وینٹی لیٹر ۔۔۔ فرزانہ نیناں

 

جب اڑی جا رہی تھیں یہ زلفیں

ان ہواؤں میں گیت تھے اُس کے

میرے چہرے پہ تھی ہنسی اس کی

کھکھلاتے تھے راہ کے کانٹے

چاند پر گھومتے تھے ہم اکثر

زندگی پر بھی کچھ بھروسا تھا

جانے کس لمحے پڑ گئی وہ شکن

ساری دنیا بدل گئی جس میں

ایک گہری سی سانس لینے کو

رات دن ہم جھگڑتے رہتے ہیں

وینٹی لیٹر کو تکنے لگتے ہیں۔۔۔!

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے