غزلیں ۔۔۔ محمد احسن سمیع راحلؔ

دل ہائے گرفتہ کو خوشا کون کہے گا
اس بیعتِ قسری کو بجا کون کہے گا!

سب کا ہی مفاد اور غرض زد میں ہو جس کی
آمین بر ایں حرفِ دعا کون کہے گا!

خائف نہ ہوں کیوں اہل چمن میری نوا سے
صرصر کو بھلا باد صبا کون کہے گا!

اک لفظ تسلی کا نہ جس خط میں ہو، اس کو
سوزِ غمِ ہجراں کی دوا کون کہے گا

اس عقل کو، ہوجائے جو خالق ہی کی منکر
کم عقل بجز عقلِ رسا کون کہے گا!

کٹ جائے اگر سر بہ رہِ نامِ محمدﷺ
غافل کے سوا اس کو قضا کون کہے گا؟

راحلؔ ہی تھا دیوانہ بس اک شہرِ غرض میں
اب تیری جفاؤں کو ادا کون کہے گا؟
٭٭٭

جس کی آنکھوں میں غمِ ہجر کا تارا ہوگا
اس کی مٹھی میں مقدر بھی ہمارا ہوگا

صبح دم وہ تری آواز، معطر سانسیں
تیرے بن، تو ہی بتا کیسے گزارا ہو گا؟

جان دینے کی اجازت نہیں رکھی اس نے
ایسے تو عشق میں بس ہم کو خسارہ ہوگا

اب تو چاندی بھی اتر آئی مرے بالوں میں
جس کا وعدہ تھا بھلا کب وہ اشارہ ہوگا؟

جو مرے گرد بناتی تھی دعاؤں کا حصار
اس کے ہاتھوں میں کہیں اب بھی سپارہ ہوگا!

عمر کیا پوری یونہی جستجو میں گزرے گی؟
آخر اس عشق کا کوئی تو کنارہ ہوگا!

جانے کیا بات ہے، قرب اس کا جلا دیتا ہے
اس کی ہستی میں نہاں کوئی شرارہ ہوگا!

اب جو پہچان میں آتا ہی نہیں دل، سوچو
کتنی محنت سے اسے ہم نے سنوارا ہوگا!

کیا نہیں میری انا سے یہ زمانہ واقف!
کیسے ممکن ہے اسے ہم نے پکارا ہوگا

سب کا دل رکھ لو، گداؤں کو نہ جھڑکو راحلؔ
کیا خبر ان میں کوئی ہجر کا مارا ہوگا
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے