چائے کا ارغوانی دور ۔۔۔ مولانا ظفر علی خاں

چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے

جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے

چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے

 

نہ ملے چائے، تو خوننابِ جگر کافی ہے

بزم میں دور چلا ہے، تو ابھی اور چلے

چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے

 

دیکھتے دیکھتے پنجاب کا نقشہ بدلا

آنکھوں آنکھوں میں زمانہ کے بدل طور چلے

چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے

 

جاں کس انداز سے دی جاتی ہے راہِ حق میں

جسے کرنا ہو یہ نظارہ، وہ لاہور چلے

چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے

 

جاں سے تنگ آئے ہوؤں سے جسے ٹکرانا ہو

اپنے انجام پہ کرتا وہ ذرا غور چلے

چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے

 

جبر پر کرتے ہوئے صبر بسوئے مقتل

خوگرِ ظلم و جفا و ستم و جور چلے

چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے

 

مضطرب ہیں کہ شہادت کا ملے جلد ثواب

تیغ گردن پہ جو چلنی ہے تو فی الفور چلے

چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے