نظمیں ۔۔۔ عنبر بہرائچی

 

ایک ریاضت یہ بھی

 

وہی دریا کنارے

روز اپنی بانس کی بنسی لیے بیٹھا ہوا وہ شخص

کتنی بے نیازی سے

ہر اک لمحہ کو اپنی خوش دلی سے داد دیتا ہے

کہ جس کے روئے روشن پر قناعت مورچھل جھلتی ہوئی موتی لٹاتی ہے

سحر تا شام لہروں سے وہ اپنی بات کہتا ہے

ہواؤں کی مدھر سرگوشیوں پر کھلکھلاتا ہے

پرندوں کے سہانے چہچہوں پر جھوم اٹھتا ہے

کسی آواز کی آہٹ پہ کجری گنگناتا ہے

مگر اس کی نظر ڈوری کی ہر جنبش پہ رہتی ہے

کوئی مچھلی پھنسی تو اس کے سینے میں

کئی رنگوں کی صبحیں دفعتاً مرپاش ہوتی ہیں

مگر ایسا بھی ہوتا ہے

کسی دن ہاتھ خالی اپنے گھر وہ لوٹ جاتا ہے

کئی معصوم آنکھیں جب سوالی بن کے اٹھتی ہیں

وہی مانوس سی اک مسکراہٹ اس کے چہرے کی

کسی ننھی سی مچھلی کی طرح اک جست لیتی ہے

شکستہ جھونپڑے میں ایک بجلی کوند جاتی ہے

٭٭٭

 

 

ببول کے درخت سے کہو

 

ابھی مشام جاں میں ہر سنگھار کی شگفتگی

بڑے ہی انہماک سے بہار پاش ہے یہاں

جو مڑ کے دیکھتا ہوں ادھ جلے گلاب کا بدن

شہادتوں کے رمز پر سنگھار بھی لٹا گیا

جو مڑ کے دیکھتا ہوں فاختہ کا احمریں لہو

جبین جور کی سبھی رعونتیں مٹا گیا

مرے خلاف سازشوں کا یہ مہیب سلسلہ

مری انا کے بانکپن میں دفعتاً سما گیا

چنار کے درخت سے ہے ناریل کے پیڑ تک

رواں دواں ہماری خوشبوؤں کا شوخ سلسلہ

کبوتروں کے غول کی پھبن ہرن کی چوکڑی

ہوا کے دوش مرغ زار کو دلہن بنا گئی

ابھی مری زمین کی فضائیں صبح فام ہیں

دھویں کے ناگ سے کہو

بڑی ہی سخت جان ہیں ہماری وادیوں میں رنگ و نور کی لطافتیں

سمندروں کی سیپیوں سے پوکھروں کی گھونگھیوں نے

بیعتوں کے واسطے سپرد کب کیا ہے غیرتوں کے لالہ زار کو

ابھی حصار سنگ میں کنول کے پھول ہیں کھلے

زبان ریگ سرخ سے کہو

ہمارے پاؤں جل گئے تو کیا ہوا

بہار سبز کے لئے زمیں تو آج مل گئی

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے