سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’ نیا قانون‘‘ ایک نئی قرأت۔۔ ۔ جاوید اختر

 

 

سعادت حسن منٹو اور افسانہ نگاری کے اہم ستون ہیں۔ پریم چند کے اصلاحی اور معاشرتی افسانے کے بعد اہم افسانہ نگاروں کی صف میں کرشن چندر، بیدی اور عصمت کے ساتھ منٹو کا نام بھی شامل ہے۔ ۱۹۳۵ء کے بعد ترقی پسند نظریئے کے تحت افسانے کا موضوع طبقاتی کشمکش اور سماج کے دیگر مسائل بن گئے تھے۔ اس وقت کے شاعر و ادیب کی تخلیقات پر شعوری اور غیر شعوری طور پر اس کا اثر پڑ رہا تھا۔ کرشن چندر، بیدی اور عصمت بھی اس تحریک سے وابستہ ہو کر سماجی مسائل پر غور و خوض کر رہے تھے۔ فکری طور پر منٹو بھی اس طرف راغب ہوئے لیکن اسے اپنے ذہن پر حاوی نہیں ہونے دیا، اسے اپنا پاؤں کی زنجیر نہیں بنایا، اس سے تحریک ضرور حاصل کی لیکن اس سے بلند ہو کر پورے سماج اور زمانے کے مسائل پر قلم اٹھایا۔ منٹو کے افسانے سماجی نوعیت کے ہیں۔ طبقاتی نظام کے نتیجے میں نچلے طبقے کے لوگ، ان کا ذہن، ان کے سماجی، نفسیاتی اور جنسی مسائل کو منٹو نے موضوع بنایا ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر ضرور تھے مگر منٹو پوری طور پر اس تحریک کے قائل نہ تھے۔ بعض کے نزدیک وہ فحش نگار تو بعض کے نزدیک وہ محض باغیانہ خیالات کے مالک تھے۔ ان کی تحریروں میں سماج کی صحیح عکاسی غیر جانبدارانہ اور باغیانہ طور پر ہوئی جن میں منٹو کے افسانوں کے علاوہ مضامین، خطوط، ڈرامے، خاکے وغیرہ شامل ہیں۔ خاص طور پر منٹو کے خطوط جو انکل سام کے نام لکھے گئے، اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ منٹو محض باتونی نہیں تھے بلکہ سماج کا درد اپنے سینے میں سما رکھتے تھے۔ یہ محض اتفاق کی بات نہیں بلکہ ان کی جرأت مندی اور ہوش مندی کا بھی ثبوت فراہم کرتا ہے جو منٹو، اس وقت کہ جب وہ دور ناقابل برداشت تھا، جب معمولی بات بھی چنگاری کی شکل اختیار کر لیتی تھی۔ بات ان دنوں کی ہے جب ہندستان آزادی کا خواب دیکھ رہا تھا، انگریز ہندستان پر حکومت کر رہے تھے۔ کھُل کر لکھنا ممنوع تھا۔ منٹو داد کے مستحق ہیں جنھوں نے نڈر اور بے باکی سے اس زمانے میں اپنے افسانوں سے وہ ساری باتیں کہہ ڈالیں جو اس وقت کا افسانہ نگار ہمت بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ گو منٹو نے اردو فکشن کے نئے زاویے، نئی راہ وا کی۔ منٹو نے در اصل آنے والی نئی نسلوں کو افسانہ لکھنا سکھایا۔ ’’آتش پارے ‘‘ سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۳۶ء میں چھپا تھا۔ (یہ وہ سال ہے جب ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس پریم چند کی صدارت میں لکھنؤ میں ہوئی تھی) ’’آتش پارے ‘‘ کے دیباچے میں وہ خود رقمطراز ہیں: ’’یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں۔ ان کو شعلوں میں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔ ‘‘

سچ تو ہے کہ منٹو کسی بندھے ٹکے نظریے کے قائل نہ تھے بلکہ انھوں نے باغیانہ خیالات کو اپنے افسانوں کے ذریعہ پیش کیا۔ مشہور نقاد پروفیسر ابو الکلام قاسمی اپنے مضمون ’’ منٹو کے بعد اردو افسانہ: شخصیات اور رجحانات‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ منٹو کا زمانہ وہی ہے جو ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ ہے مگر زندہ رہنے والے فنکار تحریکات کا کبھی شکار نہیں ہوتے۔ سو منٹو نہ ترقی پسند رہا اور نہ غیر ترقی پسند۔ وہ ایک افسانہ نگار تھا اور صرف افسانہ نگار۔ ‘‘

(رسالہ ادیب، ص۹۶)

سچ ہے منٹو کسی تحریک کا شکار نہ ہوئے بلکہ وہ خود اپنے آپ میں ایک تحریک تھے۔ ’وہ ایک افسانہ نگار تھے صرف افسانہ نگار‘۔ میں پروفیسر قاسمی کے بیان کے ضمن میں ہی یہ کہنا چاہوں گا کہ بعض اصحاب قلم کے نزدیک منٹو ترقی پسند، تو بعض کے نزدیک رجعت پسند یا بعض کے نزدیک فحش پسند تھے، مگر میرے نزدیک نہ تو وہ ترقی پسند تھے، نہ رجعت پسند یا فحش پسند تھے، ہاں مگر وہ حقیقت پسند ضرور تھے۔

فحش نگاری کے حوالے سے اصل بات میں کہ یہ عرض کرتا چلوں کہ فحاشی ہمارے سماج کے ذہنوں میں ہے نہ کہ منٹو کی تحریروں میں سچ تو یہ ہے کہ منٹو کے بغاوت کے عناصر جنس نگاری اور عریاں نگاری سے کہیں آگے کی چیز ہیں خود بقول منٹو:

’’ہماری تحریر میں آپ کو کڑوی کسیلی لگتی ہیں مگر اب تک جو مٹھاس آپ کو پیش کی جاتی رہی ہیں ان سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے … نیم کے پتے کڑوے سہی مگر خون ضرور صاف کر دیتے ہیں۔ ‘‘

منٹو کو ماہر نفسیات بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ ایک حد تک درست بھی ہے۔ بانجھ، ڈرپوک، ٹیڑھی لکیر، اور چغد وغیرہ منٹو کے نفسیاتی افسانوں میں آتے ہیں مگر ان افسانوں کو نفسیات کا موضوع قرار دینا مناسب نہیں، کیونکر نفسیات کا تعلق اسلوب و تکنیک سے ہے۔ گو منٹو ماہر نفسیات کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ قارئین نے ان کی تحریروں میں حقیقت اور بے باکی کے عنصر کو عریانیت کا نام دے کر اور ان کی تخلیقات، دونوں کو تنازعہ دینے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں متعدد بار منٹو جیل بھی گئے، عدالتوں کا چکر لگائے مگر اس کے باوجود منٹو نے خوب کھل کر بے خوفی کے ساتھ لکھا۔ اس بابت وہ خود فرماتے ہیں۔

’’زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے ناواقف ہیں، تو میرے افسانے پڑھئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ مجھ میں جوج برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں، میری تحریر میں کوئی نقص نہیں، جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔ ‘‘

منٹو پر لکھنے والے اصحاب قلم نے منٹو کی ادبی شخصیت کے لگ بھگ سبھی دریچوں کو کھولا ہے، مگر صد افسوس آج کے ناقدین زیادہ تر منٹو کو صرف بطور افسانہ نگار ہی متعارف کراتے ہیں۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ افسانوں کو ہی اہم بتا کر اپنا علمی معیار جتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۳۰۰؍ سے زائد افسانوں کے مالک سعادت حسن منٹو ہیں ان سبھی کا تجزیہ وقت کا اہم تقاضہ ہے۔

سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانہ’تماشا‘ ہے جو سب سے پہلے امرتسر کے ہفت روزہ ’خَلق‘ میں آدم کے فرضی نام سے شائع ہوا۔ فرضی نام سے شائع کرانا ظاہر ہے کسی تخلیق کار کی بڑی مجبوری ہوتی ہے ورنہ یہ الگ موضوع بحث ہے کہ لوگ شہرت کے واسطے دوسروں کی تحریروں کو ہی پھیر بدل کر یا کبھی کبھی اپنے نام سے منسوب کر کے شائع کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ مگر منٹو کی بات الگ تھی وہ کبھی شہرت کے طلب گار نہیں رہے بلکہ در حقیقت اردو فکشن کو ان کی تخلیقات سے شہرت ملی۔

منٹو کے اہم افسانوں میں کھول دو، بابو گوپی ناتھ، بو، کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، ہتک، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیا قانون وغیرہ آتے ہیں، میرا موضوع ان کا افسانہ ’نیا قانون‘ ہے۔

’نیا قانون‘ ۱۹۳۸ء میں منظر عام پر آیا تھا یہ منٹو کے نمائندہ افسانوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک سیاسی کردار کا افسانہ ہے۔ جس میں منٹو نے منگو کوچوان کے توسط سے اس عہد کی اجتماعی صورت حال پیش کی ہے۔ منگو جو پیشے کے اعتبار سے کوچوان ہے۔ وہ سیدھا مادہ بے وقوف ان پڑھ اور بیحد باتونی ہے، ذہنی طور پر بیدار اور فطرتاً جلد باز ہے۔ مگر ایک عام ان پڑھ آدمی بھی روشن دماغ ہو سکتا ہے صرف ایک ڈگری یافتہ ہی سمجھ دار نہیں ہوتا۔ گویا منٹو کی انسان دوستی اور ہمدردی اور اس کے تئیں خلوص کا یہاں پتہ ملتا ہے۔ بہر حال منگو کوچوان کا کردار افسانے کی جان ہے۔ ایک عام اور بالکل معمولی آدمی میں دلچسپی کے اتنے پہلو پیدا کرنا منٹو کی کردار نگاری کا امتیازی وصف ہے۔ جہاں تک نیا قانون کے پلاٹ کا تعلق ہے، منٹو نے اس کی تمہید، وسط اور انجام میں مکمل آہنگی اور ربط پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تمہید ہی افسانے کے مرکزی کردار منگو کو قاری سے متعارف کرا دیتی ہے:

’’منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منھ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے، استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرف واقف تھے۔ ‘‘

یہاں میں ساتھ میں ’انجام‘ کے متعلق بھی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ بعد ازیں ’نیا قانون‘ پر مزید روشنی اور منٹو کے فن پر مختصر گفتگو پیش کروں گا۔ جیسا کہ تمہید کے ساتھ ساتھ ایک ایسے ہی انجام کی جستجو میں گویا قاری رہتا ہے جو مزیدار بھی ہوں اور قابل قبول بھی ہوں۔ لہٰذا منٹو یہاں بھی کامیاب نظر آتے ہیں: انجام یوں ہے:

’’استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے لے گئے … راستے میں اور تھانے کے اندر وہ نیا قانون، نیا قانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔

’نیا قانون‘ نیا قانون کیا بک رہے ہو… قانون وہی ہے پرانا!‘‘ اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ ‘‘

’نیا قانون‘ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کوئی نیا قانون کا آنا یا بننا یعنی پرانے قانون کی توسیع۔ منگو کوچوان کو جب ایک دن اپنے تانگوں میں بیٹھی سواریوں کی گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یکم اپریل کو نیا قانون آئے گا اور اس کے آتے ہی ہندستان آزاد ہو گا، انگریزوں سے نجات ملے گی تو وہ پھولے نہیں سماتا اور یکم اپریل کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ یہاں منٹو کی دانش مندی اور بصیرت میں دیکھئے انھوں نے یکم اپریل جیسی تاریخ جان بوجھ کر منتخب کی ہے۔ یکم اپریل کو فول ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے، جو منٹو جیسے ادیب سے راز نہیں تھا۔

یوں ہی منٹو نے منگو کوچوان کو ذہنی طور پر بیدار اور فطرتاً جلد باز نہیں بتایا۔ کوئی بھی کام اس پر ضبط کی طرح چھا جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

’’اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دوسواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے اس کو پتہ چلا کہ ہندستان میں جدید آئین نافذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ ‘‘

کہانی میں آگے چل کر جو منظر کشی کی گئی ہے وہ دیکھئے:

’’شام کو جب وہ اڈے پر لوٹا تو خلاف معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہو گیا، آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا… بہت بڑی خبر اور اس خبر کو اپنے اندر سے نکالنے کے لیے وہ سخت مجبور ہو رہا تھا لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔ ‘‘

مندرجہ بالا اقتباس میں در اصل منٹو کا فن اجاگر ہوتا ہے۔ انھوں نے کتنی مہارت سے قاری کو وہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس کی طرف انھوں نے گویا اشارہ کرنا چاہا ہے۔ یہی منٹو کا اسلوب بھی ہے۔ گو یہاں منگو کوچوان کی اضطراری کیفیت کا اندازہ پیدا کرنے کے واسطے منٹو نے ایسا تحریر کیا ہے۔

منٹو دور اندیش اور وسیع النظر تھے آج بھی ہندستان کی حالت کم و بیش وہی ہے جو انگریزوں کے دور حکومت میں تھا۔ آج کا ہندستان بھی غلامی کی طرف گامزن منگو کوچوان کی زبانی نیا قانون کے حوالے سے منٹو کی دور اندیشی کا مشاہدہ کیجئے۔

’’یہ کانگریسی ہندستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہزار سال بھی سر پٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہو گا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہو گی کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آ جائے گا۔ یا وہ روس والا جس کی بابت میں نے سنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے لیکن ہندستان سدا غلام رہے گا۔ ہاں میں کہنا بھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بد دعا بھی دی تھی کہ ہندستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔ ‘‘

افسانہ کے اس مکالماتی اقتباس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ منٹو ایک درویش صفت تھا، وسیع النظر تھا اور دور اندیش بھی تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کم و بیش آج کا ہندستان آزاد ہو کر بھی غلام ہے۔

مندرجہ بالا اقتباس میں ’’انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آ جائے گا‘‘ قابلِ غور نقطہ ہے۔ یہ محض اتفاق ہے یا پھر حقیقت، جو بھی ہو ہمیں جھنجھوڑتی ہے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ بہر حال نیا قانون کے مد نظر ہمیں اس پس منظر میں یہ کہنے میں کوئی تامّل نہیں کہ منٹو سچ مچ حقیقت پسند تھا اور حقیقت ہی لکھتا تھا۔

وہیں میں نے نیا قانون سے ہی دوسری حقیقت کو راز افشاں کرنے کی سعی کی ہے جو مجھ جیسے طالب علم کی کم علمی، محدود مطالعہ سمجھئے، جو میں نے نیا قانون میں ایک جگہ منٹو کو اپنی ڈگر سے ہٹتے بھی دیکھا ہے۔ ملاحظہ ہو اس کہانی کا یہ اقتباس جس میں ایک گورے نے سواری کی خاطر تانگہ والا دیکھ منگو کوچوان کو آواز لگاتا ہے۔ وہ گورا جس سے منگو کوچوان از حد نفرت کرتا ہے۔ اتفاقاً وہی گورا نکلتا ہے جس سے منگو کوچوان کی جھڑپ پچھلے برس ہوئی تھی۔ بہر حال سواری کے آواز لگانے پر منگو چونکتا ہے، کیا دیکھتا ہے کہ کوئی گورا اسے بلا رہا ہے۔ وہ یہ سوچ کر بڑھتا ہے۔

’’ان کے پیسے چھوڑنا بھی بے وقوفی ہے کلغی پر جو مفت میں چودہ آنے خرچ کر دیئے ہیں ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہئیں۔ چلو چلتے ہیں۔ ‘‘

یہاں یہ امر ناقابل فہم ہے جو منگو کوچوان گھوڑے کی کلغی پر خرچ کیے چودہ آنے کو اپنی بے وقوفی مانتا ہے ؟؟ منگو کوچوان تو مست ہے وہ آج یکم اپریل کو اسی واسطے صبح سویرے نکلا ہے کہ نیا قانون، نئی آئین، نئی صبح، نیا ہندستان میں وہ اب کھلی سانس لے سکے گا۔

ہندستان آزاد ہو جائے گا، انگریز بھگا دیئے جائیں گے۔ اب ہمارا راج ہو گا۔ اور ظاہر ہے اسی واسطے وہ گھوڑوں کی کلغی پر چودہ آنے خرچ کرتا ہے۔ وہ نئی صبح نیا قانون کی تلاش میں سرگرداں ہے وہ مطمئن ہے۔ ابھی تو منگو کوچوان پر یہ راز افشاں بھی نہیں ہوا گویا یہ محض ایک خواب تھا، جو وہ دیکھ رہا تھا؟ ابھی تو اس بات سے بھی نابلد تھا کہ پہلی اپریل بیوقوف منانے کا دِن کوئی ہوتا ہے اور وہ دھوکے میں تھا؟ ایسے میں بھلا وہ منفی سوچ کا اچانک حامل کیونکر ہو جائے گا۔ یوں کیونکر سوچے گا گھوڑے پر کلغی کی شکل میں صرف کیے چودہ آنے بیکار تھے جو گورے سے سواری بھارے کی شکل میں وصول کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے منگو کوچوان کہتا ہے ’چلو چلتے ہیں ‘ اور یہ سوچ کر گورے کی طرف اپنا تانگہ لے کر بڑھ جاتا ہے ؟؟ یہاں صرف اس بات پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ منگو کوچوان کو گورے سے از حد نفرت تھی اور وہ یہ سوچ کر گورے کو اپنا سوار بنا لینا چاہتا ہے کہ کلغی کی قیمت تو نکل جائے گی۔ مگر وہیں جہاں کلغی کی قیمت سولہ آنہ ہو پانچ روپے بطور اجرت پر جھگڑ لیتا ہے۔ چونکہ وہ ابھی محو خواب ہے گویا کوئی نیا قانون رائج ہو گیا ہے اب کیا ہے، اب تو بس ہمارا راج ہے۔ گویا منٹو نے بڑی ہی سوجھ بوجھ اور چالاکی سے قاری کو اپنی گرفت میں کرتا ہے یعنی اپنا لوہا منواتا ہے۔ منٹو چھوٹی چھوٹی بتوں کو بھی اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ وہ غیر معمولی بن جاتے ہیں۔ بے شک ان کے اس افسانے میں بھی دلی تاثرات کے ساتھ ساتھ جزئیات نگاری کی بھی کئی اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ جہاں تک ’نیا قانون‘ کا سیاسی پس منظر میں ہونے کی بات ہے ہمیں اس پس منظر کو بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ۱۹۳۸ء میں لکھا گیا تھا۔ ۱۹۳۵ء میں برطانوی حکومت نے صوبوں میں خود اختیاری حکومتوں کے قیام کا قانون نافذ کیا تھا جس سے سارے ملک میں جوش اور سیاسی گرمی پیدا ہو گئی تھی اور ناخواندہ عوام کے دلوں میں یہ گمان پیدا ہو گیا تھا گویا اب آزادی مل چکی ہے۔ منٹو نے اس افسانے میں بڑی ہی مہارت سے ایک عام، ایک سادہ لوح انسان کی نفسیات کو استاد منگو کے کردار میں ابھارا ہے۔ منٹو اپنے افسانوں میں حقیقت کو جس فنکاری سے دکھاتے ہیں وہ دوسرے افسانہ نگار کے حصے میں کم آتا ہے۔ نیا قانون میں منٹو نے ہمیشہ کی طرح بیانیہ کے ساتھ ساتھ تیکھے مکالمے سے بھی کام لیا ہے جن سے منگو کی نفرت، جھلاہٹ اور بیزاری ظاہر ہوتی ہے۔

ڈاکٹر نگار عظیم اس افسانے کے بارے میں لکھتی ہیں:

’’نیا قانون، موضوع، ماحول، جزئیات نگاری اور فکری بصیرت کے باعث ایک لازوال افسانہ ہے۔ اتنا ہی نہیں، نیا قانون اس زمانے کی سیاسی جد و جہد عوام کی معصومیت، مظلومیت اور محرومیت کا ترجمان ہے۔ اردو ادب میں منگو کوچوان ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ‘‘

(منٹو کا سرمایۂ فکر و فن۔ ص۔ ۶۱)

اس ضمن میں اس افسانے کے متعلق ابو اللیث صدیقی لکھتے ہیں:

’’اس افسانے میں منٹو کا کوئی کمزور پہلو نہیں ابھرتا۔ یہ ہماری سیاسی جد و جہد کے دور کا آئینہ ہے جس میں ہماری آرزوئیں، امنگیں، تمنائیں اور ناکامیاں جھلکتی ہیں اور فنی معیار سے بھی ایک کامیاب افسانہ ہے۔ اچھے مختصر افسانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں واقعات کا تانا بانا زیادہ نہ بکھرا ہوا۔ بات سے بات نکل کر طوالت نہ پیدا ہو جائے۔ مرکزی خیال ایک رہے۔ کردار، واقعات اور مکالمات اسی ایک خیال کو اجاگر کرنے اور تاثر میں شدت پیدا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں … یہ بات بھی یہاں پوری طرح واصل ہو گئی ہے کہ کردار صرف ایک ہی ہے۔ (استاد منگو) واقعات اور مکالمات مناظر اور پس منظر کا محور بھی ایک ہے۔ یعنی نئے قانون کے نفاذ کا انتظار۔ ‘‘

( منٹو: نوری: ناری۔ ممتاز شیریں۔ ص۔ ۱۲۴) اشاعت دوم (کراچی سنہ ۲۰۰۴)

سعادت حسن منٹو کے قلم سے نکلے ہوئے بہت سے افسانے انسانی جذبات و احساسات کو جھنجھوڑ دینے والے ہیں۔ نیا قانون ان میں سرفہرست ہے۔ گویا منٹو اردو افسانہ نگاری کے اہم استون ہیں۔ منٹو میں بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں موجود تھیں۔ وہ زود نویس اور بسیار نویس دونوں تھے۔ وہ اپنے دور کے سب سے زیادہ باغی تخلیق کار، جھکی اور فحش نگار بھی قرار دیئے جاتے ہیں۔ ان کے فن پر طرح طرح سے نکتہ چینی کی گئی، اعتراضات کئے گئے اور مقدمے چلائے گئے لیکن انھیں ہر موقع پر سرخروئی حاصل ہوئی۔ اس طرح یہ نڈر اور بے باک افسانہ نگار ۱۹۵۵ء میں محض ۴۳ سال کی عمر میں اس دنیا کو خیر آباد کہہ دیتا ہے۔

بہر حال منٹو کا یہ افسانہ ایک انسانی المیے کی یاد دلاتا ہے۔ یہ المیہ ہر دور میں رہا ہے اور موجودہ دور میں اس کی شدت مزید آشکارا ہو چکی ہے۔ آج بھی منگو کوچوان جیسے سیدھے سادے معاشرتی اور سیاسی جبر سے ستائے ہوئے لوگ سیاسی و سماجی تبدیلیوں کی آس لگائے دن گن رہے ہیں۔ لیکن وہ جبر ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔ منٹو کا فن اس افسانہ میں اپنی پوری تاب ناکیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اس طرح زندہ افسانوں کی بدولت منٹو ہمیشہ قارئین کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے