کینچلی: تاز گی بھرا ناول ۔۔۔ نیر مسعود

 

غضنفر کو ان کے پہلے ہی ناول ’’پانی‘‘ سے شہرت حاصل ہو گئی۔ ایسے وقت میں جب پڑھنے والے مبہم اور علامتی فکشن سے کچھ کچھ بیزار ہو رہے تھے، ’’پانی‘‘ اوّل سے آخر تک علامتی ناول ہے۔ اس لیے مبہم بھی ہے اور اس کا ابہام کہیں کہیں تجرید کو چھونے لگتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی مقبولیت کے اسباب سے یہاں بحث نہیں، یہاں اس حیرت کا اظہار کرنا ہے جو غضنفر کا دوسرا ناول ’’کینچلی ‘‘آنے پر ہوئی۔ ’’پانی‘‘ کی حوصلہ افزا پذیرائی کی بعد توقع تھی۔ (آپ اسے اندیشہ بھی کہ سکتے ہیں ) کہ ’’کینچلی‘‘ میں بھی غضنفر ’’پانی‘‘ ہی کا آزمودہ اسلوب اپنائیں گے لیکن غضنفر نے جرأت مندی سے کام لے کر ’’کینچلی ‘‘میں بالکل دوسرا رخ اختیار کیا اور راست بیانیے میں مانوس جزئیات سے تعمیر کیا ہوا عام اور مانوس موضوع کا ایک ناول پیش کر دیا۔ ناول کے پلاٹ پر نظر کیجیے تو اس کے موضوع کو عام اور مانوس ہی نہیں پامال اور پیش پا افتادہ بھی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اپاہج شوہر اور جوان بیوی کی کہانی ہمارے فکشن میں (اور فلموں میں بھی) بہت دہرائی گئی ہے۔ غضنفر کا ہنر یہ ہے کہ انھوں نے اس موضوع کو ایسی تازگی کے ساتھ برتا ہے کہ خیال ہوتا ہے ہمارے سامنے یہ موضوع پہلی بار آ رہا ہے۔

ناول کے پلاٹ میں کوئی ظاہری پیچیدگی نہیں ہے۔ دانش اور مینا خوش و خرم اور پر ارمان میاں بیوی تھے۔ شادی کی سالگرہ منانے اور داد عیش دینے کے لیے کشمیر گئے۔ وہاں دانش پر فالج کا حملہ ہو گیا۔ علاج معالجے سے فائدہ نہیں ہوا اور وہ ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو کر رہ گیا۔ اس کی نوکری بھی جاتی رہی۔ دوا دارو میں روپیہ لٹتا رہا۔ مینا کے زیور تک بک گئے اور فاقہ کشی کی نوبت آنے لگی۔ مینا کی سہیلی دیبا اور خود مینا کے باپ نے اسے دانش کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لینے کا مشورہ دیا لیکن اس نے یہ کہہ کر ان کا کر دیا کہ دانش اس کا مجازی خدا ہے اور وہ ہر حال میں اپنے بے سہاراشوہر کاساتھ دے گی۔ ایک بار اس نے مفلسی کی زندگی سے عاجز آ کر دانش کو چھوڑ نے کا ارادہ بھی کیا لیکن اس کی بے بسی اور محتاجی دیکھ کر ارادہ بدل دیا اور فیصلہ کیا کہ وہ خواہ کسی بھی طرح کی نوکری کر لے گی۔ دیبا کے دیور سجّن نے اس کے اصر ار پر اے اپنے دفتر میں ایک ادنیٰ سی نوکری دلوا دی سجّن کے سمجھانے پر اس نے اپنے لباس اور ظاہری ہئیت پر بھی دینا شروع کر دی جس سے اس کی جاذبیت واپس آ گئی۔ رفتہ رفتہ سجن اور وہ ایک دوسرے کی طرف کھنچنے لگے، یہاں تک کہ دونوں میں جنسی تعلقات قائم ہو گئے اور وہ حاملہ ہو گئی۔ اپاہج دانش بھی سمجھ گیا کہ مینا نے اس سے مایوس ہو کر کسی اور مرد کا سہارا لے لیا ہے۔ سجن نے اسے حمل گروانے کا مشورہ دیا جواس نے قبول نہیں کیا۔ اس نے بدنامی کا بھی خوف نہیں کیا اس نے دانش کو چھوڑ کر سجن کے ساتھ شادی کی تجویز کو بھی ٹھکرا دیا۔

دانش مینا کو قصور وار نہیں سمجھتا تھا۔ ایک دن وہ پڑوس کے ایک لڑکے کی مدد سے اپنی وہیل چیر پر بازار گیا۔ اپنی گھڑی بیچ کراس نے بینا کے لیے ایک گڑیا اور اس کی گرتی ہوئی صحت کی بحالی کے لیے طاقت بخش دوائیں خریدیں اور گھر آ کر مینا کو بتایا کہ اس کے دل میں کوئی شکایت نہیں ہے اور یہ کہ وہ اور مینا میاں بیوی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے غم آشنا ہیں اور یہ ان کا بے نام مگر مضبوط تر رشتہ ہے۔

موضوع اور بعض جزئیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ’’کینچلی‘‘ کچھ سطحی سی کہانی نظر آتی ہے۔ اس میں ایک سالگرہ کے موقع پر ہیروئن کا گانا بھی ہے۔ ایک چھوٹا موٹا ولین سرجیت بھی اپنی غیر ضروری جھلک دکھاتا ہے۔ ذہنی اور جذباتی کشمکش کے اظہار کے لیے آئینے کے سامنے عکس اور شخص کے مکالمے بھی ہیں۔ یہ عناصر ایک ادبی ناول کو بگاڑ نے کے لیے کافی ہیں لیکن یہ غضنفر کی مخصوص ادا ہے۔ (جوان کے بعض افسانوں میں بہت نمایاں ہے ) کہ وہ اپنی کہانی کو ایک چلتے ہوئے اور جانے بوجھے راستے پر آگے بڑھاتے ہیں اور جب قاری کو اس جانے بوجھے راستے پر جانی بوجھی منزل قریب محسوس ہونے لگتی ہے تو کہانی ایک نئی پگڈنڈی پر گھوم جاتی ہے مگر غضنفر اس کا خیال رکھتے ہیں کہ یہ گھماؤکسی اچانک اور ڈرامائی موڑ کی طرح قاری کے ذہن کو دھچکا نہ پہنچائے۔

غضنفر ’’کینچلی‘‘ کی پوری قوت مینا کے کردار میں مرکوز کر دی ہے۔ جوانی کے جذبات میں بھری ہوئی یہ عورت، جو اپنے شوہر کے ساتھ زندگی کی رنگینیوں کا لطف اٹھانے کشمیر گئی تھی، دیکھتے دیکھتے اپنے کندھوں کو ایک مفلوج اور بے روزگار مرد کے بوجھ سے دبا ہوا پاتی ہے۔ اسے اس مرد کی خدمت بھی کرنا اور اس کے اور اپنے آب و دانہ کا بندوبست بھی کرنا ہے۔ شوہر کے علاج میں اپنے زیور تک بیچ دینے کے بعد وہ ایک دفتر میں چپراسی گیری کرنے پر تیار ہو جاتی ہے لیکن شوہر کو چھوڑ کر کیس اور سے شادی کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ یہ ایک انتہائی وفادار اور ستی ساوتری قسم کا کردار ہے لیکن وہ ایک غیر مرد سے جنسی تعلقات بھی قائم کر لیتی ہے۔ یہ صریحاً بے وفائی ہے لیکن وہ اس کو بے وفائی تسلیم نہیں کرتی۔ سماجی، اخلاقی اور مذہبی قدروں کے متعلق اس کا اپنا فسلفہ ہے جو صحیح ہو یا غلط لیکن اس کو اپنے فلسفے پر پورا یقین ہے۔ ناجائز بچّے کی ماں بننے کا خیال اسے خوف زدہ نہیں کرتا۔ معاشرے نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ہے۔ اس لیے اسے معاشرے کی انگشت نمائی کی پروا نہیں۔ مذہب کی رُو سے بھی اسے خود کو گناہ گار ماننے میں تامل ہے۔ اس کا خیال ہے جس طرح پیٹ کی بھوک ناقابل برداشت ہو جانے کی صورت میں حرام حلال ہو جاتا ہے، اسی طرح جنسی بھوک میں بھی ہونا چاہیے وہ اپنے شوہر کی ضرورتیں پوری کرتی ہے لیکن شوہر اس کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے حق ہے کہ دوسرے وسیلوں سے اپنی ضرورتیں پوری کرے۔ آپ اسے ایک وفا شعار مگر بد کار عورت یا ایک شوہر پرست مگر آبرو باختہ بیوی کہہ سکتے ہیں۔ غضنفر کا کمال یہ ہے کہ اس طرح کی مجموعہ اضداد عورت کو انھوں نے ایک فطری کردار بنا دیا ہے۔

کہانی کا سب سے ستم رسیدہ کردار دانش ہے۔ وہ اپنی عورت کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔ جوانی کے جذبات اور پرکشش جوان بیوی کے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی اور اس کے جنسی جذبات کو تسکین دینے سے معذور ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی غیروں کے تصرف میں آ رہی ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتا لیکن کہانی کا سب سے بُرا اور خود غرض کردار بھی دانش ہی ہے۔ سب کچھ دیکھتے سمجھتے ہوئے بھی وہ مینا پر اپنا قبضہ برقرار رکھتا ہے اور اسے طلاق دے کر آزاد نہیں کرتا، صرف اس ڈرسے کہ پھر اس کا کیا ہو گا۔ مینا کا رویّہ اس کے لیے نا قابلِ فہم ہے اور کسی حد تک ہمارے لیے بھی ناقابل فہم رہتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ وہ دانش سے علیحدگی اختیار کر کے سجّن سے شادی کر سکتی ہے۔ وہ خود برسر روزگار ہے اور سجّن ایک ہمدرد اور روادار انسان ہے اس لیے وہ علیحدگی کے بعد بھی دانش کی کفالت اور دیکھ بھال کا بندوبست کر سکتی ہے لیکن کہانی کا اختتام آتے آتے یہ بات ہماری سمجھ میں آ جاتی ہے، جس طرح دانش کی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ مینا کو اصل فکر شوہر کی کفالت اور خدمت کی نہیں بلکہ اس کے دکھ میں شرکت کی ہے اور وہ الگ ہو کر شوہر کا دکھ نہیں بٹاسکتی۔ دانش مینا کے لیے کچھ نہیں کر سکتا لیکن وہ بھی کم از کم مینا کے دکھ کو سمجھتا ہے اور یہ ایک ایسا رشتہ ہے جسے ان دونوں میں سے کوئی بھی توڑ نا نہیں چاہتا۔

اس طرح غضنفر نے ایک سپاٹ سی نظر آنے والی کہانی میں ایسے نفسیاتی پیچ رکھ دیے ہیں، جو اس وقت تک ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتے جب تک ’’کینچلی ‘‘ کو غور سے نہ پڑھا جائے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے