غزلیں ۔۔۔ مینا نقوی

دھوپ آئی نہیں مکان میں کیا
ابر گہرا ہے آسمان میں کیا

آہ کیوں بے صدا ہے ہونٹوں پر
لفظ باقی نہیں زبان میں کیا

ہو گیا نیلگوں بدن سارا
تیر زہریلے تھے کمان میں کیا

سارے کردار ساتھ چھوڑ گئے
آ گیا موڑ داستان میں کیا

جھلسا جھلسا ہے کیوں بدن سارا
آ گئی دھوپ سائبان میں کیا

نا شناسا ہے چاند سے کیوں دل
صرف تارا تھا آسمان میں کیا

روز و شب کس کی راہ تکتی ہو
تم ہو میناؔ کسی گمان میں کیا
٭٭٭

سورج سرک کے آ گیا شب کی پناہ میں
منظر لہو سا بھر گیا جاں کی نواح میں

سانسوں میں شور کرتی ہیں کچھ بے قراریاں
کچھ حسرتیں ہیں گریہ کناں غم کی راہ میں

شاید کوئی نویدِ طرب لے کے آ ہی جائے
جگنو سا کچھ چمکتا ہے تاریک راہ میں

ہے دشت کو بھی بزمِ غزالاں کی جستجو
میرا ہی نام لکھا گیا کیوں گناہ میں

مجھ کو بھی پیشِ رفت سے روکی تھی بے بسی
اس کو بھی پیش و پس رہا مجھ سے نباہ میں

کس کو کنیز خاص کا ہو مرتبہ عطا
میناؔ ہے کشمکش دل عالم پناہ میں
٭٭٭

دل سے کوئی سوال کسی نے نہیں کیا
حیرت ہے یہ کمال کسی نے نہیں کیا

مل جل کے سب نے بانٹ لیں دولت حیات کی
لیکن مرا خیال کسی نے نہی کیا

پہنچا نہ کوئی روح کی گہرائیوں تلک
جسموں سے انتقال کسی نے نہیں کیا

شاخوں سے ٹوٹنے پہ ہوئے خود ہی در بدر
پتوں کو پائمال کسی نے نہیں کیا

میں سب کے ساتھ ساتھ رہی غم کے دور میں
غمکا مرے ملال کسی نے نہیں کیا

اوروں میں عیب جوئی میں سب عمر بھر رہے
خود کو مگر مثال کسی نے نہیں کیا
٭٭٭

گردشِ وقت کچھ زیرِ لب کہہ گئیٰ
زندگی برف تھی دھوپ میں بہہ گئی

موت زیر و زبر روز کرتی رہی
آرزو زیست کی منجمد رہ گئی

جانے کس شاہزادے کی تھی منتظر
وہ پرانی حویلی جو کل ڈھہ گئی

منزلوں کے مسافر تمہیں کیا خبر
تم سے بچھڑی کوئی رہ گزر رہ گئی

رقص گرداب کرنے لگے جا بجا
موج ساحل کے کچھ کان میں کہہ گئی

حال میناؔ کا ہم کیا بتائیں تمہیں
چاند جب چھپ گیا چاندنی گہہ گئی
٭٭٭

جذب آنکھوں میں اگر خواب نہیں ہونے کے
معتبر عشق کے آداب نہیں ہونے کے

بس مری کشتی سے ہی بیر تھا طوفانوں کو
اب سمندر کبھی گرداب نہیں ہونے کے

ہم نے پلکوں میں چھپا رکھے ہیں اپنے آنسو
رائے گاں گوہر نایاب نہیں ہونے کے

بے حسی لے گئی جذبات کی ساری خوشبو
اب یہ غنچے کبھی شاداب نہیں ہونے کے

اس سے ملنے کی تمنا کبھی خواہش اس کی
یہ سفینے کبھی غرقاب نہیں ہونے کے

ٹمٹماتے ہیں ابھی یادوں کے بوسیدہ چراغ
کیا یہ جگنو کبھی مہتاب نہیں ہونے کے

تو سمندر ہے مگر پیاس سے تڑپے ہم لوگ
تلخ پانی سے تو سیراب نہیں ہونے کے

پھر سرِ شام سے ہے یادوں کی دستک میناؔ
آج پھر نیند کے اسباب نہیں ہونے کے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے