غزلیں ۔۔۔۔ خالد اقبال یاسرؔ

دو غذلہ

 

ایسا ہی ہے اُدھر وہ اِدھر مختلف نہیں

لگتا ہے مختلف وہ مگر مختلف نہیں

 

شجرے تو اپنے اپنے ہیں طینت ہے مشترک

اشجار مختلف ہیں ثمر مختلف نہیں

 

ایسا نہ ہو کہیں کہ سبھی ہوں ملے ہوئے

مخبر ہے کوئی اور خبر مختلف نہیں

 

اس مرتبہ نتیجہ کہیں مختلف نہ ہو

ملاّح ناسزا ہے بھنور مختلف نہیں

 

بھٹکا نہیں ہے کوئی مسافر بھی راہ سے

منزل بھٹک گئی ہے سفر مختلف نہیں

 

ایسی ہی شام کل تھی یہی شام کا دھواں

پچھلی سحر سے اگلی سحر مختلف نہیں

 

کلغی اسی طرح کی ہے کلبوت اور ہے

سلطان کی کلاہ کے پَر مختلف نہیں

 

کیا جانے اب کی بار گزرتی ہے کس طرح

اِک بار پھر وہ بارِ دگر مختلف نہیں

 

یاسرؔ پرانا ہو گیا ہے پیار کا مرض

نسخے الگ الگ ہیں اثر مختلف نہیں

٭٭٭

 

 

 

کوئی بھی منحرف نہیں در مختلف نہیں

جتنے بھی کورنش میں ہیں سرمختلف نہیں

 

مقسوم کیسے بدلے گا زورِ بیان سے

مفہوم میں بیان اگر مختلف نہیں

 

منڈی سخن کی تیز رہی بھاؤ تاؤ میں

ہر عہد کلکِ زر کی قدر مختلف نہیں

 

تقریر مستعار ہے تشدید، جزم تک

مانگے ہوئے ہیں زیر زبر، مختلف نہیں

 

کب بے نیاز سودوزیاں سے کوئی ہوا

اب بھی حسابِ نفع و ضرر مختلف نہیں

 

اوروں کا ہر نوالہ ہے اس نے گِنا ہوا

اوروں سے ہے گرسنہ نظر، مختلف نہیں

 

تختہ ہمیں بنائے رکھا مشق کے لیے

اب تو رواں ہے ہاتھ، ہُنر مختلف نہیں

 

پیشانیاں الگ سہی دیوار و در الگ

اِک دوسرے سے کوئی بھی گھر مختلف نہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے