غزلیں ۔۔ ڈاکٹر وقار خاں

 

جہاں عَلَم کی کوئی قدر اور حوالہ نہیں

میں اس زمین پہ پاؤں بھی رکھنے والا نہیں

 

میں اس درخت کے اندر تھا جس کو کاٹا گیا

کسی نے بھی تو وہاں سے مجھے نکالا نہیں

 

وہ اپنے عہد سے آگے کی باتیں کرنے لگا

بہکتے شخص کو دنیا نے پھر سنبھالا نہیں

 

ہر ایک چوٹ پہ کچھ اور جڑتا جاتا تھا

سو اس نے مجھ کو کسی شکل میں ڈھالا نہیں

 

عجیب خوف میں پروان چڑھ رہی ہے یہ نسل

کسی کے ہاتھ میں بھی زہر کا پیالہ نہیں

 

اب اپنی سانسوں سے زنجیر توڑنی ہے مجھے

کہ ہاتھ بیچنے کا اور کچھ ازالہ نہیں

٭٭٭

 

 

پڑتے دیکھے ہیں جبھی چاند میں ہالے ہم نے

پھر کئی جسم اداسی میں بھی ڈھالے ہم نے

 

کتنے چہروں کو تری یاد میں ہم نے چوما

کتنے سینوں میں چھپے درد سنبھالے ہم نے

 

اس نے اک بار ہمیں آنکھ اٹھا کر دیکھا

کتنے اس بات کے مفہوم نکالے ہم نے

 

ہاتھ پھیلاتے ہوئے کانپے تو یاد آتا ہے

اپنی شاہی میں ستارے بھی اچھالے ہم نے

 

اپنے چہرے کی چمک تجھ پہ بسر کرنا پڑی

کتنی مشکل سے ترے نقش اجالے ہم نے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے