پگلی ۔۔۔ شوکت تھانوی

 

پہلا باب

 

فرسٹ کلاس کے کوپے میں اب تک ڈاکٹر خالد تنہا ہی سفر کر رہا تھا اور شروع سے آخر تک پڑھا ہوا اخبار ایک مرتبہ پھر شروع سے آخر تک پڑھنے میں مصروف تھا کہ ٹرین ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر ٹھر گئی مگر ڈاکٹر خالد نے یہ بھی نہ دیکھا کہ یہ کون سا اسٹیشن ہے اور دیکھتا بھی کیوں اس کو سوائے لاہور کے اسٹیشن کے اور کسی اسٹیشن کا انتظار ہی کب تھا۔ ٹرین چند منٹ ٹھہرنے کے بعد چلنے کیلئے رینگی ہی تھی کہ ایک خاتون اپنی چھوٹی سی اٹیچی لیے دروازہ کھول کر وارد ہو گئی۔ معلوم نہیں خالد نے ان کو دیکھا بھی یا نہیں بہر حال وہ خاتون خالد کو دیکھنے کے باوجود اس لیے نہ دیکھ سکیں کہ اس کے چہرے کے سامنے اخبار پھیلا ہوا تھا جس کو خاتون کے آ جانے کے باوجود اس نے نہ ہٹایا۔ ٹرین اب اپنی رفتار پکڑ چکی تھی مگر یہ دونوں خاموش مسافر ایک دوسرے قطعاً بے نیاز اس طرح بیٹھے تھے گویا یہ طے کر کے بیٹھے ہوں کہ ایک دوسرے سے ہر گز نیاز حاصل نہ کریں گے۔ آجر اس کیفیت سے گھبرا کر نو وارد خاتون نے اس پار جو صاحب بھی تھے ان کو دیکھنے کے لئے اپنی کئی زاویے بدلے مگر ہر طرف اخبار ہی اخبار نظر آیا آجر وہ صبر کر کے بیٹھ رہی مگر آخر کب تک، نتیجہ یہ کہ اس نے خود ہی بڑ بڑانا شروع کیا۔

” بد تمیز کہیں کا۔ گنوار۔ احمق”

خالد نے گھبرا کر اخبار ایک طرف کر کے پوچھا۔

” کچھ مجھ سے فرمایا؟”

خاتون نے بڑے خشمگیں انداز سے کہا۔

” جی نہیں میں اس کو کہہ رہی ہوں ریل کے بابو کو۔  کہنے لگا کہ زنانے درجہ میں بیٹھ جائیے۔ کوئی پوچھے تم کون میں زنانے میں بیٹھوں یا مردانے میں تمہاری اجارہ داری ہے اور جانے اس ملک میں یہ زنانہ اور مردانہ لغویت کب تک ہوتی رہے گی؟ ”

خالد نے کہا۔ "ہے تو واقعی سخت لغویت۔ ”

خاتون نے خوش ہو کر کہا۔ ” ہے نا آپ کے خیال میں بھی لغویت میں تو سمجھی تھی کہ اب اس گنوار بابو کے بعد آپ سے بھی مجھے سر کھپانا پڑے گا اور آپ بھی کہیں گے کہ عورتوں کو زنانہ درجہ ہی میں بیٹھنا چاہئیے۔”

خالد نے کہا "جی نہیں میں نے آپ کو خوش کرنے کے لئے نہیں کہا ہے بلکہ میں اس کو عورت کی سخت توہین سمجھتا ہوں کہ اس کے لئے علیحدہ درجہ مقرر کر دیا حرم سرا کی قسم کا۔ ”

خاتون نے آنکھوں میں چمک پیدا کر کے تالی بجا دی مارے خوشی کے۔

” توہین واقعی۔ میں یہی لفظ ڈھونڈ رہی تھی آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی۔ اس سے بڑھ کر عورت کی توہین اور کیا ہو سکتی ہے۔ ”

خالد نے کہا۔ "یہی باتیں ہیں جن کی وجہ سے عورتوں میں خود نگری، خود شناسی اور خود اعتمادی پیدا نہیں ہوئی۔”

خاتون نے بڑے اشتیاق سے اپنا اٹیچی کھولتے ہوئے کہا۔

” کیا۔ کیا۔ ذرا ٹھریے میں آپ کا یہ فقرہ لکھ لوں کون کون سی خود نہیں پیدا ہوتی۔ ”

” خود نگری۔” خالد نے کہا۔ "خود نگری۔ خود شناسی اور خود اعتمادی پیدا نہیں ہوتی ”

خاتون نے یہ فقرہ لکھتے ہوئے مسرت سے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔

” کس قدر تسکین حاصل ہوئی ہے میری روح کو آپ سے یہ چند باتیں سن کر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ آپ نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ میری روح مجھ سے آج پہلی مرتبہ مخاطب ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب آپ کے خیال میں یہ حالات کبھی بدلیں گے۔”

خالد نے سنبھل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ "مگر آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا میں ڈاکٹر ہوں ؟ ”

خاتون نے اس کی جیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "ظاہر ہے کہ آلہ کسی بیرسٹر کی جیب میں تو ہو نہیں سکتا بلکہ میں تو یہ بھی بتا سکتی ہوں کہ آپ انگلینڈ سے آ رہے ہیں۔”

خالد نے اپنے سامان کی طرف دیکھ کر کہا۔ "جی ہاں یہ چغلی تو میرے لگیج کے لیبل کھا رہے ہیں۔”

خاتون نے کہا "جس وقت آپ اخبار پڑھنے میں مصروف تھے میں آپ کے سامان کے یہ لیبل پڑھ رہی تھی۔ ہاں تو بتایا نہیں آپ نے کہ کیا اس ملک میں کبھی عورت کو اس کا صحیح مرتبہ مل سکے گا۔ ”

خالد نے کہا۔ "محترمہ اس دور میں کوئی چیز ملتی نہیں بلکہ حاصل کی جاتی ہے اور اگر میں یہ کہوں تو زیادہ صحیح ہو گا کہ ہر چیز حاصل بھی نہیں کی جاتی بلکہ چھینی جاتی ہے۔ ”

خاتون نے خوشی سے گویا اچھلتے ہوئے کہا۔ "کمال ہے سچ مچ۔ کس قدر آپ میرے ہم خیال ہیں میر ابھی بالکل یہی عقیدہ ہے کہ یہ مرد عورت کو اس کے حقوق کبھی نہ دے گا۔ جب تک کہ عورت خود اس سے چھین نہ لے۔ مجھے اپنا ایسا ہم خیال آج تک کوئی نہیں ملا جو حرف بحرف اس طرح میری تائید میں ہو۔ ”

خالد نے کہا۔ "مگر اب وہ دن دور نہیں۔ ضرورت تھی صرف احساس کی اور وہ پیدا ہو چکا ہے۔ عورتوں نے اس زاویہ سے خود اپنے اوپر نظر ڈالنا شروع کر دی ہے اس کا انداز فکر اب اس حد تک بدل گیا ہے کہ آپ کو ریلوسے کے بابو نے صرف اتنا کہہ کر مشتعل کر دیا کہ آپ زنانہ درجہ میں بیٹھیں آپ کا اس کو اپنی نسائیت کی ہتک سمجھنا ہی اس کا ثبوت ہے کہ عورت میں اس کی خودی بیداری ہو چکی ہے۔ ”

خاتون نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا۔ "آپ کہتے جائیے ڈاکٹر صاحب آپ میری زبان سے بول رہے ہیں۔ شکر ہے خدا کا کہ آج مجھ کو ایک ایسا شخص مل ہی گیا جو اس حد تک میر اہم خیال ہو۔”

خالد نے ہنس کر کہا۔ "نہیں خیر یہ باتیں تو ہر مہذب اور معقول آدمی کو کرنا چاہئیں۔ ”

خاتون نے کہا۔ "مگر معقولیت اور تہذیب ابھی اتنی عام نہیں ہوئی ہے کہ صورت سے نظر آنے والے ہر مہذب اور معقول آدمی میں واقعی موجود ہو۔ مجھے تو اس معاملے میں ایک سے ایک پڑھے لکھے جاہل اور ایک سے ایک مہذب نظر آنے والے جانور سے واسطہ پڑا ہے جن سے بات کر کے سر پھوڑ لینے کو جی چاہتا ہے۔ یقین جانئیے کہ اگر آپ بھی ایسی ہی باتیں کرتے تو میں خطرے کی زنجیر کھینچ لیتی۔ ”

خالد نے کہا۔ "واقعی بڑی کوفت ہوتی ہے کسی نا جنس کے ساتھ وقت گزارنے میں۔”

خاتون پھر پھڑک کر کہا۔ "ہائے کیسے کیسے خوبصورت اور چپک جانے والے لفظ آپ استعمال کرتے ہیں نا جنس ایک ایسا لفظ آپ نے کہہ دیا ہے کہ جس قسم کے لوگوں کی زخم خوردہ میں ہوں ان کی ساری بوریت اور بیہودگی اس ایک لفظ میں سما کر رہ گئی ہے۔۔”

خالد نے گفتگو کا رخ بدل کر کہا۔ "آپ تشریف کہاں لے جا رہی ہیں ؟ ”

خاتون نے کہا۔ "اب کہاں تشریف لے جا رہی ہوں، لے جا چکی تشریف جہان لے جانا تھی۔ سر میں ایک سودا تھا اور پاؤں میں سینچر بندھا ہوا تھا کہ خدایا اس دنیا میں مجھ کو کوئی ایک ہی ہم خیال مل جائے اپنا۔ شکر ہے کہ وہ آپ مل گئے۔ ”

خالد بڑے مہذب انداز سے کہا "شکریہ آپ کا۔ پھر بھی جا کہاں رہی ہیں آپ؟ ”

خاتون نے کہا۔ "کہہ تو دیا کہ اب کہاں جاؤں گی اب تو مجھے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ آپ کہاں لے جا رہے ہیں مجھے ؟”

خالد ایک دم سٹپٹا کر کہا۔ "جی ؟ یعنی میں سمجھا نہیں آپ کی بات۔ ”

خاتون نے کہا۔ "سمجھ تو خیر گئے ہیں آپ البتہ یہ بات آپ کے لئے کچھ نئی ضرور ہے جس نے آپ کر گھبرا دیا کہ ایک لڑکی خود آپ سے اس قسم کی بات نہایت بے باکی سے کہ دے۔ مگر مجھے اس بے باکی کا حق میری اور آپ کی اسی ہم خیالی نے ابھی دیا ہے جس کا خود آپ کو بھی اقرار ہو گا مجھے سالہا سال کی جستجو کے بعد بھی اپنا ایسا ہم خیال کبھی کوئی نہ مل سکا اور میرا خیال ہے بلکہ میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ کو کبھی میرے علاوہ اپنا ہم خیال کوئی شاید ہی مل سکے۔ ”

خالد نے کہا۔ "یہ تو درست ہے مگر فرض کر لیجئے کہ میرے حقوق کسی اور کے نام محفوظ ہوں۔”

خاتون نے کہا۔ "اگر محفوظ ہیں تو غلط ہیں دوسرے بقول آپ کے حق یا ان کی جمع حقوق ملتے نہیں حاصل کیے جاتے بلکہ چھینے جاتے ہیں لہذا میں نہایت جرات کے ساتھ چھین لوں گی۔ ”

اب تو خالد نے واقعی گھبراتے ہوئے کہا۔ "مگر میں اس پوزیشن میں ہر گز نہیں ہوں کہ آپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں۔ آپ کو نہیں معلوم کہ میں کئی سال بعد ولایت سے آ رہا ہوں۔ میری ماں نہ جانے کتنے ارمان لیے اس وقت لاہور کے اسٹیشن پر ٹہل رہی ہو گی۔ اس کی مضطرب نگاہیں گھڑی پر ہوں گی یا حد نظر تک اس ریل کی پڑی پر جس پر یہ ٹرین وہاں پہنچنے والی ہو گی۔ میرے استقبال کے لئے میری منگیتر زبیدہ بھی آئی ہو گی اپنے دل میں میرے لیے نہ جانے کیا کیا قیامتیں چھپائے ہوئے۔ میرے تمام عزیز اور احباب ہوں گے میرے گلے میں ہار ڈالنے کے لئے۔ ”

خاتون نے نہایت بے پروائی سے کہا۔

” ہاں ہاں تو ٹھیک ہے میں کب کہتی ہوں کہ آپ کا استقبال اس سے گم گرمجوشی سے کیا جائے۔ رہ گئی اپ کی منگیتر زبیدہ اگر وہ مجھ سے زیادہ آپ کی ہم خیال نکلی تو میں آپ دونوں کے درمیان ہرگز حائل نہ ہوں گی اور اگر یہ بات نہیں ہے تو آپ خود غور کیجئے کہ شادی تو ایک ہی ہو گی مگر زندگیاں دو تباہ ہوں گی۔”

خالد نے رائے ونڈ کا اسٹیشن دیکھتے ہوئے کہا۔ "بس اب لاہور ٹھہرے گی ٹرین اور اب بہت کم وقت ہے آپ کے لئے آپ اپنا پروگرام طے کریں، ٹکٹ آپ کا کہاں کا ہے۔ ”

خاتون نے کہا۔ "ٹکٹ لاہو رہی کا ہے اتفاق سے۔ ”

خالد نے بڑے اضطراب سے پوچھا "اور قیام کہاں ہو گا۔ لاہور میں ؟ ”

خاتون نے مسکرا کر کہا۔ "آپ کے دولت خانہ پر۔ آپ آخر اس قدر پریشان کیوں ہیں، میں اپنے آپ کو آپ کے سر منڈھ نہیں رہی ہوں بلکہ آپ کی ایک دوست کی حیثیت سے آپ کی گھریلو فضاؤں کا مطالعہ کرنے آپ کے گھر مہمان کی حیثیت سے جا رہی ہوں۔ ”

خالد نے اسے غنیمت جان کر کہا۔ "بے شک تشریف لے چلیے۔ خانہ بے تکلف ہے۔ مگر چوں کہ مجھے اس مہمان کا اپنے عزیزوں سے تعارف بھی کرانا ہو گا۔ لہذا آپ کا نام معلوم ہو جانا بے حد ضروری ہے۔”

خاتون نے قہقہہ لگا کر کہا۔ "واقعی یہ کمال ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے اتنے قریب آ گئے ہیں کہ ایک دوسرے کو ایک دوسرے کا نام تک پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی آپ کا نام تو یہ رہا اپ کے سوٹ کیس پر ڈاکٹر ایس ایم خالد اور میرا نام ہے گل رخ۔ یاد رہے گا آپ کو یہ نام۔ ”

خالد نے کہا۔ "جی ہاں قطعی۔ مگر ایک گزارش کر دوں کہ میرے گھر کے افراد اور میرے عزیز ابھی اتنے روشن خیال اور وسیع النظر نہیں ہوئے ہیں کہ وہ اس قسم کی باتیں اور ان باتوں کی صحیح اسپرٹ سمجھ سکیں۔ جیسی ہم دونوں کے درمیان ہوتی رہی ہیں اس کے علاوہ میں درخواست کروں گا کہ آپ اپنے کسی طرز عمل سے کسی کو بد گمانی کا موقع نہ دیں تو اچھا ہے۔ ”

گل رخ نے کہا۔ "آپ اب مجھے بہت ہی بچکانہ باتیں سمجھا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں بھی آخر اس سر میں تھوڑا سا بھیجا رکھتی ہوں۔”

ٹرین لاہور چھاؤنی سے گزر کر لاہور کے جنکشن کے یارڈ میں داخل ہو رہی تھی اور خالد اپنا سامان اکھٹا کر رہا تھا۔ لاہور اسٹیشن پر ٹرین کے ٹھہرتے ہی اس کوپے کے دروازے پر خالد کے تمام عزیز اور دوست دوڑ دوڑ کر جمع ہو گئے تھے، ، دروازہ کھول کر خالد پہلے ہی سے اس لئے کھڑا ہو گیا تھا کہ اس کا استقبال کرنے والے ٹرین کے ہر ڈبہ میں اس کو جھانکتے نہ پھریں اور جب اس مجمع کو چیرتی ہوئی آنکھوں میں مسرت کے آنسو لیے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ خالد کی والدہ آگے بڑھیں تو خالد کود کر پلیٹ فارم پر آ گیا اور دوڑ کر ماں سے لپٹ گیا جو خود اس کو کلیجے سے لگانے کے لئے بے قرار تھیں۔ وہ بیٹے سے مل کر ایسی از خود رفتہ ہوئیں کہ بیٹے کے گلے میں ڈالنے کے لئے جو ہار لائی تھیں وہ ہاتھ کا ہاتھ ہی میں رہ گیا۔ آجر جب ایک صاحب نے قریب آ کر کہا۔ خالہ جان آخر ہم لوگوں کا بھی کچھ حق ہے یا نہیں، تو وہ بیٹے سے علیحدہ ہوئیں اور اب ان کو وہ ہار بھی یاد آیا جو انہوں نے خالد کے گلے میں ڈال کر اس کی بلائیں لیں اب تو ہر طرف سے ہار پڑنے لگے اور تھوڑی ہی دیر میں خالد کا چہرہ ان ہاروں کے درمیان ایسا نظر آنے لگا جیسے گلدستے میں کوئی بڑا سا پھول بیچوں بیچ ہو۔ وہ ایک ایک سے مل رہا تھا اور جس سے ملتا تھا وہی ایک ہار اس کے گلے میں ڈال دیتا تھا۔

ابھی اس کو سب گھیرے ہوئے تھے کہ کسی نے کسی طرح اس کے قریب پہنچ کر کہا۔ "اگر آپ ان سب سے مل چکے ہوں تو اپنے سامان سے بھی مل لیجئے جو اس ٹرین کے ساتھ ہی روانہ ہونے والا ہے۔”

خالد نے چونک کر ایک صاحب سے کہا۔ "نعیم بھائی واقعی سامان تو اتروائیے۔ چھوٹے بڑے ملا کر سب سات عدد ہیں۔”

گل رخ نے کہا "جی نہیں آٹھ میرا اٹیچی نہ بھولیے۔ ”

خالد نے اس سے کہا۔ "مہر بانی فرما کر آپ خود نعیم بھائی کو اپنا سامان دکھا کر اتروا دیجئے۔ ”

گل رخ تو اس طرف روانہ ہوئی ادھر خالد کی والدہ نے بڑی تشویش سے کہا۔ "بیٹا یہ لڑکی کون ہے۔ مجھے تو یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اتنے دن ولایت میں رہنے کے بعد اللہ نہ کرے کوئی ولایتی بلا نہ چمٹا لاؤ اپنے ساتھ مگر یہ تو کوئی دیسی معلوم ہوتی ہے پر یہ ہے کون۔ ”

خالد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "یہ جو کچھ بھی ہو مگر اطمینان رکھیے۔ بلا نہیں ہے۔ میری شریک سفر ہیں اور چند دن ہمارے گھر مہمان رہ کر چلی جائیں گی۔ وہ آتی ہیں تو ابھی آپ کو ملواتا ہوں ان سے بڑی دلچسپ خاتون ہیں۔ ”

ہر چند کہ خالد نے ماں سے جو بات کہی تھی وہ تقریباً سب ہی نے سن لی تھی مگر سب کی عجیب نظریں گل رخ پر پڑ ہی تھیں اور سب سے زیادہ عجیب نظریں زبیدہ کی پڑ رہی تھیں جو اب تک خالد کے قریب بھی نہ آئی تھی بلکہ اس مجمع سے پیچھے ایک کھمبے کی ٹیک لگائے اس ہار کا ایک ایک پھول توڑ تور کر غیر ارادی طور پر گراتی جاتی تھی جو وہ خالد کے گلے میں ڈالنے کو یا تو خود لائی تھی یا کسی نے اس کبھی دے دیا تھا کہ ایک ہار تم بھی خالد کے گلے میں ڈال دینا۔

گل رخ نے نعیم صاحب کو تمام سامان کا چارج دے کر ایک ہینڈ بیگ لا کر خالد کے ہاتھ میں دے دیا کہ۔” اس کو اپنے ہاتھ میں رکھیے اس گڑ بڑ میں ادھر ادھر نہ ہو جائے۔”

خالد نے کہا۔ "شکریہ۔ اچھا ادھر آئیے میں آپ کو اپنی والدہ سے ملاؤں۔”

گل رخ نے تیزی سے خالد کی والدہ کے قریب آتے ہوئے کہا۔ "جی نہیں مجھے خود آتا ہے ملنا۔ اماں جان تسلیم، میرا نام ہے گل رخ اور میری حیثیت اس وقت یہ ہے کہ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔”

خالد کی والدہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ "نہیں نہیں بڑے شوق سے تم مہمان بنو بیٹی اس میں مان نہ مان کا کیا سوال ہے۔ ”

خالد نے جیسے کچھ یاد کرتے ہوئے کہا۔ "اور وہ کہاں ہے زبیدہ۔ آئیں نہیں کیا؟” خالد کی والدہ نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا۔ ہاں ہاں آتی کیوں نہ وہ۔ مگر کیسے سب کو پھاندتی پھلانگتی آتی یہاں۔ اے میں نے کہا زبیدہ بیٹی آؤ نا ادھر۔ ”

زبیدہ کے ہاتھ میں اب ہار کے بجائے صرف اکھرے سوت کا ایک حصہ تھا۔ پھول وہ سب نوچ چکی تھی چنانچہ جب اس کو طلب کیا گیا تو وہ اس دھاگے کو بھی پھینکتی ہوئی کچھ لجائی، کچھ شرمائی سی آگے بڑھی اور خالد کی والدہ کے پاس ان ہی کی آڑ لے کر کھڑی ہو گئی تو خالد نے کہا۔ یہ تو واقعی اتنے ہی دنوں میں ایک قسم کی خاتون محترم بن چکی ہیں جن کو نہایت ادب سے سلام کرنے کو جی چاہتا ہے۔

خالد کی والدہ نے ہنس کر کہا۔ "اس لیے وہ غریب دور کھڑی ہوئی تھی۔ ”

گل رخ نے زبیدہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ "آپ کا غائبانہ تعارف تو ڈاکٹر صاحب کر اچکے ہیں اپنا تعارف میں جود کراتی ہوں میرا نام ہے گل رخ اور میں آپ کے گھر مہمان بن کر ٹھہرنے کو آئی ہوں آئیے ہاتھ ملائیے مجھ سے۔”

اور یہ کہہ کر اس کا ہاتھ خود ہی پکڑ کر اس طرح ملایا کہ وہ کچھ اور بھی جھینپ گئی اور خالد کی والدہ کی بغل میں اپنا منہ چھپا لیا تو گل رخ نے خالد سے کہا۔ "نہیں صاحب دنیا میں ہر بے ضرورت چیز کی ضرورت ہوتی ہے زنانہ درجہ بھی بے کار نہیں ہوتا خدا سلامت رکھے ان بہو بیٹیوں کو ان کے لئے یہ انتظام بے حد ضروری ہے۔ ”

اور تو کوئی یہ بات سمجھ نہ سکا سب منہ اٹھا کر رہ گئے مگر خالد نے جلدی سے بات کو گول کرنے کے لئے کہا۔ "بھئی اب آپ لوگ مجھے گھر بھی لے چلیں گے یا نہیں۔ ”

چنانچہ سب کو بھولا بسرا گھر یاد آ گیا اور یہ بھی یاد آ گیا کہ اسٹیشن پر تو چند ہی لوگ آئے ہیں باقی خلقت تو گھر ہی پر منتظر ہے۔ خالد کی والدہ نے کہا۔ سچ تو ہے گھر پر سب الگ انتظار کر رہے ہوں گے اور وہ غریب بھی اتنا لمبا سفر کر کے تھکا ہارا آیا ہے۔

یہ سب خالد کو اپنے گھیرے میں لیے اسٹیشن سے باہر آئے اور پھولوں سے سجی ہوئی ایک کار میں خالد کو بٹھا کر اور اس کے ساتھ اس کی والدہ، زبیدہ، گل رخ کو بٹھا کر نعیم صاحب بھی ڈرائیور کے برابر بیٹھ گئے باقی لوگ مختلف کاروں میں جا بیٹھے اور یہ قافلہ فراٹے بھرتا بہت جلد خالد کے گھر تک پہنچ گیا جس کو نہایت سلیقے سے سجایا گیا تھا حد یہ ہے کہ سبز پتیوں سے ایک پھاٹک بھی بنایا گیا تھا۔ جس پر خوش آمدید کے حروف جگمگا رہے تھے۔ خالد نے یہ منظر دیکھ کر نعیم کو مخاطب کیا۔ نعیم بھائی اپنے ہی گھر میں اپنے ہی لیے یہ تکلف دیکھ کر مجھے وہ شعر یاد آ گیا۔

دشت غربت سے وطن میں آئے بھی تو کیا ہوا

اجنبی کی طرح پہروں اپنا گھر دیکھا کیے

خالد کی والدہ نے کہا۔ "ان لوگوں کی یہی ضد تھی۔ ایک ہفتہ سے یہ سب کچھ کرتے پھر رہے تھے کہ سڑک پر سرخی کوٹی جا رہی ہے گھر میں قلعی ہو رہی ہے پتیوں کا پھاٹک بن رہا ہے۔ جھنڈیاں بنائی جا رہی ہیں۔ مہمانوں کو بٹھانے کے لئے شامیانے لگ رہے ہیں اور کرسیاں اور صوفے جانے کہاں کہاں سے لائے جا رہے ہیں۔ کل رات بھر میں تو شامیانہ لگا ہے۔”

خالد نے کہا۔ "بھلا یہ سب کیوں ہوا ہے۔ اب اس شامیانے میں کیا ہو گا؟ ”

نعیم نے کہا۔ "جو کچھ ہو گا دیکھ لینا اور یہ بھی دیکھ لینا کہ جتنے لوگ تم سے ملنے آئے ہیں ان کو سوائے شامیانے کے نیچے بٹھانے کے اور کہاں بٹھا یا جا سکتا تھا۔ ”

خالد کی والدہ نے کہا۔ "ہاں اللہ رکھے سارا ہی خاندان تو امنڈ آیا ہے۔ ”

اس عرصہ میں گاڑی اس شامیانہ کے پاس پہنچ چکی تھی جس میں واقعی ایک میلہ سا لگا ہوا تھا۔ کارک پہنچتے ہی سب نے ادھر ادھر سے دوڑ کر کار کو گھیر لیا اور خالد کو کار سے اترنا دوبھر ہو گیا۔ کوئی بھائی جان کہہ کر چمٹا جا رہا ہے۔ کوئی ماموں جان کہہ کر کوٹ کا دامن کھینچنے لیتا ہے اور تو اور ایک صاحبہ تو یہ انتظار بھی نہ کر سکیں کہ وہ آخر گھر کے اندر بھی جائے گا پر دہ در خواتین سے ملنے وہ برقعہ پہن کر آ موجود ہوئیں اور اب جو بڑھی ہیں خالد کی طرف تو وہ ٹھٹک کر رہ گیا۔ خالد نے والدہ نے کہا۔ "اے شمیم آپا ہیں تمہاری۔ ”

شمیم آپا نے برقعہ کے اندر ہی سے کہا۔

” ولایتی وحشت کو کیا کرے بے چارہ۔ چل ادھر سوکھا ڈالا ہمیں انتظار میں۔”

اور یہ کہہ کر سچ مچ بہت ہی محبت سے اس کو گلے لگا کر نہ جانے مٹھی میں کیا لے کر اس پر نچھاور کر دیا۔ خالد نے کہا۔ "شمیم آپا یہ تو بڑی خود غرضی ہے کہ آپ کی کہ آپ نے مجھ کو دیکھ لیا ہے مگر میں آپ کو نہیں دیکھ رہا ہوں اندر چلیے میں بھی تو آپ کو دیکھوں۔”

اور یہ کہہ کر اس نے یہی طے کیا کہ پہلے اندر ہو آئے تا کہ پردہ دار خواتین ایک ایک کر کے برقعہ پہنے باہر نہ آ جائیں مگر اندر جا کر تو جیسے وہ بھڑوں کے چھتے میں پھنس گیا۔ طرح طرح کی خالہ زاد، مانو زاد، چچا زاد اور پھوپھی زاد بہنوں نے اس کو گھیر لیا۔ وہ شور و غل تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔

کوئی محترمہ کہہ رہی تھیں۔ اے ہے مونچھیں منڈا کر کیا طباق سا منہ لیے آ گیا۔ کوئی بولیں۔ ولایت تک ہو آیا مگر جسم پر بوٹی نہ چڑھی۔ کسی نے کہا۔ رنگ البتہ نکھر گیا ہے۔

اور اسی مجمع کو چیرتی پھاڑتی ایک خمیدہ کمر بڑی بی آ کر بڑی بی نے آ کر چٹا چٹ بلائیں لیتے ہوئے کہا۔ "اے میں نے کہا میرے کانوں کا آلہ بھی لایا۔ اب تو بالکل دیوار ہو گئی ہوں۔” خالد نے کہا۔ "نانی جان لایا ہوں آپ کے کانوں کا آلہ۔۔ ”

نانی جان نے کچھ اور ہی سن کر کہا۔ "چل دور چلا ہے مرے ہوئے نانا کا نام لے کر مجھ سے مذاق کرنے۔” اور وہاں پر ایک قہقہہ پڑا۔ تو خالد نے اور قریب آ کر بلند آواز سے کہا۔ "نانی جان میں مذاق نہیں کر رہا ہوں آلے کو کہہ رہا ہوں کہ لایا ہوں آپ کے کانوں کا آلہ۔”

نانی جان نے کہا۔ "اے تو کیا ہوا نہیں لایا تو نہ سہی تو خود ہی خیر سے آ گیا یہی بہت ہے۔”

خالد نے اپنی والدہ سے کہا۔ "یہ تو اب واقعی بالکل دیوار ہو گئی ہیں۔ ”

اور اس کو نانی جان سے کسی زیادہ باتیں نہ کرنے دیں کچھ شریر لڑکیاں اس کو اپنی طرف گھیسٹ کر لے گئیں۔ وہاں مشکل اس کی ماں نے اس کو نجات دلائی ورنہ وہ سخت مصیبت میں مبتلا ہو گیا تھا اس لیے کہ ان لڑکیوں نے گل رخ کے متعلق سوالات کی بوچھاڑ شروع کر دی تھی۔ اسی طرح تھوڑی دیر وہ خاندان بھر کی چھوٹی بڑی منجھلی سنجھلی ہر قسم کی خواتین سے ملتا رہا اور بمشکل اس کو باہر جانے کی اجازت ملی جہاں نعیم صاحب نے مہمانوں کی کولڈ ڈرنگ اور آئس کریم وغیرہ سے تواضع کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ خالد کے پہنچتے کے بعد وقتی طور پر یہ سلسلہ درہم برہم ہوا مگر جب خود خالد کے ہاتھ میں بھی آئس کریم کا کپ آ گیا تو سب اس کو گھیرے کر بیٹھ گئے اور پرانی یادیں تازہ کرنے لگے۔ خالد کے احباب نے عزیزوں کا حق قرب تک تو ان کو دیا تھا اور جود ذرا دور دور رہے تھے مگر اب دوستوں کا اس پر یلغار ہوا اور اس کے جملہ حقوق دوستوں نے حاصل کر کے ہنسی مذاق کے ساتھ ساتھ یورپ کے تذکرے چھیڑ دیئے۔ مگر دوستوں سے چند منٹ کی اجازت لے کر وہ نعیم صاحب کے پاس آ گیا تا کہ ان سے دریافت کر سکے کہ اس گڑ بڑ میں گل رخ کو تو کسی نے فراموش نہیں کر دیا اور اس کے لئے کوئی کمرہ بھی ٹھیک کر دیا ہے تاکہ وہ اطمینان سے اٹھ بیٹھ سکے؟۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے