آغاز کربِ جاں کے قصّے کا ۔۔۔ غضنفر

 

سنو اے زمانے کے دانشورو

سنو ایک کہتا ہوں قصّہ سنو

یقیناً یہ قصہ ہے کچھ کچھ نیا

بیاں کا بھی انداز بدلا ہوا

یہ قصّہ نہیں ہے خراسان کا

یہ قصّہ نہیں ہے پرستان کا

نہیں کوئی قصہ خیالی ہے یہ

نہیں کوئی قصہ مثالی ہے یہ

نہیں یہ کوئی عشق کی داستاں

نہ ہے داستانوں سا اس میں سماں

نہیں کوئی اس میں حسیں پھول بن

نہ سرو و سمن ہے نہ ہے نسترن

نہ ہے رات رانی نہ ہے کیتکی

نہ سنبل، نہ سوسن نہ ہے جعفری

نہ رنگت کوئی اس میں گلزار کی

نہیں شان ہے اس میں دربار کی

نہیں رنگ و بو کا مہکتا دیار

نہیں چلتی پھرتی نسیم بہار

نہ ہے حوض کوئی نہ پانی میں پھول

نہ بے نور آنکھیں، نہ چہرہ ملول

نہ گل کے لیے کوئی بے چین ہے

نہ لب پر کسی کے کوئی بین ہے

نہیں اس میں ہے کوئی بدرِ منیر

نہ ہے شاہ زادہ کوئی بے نظیر

ستارہ نہیں ہے کوئی چاند سا

نہیں ہے کوئی اس میں نجم النسا

نہ چندر بدن ہے، نہ ہے ماہ یار

نہ ملکِ عدم کا کوئی شہ سوار

نہ اس میں قطب ہے نہ ہے مشتری

نہ فوق البشر ہے نہ جن و پری

نہ سب رس ہے وجہی کا اس میں گھلا

نہ رنگِ سخن کا نیا در کھلا

نہیں عقل کی کوئی تمثیل یہ

نہیں حضرتِ دل کی تاویل یہ

نہ یہ من لگن ہے نہ ہے چت لگن

نہیں کوئی اس میں حقیقی سجن

تصوف کا نکتہ بھی کوئی نہیں

نہ ہے فلسفہ اس میں کوئی کہیں

نہ کشف و کرامات کے سلسلے

نہ نامے نہ رشحات ہیں دین کے

نہیں معرفت کی حکایت کوئی

نہیں عارفوں کی کرامت کوئی

نہیں نصرتی کے نظارے یہاں

نہیں عشرتی کے اشارے یہاں

نہ سیف الملوک و بدیع الجمال

نہ یوسف زلیخا کی کوئی مثال

نہ بہرام کا کوئی گل ہے یہاں

نہ بلبل کے سینے کی آہ و فغاں

نہیں اس میں کوئی کدم راؤ ہے

نہ عشقِ پدم راؤ کا بھاؤ ہے

نہ عارض کا شعلہ نہ دل کا دھواں

نہ خاموش آنکھیں نہ لب بے زباں

نہیں بزمِ عشرت کے راز و نیاز

نہیں عشق کے شور کا سوزو ساز

نہیں گلشنِ عشق مہکا ہوا

نہیں شعلۂ عشق دہکا ہوا

نہیں عشق کا کوئی دریا رواں

نہیں لذتِ عشق کی کشتیاں

نہ لذت نہ رنگت کسی عشق کی

نہ شدت نہ حدت کسی عشق کی

کسی خان کا ہے نہ جوش و خروش

نہیں خامۂ آرزو کا سروش

نہیں راگ مالا کی محفل کوئی

نہیں ’لیلیٰ مجنوں ‘ کا محمل کوئی

نہیں رزم کا کارنامہ کوئی

نہ شوقی کا ہے فتح نامہ کوئی

نہ طوطی نہ ساقی کے نامے رقم

نہیں میزبانی کے قصے رقم

نہ سیرت پہ نامہ ہے لکھّا کوئی

نہ ہے کفر نامہ کا چرچا کوئی

نہ فائز کی نگہت، نہ جوگن، نہ وصف

نہ جانم کے رمزِ کرامات و کشف

نہیں انبیا کے قصص ہیں یہاں

نہیں منطق الطیر کی داستاں

اثر کا نہیں اس میں کوئی اثر

لبوں کے نہیں سرخ لعل و گہر

نہیں شوقؔ کا شوق بھڑکا ہوا

نہیں کوئی منظر ہے، ہیجان کا

نہیں اس میں ’’بحرالمحبت‘‘ کی لہر

نہیں عشق کے زہر کا کوئی قہر

نہیں ’’حزنِ اختر‘‘ نہ فریادِ داغ

نہیں ’’برکھا رُت‘‘ کا بھبھکتا چراغ

نہ عیّار کوئی نہ زنبیل ہے

نہ تمثال کوئی نہ تمثیل ہے

نہیں کاٹھ کا کوئی گھوڑا یہاں

نہیں جن و انساں کا جوڑا یہاں

نہیں شہر بانو کے اس میں سوال

نہیں اس میں حاتم کا کوئی کمال

نہیں میر امن کا ’’باغ و بہار‘‘

نہیں اس میں درویش کا حالِ زار

نہ بیتال کوئی نہ پتلی کوئی

نہ ہی ڈور قصے کی الجھی ہوئی

پری ہے نہ پریوں کی اولاد ہے

نہ ہے کوئی سایہ، نہ ہم زاد ہے

نہیں دیو اس میں نہ جنّات ہیں

نہیں داستاں جیسے حالات ہیں

نہیں کوئی اس میں طلسمی جہاں

نہیں سامری کا کوئی آستاں

نہیں کوئی اس میں اڑن تشتری

نہیں کوئی جادو کی انگشتری

نہ جادو کی ڈبیا نہ کوئی چراغ

نہ جادو کی وادی، نہ جادو کا باغ

نہ ڈبیا میں سورج نہ بوتل میں جن

نہ جادو کی راتیں نہ جادو کے دن

نہ جادو کھٹولہ، نہ جادو کا تخت

نہ اُڑتا ہے کوئی ہوا میں درخت

نہ جادو کی ناگن، نہ جادو کی بین

نہیں رقصِ حیرت کا ہے کوئی سین

نہیں ریش میں ہے کوئی ایسا بال

کہ جس کو جلانے سے ہوتا کمال

نہیں کوئی سم سم کی اس میں صدا

نہیں در خزانے کا ہوتا ہے وا

نہ خارِ مغیلاں نہ گل کی لڑی

نہ کوئی پٹاخہ، نہ ہے پھلجھڑی

عجائب کا کوئی فسانہ نہیں

تخیّل کا بھی کوئی خانہ نہیں

یہ قصہ نہیں ہے کسی پیار کا

کسی راجا رانی کے دربار کا

نہ ہے وصل کا یہ فسانہ کوئی

نہ ہے ہجر کا شاخسانہ کوئی

نہ اقرار کا ہے نہ ان کار کا

کسی جیت کا یا کسی ہار کا

قرابت کی خوشبو نہ فرقت کا رنگ

نہیں عشق کی اس میں کوئی ترنگ

گندھا ہے تمھاری ہی مٹّی سے یہ

پکا ہے تمھاری ہی بھٹّی سے یہ

سنو اس میں ایسی صدائیں بھی ہیں

کہ جن میں تمھاری ادائیں بھی ہیں

تمھاری کئی اس میں پرچھائیاں

ملیں گی تمھیں لیتی انگڑائیاں

کہ اس سے سنبھل جائے دانشوری

کہ اس سے بدل جائے دانشوری

کہ اس سے نگاہوں میں آئے سماں

نظر آئے تم کو حقیقی جہاں

تمھارے بھی اندر مچے کھلبلی

بنے دل تمھارا بھی کچھ گوتمی

تمھارا بھی احساس جاگے ذرا

بڑھے دل تمھارا بھی آگے ذرا

کوئی من میں کانٹا تمھارے چبھے

کوئی نوک سینے کے اندر گڑے

کوئی تم میں بھی جاگ جائے کبیر

بنادے تمھیں بھی جو سچّا فقیر

کوئی جین تم میں بھی جاگے ذرا

اہنسا کا شیطان بھاگے ذرا

کوئی جیو جنتو نہ پامال ہو

کسی کی بھی ہستی نہ بد حال ہو

ذرا دیر کو کوئی گاندھی نما

سما جائے تم میں بھی اک آتما

کہ ہنسا کا ہونے لگے خاتمہ

تشدد کا رکنے لگے سلسلہ

تمھاری نگاہوں سے پردہ ہٹے

تمھیں بھی حقیقت کا چہرہ دکھے

تمھارے بھی سینے میں پیڑا پلے

تمھارے بھی ہونٹوں پہ دوہا سجے

فضا میں اٹھا ہے جنوں جو، تھمے

حقارت، عداوت کی آندھی رکے

محبت کی آئے نظر کوئی راہ

کہیں جھلملائے کوئی خانقاہ

کرن امن کی کوئی پھوٹے کہیں

کسی سے کبھی کوئی روٹھے نہیں

نہیں طرز میں کوئی سحرالبیاں

نہیں اس میں جادو بھری خوبیاں

زباں میں اگرچہ نہیں چاشنی

نہیں ہے بیاں میں کوئی دلکشی

مگر بات میں بات ہے راز کی

تمھارے کسی ایک دمساز کی

سنو راز اس میں کئی ہیں نہاں

چھپی اس میں ہے درد کی داستاں

سنو زندگی کی کہانی ہے یہ

قلم کی حقیقت بیانی ہے یہ

سنو تم ہمارا تمھارا بھی عکس

عجب طور سے اس میں کرتا ہے رقص

یہ قصہ فقط ایک تکرار کا

غلط فہمیوں کے بس اظہار کا

بنا باہری لفظ اس کی اساس

اسی سے کشاکش، اسی سے ہراس

اسی سے چبھی کوئی سینے میں پھانس

اسی سے ہوا کوئی چہرہ اداس

مچا شور و شر اس سے احساس میں

اسی سے گھلا زہر انفاس میں

ہر اک شخص کو اس نے بد ظن کیا

پڑوسی کو بھی اس نے دشمن کیا

لگا جسم کو یہ کسی روگ سا

کسی جونک سا خون اس نے پیا

عجب طرح کا روپ دھارن کیا

ہر اک روپ سے اس نے دھو کا دیا

کبھی یہ کہیں کوئی وحشی بنا

کسی تن کو پھاڑا، کسی کو ڈسا

کسی کا بدن چیر کر رکھ دیا

کہیں خون اس نے کسی کا پیا

تو قصہ فقط ہے یہ اک لفظ کا

مگر اس کا مفہوم پھیلا ہوا

جہانِ معانی کا اک سلسلہ

تمھاری نظر کو نظر آئے گا

تو آغاز کرتا ہوں دل سے سنو

ہر اک لفظ پر کان اپنے دھرو

سنو یہ جو سنگین حالات ہیں

سفر میں ہمارے جو خطرات ہیں

جو بھڑکے ہوئے گرم جذبات ہیں

بجھے زہر میں جو بیانات ہیں

کئی طرح کے جن میں خد شات ہیں

اسی لفظ کے سب کرامات ہیں

سنو کوئی بچنے کی صورت ملے

مناسب کوئی اک مہورت ملے

کوئی اس سے ایسا اشارہ ملے

کہ کشتی کو کوئی کنارہ ملے

بھنور سے نکلنے کی ہمت ملے

ہزیمت میں بھی کوئی جرأت ملے

کہ قصہ نہیں ہے یہ تریاق ہے

تمھارے اندھیرے کا چقماق ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے