ناول ’پانی‘ کے خالق غضنفر کیا انٹرنیٹ ادبی مافیا کا شکار ہیں ؟ ۔۔۔ سید مکرم نیاز

 

بلاشبہ آج ہم انٹرنیٹ کے اس "گوگل ایج [Google Age]” میں جی رہے ہیں جہاں خزانۂ معلومات محض ایک کلک کی دوری پر دستیاب ہے۔ انگریزی چونکہ بین الاقوامی زبان ہے لہذا اس کے ذریعے کسی بھی قسم کی معلومات کا حصول نا ممکن نہیں، لیکن یہ بات شاید پرنٹ میڈیا کے قارئین کو تعجب خیز لگے کہ آج انٹرنیٹ پر اردو زبان کے ذریعے بھی حصول معلومات کوئی مشکل امر نہیں رہا۔

اردو کا تقریباً ہر نیٹ صارف جانتا ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں "اردو یونیکوڈ” کی آمد نے بہت بڑا انقلاب برپا کیا ہے، جس کے سبب انگریزی کی طرح آج اردو الفاظ یا فقروں کے ذریعے مطلوبہ و متعین تلاش ممکن العمل ہو گئی ہے۔

البتہ یہ سمجھنے والی بات ہے کہ سرچ انجن (مثلاً گوگل [Google]، بنگ [Bing]، آ سک [Ask]، اے۔ او۔ ایل [AOL] وغیرہ) ہماری تلاش کے نتیجے میں وہی صفحات پیش کریں گے جو انٹرنیٹ پر موجود ہوں۔ یہی سبب ہے کہ عام قاری ہو یا محقق، اس کی مدد کے لیے انفرادی و اجتماعی سطح پر افراد، ادارے، تنظیمیں، سیاسی سماجی مذہبی جہد کار ہر روز دنیا کی ہر زبان میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں معلوماتی صفحات انٹرنیٹ پر شائع کرتے رہتے ہیں۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کی معلومات کے ذخیرے میں ہو شربا اضافہ ہوا ہے اور باعث اطمینان امر ہے کہ یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری ہے۔ اس کے باوجود دیگر زبانوں کے مقابلے میں جس سطح پر اردو کا ذخیرۂ معلومات انٹرنیٹ پر پیش ہونا چاہیے تھا، وہ منزل ہنوز دور ہے۔ جس کی ایک مثال کے طور پر اردو زبان و ادب کی تدریس میں مشغول ایک معروف و مقبول تخلیق کار کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔

"غضنفر” عصری اردو دنیا کا ایک مشہور و معتبر بقید حیات نام ہے۔

جامعہ ملیہ دہلی کے فیکلٹی ممبر پروفیسر غضنفر علی اس وقت "اکیڈمی آف پروفیشنل ڈیولپمنٹ برائے اردو میڈیم ٹیچرز، جامعہ ملیہ اسلامیہ” کے ڈائریکٹر ہیں۔ غضنفر نے اپنے ناول "پانی” کے ذریعے 1989 میں اردو دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کی تھی۔

اگر ہم اردو یا انگریزی میں اردو ناول [urdu novel] کی اصطلاح کے ذریعے پیغام آفاقی، مشرف عالم ذوقی، رحمان عباس، خالد جاوید، ترنم ریاض وغیرہ کے نام گوگل سرچ کریں تو صاحب کتاب اور متعلقہ کتب سے متعلق بے شمار روابط [links] سامنے آ جاتے ہیں۔ مگر یہ امر تعجب خیز ہے کہ "غضنفر اردو ناول” کا فقرہ اتنے موثر نتائج نہیں دیتا جتنا کہ نیٹ کے عام اردو قاری کو مطلوب ہے۔

اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ پر اردو یونیکوڈ میں مواد فراہم کرنے والے افراد اور اداروں نے یا تو اردو ادب کے اتنے اہم و موقر نام کو دانستہ / نادانستہ نظرانداز کیا ہے یا پھر تساہلی برتی ہے۔

حتیٰ کہ اردو ادبا و شعرا کی تفصیلات فراہم کرنے والی ایک عظیم و ضخیم ویب سائٹ "بائیو ببلیوگرافی” ("http: //bio-bibliography.com/)بھی ناول "پانی” کے خالق غضنفر کے اسم گرامی کو شامل کرنے سے معذور ہے۔ اسی سائٹ پر یہاں دیکھئے کہ 8 عدد غضنفر ضرور موجود ہیں مگر ناول "پانی” کے خالق شامل نہیں۔

http: //bio-bibliography.com/authors/browse/%D8%BA/page: 2

ہمارے عہد کے ایک نوجوان شاعر و ادیب تصنیف حیدر عصری ادبی منظر نامے کے حوالے سے اپنی معتبر ویب سائٹ "ادبی دنیا” (http: //www.adbiduniya.com/)کو وقتاً فوقتاً اہم معلوماتی اور قابل مطالعہ مضامین، انٹرویوز اور تحقیق و تنقید سے اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس اردو ویب سائٹ نے بلاشبہ تھوڑے ہی عرصہ میں انٹرنیٹ کی اردو کمیونیٹی میں مقبولیت حاصل کرتے ہوئے خاص و عام سے بھرپور داد و ستائش بھی سمیٹی ہے۔ "ادبی دنیا” پر اگر عصر حاضر کے تقریباً تمام ہی معروف ادیب و شعرا کا ذکر موجود ہے تو کلاسیکی ادب کا ذخیرہ بھی کچھ کم نہیں۔ مگر حیرانی کی بات یہی ہے کہ اس ویب سائٹ پر بھی غضنفر کا نام سرچ کرنے پر نہیں ملتا۔

"غضنفر اردو ناول” کی گوگل سرچ البتہ معاصر ویب سائٹ "چوتھی دنیا” کے اس صفحہ تک ضرور لے جاتی ہے جس پر جنوری 2011 میں ڈاکٹر شہزاد انجم کا مضمون "معاصر اردو ناول” شائع ہوا تھا۔

http: //urdu.chauthiduniya.com/2011/01/contemporary-urdu-novel

ڈاکٹر انجم لکھتے ہیں:

پیغام آفاقی کا ناول "مکان”، ‘دو گز زمین’ کے ایک سال بعد یعنی 1989ء میں منظرِ عام پر آیا۔۔ ۔۔ ۔ غضنفر کا ناول "پانی” بھی اسی برس منظرِ عام پر آیا۔ یہ ناول زبان و اسلوب، تکنیک اور پیش کش کے اعتبار سے مختلف تھا۔ علامتی پیرائے میں لکھے گئے اس ناول میں سماج کے ٹھیکیداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ غضنفر ناول لکھنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ واقعے کے اجزاء کو سمیٹنا جانتے ہیں۔ موضوعات کے تنوع کو کس طرح سے بخشا جائے اور زبان کا جادو کس طرح جگایا جائے اس پر انھیں قدرت حاصل ہے۔ کسی بھی موضوع یا مسئلے کو آفاقی صداقت میں ڈھالنا یا مسئلے کو آفاقیت بخشنا انھیں بخوبی آتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی واقعہ محض انفرادی واقعہ نہیں رہتا ہے بلکہ اس میں اجتماعی سائیکی در آتی ہے۔ غضنفر کا یہ ناول اساطیری پیش کش اور زبان و بیان کی وجہ سے کافی پسند کیا گیا۔ اس ناول کے بعد غضنفر نے ٹھہر کر پیچھے نہیں دیکھا اور اس کے بعد کینچلی، کہانی انکل، دویہ بانی، فسوں، وش منتھن، شوراب بھی منظرِ عام پر آئے۔ یہ ناول بھی پسند کیے گئے اور بحث کے موضوع بنے، لیکن مجھے غضنفر سے اب بھی ایک بڑے ناول کی امید ہے۔

متذکرہ ویب سائٹ کے ایک اور صفحہ پر "غضنفر” کا کچھ بہتر تعارف بھی ملتا ہے۔ غضنفر کے تازہ ترین ناول "مانجھی” پر شاہد نعیم نے تبصرہ کیا تھا جو اکتوبر-2012 میں "چوتھی دنیا” کے "تبصرۂ کتب” سیکشن میں شائع ہوا۔

http: //urdu.chauthiduniya.com/2012/10/book-review-19

شاہد نعیم کے تبصرہ سے قاری کو غضنفر سے متعلق درج ذیل معلومات حاصل ہوتی ہیں۔۔ ۔۔

پروفیسر غضنفر علی کاقلمی نام غضنفر ہے۔ آپ اکادمی برائے فروغ استعداد اردواساتذہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے ڈائریکٹر ہیں اور تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ تخلیقی کام بھی 1971 سے برابر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی کئی تصانیف شائع ہو چکی ہیں اور اردو حلقوں میں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ 1971 میں "کوئلے سے ہیرا” نام سے ان کا پہلا ڈرامہ شائع ہوا تھا، اس کے بعد سے ان کی کتابیں مسلسل شائع ہو رہی ہیں۔ اب تک ان کے آٹھ ناول منظر عام پر آ چکے ہیں، ناولوں کے علاوہ تین تصانیف تنقید پر، ایک تصنیف درس و تدریس پر، ایک ڈرامہ، ایک خاکوں کا مجموعہ اور ایک افسانوی مجموعہ اشاعت کی راہ سے گزر کر قارئین کے دل و دماغ میں اپنا مقام بن اچکے ہیں۔ اور اب غضنفر صاحب کا نواں ناول "مانجھی” جلوہ گر ہوا ہے، جو مذہب، آستھا، معاشرت اور سیاست کی تازہ صورت حال کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔ امید ہے کہ ان کا یہ ناول بھی ان کے دیگر ناولوں کی طرح پذیرائی کی حدود سے ہمکنار ہو گا اور قارئین کے دل و نگاہ میں اتر جائے گا۔

جامعہ ملیہ کی ویب سائٹ کے شعبہ ‘اکادمی برائے فروغ استعداد اردواساتذہ’ کے تحت پروفیسر غضنفر کا تعارف بحیثیت فیکلٹی ممبر انگریزی میں یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

http: //jmi.ac.in/apdut/faculty-members/Prof_Ghazanfar_Ali-1563

اسی صفحہ پر موجود اس لنک کے ذریعے ان کے تخلیقی سفر کی فہرست (بزبان انگریزی) کا بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

http: //jmi.ac.in/upload/employeeresume/ghazanfarali.pdf

اس پروفائل صفحہ پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق غضنفر کی شایع شدہ تصنیفات کی فہرست کچھ یوں بنتی ہے:

مشرقی معیار نقد (تنقید) – 1978

زبان و ادب کے تدریسی پہلو – پہلا ایڈیشن: 1996

تدریس شعر و شاعری – 2004

لسانی کھیل – 2007

اردو بھارتی برائے جماعت دہم (کرناٹک اسکول ایجوکیشن) (اشتراک) – 2007

ابتدائی اردو برائے جماعت چہارم (این سی ای آر ٹی) – 2007

پانی (ناول) – 1989

آسان اردو قواعد (گرامر) – 1984

کینچلی (ناول) – 1994

کہانی انکل (ناول) – 2001

دویہ بانی (ناول) – 2002

فسوں (ناول) – 2003

مم (ناول) – 2007

وش منتھن (ناول) – 2004

حیرت فروش (کہانیوں کا مجموعہ) – 2006

شوراب (ناول) – 2009

تدریس نامہ (جرنل) – 2009

سرخ روح

مانجھی (ناول) – 2012

فرہنگ مرکبات غالب

 

و نیز۔۔ ۔۔

مختلف رسائل و جرائد میں 73 علمی و تحقیقی مضامین کی اشاعت

30 سے زائد قومی و علاقائی سمینار و کانفرنسوں میں مقالوں کی پیشکشی

 

زیر طبع تصانیف:

 

ایڈوانس اردو ریڈر

ہندی اردو ڈکشنری

شبلی کے تنقیدی نظریات (تنقید)

ڈکشنری آف سوشیو کلچرل آئٹمز

خواب کے پاؤں (مجموعہ کلام)

اکادمی پروگرام اور نصاب (برائے ‘فروغ استعداد اردو اساتذہ اکادمی، جامعہ ملیہ اسلامیہ’، نئی دہلی)

 

اعزازات و انعامات:

 

تخلیقی ذہانت ایوارڈ (نیا سفر اردو میگزین، دہلی)

ناول "پانی” پر اترپردیش اور بہار اردو اکادمی کا انعام

ناول "کینچلی” پر اترپردیش اردو اکادمی کا انعام

ناول "کہانی انکل” پر اترپردیش اردو اکادمی کا انعام

ناول "دویہ بانی” پر بہار اردو اکادمی کا انعام

"تدریس شعر و شاعری” پر اترپردیش اردو اکادمی کا انعام

"حیرت فروش” پر اترپردیش اردو اکادمی کا انعام

 

صفحات در صفحات کی انٹرنیٹ سرچنگ کے باوجود افسوس کہ غضنفر کے معرکۃ الآرا ناول "پانی” کی نہ تو کوئی تفصیل ملتی ہے اور نہ اس پر کوئی تبصرہ۔ ہزاروں کی تعداد میں اردو ناولوں کی انٹرنیٹ پر مفت دستیابی کے اس دور میں ایسی کمی شعر و ادب کے دلدادہ کسی حساس قاری کو یقیناً آزردہ کرتی ہے۔

البتہ میسور یونیورسٹی لائبریری کے آن لائن کٹیلاگ کے ذریعے قاری کو یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ غضنفر کا ناول "پانی” متذکرہ یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے اور یہ 103 صفحات کا ناول ہے۔

http: //libcatmysore-koha.informindia.co.in/cgi-bin/koha/opac-detail.pl?biblionumber=428607

بہرحال ایک خوش آئند امر یہ بھی ہے کہ غضنفر کا تازہ ترین ناول "مانجھی” پی۔ ڈی۔ ایف فائل کی شکل میں کناڈا کے جناب سردار علی کی سن 2003 میں قائم کردہ سب سے قدیم اور مشہور و مقبول اردو ویب سائٹ "شعر و سخن ڈاٹ کام” پر ضرور مل جاتا ہے۔

یہ صرف 71 صفحات پر مشتمل (اصل ناول 140 صفحات پر مبنی ہے ) ڈھائی میگا بائٹ [2.5MB] کی پی ڈی ایف فائل ہے جو یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔

http: //www.sherosokhan.com/sitebuildercontent/sitebuilderfiles/manjhi-ghaznfar_4.pdf

جہاں تک انگریزی سرچنگ کا معاملہ ہے، ویب سائٹ "دی دہلی والا ڈاٹ کام” لائق تحسین ہے کہ اس نے دہلی کے 20 سر کردہ بقید حیات اردو قلمکاروں کے تعارف پر مبنی جو مضمون مئی-2015 میں شائع کیا تھا، اس میں غضنفر کا نام بھی شامل رکھا ہے۔

http: //www.thedelhiwalla.com/2015/05/11/city-list-20-living-urdu-writers-dehli/

غضنفر کا تعارف مذکورہ ویب سائٹ نے کچھ یوں کرایا ہے: (ترجمہ)

غضنفر علی:

ناول نگار، کہانی کار، شاعر

گوپال گنج بہار میں 1953 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تازہ ترین مجموعہ کلام "آنکھ میں لکنت” فروری 2015 میں شائع ہوا ہے۔ غضنفر صبح کی سیر کو قرطاس و قلم سے لیس ہو کر نکلتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ کہیں بھی کسی بھی وقت تخیلاتی آمد کا امکان ہے۔ وہ اس وقت اکادمی برائے فروغ استعداد اردو اساتذہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے ڈائریکٹر ہیں اور شاہین باغ (دہلی) میں قیام پذیر ہیں۔

افسوس کہ وکی پیڈیا (انگریزی اور اردو) ہمارے عہد کے اس اہم اردو ناول نگار کے تذکرے سے خالی ہے۔

نامور تبصرہ نگار تحسین منور نے شگفتہ یاسمین کی کتاب "پانی سے مانجھی تک (تنقید کے آئینے میں )” پر اپنا تبصرہ دہلی کے اخبار ‘ہمارا سماج’ میں شائع کروایا تھا جسے بعد میں یونیکوڈ آن لائن نیوز پورٹلس ایشیا ٹائمز میں یہاں

http: //www.asiatimes.co.in/urdu/Tabsera-Kutub/2014/12/2338_

اور تعمیر نیوز میں یہاں

http: //www.taemeernews.com/2015/09/Review-on-book-Pani-se-maanjhi-tak-by-Shagufta-Yasmin.html

شائع کیا گیا۔

تحسین منور اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

دیکھا جائے تو ہمارے یہاں اردو ناولوں کے معاملے میں چند ایک ہی نام ہیں جن میں غضنفر صاحب کا ایک الگ اور مخصوص مقام ہے۔ وہ ہماچل میں بیٹھ کر اُس وقت اردو کے لئے جو کچھ کر رہے تھے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا تھا۔۔ ۔۔ شگفتہ یاسمین نے تو آگے بڑھ کر ان کے فن کو بہتر طور پر پیش کر دیا ہے۔ وہ پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ ڈاکٹر صفدر امام قادری نے پٹنہ میں انھیں غضنفر صاحب کا ناول ‘فسوں ‘ پڑھنے کو دیا تھا۔ اس پر انھوں نے ‘غضنفر اور عکسِ فسوں ‘کے عنوان سے اپنے تاثرات لکھے جسے کافی سراہا گیا۔ اس کے بعد تنقیدی مضامین کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔

اور شگفتہ یاسمین اپنی کتاب میں لکھتی ہیں:

"غضنفر صاحب کی طبیعت میں ایک اضطرابی کیفیت ہے۔ وہ سیدھی لکیر پر چلنے اور چلتے رہنے کے قائل نہیں۔ وہ چیزوں کو discover کرنا چاہتے ہیں اور تحقیق و تلاش اور فکر وجستجو کی یہی آرزو انھیں دشت تو دشت دریاؤں میں بھی گھوڑے دوڑا دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ”

آخر میں علیگڑھ کے زیدی جعفر رضا کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا جنہوں نے اپنے اردو بلاگ "قلمکار” کی اپریل 2010 کی ایک تحریر میں (http: //qalamkaar.blogspot.com/2010/04/dohe-zaidi-jafar-raza.html)اردو دنیا کی نامور شخصیات کو دوہوں کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اور غضنفر کے نام انہوں نے یہ دوہا معنون کیا ہے:

 

میاں غضنفر ‘دویہ’ ہیں، ‘بانی’ ہے انمول

‘پانی’ پانی مانگتا، ‘کینچل’ مانگے خول

٭٭٭

ماخذَ

http: //www.taemeernews.com/2015/09/Ghazanfar-and-his-urdu-novels-on-internet.htm

 

نوٹ: یہ مضمون تقریباً دو سال قبل کا ہے۔ الحمد للہ پچھلے سال سے اب تک غضنفر کی کئی کتابیں اپ لوڈ کر دی گئی ہیں۔ اور اب صورت حال اتنی افسوس ناک نہیں رہی کہ مافیا  کا ہی شک کیا جا سکے۔ اس سے پہلے تک اس کا سبب محض غضنفر کی عدم توجہی تھی۔مجھے خوشی ہے کہ محترمہ  نسترن احسن فتیحی  نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے میرا رابطہ کروایا۔ جس کی وجہ سے ان کی بیشتر کتابیں بزم اردو لائبریری میں شامل ہو سکیں ۔

بزم اردو پر شامل کتب

مانجھی

وش منتھن

پارکنگ ایریا۔ اول، دوم

حیرت فروش

مم۔۔

آنکھ میں لکنت۔ اول، دوم

مثنوی کرب جاں

۔ اعجاز عبید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے