ‘‘ ، ’’ابھاگن‘‘ ، ’’بد نصیب ماں‘‘ وغیرہ اپنے افسانوں اور ’’ہم خرما و ہم ثواب‘‘ ، ’’روٹھی رانی‘‘ ، ’’جلوۂ ایثار‘‘ ، ’’بیوہ‘‘ ، ’’نرملا‘‘ ، ’’غبن‘‘ وغیرہ ناولوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ ہندوؤں میں کثرت ازدواج اور بیواؤں کے ان ہی مسائل کی جانب پڑھنے والوں کی توجہ دلائی۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے ’’بیوہ‘‘ کا ایک اقتباس پیش کیا ہے جس سے پریم چند کے فکری نہج کو سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ اقتباس پیش ہے:
’’اگر کسی ناگہانی صدمہ سے یہ مکان گر پڑے تو ہم کل سے اسے پھر سے بنانا شروع کر دیں گے مگر جب کسی عورت کی زندگی پرکوئی ناگہانی آفت پڑ جاتی ہے تو اس سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ اس نام کوروتی رہے۔ یہ کتنی بڑی بے انصافی ہے۔‘‘
برہمو سماج کے بعد ایک دوسری تحریک ’’آریہ سماج‘‘ کے نام سے پھلتی پھولتی ہے۔ اس کے اثرات بھی پریم چند کی تحریر میں اُبھرے، اس کے علاوہ دیگر غیر ملکی مغربی رُجحانات نے بھی ہندوستانی ذہن کو متاثر کیا۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم لکھتے ہیں:
’’ہندوؤں کی قومی اور سماجی تعمیر میں بعض غیر ملکی اداروں اور افراد کی کاوشیں بھی قابلِ ذکر ہیں جنھوں نے ملک کو مغرب کے نئے رُجحانات سے آگاہ کرایا اور ذی شعور حضرات کو مشعل راہ دکھائی۔‘‘
’’میدانِ عمل‘‘ کے حوالے میں تعلیمی سرگرمی نے پریم چند کے یہاں جو سر اٹھایا وہ انھیں تحریک کے زیر اثر دکھائی پڑتی ہے۔ پھر جنگِ آزادی کے اثرات نے بھی حب الوطنی کا جوش جگایا جس میں ذات پات، چھوا چھوت اور مذہبی جبر کو پریم چند نے شدت سے محسوس کیا اور ان کی مخالفت کی۔ یہ مضمون دو حصے میں ہے ایک حصہ مختلف تحریکات کے اثرات کی ترجمانی کرتا ہے جب کہ دوسرا حصہ جنگ آزادی اور حب الوطنی کی نشاندہی پر مبنی ہے۔ تجزیہ کے طور پر آخر میں صغیر افراہیم اس موضوع پر اپنا خیال یوں ظاہر کرتے ہیں:
’’پریم چند نے ان تمام تحریکوں کے مثبت پہلوؤں کے تاثر کو قبول کیا اور اپنے قلم کے زور سے ان کی کم و بیش آبیاری کرتے رہے۔‘‘
دوسرا مقالہ ’’ہوری—–ایک علامتی کردار‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں انھوں نے ڈاکٹر قمر رئیس (جنھیں پریم چند شناسی میں ملکہ حاصل تھا) کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کیا:
’’پریم چند پہلے ادیب ہیں جن کی نظر حیاتِ انسانی کے اس انبوہ میں ان مجبور اور مقہور انسانوں پہنچی جو قدرت کے دوسرے بے زبان مظاہر کی طرح صدیوں سے گونگے اور بے زبان تھے۔ پریم چند نے انھیں زبان دی۔ ازلی پسپائی اور پسماندگی کے شکار یہ ہندوستان کے دبے کچلے کروڑوں انسان تھے جو ملک کی غالب اکثریت، تہذیب و شان و شوکت کے خالق تھے۔‘‘
یقیناً قمر رئیس کے یہ جملے پریم چند کی انفرادیت و عظمت کے علمبردار ہیں۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم کی سوجھ بوجھ یہاں بھی دکھائی دیتی ہے اس لیے کہ قمر رئیس نے جس ازلی پسپائی کا ذکر کیا ہے اس کا شکار غریب آدمی ہی ہر زمانے میں ہوا ہے۔ غربت، نہایت ہی پسماندگی کا سبب صدیوں سے ہے جہاں انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ہندوستان غریبوں مزدوروں اور کسانوں کا دیش ہے پریم چند نے گؤ دان کے ذریعہ ہیرو کا تصور بدل دیا ہے ورنہ اس سے پہلے ادب کے اندر ہیرو کی جو تصویر ملتی ہے اس کا تعلق اعلی طبقے یا اعلیٰ شخصیت یا اعلیٰ ذات سے یا اعلیٰ عہدے سے ہوتا ہے۔ ’’ہوری‘‘ کے روپ میں پریم چند نے ایک ایسے ہیرو کو پیش کیا ہے جو ہندوستان کی دیہی زندگی کا سچا ترجمان ہے۔
صغیر افراہیم کا یہ دوسرا مقالہ ’’ہوری—–ایک علامتی کردار‘‘ بھی ان کی نگاہ نقد کی باریک بینی کا آئینہ دار ہے۔ انھوں نے مقالے کا آغاز بڑے پختہ دلائل کے ساتھ کیا ہے:
’’پریم چند گاؤں کی زندگی کی حقیقتوں، اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور سماجی جبر سے بخوبی واقف تھے۔‘‘
اور پھر اس بات کی دلیل پریم چند کے الفاظ سے مہیا کی ہے جسے انھوں نے ہنس کے ایک شمارہ میں لکھا تھا:
’’پرجا کے پاس لگان دینے کو کچھ نہیں مگر سرکار لگان وصول کر کے چھوڑے گی۔ چاہے کسان بک جائے چاہے زمین بے دخل ہو جائے، اس کے برتن بھاڑے، بیل بچھیا، اناج، بھوسا سب کا سب بِک جائے۔‘‘
پھر کئی دانشوروں کی رائے کو پیشِ نظر رکھ کر گؤ دان کا تجزیہ کیا۔ اور مرکزی کردار ہوری کے متعلق اس کا تعارف یوں بیان کیا:
’’گؤ دان کا مرکزی کردار ہوریؔ ان کروڑوں کسانوں میں سے ایک ہے جو سارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور زندگی کی مسرتوں سے دور نیلے گگن کی چھاؤں تلے محنت و مشقت کے سہارے اپنا اور اپنے اہل و عیال کی ضرورتوں کا بوجھ اٹھانے کی انتھک کوشش کرتے ہیں۔ ماگھ پوس کی کپکپاتی رات اور جیٹھ بیساکھ کی چلچلاتی دھوپ میں کمر توڑ محنت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اُجرت اُتنی پاتے ہیں کہ پوری طرح پیٹ کی آگ بھی بجھانا ان کے لیے ممکن نہیں ہو پاتا۔‘‘
اور وہ ہوریؔ کی شرافت کو ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں:
’’ہوریؔ روایتی کسان ہے۔ روایت پرست، قدامت پرست، مذہبی، اپنی بات کا پکّا، محنتی اور ایماندار، ہر ظلم اور بے انصافی کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرنے والا اور لاکھوں کسانوں کی طرح رسم و رواج کے بندھنوں میں جکڑا ہوا، روایتوں کو نباہنے والا اور مان مریادا کو بحال رکھنے کی جد و جہد میں اپنا سب کچھ گنوا دیتا ہے۔‘‘
اور صغیر افراہیم نے ’’ہوریؔ‘‘ کا بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ گؤ دان میں ایک فرد کے اندر سمٹ آتا ہے کہ وہ فرد پورے معاشرے کو منعکس کرتا ہے۔ ناول کا ابتدائی تاثر محدود اور اس کا محور ہوریؔ کا کنبہ معلوم دیتا ہے۔ کہانی اس ایک خاندان کے گرد منڈلاتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور رفتہ رفتہ احساس دلاتی ہے کہ پریم چند نے اس ایک خاندان کے سہارے پورے دیہی طبقہ کی زندگی بیان کر دی ہے۔‘‘
’’شاہکار تخلیق ’’کفن‘‘ پریم چند کی افسانوی عظمت پر دال ہے۔ صغیر افراہیم نے اس مقالہ میں پروفیسر آل احمد سرور کا یہ اقتباس درج ہے:
’’ہم اپنے سماج کے زخموں اور ناسوروں سے اپنی جہالت اور گندگی سے منہ چھپا کر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر پریم چند ہماری خلوتوں اور پناہ گاہوں میں گھس کر ہمارے دلوں پر کچوکے لگاتے ہیں۔ اور مردانہ وار یہ بتاتے ہیں کہ دیکھو یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں۔‘‘
مقالے کا آغاز صغیر افراہیم نے یوں کیا ہے:
’’پریم چند کا ہمارے افسانوی ادب میں ایک منفرد مقام ہے۔ ان کے افسانوں کا محور دیہات ہے وہ شاید پہلے ہندوستانی ادیب ہیں ’’جنھوں نے شعوری طور پر ادب کے ذریعہ سے عوام کے مسائل سمجھنے کی کوشش میں انسان دوستی کی طرف قدم اٹھایا‘‘ اور اس لحاظ سے آخری بھی کہ جن فضاؤں میں انھوں نے اپنے افسانوں کو جنم دیا پھر کسی دوسرے ادیب نے اُس جانب اتنی توجہ نہ دی۔‘‘
صغیر افراہیم نے سردار جعفری کے قول کو مزید تقویت بخش کر پریم چند کی دیہی معلومات اور انسانی درد مندی کی انفرادیت کو اُجاگر کیا ہے، پھر اس کے بعد افسانے کی تکنیک اور کہانی کی خصوصیت کا مختلف دانشوروں کے خیالات کی روشنی میں ’’کفن‘‘ کی آفاقیت کو بھی پیش کیا ہے کہ وہ شاہکار تخلیق کیوں ہے اس کے بعد اپنی تفصیلی گفتگو میں اس افسانے کے نئے نئے پہلو تلاش کیے ہیں جن سے صغیر افراہیم کی بالغ نظری کا مکمل ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’کفن میں مرکزی کرداروں کے مکالمے، افسانہ نگار کے وضاحتی بیانات اور جا بجا بکھرے ہوئے سانحی نشیب و فراز افسانہ کے لہجہ کو طنز کا ایسا آہنگ دیتے ہیں کہ تمام تشکیلی عناصر اس میں ڈوب کر رہ جاتے ہیں اور افسانہ ایک مکمل طنز کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔‘‘
بدھیاؔ اس افسانے کا تانیثی کردار ہے جس کے بارے میں صغیر افراہیم یہ رائے قائم کرتے ہیں:
’’بدھیاؔ افسانہ کا اہم ترین کردار ہے۔ اس کی موت کے بعد بھی، اس کا تعلق بدستورا فسانہ سے قائم رہتا ہے اور اس تعلق سے تمام تشکیلی عناصر سر گرم رہتے ہیں۔ بدھیاؔ کی موت نے دونوں کرداروں کو متحرک کر دیا ہے۔‘‘
اور پھر افسانہ کے کلائمکس اور مناظر کے تناؤسے پیدا ہونے والی شدت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’افسانہ کا تناؤ اور کلائمکس اس وقت اپنے انتہائی نقطے پر پہنچ جاتا ہے جب وہ کفن نہ خرید کر ساری رقم شراب و کباب پر اُڑا دیتے ہیں اور بد مستی کی حالت میں سماجی قوانین اور مذہبی و اخلاقی اصولوں کا مضحکہ اُڑاتے ہیں۔ اُس کے کھوکھلے پن پر طنز کرتے ہیں، اُس کی منافقت اور مصلحت پسندی کو بے نقاب کرتے ہیں۔‘‘
آخر میں وہ اس کے مرکزی کردار گھیسوؔ اور مادھوؔ کو تجزیاتی پیراہن دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’گھیسوؔ اور مادھوؔ کے کردار جو پریم چند کی بے پناہ قوت مشاہدہ کا نتیجہ ہیں۔ دونوں کرداروں کا وجود مسلسل ناکامی، حقارت، توہین اور تضحیک کا پتہ دیتے ہیں۔‘‘
اور پھر افسانہ ’’کفن‘‘ پر اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس طویل لرزہ خیز داستان کو پریم چند نے بڑے تمثیلی انداز سے چند سطروں میں قلم بند کیا ہے اور ہندوستانی دیہاتوں میں طبقاتی کشمکش کے استحصال کے نتیجہ میں پھیلی افلاس کی کہانی سُنا کر وہ وقت کے نازک ترین ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہوئے ہیں۔‘‘
اگلا مقالہ ’’افسانہ نگار—–پریم چند‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں انھوں نے اردو کے مقبول ناقد سید احتشام حسین کی رائے کو پیش کیا ہے:
’’پریم چند کا ذہن ارتقا پذیر تھا۔ ان کا فن حالات کے ساتھ ترقی کر رہا تھا، ان کے خیالات واقعات کی رفتار کا ساتھ دے رہے تھے۔ وہ ہندوستانی عوام کی روح میں اُتر کر ان کے دکھ درد، ان کے کرب و اضطراب، ان کی مایوسی اور امید، ان کے خوابوں اور خیالوں کو دیکھ سکتے تھے وہ انھیں اس جال سے نکال کر ایک بہتر زندگی کا خلعت دنیا چاہتے تھے جس میں وہ صدیوں سے جکڑے ہوئے تھے۔‘‘
اس مقالے میں پریم چند کو بحیثیت افسانہ نگار ان کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں اس کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ان کی قدر و قیمت بھی پیش کی گئی ہے۔ اسی لیے مقالے میں آغاز اس طرح ہوا ہے۔
’’پریم چند کے افسانوں کی عہد حاضر میں بھی وہی اہمیت اور افادیت ہے جو پہلے تھی بلکہ ان کی قدر و قیمت میں کچھ اجافہ ہوا ہے۔‘‘
افسانہ نگاری کے باب میں صغیر افراہیم پریم چند کو اردو کا پہلابڑا افسانہ نگار مانتے ہیں۔ پریم چند کی حبّ الوطنی ادب کی سنگلاخ زمین میں انھیں کھینچ لائی اور تمام عمر اسی جذبے کے زیر اثر تخلیقی عمل سے گزرتے رہے۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے تحریک آزادی کے تناظر میں، پریم چند کے پہلے افسانوی مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔ یہ اردو کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے بھلے ہی زمانی اعتبار سے پریم چند اردو کے پہلے افسانہ نگار نہ ہوں۔
صغیر افراہیم کا پریم چند کی افسانوی قدر و قیمت کا تجزیہ کسی حد تک موضوعی ہے، جو یہاں ضروری بھی ہے۔ ہاں پروفیسر موصوف نے موضوعات کی بحث کو بے حد معروضی انداز میں پیش کیا ہے۔ تخلیق کے شروعاتی مرحلے میں اگر چند فنّی خامیوں پر نکتہ چیں قلم کار حلقہ بگوش ہیں تو ان کا صغیر افراہیم کا جواب ہے:
’’پریم چند کے افسانوں میں فنّی خامیوں کی موجودگی کوئی غیر معمولی بات نہیں اور وہ رفتہ رفتہ دور بھی ہوتی رہیں۔ در اصل ان کا اصلاحی رُجحان فن کی راہ میں حائل رہا ہے۔ انسان دوستی و اس کی ہمنوائی میں سماج سے براہ راست تعلق رکھ کر وہ تمام عمر اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے اولاً نظریہ حیات کو مقدم و مقدس جانا اور اسے محرکاتِ فن پر ترجیح دی ہے۔‘‘
یقیناً نظریۂ حیات کا مقدم اور مقدس ہونا ہی فن کا اصل جوہر ہے جب افسانہ نگاری کی راہ کے پہلے قافلے کے سالار پریم چند ہیں تو کیسے کہہ رہا ہے‘‘ کا نکتہ بے معنی ہو جاتا ہے، ’’کیا کہہ رہا ہے‘‘ یہ بات قابل توجہ اور بامعنی ہے۔ اس کے بعد مختصر سوانحی خاکہ پیش کیا گیا ہے جس میں امرت رائے کا اقتباس درج ہے:
’’تاریخ پیدائش سمبت۱۹۳۷ء باپ کا نام منشی عجائب حال سکونت موضع مڈھوا، لمہئی، متصل پانڈے پور بنارس۔ ابتدا ء ً ۸ سال تک فارسی پڑھی پھر انگریزی شروع کی بنارس کے کالجیت اسکول سے انٹر پاس کیا والد کا انتقال ۱۵ سال کی عمر میں ہو گیا۔ والدہ ساتویں سال گزر چکی تھیں پھر تعلیم کے شعبہ میں ملازمت کی۔ ۱۹۰۱ء میں لٹریری زندگی شروع کی۔‘‘
اس سوانحی خاکہ میں صغیر افراہیم نے نہایت منظم طریقہ سے پریم چند کی زندگی کے اہم واقعات یکجا کر دیے ہیں جن سے ان کے شب و روز کا تاریخی مواد مل جاتا ہے انھوں نے تاریخ پیدائش ۱۸۸۰ء لکھ کر ذہن کے دریچے کھول دیے ہیں کہ طلبا ۱۹۳۷ء سمبت سے بھرم میں نہ آ جائیں۔ جب کہ تاریخ وفات ۱۹۳۶ء ہے۔ یہ خاکہ طلبا اساتذہ اور محققین سب کے لیے نہایت کارآمد ہے۔
آخری مقالہ میں ان کے آخری افسانوں کا مجموعہ ’’واردات‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ معروضی انداز میں پیش کیا ہے اس میں گزشتہ اصول کے مطابق ل۔ احمد اکبر آبادی کا اقتباس دیا ہے:
’’پریم چند کی توجہ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر مرکوز رہی اور انھوں نے بالعموم ادنیٰ اور متوسط طبقہ کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ اس کتاب (واردات) کے دیکھنے سے مجھے دو خاص باتیں نظر آئیں۔ زندگی میں بعض مسائل معمہ کی صورت رکھتے ہیں جن کی موافقت میں جتنا کہا جا سکتا ہے اتنا ہی ان کی مخالفت میں۔ مثلاً ایثار اور بقائے ذات کا مسئلہ یا حق اور نا حق کا مسئلہ۔ منشی جی ایسے مسائل اکثر پیش کرتے ہیں اور تصویر کے دونوں رخ پیش کر کے فیصلہ آپ پر چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
مقالے کی شروعات اس پیراگراف سے ہوتی ہے:
’’آزادی سے قبل ہندوستانی معاشرے کی صورت حال، طبقاتی تفریق، رسم و رواج کے نام پر ظلم و ستم اور اس جیسے بیشتر موضوعات کو اپنی تخلیقی صلاحیت اور فنّی نُدرت کے ذریعے خوبصورت فن پارے اور قدر اول کی تخلیق کے طور پر عرصۂ دراز تک کے لیے قائم کرنے والے اردو کے سب سے اہم افسانہ نگار ہیں پریم چند۔‘‘
اس کے بعد اس افسانوی مجموعہ کے تمام افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے اور آخر میں صغیر افراہیم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں:
’’مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پریم چند کا یہ مجموعہ ان کے افکار و خیالات، عصری صورتِ حال پر ان کی نگاہِ عمیق اور فنِ افسانہ نگاری پر ان کی زبردست دسترس کا ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس کی سیر ہمیں جدید اردو فکشن کے اولین افسانہ نگار کی جملہ صلاحیتوں سے واقف کراتی ہے۔ آج تک ہماری تنقید جن خطوط پر فن پارے کے تعلق سے سوچتی اور اظہار کرتی آئی ہے ان سبھی کے مطابق پریم چند کا فن اور بطور خاص ’واردات‘ میں پیش کردہ فن پارے ایک مثبت تاثر چھوڑتے ہیں جو دیر پا ہے اور ہر دور کے (تبدیل ہوتے ہوئے) معیاراتِ تنقید پر پریم چند کے افسانے پورے اُترتے ہیں۔‘‘
آخر میں انھوں (صغیر افراہیم) نے کتابیات کا کالم رکھا ہے اس میں بھی انھوں نے اصول کے مطابق ایک اقتباس پیارے لال شاکر میرٹھی کا درج کیا ہے، وہ یہ ہے:
’’منشی پریم چند کو مطالعے کا بہت شوق تھا۔ شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہو جس پر ایک آدھ کتاب ان کی نظر سے نہ گزری ہو۔ اس کے ساتھ ہی حافظہ بھی بلا کا تھا۔ قصہ کہانی کی کتابیں پڑھنا اور ان کو یاد رکھنا تو کوئی قابلِ تعریف بات نہیں لیکن منشی پریم چند علمی و سیاسی کتب و رسائل کے اہم مطالب کو اس طرح دہرا دیا کرتے تھے گویا پڑھ کر سنا رہے ہیں۔‘‘
یہ کتاب پریم چند کے کئی اہم گوشوں پر قارئین کو متوجہ کرتی ہے۔ پروفیسر کے۔ پی۔ سنگھ کی رائے کے مطابق:
’’مختلف جہتوں سے پریم چند کو دیکھنے کا عمل ڈاکٹر صغیر افراہیم کی اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔‘‘
اور بی۔ پی، مادھو کا کہنا ہے:
’’ڈاکٹر صغیر افراہیم کی یہ کتاب پریم چند اور ان کے زمانے کی تحریکوں کے سمبندھ میں ایک مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
میرے خیال سے یہ کتاب جملہ صفات کی حامل تو ہے ہی لیکن اس کی اہم خوبی یہ ہے کہ کم سے کم صفحات میں پریم چند جیسے عظیم فن کار کی بہت ساری فکری و فنّی جہتوں کے ساتھ زندگی کے ان تمام لمحوں کو بھی روشن کر دیتی ہے جن کی واقفیت پریم چند کے قاری کے لیے نہایت ضروری ہے۔ میں کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ پریم چند کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کتاب کی قرأت آپ کے لیے سب سے زیادہ کار آمد ثابت ہو گی۔ اس تنقیدی کتب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پروفیسر صغیر افراہیم نے اجمال میں تفصیل کو پرو دیا ہے۔ کوزے میں دریا سمیٹنا آسان کام نہیں ہے کتاب پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر صغیر افراہیم اِس ہُنر سے بخوبی واقف ہیں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے