مرہموں کی آس میں ۔۔۔۔ ظہیرؔ احمد

زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں
کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں
چلتے چلتے خاک تن ہو گیا ہوں خاک میں
تار ایک بھی نہیں اب قبا کے چاک میں
دل نشان ہو گیا ایکیاد کا فقط
رہ گئی ہے آنکھ میں ایک دید کی سکت
زہر جو ہوا میں تھا آ گیا ہے سانس میں
ذہن میں گرہ جو تھی وہم کے لباس میں
پھانس بن کے درد کی شاہ رگ میں گڑ گئی
کرب اِس قدر سوا، یاد ماند پڑ گئی
ٹیسیں روز اٹھتی ہیں درد کے پگھلنے تک
درد جانے کتنے ہیں حالِ دل سنبھلنے تک
اور کتنا روؤں اب، اشک خوں تو ہو گئے
رنگ وحشتوں کے سب، ہاں جنوں تو ہو گئے
دشتِ ہجر کی ہوا داؤ سارے چل چکی
اور کتنا چلنا ہے، رات کتنی ڈھل چکی
تارے کتنے ٹوٹیں گے تیرگی کے چھٹنے تک
ناشکیب و نا رسا بخت کے پلٹنے تک
مہر کے نکلنے میں قہر کتنے رہتے ہیں
کاسۂ جدائی میں زہر کتنے رہتے ہیں
درد کتنے باقی ہیں لا علاج ہونے میں
اشک کتنے باقی ہیں تجھ سے مل کے رونے میں
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے