پانی ۔۔۔ بیگ احساس

 

’’پانی‘‘ غضنفر کا پہلا ناول ہے۔ جدیدیت کے دور میں افسانے کو ترجیح دی گئی کیوں کہ جو تجریدی، علامتی و استعاراتی نظام جدیدیت نے قائم کیا تھا اس میں ناول لکھنا نسبتاً دشوار کام تھا کیوں کہ یہ نظام فکشن سے زیادہ شاعری کے مزاج سے میل کھاتا ہے۔ فاروقی صاحب نے ’’افسانے کی حمایت میں ‘‘لکھ کر ناول کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی تھی اس کے باوجود ناول کی طرف متوجّہ ہونے میں ہمارے فن کاروں نے دیر لگا دی۔ خوشیوں کا باغ (انور سجاد ) دیوار کے پیچھے (انیس ناگی) جنم کنڈلی (فہیم اعظمی) جدید ناول کہلائے۔ ہندوستان میں کانچ کا بازیگر (شفق )آخری داستان گو (مظہر الزماں خاں )آخری درویش (عشرت ظفر)’پانی ‘کے بعد لکھے گئے یا شائع ہوئے۔

’’پانی‘‘داستانی طرز کا مختصر سا ناول ہے۔ اس کا موضوع انسانی پیاس ہے اور کہانی پیاس کے سفر کی روداد ہے۔ کہانی کا ہیرو بے نظیر ہے۔ اس نام سے اردو کے ہر قاری کے کان آشنا ہیں لیکن اس بے نظیر کے پیدا ہوتے ہی تشنگی اس کا مقدر بن گئی۔ پیدا ہوا تو ماں کی چھاتیاں سوکھ چکی تھیں۔ دودھ کی چند بوندیں وہ بڑی مشکل سے نچوڑ پاتی ہے اور ان بوندوں میں افیون گھول کر بے نظیر کو نیند کے سپرد کر دیتی ہے۔ دوسری بار وہ چند بوندیں بھی نہیں نچوڑ پاتی اور لعاب میں افیون گھول کر اسے چٹا دیتی ہے اور وہ سو جاتا ہے۔ ماں پانی کے بجائے اسمٰعیلؑ اور آبِ زمزم کی کہانی سنانے لگتی ہے۔ اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ سینے میں جلن، گلے میں خشکی، ہاتھ پیر میں اینٹھن اور زبان میں چبھن محسوس کرتا ہے۔ اس کی نگاہیں پانی ڈھونڈنے لگتی ہیں۔ پھر وہ اس بیابان میں ایک تالاب تلاش کر لیتا ہے۔ تالاب پر مگرمچھوں کا قبضہ ہے۔ بے نظیر پتھروں سے حملہ کر کے مگرمچھوں کو بھگا دیتا ہے لیکن نہنگ جاتے جاتے پانی کو زہر آلود کر دیتے ہیں۔ بستی کے بوڑھے کے کہنے پر پیاسے لوگ بڑی مشکل سے کوہِ زہر مہرہ کو کاٹ کر اس کے سبز پتھروں سے زہر کے اثر کو زائل کرتے ہیں۔ پھر سب کے سب سیر ہو کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ بوڑھے کے مشورے سے تالاب کی حفاظت کے لیے اپنے کچھ ساتھی وہاں چھوڑ کر لوگ واپس لوٹتے ہیں کیوں کہ اب تالاب میں مچھلیاں تیرنے لگی تھیں۔ بے نظیر خوشگوار خواب دیکھ کر جاگتا ہے۔ اسے پھر پیاس محسوس ہوتی ہے اور اپنی پیاس بجھانے تالاب پر جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ تالاب غائب ہے۔ اس کی جگہ بلند و بالا دائرہ نما دیوار کھڑی ہے۔ جب وہ پہاڑ کی چوٹی پر جا کر دیکھتا ہے تو حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ تالاب چار دیواری سے گھرا ہے۔ محافظ دستے غائب ہیں اور مگرمچھ وہاں پھر سے لوٹ آئے ہیں۔ بے نظیر حیرانی کے ساتھ بوڑھے سے سوال کرتا ہے لیکن بوڑھا جواب دینے کے لیے زندہ نہیں ہے۔ اسے سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں جن کا لہجہ انسانی ہے۔ بے نظیر پہاڑ کی چوٹی سے لڑھکتا ہوا دار التحقیقات تک پہنچ جاتا ہے۔ وہاں عجیب الٰہیت افراد ہیں جو تحقیق میں مصروف ہیں۔ بے نظیر ان سے سارا قصّہ بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کر لیں گے اور بے نظیر کو ایک گیند نما گول کمرے میں لے آتے ہیں جہاں دیواروں پر مختلف طرح کے بٹن لگے ہیں۔ وہاں وہ نیم برہنہ و برہنہ لڑکیوں کے نظارے کرتا ہے۔ تسنحیرِچاند کا منظر دیکھتا ہے۔ ایک ساحر کو بھی دیکھتا ہے اور جب اس کا حلق خشک ہو جاتا ہے تو وہ آبیاژہ سے حلق تر کرتا ہے۔ جب وہ ان مناظر سے اُکتا جاتا ہے اور آبیاژہ گل کر ختم ہو جاتا ہے تو وہ اس کمرے سے باہر نکل آتا ہے۔ مسئلہ حل ہوا یا نہیں دریافت کرتا ہے لیکن دار التحقیقات والے اسے یقین نہیں دلا پاتے، کہتے ہیں جواب ڈھونڈنے میں دو دن بھی لگ سکتے ہیں اور دو برس بھی لگ سکتے ہیں۔ بے نظیر وہاں سے لڑھکتا ہوا ایک غار میں جا کر گرتا ہے جہاں کئی سفید درویش بزرگ چار زانو مراقبے میں مستغرق ہیں۔ وہ بے نظیر کو تقویٰ، فقیری اور استغنا اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بے نظیر تقویٰ اور جمالِ مطلق میں کھو کر تسبیح پڑھنے لگتا ہے۔ تصور میں درِ رضوان پرجاتا ہے لیکن پیاس نہیں بجھتی۔ امرت پیتے ہوئے دیوتا اور راکھشس بھی اس کی پیاس نہیں بجھاتے۔ خضراُسے چشمۂ حیوان پہ لے جاتے ہیں جہاں آبِ حیات ہے لیکن آبِ حیات پر بھی نہنگوں کا قبضہ ہے۔ خضراسے چھوڑ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ وہ خون آلود خندق میں خود کو پاتا ہے۔ خندق سے نکل کر بیا بان میں بھٹکتا پہاڑوں سے ٹکراتا اسی تالاب کے پاس پہنچتا ہے۔ دیوار اور بلند ہو چکی ہے۔ دیواروں پر چڑھنے کی کوشش میں لوگ گر رہے ہیں۔ دیوار کے نیچے ہڈیوں کا ڈھیر ہے۔ لوگ ایک دوسرے کا خون پی رہے ہیں۔ جنگل ٹھنٹھ پڑا ہے۔ سوکھے پیڑوں سے مگر مچھ لپٹے ہوئے ہیں۔ دیوار کے پیچھے سے قہقہوں کی آوازیں آ رہی ہیں لیکن صدائیں انسانی لہجے سے عاری ہیں۔ یہیں یہ ناول ختم ہو جاتا ہے۔

’’پانی‘‘۱۰۳صفحات کا مختصر سا ناول ہے۔ لیکن اس میں گہری معنویت ہے۔ ’’پانی‘‘ بنیادی ضرورتوں کا استعارہ ہے جس سے انسانوں کی ایک بڑی تعداد محروم ہے کیوں کہ اس پر شرکا قبضہ ہے۔ پانی ان چاروں عنا صر میں شامل ہے جن سے انسان کا خمیر تیار ہوا اور جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ پاتا۔ یہ پیاس روحانی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ایسی پیاس ہے جو نہ خوب صورت جلوؤں سے مٹ سکتی ہے نہ روحانی مراقبوں سے، نہ دیوتاؤں کی محبت سے، نہ خضر کی رہنمائی سے۔ غضنفر نے اس تشنگی کی ایسی تجسیم کی ہے کہ آنکھوں کے سامنے پیاس رقص کرنے لگتی ہے۔ زبان پر کا نٹے اگ آتے ہیں اور گلا خشک ہونے لگتا ہے۔

پیاس بے نظیر کی تقدیر ہے۔ جب سے وہ پیدا ہوا تو اس کی تشنگی مٹانے کی لیے غیر فطری طریقے اختیار کیے گئے۔ کبھی لعاب میں گھلی ہوئی افیون کی صورت میں تو کبھی آبیاژہ کی صورت میں جو وقتی طور پر حلق تر تو کرتے ہیں لیکن بعد میں پیاس اور بھڑک اٹھتی ہے۔ ایک بار وہ دوسروں کی باتوں میں نہ آ کر اپنے بازوؤں پر بھروسہ کر کے پتھر اٹھا لیتا ہے۔ دوسرے بھی اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ مگر مچھ تالاب کا پانی زہریلا کر دیتے ہیں لیکن وہ اسی عزم سے کام لے کر زہر مہرہ کاٹ لاتا ہے اور زہر کا توڑ کرتا ہے اور پھر سب سیر ہو کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ وہ بوڑھا جس نے پہلے پتھر اٹھانے سے منع کیا تھا ان کا عزم و حوصلہ دیکھ کر زہر مہرہ کاٹ لانے کا مشورہ دیتا ہے۔ وہی بوڑھا تالاب کی حفاظت کرنے کی نصیحت کرتا ہے۔ تالاب پر محافظ بٹھا دیے جاتے ہیں لیکن محافظوں کی غفلت سے یا ان کی ہشیاری سے تالاب چار دیواری میں گھر جاتا ہے اور مگر مچھ پھر لوٹ آتے ہیں۔ اب کوئی مشورہ دینے کے لیے بوڑھا نہیں ہے وہ مر چکا ہے۔

دار التحقیقات مغربی دنیا ہے۔ جس نے ہر مادّی شے پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ وہاں کے لوگ سنجیدگی سے تحقیق میں مصروف ہیں۔ ناول نگار نے ان کے قد اس لیے چھوٹے دکھائے ہیں کہ وہ مادی آسائشوں کے حصول اور سیاروں پر کمند پھینکنے میں مصروف ہیں۔ وہ انسانوں کی بنیادی ضرورت پوری کرنا نہیں چاہتے۔ کو ئی ان سے سوال کرتا ہے تو وہ اسے اس دنیا میں پہنچا دیتے ہیں جو راگ و رنگ کی دنیا ہے، خوب صورت جلوؤں کی دنیا ہے، سحر کے کرشموں کی دنیا ہے، سائنسی کارناموں کی دنیا ہے۔ وہ انسان کو اس کے سوال سے بھٹکا کر دوسری راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ ایک طرف انھوں نے ایسی عمارت کھوج نکالی جس کا تعلق اس دور سے ہے جب یہ دنیا تہذیب سے خالی اور علوم سے عاری تھی۔ جس کا ذہن نیکی، بدی، جھوٹ اورسچ کے تصورات سے مبرّا تھا۔ اس غیر مہذب دنیا سے مغربی دنیا نے ایسی چیزیں محفوظ کی ہیں جو اشتعال پیدا کرتی ہیں۔ نفسیاتی خواہشات کو بھڑکاتی ہیں، بدن میں آگ لگاتی ہیں اور جب جسم تڑپنے لگتا ہے تو صرف ایک آبیاژہ رکھا ہے جو اس شہوانی پیاس کا مداوا نہیں  کر سکتا۔ عمارت کے اندرونی حصّے کی داخلی دیوار کی تصویریں دیکھیے:

’’ننگی لیٹی ہوئی عورت کی تنی ہوئی دلآویز چھاتیاں، پھیلی ہوئی خوب صورت ٹانگیں، سڈول چکنی رانوں کے درمیان آلۂ افزائشِ نسل، آنکھوں سے جھانکتی ہوئی ہوس نا کیاں، پیشانی پر طاری کیفیتِ وصال اور لبوں پر مچلتا ہوا شہوتی جمال اس کی آنکھوں میں سما گئے۔ رگوں میں بھونچال آ گیا۔ جسم میں کھلبلی مچنے لگی ‘‘(ص۔ ۴۶)

یہ سب اس لیے دکھایا جا رہا ہے کہ بے نظیر کی آنکھوں سے بیزاری، بے کیفی اور اکتاہت دور ہو جائے۔ ایسے کئی مناظر وہ دیکھتا ہے اور آبیاژہ سے حلق تر کرتا ہے۔ پھر ایک ایسامنظراس کے سامنے آتا ہے جہاں بشرِ ارض چاند پر پہنچ جاتا ہے۔ شہنشاہِ مہتاب اس کی عزت کرتا ہے کیوں کہ وہ خلیفۃ اللہ ہے۔ وہ سرِتسلیم خم کرتا ہے۔ اپنا تاج اس کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ ناول نگارسائنسی کارناموں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ تسخیر کائنات کی اس کے دل میں عزّت ہے لیکن وہ انسانی عظمت کا قائل ہے۔ وہ تمام مخلوقات میں انسان کو سب سے عظیم سمجھتا ہے۔ جو نیابت الٰہی پر فائز ہے۔ انسان چاند کے فرش پر پرچم نصب کر کے دوسرے سیاروں کی طرف بڑھ جاتا ہے کیونکہ ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ وہ آفتاب کی سمت اڑان بھرنے لگتا ہے۔ ادھر انسان کی یہ عظمت، یہ حوصلے یہ بلندی، ادھر مادہ پرستی، شہوت پرستی اوربوالہوسی۔ مادہ پرستی کا نقطۂ عروج صنفِ نازک کی ارزانی اور برہنگی ہے۔ ناول نگار ہمیں وہ جلوہ بھی دکھاتا ہے۔ رنگ و نور کی محفل سجاتا ہے۔ جہاں موسیقی ہے گیت ہے، پری پیکر حسینائیں ہیں، مطربہ و رقاصائیں ہیں۔ اسٹرب ٹیز ہے یہ منظر دیکھیے:

’’لہراتے لہراتے اس نے اپنے اسکرٹ کا بٹن بھی کھول دیا۔ اسکرٹ کمر سے کھسک کر زمین پر آ گیا۔ کولہوں اور رانوں کے درمیان پھنسی ہوئی صرف سیاہ رنگ کی پینٹی باقی رہ گئی۔

سیاہ برا اور پینٹی میں اس کا سڈول اور گورا بدن لہرا لہرا کر قیامت ڈھانے لگا۔ دو چار گردشوں کے بعد اس نے سیاہ برا بھی اتار دیا چھاتیوں پر اب مختصر سا گلابی رنگ کا برا رہ گیا۔ گلابی برا کے اندر سے گلابی رنگ کی چھاتیاں گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح پھڑپھڑانے لگیں۔

ناچتے ناچتے اس نے سیاہ پینٹی بھی اتار دی۔ سیاہ پینٹی کے اندر سے گلابی پینٹی باہر آ گئی۔ کولہوں کا تین چوتھائی حصّہ بے نقاب ہو گیا۔ ‘‘ (ص۔ ۶۴)

یہ منظر بہت آگے جاتا ہے جہاں تجسّس اپنی منزل کو پہنچ جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خود ناول نگار لذتیت کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ بہت ساری حدوں کو پار کر لیتا ہے لیکن اب یہ سارے مناظر ہمارے گھروں میں پہنچ گئے ہیں۔ ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبایئے اور دیکھیے صنفِ نازک کی حشر سامانیاں۔ اور یہ مغربی دنیا کی دین ہے۔ ناول نگار کریہہ اور خوش گوار منظر دکھانے میں یکساں تیور رکھتا ہے۔

بے نظیر دار التحقیقات سے مایوس ہو کر ایسے بزرگوں کے حلقے میں پہنچ جاتا ہے جو دنیا کو معدوم ہو جانے والی شئے سمجھتے ہیں۔ ایک سایہ سمجھتے ہیں ایک عکس۔۔ ۔ !! وہ اسے مجاہدہ، تقویٰ، فقر اور استغنا، نفس کے خلاف جہاد کی تلقین کرتے ہیں۔ جنّت کے تصوّر میں صبر و قناعت اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ دو انتہائی صورتوں کے درمیان پھنسا عام آدمی۔ ایک طرف مادیت دوسری طرف غیب پر ایقان!! کیا جنّت کے تصوّر سے آدمی کی تشنگی مٹ جاتی ہے۔ بے نظیر یہ بھی کر گزرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں تسبیح آ جاتی ہے۔ وہ تصوّر کی جنّت میں ڈوب جاتا ہے لیکن یہ ایک سراب ہے۔۔ اگر یہی سب کچھ ہے تو یہ دنیا کس کے لیے سجائی گئی ہے ؟ یہ اتنی خوبصورت کیوں ہے ؟ صرف اسے نظرانداز کرنے کے لیے۔۔ دھتکارنے کے لیے ؟

بے نظیر وہاں سے بھاگ آتا ہے۔ وہ غزال کے پیچھے دوڑتا سرابوں سے دھوکا کھاتا ہے۔ اس کا انگ انگ زخمی ہے۔ وہ ماہیِ بے آب کی طرح ایڑیاں رگڑتا ہے۔ کوئی چشمہ نہیں پھوٹتا۔ وہ دعا کرنے لگتا ہے:

آسمان جس نے یوسف کو کنوئیں سے نکالا

آسمان جس نے عیسیٰ کو بن باپ کے پیدا کیا

آسمان جس نے ابراہیم کو آگ کی لپٹوں سے بچایا

آسمان جس نے یونس کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا

آسمان جس نے کرشن کوکنس کی قید سے آزاد کرایا

آسمان جس نے موسیٰ کو دشمن کے ہاتھوں پروان چڑھایا

لیکن اب ایسا کیوں نہیں ہوتا؟کیا آسمان صرف پیغمبروں اور دیوتاؤں کا ہے ؟ کیا عام آدمی کی آہ آسمان تک نہیں پہنچتی۔ معجزے اب کیوں نہیں ہوتے ؟چشمے کیوں نہیں پھوٹتے ؟ دریا کیوں نہیں بہتے ؟انسان کا مقدر پیاس کیوں ہے ؟ کوئی غیبی امداد کیوں نہیں آتی؟ آسمان تماشائی کیوں ہے ؟ یہ کونسا دور ہے ؟ کونسا کال ہے ؟ خیر کی جنّت کیوں نہیں ہوتی؟ فوراً نتائج کیوں نہیں سامنے آتے ؟ یہ ناول ایسے کئی سوال جگاتا ہے۔

ایک اور راستہ۔۔ جہاں دیوتا امرت پی رہے ہیں۔ راکشس بھی دیوتاؤں کے ساتھ چھل کر کے امرت پراپت کر رہے ہیں۔ شر اور خیر دونوں کے نمائندے مزے میں ہیں۔ شر اور خیر کے درمیان پھنسا انسان مجبور محض ہے۔ اسے کرم کر کے بھول جانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ پھل کی سوچنے سے منع کیا جاتا ہے۔

خضر بھی اس کی پیاس نہیں بجھا پاتے۔ آبِ حیات پر نہنگ قابض ہیں۔ خضر بے بس اور بے عمل ہے۔ تو کیا سارے صحیفے۔۔ ان کے اندر چھپے ہوئے قصّے جھوٹ ہیں ؟ پرانے کردار بے کار اور بے عمل ہو چکے ہیں۔ اب جبکہ ساری راہیں مسدود ہیں۔ انسان ایک دوسرے کا خون پی رہے ہیں۔ یہ پیاس بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ کچھ افراد اپنے ہی زخم چاٹ رہے ہیں۔ اونچائی سے گر گر  کر زخمی ہو رہے ہیں۔ لاشوں پر گدھ جھپٹ رہے ہیں۔ درخت سوکھتے جا رہے ہیں۔ مگرمچھ درختوں سے لپٹے ہوئے ہیں۔ مذہب اور فلسفے میں پناہ ڈھونڈنا بے کار ثابت ہو چکا ہے۔ زمین سخت ہے۔ آسمان ظالم۔ !انسان جس نے پتھر سے مگر مچھ کے دانت توڑے تھے۔ اب اس کے بازوؤں میں اتنا دم خم نہیں ہے۔ نہ مذہب، نہ تحقیق، نہ حسُن نہ جوانی۔ کہیں تسکین نہیں ملتی۔ ناول کا اختتام موثر ہے۔ ساری بھاگ دوڑسعئی لا حاصل ہے۔ خون اور قہقہے۔ قہقہے انسانی لہجے سے عاری۔۔ !! خون قہقہے اور دیواریں یہی ان کا مستقبل ہیں۔ !!

یہ ناول داستانی انداز میں لکھا گیا ہے۔ اُس بے نظیر اور آج کے بے نظیر میں بہت بڑا فرق ہے۔ آج کا بے نظیر اکیلا مسائل سے جوجھ رہا ہے۔ اس کا اختتام داستانوں کی طرح مسّرت پر نہیں ہوتا۔ ایک خوفناک اندیشے پر ناول ختم ہوتا ہے۔

غضنفر نے داستانی فضا قائم رکھنے کے لیے داستانوں کا اسلوب اختیار کیا ہے۔

عبارت مسّجع و مقفیٰ ضرور ہے لیکن کہیں کہیں مفرّس و معرّب بھی ہے یہ مثال دیکھیے:

’’ایک پیکر ناز۔۔ سراپا فتنہ پرداز۔۔ حسینۂ شر انگیز، دوشیزۂ قیامت خیز بالوں میں گلزار اُگائے۔۔ آنکھوں میں سرمۂ زر نگار لگائے۔۔ ماتھے پر چاند بٹھائے۔۔ پلکوں پر ستارے سجائے۔۔ ابروؤں کو کٹار چتونوں کو تلوار بنائے۔۔ گالوں پر گلاب کھلائے۔ ہونٹوں پر انگارے دھرے۔ دانتوں میں بجلیاں بھرے۔ زمینِ رنخداں میں خال بوئے تخم سیاہ کو رنگ و نور میں بھگوئے۔ سینے پر آبِ رواں کا دو پٹا ڈالے۔ انگیا میں کبوتر پالے۔ کمر میں جالی دار پشواز لپیٹے۔ سر مایۂ حسن و شباب سمیٹے۔ پیروں میں گھنگھرو باندھے، ایک پانوں پر دم سادھے۔ کسی ہوئی کمان کی طرح کھڑی تھی‘‘ (ص۔ ۵۵۔ ۵۶)

ناول میں کردار نگاری کا کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ صرف بے نظیر کا کردار ہے جو حالات کے دھارے پر بہتا ہے۔ کہیں مزاحمت نہیں کرتا۔ ابتدا میں جو اس کے پاس جوش اور انقلابی کیفیت ہے جس کے بل پر وہ مگرمچھوں سے لڑتا ہے اور زہر مہرہ کاٹ لاتا ہے۔ بعد میں یہ کیفیت نہیں ملتی۔ کہیں وہ حوصلے اور عزمِ مصمم کا اظہار نہیں کرتا کیوں کہ بے نظیر آج کا انسان ہے جسے ہر در سے مایوسی ملتی ہے۔ وہ حالات کے جبر کا شکار ہے۔ اور تنہا ہے۔ ناول نگار ہیبت ناک مناظر میں خوف کو ابھارنے اور دلکش مناظر سے خون میں گرمی پیدا کرنے میں کامیاب ہے۔

اس میں دارالتحقیقات کے محققین کی زبان بچکانی لگتی ہے نو نیو ننانگ، کوکیوککانگ، سعورسعیوسعانگ، بوبیو ببانگ، ہوہیوہیہانگ وغیرہ۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی گردان ہو۔ یہ زبان کہانی کی سنجیدہ فضا کو متاثر کرتی ہے۔

ناول کی فضا پر اسرار ہے لیکن بعید از قیاس نہیں ہے۔ ایک کے بعد ایک واقعات اور خواب ناول کو دلچسپ بناتے ہیں۔ طلسماتی مناظر متحیر اور صنف نازک کی خوب صورتی اور سراپا کا بیان ایک خوش گوار تاثر چھوڑتا ہے۔

خوب صورت دلکش مہم، مایوسی، بے بسی، انتشار، خون، تعفن، سوکھے ٹنٹھ درخت اس سے لپٹے مگر مچھ۔ خون آلود جسم۔ جیسے کسی مصور نے نئی نسل کے مستقبل کو پینٹ کر دیا ہو۔

اب جبکہ پانی بوتلوں میں فروخت ہونے لگا ہے تو ممکن ہے آنے والی نسل پانی کی تلاش میں نکل ہی پڑے۔ !

غضنفر کا یہ ناول اپنے موضوع اور ٹریٹمنٹ کی وجہ سے تمثیلی و تجریدی ناولوں میں

سب سے بہتر ناول ہے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے