نظمیں ۔۔۔ تبسم فاطمہ

 

اپنے بیٹے ساشا کی سالگرہ کے موقع پر

 

شہزادے

تم خوابوں سے نکل کر زندگی میں آئے

ابھی تم نے ننھے ننھے قدموں سے چلنا سیکھا تھا

کہ اچانک تم بڑے ہو گئے

تم ان سب سے مختلف تھے

جنہیں میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں

تاریخ سے لے کر آج تک

تم سب سے الگ تھے شہزادے

میں تمہارے فرشتہ ہونے پر حیران ہوں

کہ نہ تم نے کبھی سیاہ جھوٹ کو گلے لگایا

نہ سر کشی کی راہ پر چلے

تم اس کائنات میں، اور اس سے پہلے بھی جو کائنات رہی ہو گی

اور آگے بھی جو کائنات ہو گی

درخشاں ساری کائنات میں کوئی بھی تمہارے جیسا نہیں ہو گا

اور نئی کائنات کے شور میں بھی

کوئی آواز تمھاری طرح میٹھی نہیں ہو گی

شہزادے

تم بہتر جانتے ہو کہ سمندر کی خوفناک لہروں سے

کیسے جنگ جیتی جاتی ہے

جیسے تم جانتے ہو اڑان بھرنا

توازن کے ساتھ لہروں سے کھیلنا اور پانی میں تیرنا

جبکہ پانی میں بڑے بڑے مگرمچھ بھی ہیں

لیکن تم جانتے ہو کہ مگرمچھوں سے کیسے بچنا ہے

شہزادے

تم کو شعلوں پر چلنا بھی سیکھنا ہو گا

زہریلی ہواؤں کے موسم کا مقابلہ بھی کرنا ہو گا

تمہیں محبت کی تعبیر بننا ہے شہزادے

اور منزلوں میں جو منزل قطب تارے جیسی ہے

تمہاری منزل وہی ہے شہزادے

اور یاد رکھنا، میں اب بھی

تمہارا ہاتھ تھامے تمہارے ساتھ ہوں

جہاں تیز اٹھتی ہوئی لہریں ہیں، شعلے ہیں، چٹانیں ہیں

وہاں میں بھی ہوں تمہارے ساتھ

شہزادے

اب اس خواب کے آخری سرے کو پکڑنے کا وقت ہے

جہاں ایک طلسمی دروازے کے اندر کوہ نور رکھا ہے

یہ صرف تمہارا ہے

اس وقت ساری کائنات مجھے جھومتی ہوئی نظر آ رہی ہے

اور تم بھی رقص میں ہو

صرف اتنا ہوا ہے

میرے پاؤں چھوٹے ہو گئے ہیں اور تمہارے بڑے

میں تمھارا ہاتھ تھامے پیچھے چل رہی ہوں

تم میرا ہاتھ تھامے آگے چل رہے ہو۔

٭٭٭

پرندوں کی چیخیں

( نئے برس کے لئے ایک نظم)

 

من تو شُدم تو من شُدی،

من تن شُدم تو جاں شُدی

اور جب سال رخصت ہو رہا تھا

میں خندق کی کھدائی سے ملے نقشے کو دیکھ رہی تھی

یہ نقشہ کسی ملک کسی زمین کا نہیں تھا

جب نیبو اور سنترے نچوڑے گئے

مجھے یاد ہے

زمین کئی حصّوں میں تقسیم تھی

اور زمین پر جو داغ تھے، ان سے خون رس رہا تھا

میں جب زمین کی برہنگی سے لپٹی،

میں زمین بن گئی اور میرے جسم پر آبلے تھے

جو پرانے برس کے بے نام حادثوں کا تحفہ تھے

جب بے رحم سنگ تراش

زمینیں فروخت کر رہا تھا

میں خندق سے برآمد نقشے پر جھکی ہوئی تھی

کچھ کسان اور مزدور تھے

جو فاقہ کشی کے دوران پیٹ پر پتھر باندھنے کی مشق کر رہے تھے

میں نے زمین سے برآمد معصوم بچوں کے جرابوں کو دیکھا

ان میں سرخ گیلی مٹی کے پیوند لگے تھے

جب میں نے بے سری بانسری بجاتے سلطان کو دیکھا

میں مٹی میں تھی

یا مٹی مجھ میں تھی

من تو شُدم تو من شُدی

من تن شُدم تو جاں شُدی

خندق میں لہولہان ابابیل اور فاختائیں ہیں

نئے برس کی دھند میں

اب پرندوں کی چیخیں رہ گئی ہیں

٭٭٭

 

ایک چھوٹے بچے کا گیت

 

اللہ میاں کی چابی سے رمضان کھلا

بوندیں ٹپکیں اور اپنا ایمان کھلا

آگے رستہ بند نہیں تھا، قسمیں لے لو

رحمت برکت والا روشن دان کھلا

سن بھائی عابد

بول نا ساجد

ہر گھر مسجد

گھر گھر مسجد

ہر گھر میں اذاں اب

گھر گھر میں اذاں اب

بھاگ کرو نا، اب دل کا ارمان کھلا

تیس دنوں کا گنبد عالیشان کھلا

نفرت والوں کو سندیسہ پیار کا دے دو

اپنے نبی کا پیارا دسترخوان کھلا

سن بھائی عابد

بول نا ساجد

ہر گھر مسجد

گھر گھر مسجد

٭٭٭

 

ایک نظم رات کے لئے

 

رات کی سیاہی نے

زرق برق لباس کے ساتھ ساتھ ماتھے پر ایک بڑا سا جھومر پہن رکھا تھا

میں نے انھیں بھی دیکھا، جو بے رحمی سے اس کے جھومر اتار رہے تھے

میں نے رات کو پھولوں سے بھری ٹوکری کے ساتھ دیکھا

اور انھیں بھی

جو گندے پاؤں سے پھولوں کو روند رہے تھے

میں نے رات کو گجرے کے ساتھ دیکھا

اور سرخ رنگ کی چوڑیاں پہنے ہوئے

بستر پر ٹوٹی ہوئی چوڑیاں تھیں

مانگ ٹیکا سے خون کی دھاریں نکل رہی تھیں

اور گجرے کے پھولوں کا رنگ سرخ تھا

میں نے رات کو سسکیاں بھرتے ہوئے دیکھا

میں ایک نظم لکھنا چاہتی ہوں

رات کے نازک بدن کی مخالفت میں

یا ہر اس بدن کی مخالفت میں

جس کے گجرے کے پھول مسل دئیے جاتے ہیں

ٹوٹی چوڑیوں اور جھومر کے نام

میں لکھنا چاہتی ہوں ایک نظم

اور توڑ کر پھینک دینا چاہتی ہوں رنگ برنگی چوڑیوں کو

نازک بدن میں ایک رات پوشیدہ رہتی ہے

اور رات کی سیاہی میں نازک بدن۔۔

میں بدن پر سجنے والے زیور کو

نئی تاریخ کے ملبے میں دفن کر دینا چاہتی ہوں

٭٭٭

 

چمکتی ہتھیلیوں کو کسی ماسک کی ضرورت نہیں

 

جب رات گلاب کی پتیوں سے قہوے تیار کر رہی تھی

اور چاندی کے جسم پر گل بوٹوں کی کہکشاں اتر آئی تھی

تم میرے قریب تھے

ساسوں کے زیر و بم کا اندازہ لگانا مشکل تھا

کیونکہ فضا میں زعفران اور کیوڑے کی مہک بھی شامل تھی

اور دور کوئی مرغزاروں میں

گنگناتا ہوا وباؤں کو آسمانی سیاہ سوراخ میں بھیج رہا تھا

اور تم میرے قریب تھے

اور تمہاری سانسیں تھرتھراتی ہوئی ہوئی

میری دھڑکنوں سے وابستہ تھیں

اور جب گلاب کی پتیوں سے قہوہ تیار ہوا

تم نے جھک کے میری طرف دیکھا

اور قید خانے کی گھٹن اس لمحے

گلاب رت میں تبدیل ہو گئی

تمہارے چہرے کی لازوال مسکراہٹ نے

خوف، اندیشے اور وبا کو

خود کشی کے لئے مجبور کر دیا تھا

محبت میں روانی ہے، فراوانی ہے

کہہ سکتی ہوں، یہ ہر دور کی زندہ نشانی ہے

ایک جگنو میری ہتھیلیوں پر مسکراتا ہے

اور دوسرے ہی لمحے

ہتھیلیوں پر ایک پاکیزہ بوسہ مسکراتا ہے

میں جانتی ہوں

ان چمکتی ہتھیلیوں کو کسی ماسک کی ضرورت نہیں ہے

***

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے