بیاد زبیرؔ رضوی ۔۔۔ مظفر علی سیّد

 

پوچھ لو دنیا سے جب بھی ہم ملے تن کر ملے

ذہن جد ید، بہ اقدار قد یم

کہاں پہ ٹوٹا تھا ربط کلام یاد نہیں

حیات دور تلک ہم سے ہم کلام رہی

یہ فکر انگیز و پر مغز شعر ہر دل عزیز شاعر، زبیرؔ رضوی کا ہے۔ بلا شبہ ایک حیات کامل، ایک زیست کامران، صرف دور تک نہیں، جادۂ منزل کے آخری سنگ میل تک ان سے ہم کلام رہی، بلکہ سچ یہ ہے کہ اس عالم رنگ و بو سے ان کا مکالمہ کبھی منقطع ہوا ہی نہیں، لمحۂ آخر اور دم آخر تک ان کے اور حیات سر گرم کے ما بین سلسلۂ گفتگو جا ری تھا، سا ری تھا، بر قرار تھا۔ ایسی موت بھی کسے نصیب ہو گی کہ دم واپسیں بر سر راہ تھا اور وہ اپنا فرض منصبی ادا کر رہے تھے، ایک ادبی اجلاس کی صدا رت فر ما ئی، خطبۂ صدارت بہ حسن و خو بی ارشاد فر ما یا، اتمام گفتگو کے طور پر ایسے جذباتی، مگر حقیقت افروز جملے سا معین کو عطا کئے، جو تاریخ کا حصّہ بن گئے۔ وہ دو جملے کچھ یوں تھے، ’’ میں سسکیاں لے کر رونے کا قا یل نہیں، درد کے حد سے گزرنے پر بھی بس آنکھوں کو نم کر لیتا ہوں۔ ‘‘

جب ان کی وفات حسرت آیات کی خبر بد روز آئندہ، اخبارات کے توسط سے عام ہوئی تو اکثر و بیشتر اخبارات نے ان کی زوال پذیر حیات کے لمحۂ آخر میں ادا کئے گئے ان جملوں کو ہی سرخی بنا یا، کہ یہ اس کے سزاوار تھے۔ آخری جملے ان کی زبان سے ادا ہوئے، وہ وا پس صندلیِ  صدارت پر متمکن ہوئے اور ابھی سکون کا سا نس آیا بھی نہ تھا کہ آخری سا نس کی منزل آ گئی۔ داعی اجل نے پروازیِ روح کے لئے اس با تکر یم نشست کا انتخاب کیا، جس پر وہ کئی گھڑی سے جلوہ افروز تھے، اور رونق حیات نے ان سے منہ مو ڑا تو جلسے، جلوس کی قوس قزح بھی از خود ان کے ساتھ رخصت ہو گئی۔ ان کے بے حیات و جود کو اوّلاً شفا خانے اور بعد ازاں ما تم خانے تک پہنچا نے کا نظم بدبختانہ بھی ان کے زیر صدارت منعقدہ جلسے کے منتظمین، شرکاء و سا معین نے کیا۔

ادھرجسِد خاکی اپنی آخری آرام گاہ کے لئے روانۂ سفر ہوا، ادھر جس محفل کو ابھی چند ساعتوں قبل تک ان کے دانش پاروں کی خوشہ چینی کا اعزاز حاصل تھا، وہی بزم، مجلس ماتم میں تبدیل ہو گئی، یہ بھی کیسی عجیب بات تھی، کہ مرگ ناگہاں کے ذرا دیر بعد ہی جلسۂ تعزیت شروع ہو گیا، ابھی تک خراج تحسین پیش کرنے والے خراج عقیدت پیش کرنے لگے، گل ہائے خیر مقدم، گل ہائے عقیدت میں بدل گئے۔ جس طرح مو صوف کا طرز حیات نا در تھا، اسی طرح ان کا طریق مرگ بھی غیر معمولی رہا۔ وہ یوں رخصت ہوئے جیسے زبان حال سے اپنا ہی ایک شعر ادا کر رہے ہوں۔

سخن کے کچھ تو گہر میں بھی نذر کرتا چلوں

عجب نہیں کہ کر یں یاد ماہ وسال مجھے

زبیرؔ صاحب کی خاموشی بھی گفتگو تھی، اور ان کی سر گو شی صدا تھی، شا ید اسی لئے انہوں نے اپنے آخری انتخاب کا عنوان’ سنگ صدا‘ تجویز کیا تھا، خود ان کا یہ شعر بہ تحریف ان پر صادق ہے۔

عجیب’ شخص تھا ‘، خاموش رہ کے ’ جیتا تھا‘

’نظر‘ میں حرمت سنگ صدا کے ہوتے ہوئے

ہما رے دور کے علی گڑھ میں زبیرؔ صاحب دل پسند اور مقبول عام شعرا میں شا مل تھے، آئے دن شہر تمنا علی گڑھ اور دانش گاہ سید میں تشریف آور ہوتے اور ان کا خیر مقدم ہمیشہ ایک روایتی گرم جو شی سے ہو تا، یہ ان کی ہر دل عزیزی کی دلیل تھی۔ ان کا ایک ابتدائی گیت، ’یہ ہے میرا ہندوستان، میرے سپنوں کا جہان‘، نو جوانوں کو ازبر تھا اور اکثر مواقع پر قومی ترا نے کے سا تھ گا یا جاتا تھا۔ ایک دن ہم نے بے تکلفانہ ما حول میں کہا کہ ’’ زبیر بھائی آپ کا یہ گیت آپ کی پہچان بن گیا ہے ‘‘۔ تو کہنے لگے کہ ’’ہاں میں سو چتا ہوں کہ اب اس کی سلور جو بلی منانے کا وقت آ گیا ہے۔ ‘‘ ہمیں علم نہیں کہ انہوں نے اس کی با قاعدہ سلور جو بلی منائی یا نہیں،تا ہم اب تو اس گیت کی گولڈن جو بلی منا نے کا وقت بھی گزر چکا، مگر گیت آج بھی زندہ اور تازہ ہے۔ بحیثیت شاعر یہ ان کی ایک بڑی حصولیابی ہے۔

زبیرؔ صاحب سے ربط بڑھا، تعلق کا دائرہ و سیع تر ہوا تو کئی مشاعروں میں ان کی ہم مجلسی کا موقع بھی ملا کبھی اتفاقاً، کبھی قصداً۔ گو کہ ہم نہ سخن ور تھے، نہ سخن شناس، مگر علی گڑھ کے ادبی ما حول کے طفیل چند شعراء سے ذاتی مرا سم ضرور تھے، مثلاً زبیرؔ صاحب کے علا وہ بشیر بدرؔ، شہر ؔیار، رفعت سروشؔ اور طارقؔ بدایونی۔ شہریارؔ تو مشاعروں کے شاعر تھے نہیں، ادبی نشستوں تک محدود رہتے تھے، مگر زبیرؔ صاحب کے علا وہ بشیر بدرؔ اور طارقؔ بدایونی ایک دور میں مشاعروں کے مقبول ترین شعراء میں شا مل تھے، افسوس کہ آج ان میں سے تین حضرات جنت مکانی ہو چکے، ایک صاحب فراش ہیں، اب انہیں خود اپنا کلام بھی یاد نہیں، اور ایک جواں سال شاعر سر حد پار بر آمد ہو گئے، اور اب وہاں ان کی شاعری کا بازار بہت گرم نہیں۔ آج بھی یاد آتا ہے کہ ایک زمانے میں زبیرؔ صاحب کی یہ غزل ہر نو جوان کی زبان پر ہوتی تھی، جس کا غالباً پہلا مصرعہ یہ ہے، ’’لڑ کیاں شہر میں پھرتی ہیں گھٹاؤں کی طرح‘‘، مگر یہ قصّے جب کے ہیں کہ سا رے آتش جوان تھے۔ ان کے سا تھ کئی مشاعروں میں شر کت کا اتفاق احسن ہوا، مگر شر کت برابری کی نہ تھی، ہم محض ایک پر شوق سامع تھے، جبکہ وہ برائے سخن آرائی شر یک ہوتے تھے، اور نمایاں طور پر، بلکہ اکثر نمایاں ترین ہوتے تھے، کہ ہر دل عزیز تھے، خصوصاً نوجوانوں میں۔ نو جوان نسل میں کسی شاعر کی ایسی ہمہ گیر مقبولیت ساحرؔ کے علا وہ کم ہی دیکھی گئی، اور کیوں نہ ہو تی، زبیرؔ دل کی دھڑکنوں کے شاعر تھے، مگر ان کے یہاں ایک دل گرفتگی کی کیفیت بھی تھی ؎

اپنی پہچان کے سب رنگ مٹا دو نہ کہیں

خود کو اتنا غم جاناں سے شناسا نہ کرو

مشاعروں کے تذکرے تو شاید بے شمار ہوں، مگر چند یا دوں کے چراغ آج بھی ذہن و دل میں روشن ہیں ایک بار علی گڑھ میں یو نین کے مشاعرے میں جہاں اگر چہ فراؔق صاحب جیسا قد آور شاعر جلوہ گر تھا، اس زمانے کے سر کردہ شعراء، سرداؔر جعفری اور کیفیؔ اعظمی رونق افروز تھے، مقبول شعراء فناؔ  نظامی کانپوری، شمیمؔ جے پو ری، رازؔ الہ آبادی اور اہم عصری شاعر شمیمؔ کرہانی بھی منچ پر براجمان تھے، مگر آج تک یاد ہے کہ جب زبیرؔ صاحب تشریف لائے اور انہوں نے اپنے عام رویّے کے برخلاف، شا ید علی گڑھ کے مزاج کی رعایت سے، پہلے ایک غزل سنائی، وہ غزل تو یاد نہیں، مگر یہ ضرور یا دہے کہ اس غزل کی خوب پذیرائی ہو ئی۔ طلباء نے ہر شعر کئی کئی بار سنا اور مکرّر ارشاد کی آواز یں بلند ہو تیر ہیں لیکن جب ناظم مشاعرہ کے اہتمام کے تحت زبیر صاحب مکبر الصوت سے دور ہونے کو ہوئے تو ہزاروں کے مجمع سے سینکڑوں آوازیں آنے لگیں کہ ’’یہ ہے میرا ہندوستان، سنائیے ‘‘۔ زبیرؔ صاحب نے حسب عادت تکلف کیا، مگر سامعین و شائقین کے اصرار کے سا منے ناظم مشاعرہ کو بھی سپرڈالنی پڑی اور زبیرؔ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں، اپنے خو بصورت تر نّم کے سا تھ اپنا مقبول گیت پیش کیا، اس کا آخری بند ان کے سا تھ صد ہا نو جوانوں نے ہم آواز ہو کر گایا اور بڑی مشکل سے انہیں جا نے کی اجازت ملی۔ یہ تو ایک منظر تھا، ایسے ایسے مناظر زبیرؔ صاحب کے تعلق سے عام تھے نہ جا نے کتنے مواقع کا بصری و سمعی شاہد، خود یہ نا چیز ہے۔

بدایوں کا ایک مشاعرہ یاد آتا ہے جو درا صل ’جشن سحر‘ تھا، صدارت یو سف بھائی یعنی دلیپ کمار کی تھی، ’رام اور شیام‘ کے بعد کا دور تھا، دلیپ صاحب کی مقبولیت بام عروج پر تھی، مہمان خصوصی آں جہانی اندرا جی کے مصاحب خاص یش پال کپور تھے، کہ ان کا بھی زمانہ تھا۔ صاحب جشن کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ، دلیپ کمار کے پہلو بہ پہلو بانشست تھے، کہ مشاعرہ کے دو لہا تھے۔ نظامت بشیرؔ بدر کر رہے تھے۔ مہمان شعراء میں زبیرؔ رضوی کے علا وہ خمارؔ بارہ بنکوی اور نداؔ فا ضلی تھے، نیز مقبول شعراء کی ایک فوج ظفر موج تھی۔ طارؔق بدا یونی اس مشاعرے کے مہتمم تھے، لیکن سرپرستی (بلکہ سرمایہ کاری)چونکہ ہمارے عزیز دوست اور متمولتا جر شہنشاہ بدایونی کی تھی، اس لئے شعرا کا خیر مقدم، بہ آرام قیام، نیز خاطر مدارات، سب کچھ ہما رے ذمہ تھا۔ اس محفل میں ہم نے زبیرؔ صاحب کا بطور خاص خیال رکھا، بلکہ با لقصد ان کے اردگرد ہی رہے، ظاہر ہے کہ وہ خوب شاد ماں اورمسرور تھے۔ ہم لوگ دیگر شعراء کے سا تھ مشاعرہ گاہ پہنچے ہی تھے کہ دلیپ کمار کی آمد کا غلغلہ ہوا، ان کے مداحوں کا یہ عالم کہ جان دے دیں مگر کسی طرح ان کے قریب ہو جائیں، دور کے جلوے سے کوئی مطمئن نہ تھا۔ تب زبیرؔ صاحب نے ایک معنیٰ خیز جملہ، تقریباً سر گوشی میں ادا کیا، ’’ یار، یہ ادا کار تو با کمال ہے۔ مگر ہمارا مشاعرہ خراب کرے گا۔ کوئی کچھ سنے گا نہیں، سب اسی کو تکتے رہیں گے ‘‘۔تا ہم خود دلیپ کمار نے بڑی محبت بھری متا نت سے اک جم غفیر کے جوش کو سرد کیا، نہ صرف ایک عدد تقریر دل پذیر پیش کی، بلکہ نظیرؔ اکبر آبا دی کی ایک نظم بھی تحت اللفظ پڑھی اور خوب پڑھی، اردو کے تمام تر غزل گو، استاد شعرا کوپس پُشت کر کے انہوں نے نظیرؔ کے کلام کو فوقیت دی، یہ بھی ان کی ایک ادا تھی۔ ایک قابل ذکر بات اور، دلیپ صاحب نے مشاعرہ گاہ میں آتے ہی مو جود شعراء پر ایک نظر غائر ڈالی، اور صرف خمارؔ صاحب کو مخاطب کیا، ’’ کیسے ہیں چچا؟‘‘ خمارؔ صاحب اپنی جگہ ایستادہ رہے اور بڑی بے نیازی سے صرف اتنا کہہ دیا، ’’ اچھا ہوں ‘‘۔

را قم کو چونکہ دلیپ کمار کے عین عقب میں جگہ نصیب ہو گئی تھی، اس لئے اسے یہ موقع مل گیا تھا کہ وہ ان کے ذریعہ بطور داد، ادا کئے ہوئے کلمات، نیز ان کے پُر از  ذہانت فقروں کو بہ آسانی سن سکتا تھا، راقم نا چیز نے دلیپ کمار کو ایک بار نہیں، کئی بار قریب سے دیکھا ہے، لیکن اس کے لئے ان کی شخصیت کا یہ پہلو بالکل نیا تھا، یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ دلیپ صاحب نہ صرف شعر فہم تھے بلکہ دلچسپ تبصراتی جملہ با زی پر بھی قا در تھے۔ ہما ری ایک کمائی اور تھی، ہم علی گڑھ کے چند احباب ایک جٹ تھے، جب جب ہم اپنی روایتی رعایت لفظی کا استعمال کرتے اور شاعروں کے لئے کبھی داد، کبھی ’بے داد‘ کا سا مان کر تے، تب تب دلیپ صاحب پلٹ کر ایک نگاہ غلط انداز، ہم پر ضرور ڈالتے تھے۔ ہم نے ان کی اس توجہ فرمائی کو اپنی توصیف کے ذیل میں وصول کیا۔

دو سری دلچسپ اور کسی حد تک حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یادگاری دستخط( آٹو گراف) حاصل کرنے وا لوں کی یلغار میں جن چند خوش بختوں کو فیضیاب کرنے میں وہ کامیاب ہو سکے، ان سب میں انہوں نے کوئی نہ کوئی شعر درج کیا، اور اس کے نیچے اپنے دستخط کئے، جو ظاہر ہے کہ اردو میں تھے، زبیرؔ صاحب کا خد شہ درست تھا، سا ری محفل میں مرکز نگاہ صرف اور صرف دلیپ کمار تھے، اس لئے مشاعرے میں شعر کم سنے گئے اور شور زیادہ سنائی دیا۔ زبیرؔ صاحب ہمارے برا بر بڑے سکون سے پا لتی ما رے بیٹھے تھے، کہ سننا کم تھا اور دیکھنا زیادہ تھا، انہوں نے زیر لب یہ بھی کہا، ’’کیا اچھا ہو کہ میں دلیپ کمار کے جا نے کے بعد پڑھوں ‘‘۔ مگر یہ ان کے اختیار میں نہ تھا۔ خاکسار نے قصداً تحّرک کر کے یہ بات بشیرؔ بدر کے گوش گزار کی بھی، مگر انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا، اور کہا کہ ’’میاں، مشکل یہ ہے کہ سبھی شعراء حضرات یہی چاہتے ہیں ‘‘۔ پھر بھی خیریت گزری، زبیرؔ صاحب نے غزل پڑھی جو سکون و اطمینان سے سن بھی لی گئی۔ البتہ احتیاطاً انہوں نے ایک ہی غزل پر اکتفاء کیا، فرمائشوں پر کان نہ لگا کر، اپنی نشست پر وا پس آ گئے، دیسے یہ مصلحت آمیزی تقریباً سبھی شعراء نے اختیار کی تھی۔

طویل سفر کے تھکے ماندے دلیپ کمار بھلا کب تک جمتے، علاوہ ازیں انہیں اگلی صبح بدا یوں شریف کے تمام بزر گان دین کے آستانوں پر حاضری بھی درج کرانا تھی، اپنی اس دیرینہ خواہش کا اظہار وہ مشاعرے کی انتظامیہ سے پیشگی کر چکے تھے، پھر اگلی شام سے پہلے دہلی کا سفر بھی در پیش تھا۔ لہٰذا مشاعرہ ابھی اپنے نصف النہار پر تھا کہ دلیپ صاحب انتہائی سرعت و کمال عجلت کے ساتھ رضا کاروں کی حفاظت میں مشاعرے سے غائب ہو گئے، پشپال کپور بھی دلیپ کمار کی آڑ میں نکل گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل مشاعرہ اس کے بعد ہی شروع ہوا کہ اب سب کا مرکز توجہ صرف اور صرف شعراء کر ام تھے۔ اس مشاعرے کی ایک قا بل ذکر بات یہ بھی تھی کہ اس میں سحرؔ صاحب اور بشیر بدرؔ کے درمیان خوب چو نچ با زی ہوئی تھی، دلچسپ اور ذو معنی جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، جس سے مشاعرے کا دلچسپ ما حول مزید رنگا رنگ ہو گیا تھا۔ بشیر بدرؔ نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے، کئی مقبول شعراء کے سا تھ زبیرؔ صاحب کو دو بارہ زحمت کلام دی اور کیسے نہ دیتے کہ انہیں ریڈیو پر کلام پیش کرنے کا شوق جو تھا، اور وہاں حکمرانی زبیرؔ صاحب کی تھی۔ الغرض زبیرؔ صاحب نے ایک نہیں کئی غزلیں، نظمیں نذرسا معین کیں اور بلا شبہ خوب داد بھی لو ٹی۔

زبیر صاحب با حیثیت تھے، صاحب اختیار تھے اور مقبول عام تھے، مگر ان میں غرور کا شائبہ بھی نہ تھا، تمام تر اشرافی اقدار ان کی شخصیت کا حصّہ تھیں، اور کیوں نہ ہوتیں، امروہہ جیسے مردم خیز، مسکن شعراء، ادبا سے ان کا خمیر اٹھا، تر بیت حیدرآباد جیسے شہر ادب میں ہوئی، پھر دہلی آئے تو اوّلا ہمدرد اور بعد ازاں ریڈیو پر خود کو جلا بخشنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ اظہر ہے کہ ہر دو اداروں میں اردو زبان و تہذیب کی فرماں روائی تھی۔ حیدرآباد میں انہیں مخدوم محی الدین اور سلیمان اریب جیسے با کما لوں کی صحبت نصیب ہوئی تھی۔ زبیر صاحب نے اپنے ان ہر دو رفقائے کبیر کو فراموش نہیں کیا، جب انہوں نے اپنے ذاتی جریدے کا اجراء کیا تو اسے ان مرحومین کی یاد سے وابستہ کیا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، ان کے یہاں غرور اور گھمنڈ کا تو گزر ہی نہ تھا، ایک عجب سا دہ مزا جی، بلکہ قلندرا نہ صفت ان کے و جود کا جزو لا ینفک تھی، اگر چہ افسر اعلیٰ تھے، مگر ہم جیسے ان کے نو جوان ہم جلیسوں کو کبھی یہ محسوس نہ ہوا کہ، وہ کسی منصب بلند پر فائز ہیں، ہمارے لئے تو وہ زبیرؔ بھائی ہی تھے۔ ان کی پہلی ترقی دہلی ہی میں ہوئی تھی، جس شعبے میں وہ بطور پر و ڈیو سر پر و گر ام پیش کرتے تھے، وہیں پروگرام ایکزیکٹو (گزیٹید عہدہ) ہوئے اور بعد میں اسی شعبے کے افسر اعلیٰ بن گئے، مگر انہوں نے کبھی اپنے کسی رفیق کار کو تو کیا، ہم جیسے اصاغر کو بھی اپنی بر تری کا احساس نہیں ہونے دیا۔ کسی بھی کام سے وہ بلا تکلّف اپنے کمرے سے دوسرے کمروں میں خود چل کر آ جا تے، اور اپنے سابقہ رفقاء، جو عملاً اب ان کے ماتحت تھے، ان سے ایسے مخاطب ہوتے، جیسے وہ سب آج بھی ان کے ہم سر ہوں۔ انہوں نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ سر کا ری آداب کے تحت کوئی ان کے احترام میں کھڑا نہ ہو۔ ان کی افسری کا فائدہ ہم نے کئی بار اٹھا یا، اکثر دوسروں کے لئے، مثلاً ایک مر تبہ ہما رے ایک شناساکو اپنے چند کاغذات کی تصدیق کرا نا تھی، ان دنوں ضابطے خاصے سخت تھے۔ اگر چہ ان کا معاملہ سیدھا، سا دہ اور ایماندارانہ تھا، مگر بغیر ذاتی شناسائی کے کوئی مہر ٹھو کنے اور چڑیا بٹھانے کو تیار نہ تھا، کسی طرح یہ بات ہما رے علم میں آئی، ہم نے ان صاحب کو بغیر سوچے سمجھے ریڈیو اسٹیشن بلا لیا، اور کاغذات سمیت انہیں زبیرؔ صاحب کے سا منے پیش کر دیا۔ حرف مدعاسن کردہ مسکرائے، بو لے، ’’ چلیے، بشرے سے تو بھلے آدمی معلوم ہوتے ہیں، تم انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا، ’’خوب، سا ری ذمہ داری ہما ری‘‘ چشم زدن میں انہوں نے مطلوبہ مقامات پر اپنے دستخط ثبت کئے اور کاغذات ہماری طرف بڑھا دیے کہ دفتر سے مہر لگوا لو۔ احباب کے لئے یہی تھا، ان کا طریقہ کار اور یہ اپنی نوعیت کا اکلوتا واقعہ نہ تھا۔

ان دنوں ریڈیواسٹیشن، ہم جیسے آزاد پیشہ قلمکاروں کی آماجگاہ تھا، کہ ٹیلی ویثرن کی حکمرانی ابھی ابتدائی مرا حل میں تھی۔ کسی نہ کسی پرو گرام کے سلسلے میں اکثر، بلکہ تقریباً روزانہ حاضری ہوتی تھی۔ وہاں پہنچ کر زبیرؔ صاحب سے نیاز حاصل نہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور اگر کبھی چوک ہو جاتی تو شکایت کرتے کہ ’’ دیکھو میں تو نہیں بدلا، مگر تم بدل گئے ‘‘، ایسا ایک مر تبہ نہیں بار بار ہوتا کہ شام کو کام سے فارغ ہو کر نکلے تو زبیرؔ صاحب کی ہمراہی نصیب ہو گئی۔ بات کرتے کرتے وہ آکاش وانی بھون سے کناٹ پلیس کی طرف خراماں خراماں ہی چل دیتے، شاذ و نادر کوئی اور دوست بھی شریک ہم قد می ہو جا تا۔ گفتگو اتنی دلچسپ اور ہمہ گیر ہوتی کہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کب پارلیمنٹ اسٹریٹ طے ہو گئی اور ہم لوگ ریگل کے موڑ پر پہنچ گئے، ظاہر ہے کہ اس کے بعد ہم سب کی منزل یا تو ’انڈین کا فی ہاؤس‘ ہوتی یا پھر ریگل بلڈنگ میں واقع ایک پر ہجوم ریستوراں، جو اب مرحوم ہو چکا ہے ( اس کا نام سردست یاد نہیں آتا)۔ ایسی بہت سا ری ہم قدمیوں کی خاموش شاہد، شاہراہ پارلیمان آج بھی ہے، مگر اب صرف یادیں رہ گئی ہیں، وہ بھی ٹیسوں بھری۔

کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ شام کو کوئی ادبی محفل ہو تی، جہاں ہم دونوں ہی مدعو ہو تے، تو وہاں جا نا لا زم ہو جا تا۔ پھر ہم اس ادبی یا ثقافتی پرو گرام کی خبر نو یسی اپنے ذمّے لے لیتے، اس طرح ہما ری دفتری غیر حاضری کا جواز پیدا ہو جا تا۔ اگر چہ ہمہ جہت ریڈیائی پروگرام نو یسی اور صدا بندی کے بعد ہمیں آئی، ٹی، او، پر واقع، پہلے ایک اردو اور بعد میں انگریزی روزنامے کے دفتر بھی جا نا ہوتا تھا، جہاں ہم مستقلاً بر سر کار تھے، مگر اکثر ہوتا یہ کہ ہم دفتر خاصی تاخیر سے پہنچتے یا نہیں پہنچتے تھے، کہ با ہمی گفتگو، دیر طلب تھی، حکایات لذیذ تھیں، اس لئے دراز تر۔ داستان گو اپنے فن کا ما ہر اور با مر تبت، علاوہ ازیں یہ تمام تبادلہ خیال مفید اور با معنیٰ بھی ہوتا تھا، جس کے سا منے روز مرہّ کے کام ہیچ تھے۔ بھلا ہما ری کیا مجال تھی کہ ان سے کوئی عذر کر تے، اور کبھی حرف مدّعا بیان کر بھی دیا تو بڑی محبت سے فر ما تے، ’’اچھا کتنے کا نقصان ہو گا، ہم بڑا پروگرام دلا دیں گے، ‘‘ بس پھر کیا گنجائش تھی۔

بعد ازاں زبیرؔ صاحب نے ترقی کے کئی مدارج طے کئے، اس لئے دہلی سے با ہر بھی گئے اور بالآخر محکمہ اطلاعات و نشریات کے ایک اعلی ترین منصب سے ایک سرخ رو مدّت ملازمت کے بعد وظیفہ یاب ہوئے۔ مگر ہم نے ان سے را بطہ کبھی منقطع نہیں کیا، اور کرتے بھی تو کیسے کہ وہ کرنے کب دیتے۔ کار سر کار سے سبک ہوئے تو دہلی کے نا ئب صوبے دار نے زبیرؔ صاحب کو اردو اکا دمی کی معتمدی سونپ دی اور وہاں بھی ان کی دادو ہش کا سلسلہ جا ری رہا۔ سخاوت کا در یا رواں رہا، ہما ری بد قسمتی کہ اس دو ران، ہم ان سے کوئی ما دّی فائدہ حاصل نہ کر سکے، جس کا سبب ہما ری ازلی کم آمیزی و کج روی کے علا وہ یہ بھی تھا کہ ایک انقلابی فیصلے کے تحت ہم نے چند بر سوں کے لئے دہلی سے علی گڑھ مراجعت کی تھی، اور و ہاں سے ایک روز نا مہ، نیز ایک ہفتہ وار، بز بان فرنگ جا ری کیا تھا۔تا ہم تمام تر گردش لیل و نہار کے با وجود زبیرؔ صاحب سے تعلق قطع نہ ہو سکا، نہ ہوا، کہ معاملہ دو طرفہ تھا۔

زبیرؔ صاحب نہ زاہد خشک تھے، نہ رند مے خانہ، ان کی شخصیت ان دونوں کے ما بین تھی اور ایک خاص قبیل کا اعتدال ان کا فطری خاصہ تھا۔ عجب بات تھی کہ تمام تر بے تکلفی کے بعد بھی ایک فا صلہ بر قرار رہتا تھا، ایک با ادب فصل جو عمر کے تفاوت کا تقاضہ بھی تھا، را قم کو ان کے دنیاوی مر تبہ کا خیال ہر دم رہتا تھا اور وہ بھی ایک مشفقانہ انس و محبت کی تمام تر ارزانی کے با وصف ایک خاص قسم کا لحاظ روا رکھتے تھے۔ وہ اکثر کہتے بھی تھے کہ تعلقات کی بر قراری و استواری کی شرط اوّل یہ ہے کہ چھوٹے بڑوں کا ادب کریں اور بڑے چھو ٹوں کا لحاظ کر یں، البتہ محبت و یگانگت بہر صورت ہو نا چاہیے۔

زبیرؔ رضوی کی ایک خو بی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے رفقاء و احباب کے ذاتی مسائل میں گو نہ دلچسپی لیتے تھے اور حتی الوسع انہیں حل کرنے کی کا وش جہدی بھی کرتے تھے۔ ایک دن اچانک دریافت کیا، ’’ تم کوئی با ضابطہ ملازمت کیوں نہیں کرتے ؟‘‘ہم نے عرض کیا، ’’ہمیں آزاد پیشہ قلم کار کہلوا نا پسند ہے، کہ اس میں لفظ ’آزاد‘ کار فر ما ہے، ویسے آپ کو علم تو ہے کہ ریڈیو کے علا وہ قو می سطح کے ایک انگریزی اخبار، اور ایک بڑے اردو اخبار سے منسلک ہیں، نیز سر کا ری محکمہ اطلاعات کے علا وہ کئی کثیر الاشا عت انگریزی و اردو رسائل سے مستقل وا بستگی بھی ہے ‘‘۔ جواباً فرما یا، ’’ وہ تو ہے، میری مراد ہے تنخواہ دار ملازمت سے اور یہ آزاد پیشہ قلم کار، فری لانس رائٹر کا تر جمہ ہے، اچھا ترجمہ کیا ہے تم نے ‘‘۔ ہم نے کہا، ’’ہم نے نہیں کیا، یہ تر جمہ غالباً اختر الا یمان کی ایجاد ہے۔ رہی نو کری تو لگی بندھی نوکری ہمیں کچھ راس نہیں آتی، سلام داغنے کی عادت جو نہیں ہے، اس لئے یہ آزاد پیشگی اختیار کی ہے، ویسے ہما رے جتنے کام ہیں سب معاہدہ بند ہیں ‘‘۔ فر ما یا، ’’خوب، یعنی آن کنڑیکٹ۔ یہ بھی اچھا تر جمہ ہے ‘‘۔ ہم نے شکر ایہ ادا کیا ’’، آپ کی عنایت، یہ شاید ایجاد بندہ ہی ہے ‘‘۔ اس پر انہوں نے ہلکا سا قہقہہ لگا یا اور کہا، ’’بہت خوب، ریڈیو پر تر جمہ کرتے کرتے تر جمے کی عادت جو پڑ گئی ہے، خیر یہ بدعت حسنہ ہے ‘‘۔

زبیرؔ صاحب خصلتاً خردوں کی ہمت افزائی کرتے تھے اور ان کی کمزور یوں کی پر دہ پوشی کرتے تھے، اس میں اکثر محبت بیجا کا دخل بھی ہوتا تھا، اور یہ سب ان کی ازلی شرافت کی دین تھا، جس سے وہ کبھی پہلو تہی نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے دور اختیار میں خاکسار کو ریڈیو پر کئی عدد مشاہیر فن سے رو برو، صدا بند گفتگو(ریڈیائی انٹرویو) کے مواقع ملے۔ اور کئی مر تبہ ایسا بھی ہوا کہ سر کا ری ضابطوں کے تحت، خاکہ تو نا چیز سے بنوا یا گیا، سوا لات بھی مر تب کرا لئے گئے، مگر پروگرام پیش کرنے کا موقع کسی منصب دار کو ملا۔ خیر یہ تو لال فیتہ شا ہی کی علّت تھی، اگرچہ زبیرؔ صاحب کو یہ ضابطہ جاتی قیود پسند نہ تھیں،تا ہم سب کچھ ان کے اختیار میں نہ تھا، نیز وقتی مصلحتیں بھی کار فر ما رہتی تھیں، جن کے سبب انہیں خاموش ہو نا پڑتا تھا، لیکن اپنی آزادانہ و حق پر ستا نہ رائے کے بر ملا اظہار سے انہیں کوئی باز نہیں رکھ سکتا تھا۔

ایک واقعہ، بلکہ ذہنی سانحہ اس نا چیز کو آج تک یاد ہے۔ اور جب بھی یاد آتا ہے، تھو ڑا بہت رنج دے کر ہی جاتا ہے، قصّہ یہ تھا کہ ایک غیر ملکی موقر و معروف ادیب ہندوستان تشریف لائے، خاکسار کو ان سے ذہنی قربت کا شرف حا صل تھا، ریڈیو پر کسی کو ان کی آمد کی خبر بھی نہ تھی۔ اس نا چیز نے نہ صرف ریڈیو کے ارباب اختیار سے رابطہ قائم کیا، بلکہ ان سے ایک گھنٹے کی طویل رو برو گفتگو (انٹر یو) کا نظم بھی کیا، سوالنا مہ تیار تھا، نیز یہ کم فہم ان صاحب قلم کا مزاج شناس بھی تھا کہ بر سوں سے پڑھتا اور سنتا آیا تھا۔ اس لئے ان سے رو بر و گفتگو کرنا اس کا حق اوّل تھا، مگر عین وقت پر ایک صاحب در آئے اور وہ پر و گرام انہوں نے پیش کیا۔ نا چیز کو اس کا حق محنت بہر حال ملا،تا ہم وہ مقصد عین تو تھا نہیں۔ زبیرؔ صاحب ان دنوں دہلی میں نہیں تھے، ور نہ شا ید یہ نا انصافی نہ ہونے پاتی، لیکن وہ پروگرام انہوں نے سنا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب وہ دہلی آئے اور ملاقات ہو ئی، تب انہوں نے بر ملا نا چیز کے تحریر کر دہ پر و گرام کی توصیف کی، اس کے سا تھ ہوئی بد معاملگی پر اعتراض کیا اور کئی اصحاب کی مو جو دگی میں با الاعلان یہ جملہ ادا کیا۔ ’’چلو یار بھول جاؤ، مگر تم اس سے کہیں اچھا پرو گرام پیش کر تے۔ ‘‘ ایسا حق پرستانہ جملہ کوئی مرد قلندر ہی ادا کر سکتا تھا، جو زبیرؔ صاحب تھے، مجسّم تھے۔ بشمول را قم نا سواد، زبیرؔ صاحب کے تمام ہم عصر، نیز، اصا غرین، اس امر کے شاہد ہیں کہ ان کا ایک وصف بے بدل تھا کہ وہ الفاظ کو چباتے نہیں تھے، اپنی بات دل کھول کر اور لب کھول کر کہتے تھے، ہر شکایت بر ملا کرتے اور دوسروں کی شکایت کا ازالہ بھی بلاتا مل کر تے۔ جس کو اپنا تسلیم کر لیتے اس سے دل کا حال بھی کہتے، پھر کوئی تکلف روا نہ رکھتے، نہ ہی کوئی فا صلہ در آنے دیتے۔ ان کا معاملہ کچھ یوں تھا۔

اپنی ذات کے سارے خفیہ رستے اس پر کھول دئے

جا نے کس عالم میں اس نے حال ہمارا پو چھا تھا

زبیر رضوی نام کے خوش فکر و خوش کلام شاعر سے نا چیز کی دوستی نہ تھی، یہ کو تاہ قلم ان کی شفقتوں کا تمنائی اور وہ راقم نا چیز کے ایسے کرم فر ما تھے، جن کی عنایات بے غایت تھیں۔ راقم سے ان کے اوّلین تعارف کو آج چہار عشری مدّت گزر چکی ہے، احساس ہوتا ہے کہ ایک عمر بیت گئی۔ یہ کم فہم دانش گاہ سید کے دستر خوان علم و  دانش کی خو شہ چینی کے دور آخر میں تھا اور ممدوح زبیرؔ صاحب آل انڈیا ریڈیو کی اردو سر وس کے روح رواں تھے، یوں تو ان سے پہلی ملاقات کا احوال بھی خاصا غیر روایتی اور دلچسپ ہے۔ شا ید ۷۲-۱۹۷۱ کی بات ہے، شیخ الجامعہ کی مسند پر عالمی شہرت یافتہ ما ہر معاشیات علی محمد خسرو جلوہ افروز تھے اوراس نا سواد پر بے حد مہربان۔ ان کا تعارف نامہ لے کر ہم عازم دہلی ہوئے، ہما رے حبیب دیرینہ، آج کے نا مور افسا نہ نگار، سید محمد اشرف ہما رے ہم سفر تھے۔ خسرو صاحب کا عطا کر دہ خط تعارف نامہ کیا تھا، تعریف نامہ تھا جو آل انڈیا ریڈیو کے ڈائر یکٹر جنرل کے نام تھا۔ انہوں نے خسرو صاحب کے دستخط دیکھتے ہی ہم دونوں کو ایک کارندے کے ہمراہ اردو سروس اور یوا وانی کے شعبوں کے لئے مر سل کر دیا۔ وہاں پہلی ملاقات (آج کے ایک اہم سیا سی وسما جی رہنما) سید حا مد حسین خضر اور صاحب نقد محمود ہاشمی سے ہوئی۔ ابھی تعارف کا مرحلہ طے بھی نہ ہوا تھا کہ ہاشمی صاحب نے قد رے شرارت سے کسی کا خیر مقدم کیا، ’’ آؤ شہزادے، یہ علی گڑھ کے دو نو نہال تمہارے حوا لے ‘‘۔

ہم دونوں نے مڑ کر، نظر گھما کر دیکھا تو ایک خوش شکل، بلکہ وجیہہ نو جوان کھدّر کے رنگین کرتے اور لٹّھے کے پا جامے میں ملبوس، بظاہر نہ صرف خود سے بلکہ گرد و پیش سے بے خبر ہمارے سا منے تھے، پیروں میں غالباً چپّل تھی، سادگی و بے نیازی کا پیکر، مگر روشن آنکھیں ان کی ذہانت کی چغلی کھا رہی تھیں، لبوں پر رقصاں تبسم خوش اخلاقی کی دلیل تھا اور بشرے سے فرض شناسی عیاں۔ آئندہ ملا قا توں میں پتہ چلا کہ وہ ہر قسم کا اچھا اور قیمتی لباس بھی زیب تن کرتے تھے، کیا مغربی اور کیا مشرقی، مگر لباس کا اہتمام ان کے یہاں شرط نہ تھا۔ خیر صاحب، انہوں نے بڑے مہذّب لہجے میں ’’ آئیے ‘‘ کہا اور ہم ان کی میز کی جا نب منتقل ہو گئے۔ محمود صاحب کی جان چھو ٹی اور وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئے، ہم علی گڑھ کی سست رفتار دنیا کے با سی، اس وقت ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ دہلی میں جو واقعی کام کرتے ہیں ان کا لمحہ لمحہ مصروف اور با قیمت ہوتا ہے۔ زبیرؔ صاحب نے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے درجے، مرتبے کے طفیل ہم طفلان ادب کو خاطر خواہ اہمیت دی، اور نزول کا مدعا دریافت کیا، ہم نے اپنی اپنی زنبیل سے چند خود نو شت افسانے بر آمد کئے اور ان کی تجربہ کار نظر کے حوا لے کئے۔ انہوں نے ہماری نگارشات پر ایک سر سری مگر ما ہرا نہ نگاہ ڈالی اور ذرا سی دیر میں کم از کم دو دو افسانوں کا مطالعہ کر کے ثا بت کر دیا کہ ہمارے افسا نے واقعتاً مختصر افسا نے تھے، ہم نے یہ حقیقت بھی گوش گزار کر دی کہ ہما رے پاس ایک ایک افسا نہ اور تھا مگر وہ را ستے میں ’یوا وانی‘ کی ایک ذمہ دار خاتون کے پنجے میں گرفتار ہو چکا ہے۔

اس کے بعد زبیر صاحب نے صرف یہ تصدیق چا ہی کہ یہ افسا نے کہیں شائع تو نہیں ہوئے ہیں، ہمارے اظہار تیّقن کے بعد انہوں نے کسی اہل کار کو طلب نہیں کیا بلکہ خود اٹھ کر غالباً برا بر وا لے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ دیر بعد ہمیں تشویش ہونے لگی اور ہم نے اپنی اپنی نشستوں پر پہلو بدلنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ دفتری قسم کی چائے آ گئی، جس کا حکم نامہ زبیر صاحب نے پتہ نہیں کب اشاروں اشاروں میں صادر فرما دیا تھا، وہ ختم ہو ئی، تب تک زبیر صاحب وا پس تشریف لا کر کر سی نشین ہو گئے۔ ان کے ہا تھ میں ٹائپ کئے ہوئے دو کاغذ تھے، جو بعد میں ہم لو گوں کے معاہدہ نامے (کنٹریکٹ) ثا بت ہوئے۔ یعنی دیر آیددرست آید کے صحیح معنیٰ میں ان کی عنایات کا آغاز مبارک ہو چکا تھا۔ یوں زبیرؔ صاحب کی فن شناسی کے صد قے، ہم لوگ علی گڑھ کے محدود معاشرے سے نکل کر ریڈیو کی و سیع و  عریض دنیا سے متعارف ہوئے۔ ہما ری کہانیاں صدا بند ہوئیں اور نشر بھی ہوئیں، جنہیں ہم نے بڑے فاخرانہ انداز میں احباب کے جلو میں اپنے ہو سٹل میں بطور خاص سماعت کیا۔ اس وقت ہم ہر دو نوواردان ادب کے لئے یہ ایک بڑی حصولیابی تھی، اس طرح ہوا کے دوش پر ہمیں اپنی صدائے نحیف کو ایک جہان بسیط تک وسعت پذیر کرنے کا اوَّلین موقع زبیرؔ صاحب نے فرا ہم کیا۔ عرف عام میں کہیں تو انہوں نے ہمیں ’ بر یک‘ دیا تھا۔ بھلا ہم اپنے ادبی سفر کے اس پہلے پڑاؤ کو کیسے بھول سکتے تھے، سو آج تک یاد ہے۔

ایک اہم بات جو آج تک ذہن نشین ہے، ہمارے افسانوں کا بہ نظر غائر مطالعہ کرتے وقت انہوں نے زیر لب کہا نہیں بلکہ بد بدا یا تھا، اور وہ فقرہ جو بطور ردّ عمل تھا، ہم نے چوری سے سن لیا تھا، وہ یہ تھا ’’ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘۔ ایک سا دہ سے محاورے کے تو سل سے انہوں نے یک بہت بڑی بات کہہ دی تھی، جو ایک طرح سے ہما رے ممکنہ ادبی مستقبل کی نو ید تھی، اور ہم نو خیز قلم کاروں کے لئے سند، بہر کیف اس لمحے نہ وہ تفصیل میں گئے، نہ ہم، کہ ہر بات کہی نہیں جا تی، کچھ باتیں صرف سمجھی جاتی ہیں۔ ہما رے افسانوں کی صدا بندی مکمل ہو گئی تو انہوں نے ایک دانشورانہ تبصرہ اور، فرما یا، ’’ اور تو سب اچھا ہے، مگر آپ دونوں کی کہانیوں میں ایک بات عجیب اور مشترک ہے، وہ یہ کہ آپ کہانی کے کلائمکس میں جو حتمی نتیجہ بر آمد کرتے ہیں، وہ براہ را ست نہیں، بلکہ تیسرے گو شے (تھرڈ کارنر) سے، اس طرح انجام چونکا نے وا لا بن جاتا ہے۔ میرے محدود مطالعہ کے بموجب یہ وصف کسی حد تک منٹو کے یہاں اور عالمی سطح پر او، ہنری کے یہاں مو جود ہے، جہاں افسا نے کا آخری جملہ قا ری کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ آپ لوگ مشق کرتے رہیں گے تو یہ خو بی مزید صیقل ہو جائے گی۔

در اصل انہوں نے ایک فکر انگیز نکتہ، بڑی سا دگی سے، آسان لفظوں میں بیان کر دیا تھا۔ کم از کم اس نا چیز کا حال تو یہ تھا کہ قدم زمیں پر اور دماغ آسمان پر۔ ایک ہم قلم کبیر کی یہ رائے، اس کم سواد جیسے نو وارد قلمروئے ادب کے لئے کسی سند سے کم نہ تھی نیز ان کا یہ تبصرہ اس امر پر بھی دال تھا کہ افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی، اور ایک ہمہ تن شاعر کے لئے یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ صدا بندی کے بعد انہوں نے ہما را شکر یہ ادا کیا اور برآمدے تک رخصت بھی کیا۔

اس کے بعد زبیرؔ صاحب نے جیسے ہمیں اپنے حلقۂ ارادت میں شا مل کر لیا۔ علی گڑھ کے دور طلب علمی میں بار ہا، زاد راہ اور معقول معاوضے کی عطا کے سا تھ دعوت صدا بندی دی، ایک کم ما یہ طالب علم کے لئے یہ جزوی وا بستگی بھی بڑی نعمت تھی کہ آمدن بھی تھی، اظہار اہلیت و صلاحیت کے مواقع بھی، نیز شہیران ادب سے روابط کے روشن امکانات، غرض بہت کچھ میّسر تھا۔ ہما ری خوش بختی کہ زبیرؔ رضوی نام کے نا مور شاعر سے ہمارا تعلق ریڈیو تک محدود نہیں رہا، ان گنت مواقع پر وہ علی گڑھ تشریف لائے، وہاں منعقدہ مشہورو معروف کل ہند مشاعروں میں بھی اور ادبی و شعری نشستوں میں بھی، ہمیں خود ایک نہیں کئی بار ان کی میز بانی کا شرف حا صل ہوا۔ یوں روابط استوار اور رشتہ مستحکم ہوتا چلا گیا، حتیٰ کہ ایک تعلق خاطر قائم ہو گیا، جو عرصہ آخر تک رہا۔

زبیرؔ صاحب نے ہمیں جو نقطۂ آغاز فرا ہم کیا تھا، اس کے وسیع، ترقیاتی خطوط پر ہم نے اپنی قلمی و صوتی کا و شوں کو دور تک پہنچایا، اس طویل سفر میں اردو مجلس اور اردو سروس کے شعبوں میں کار فر ما، متعدّد مہر با نان کر ام کی سر پر ستی و شفقت کا دخل رہا، جن کا ذکر خیر کسی آئندہ نگارش میں ہو گا۔ مختصر یہ کہ اس کے بعد جب یہ خاکسار بزعم خود اپنی تعلیم مکمل کر کے گلشن سیدّ سے کار گاہ دہلی میں وارد ہو کر اس شہر بے رحم کی خار دار را ہوں پر گامزن ہوا تو اس میں جہان صدا سے مسلسل وا بستگی ایک اہم معاون بنی رہی۔ بلکہ چند بر سوں تک یہ ناچیز اور ریڈیائی مرکز ایک دو سرے کے لئے لا زم، ملزوم بن گئے تھے، کم و بیش صد ہا پر و گرام صدا بند ہوئے، جن کی یادیں آج بھی شیریں ہیں۔

اس خاکسار کو اعتراف حقیقت ہے کہ وہ شاعر نہیں، ہر گز نہیں، بلکہ متشاعر بھی نہیں، اور نہ ہی اسے شعر فہمی کا دعویٰ ہے، بلکہ یہ کم فہم شاعری کا ایک غبی قا ری ہے۔ ذرا بہت دلچسپی اگر ہے تو غزل سے، دو سری جا نب زبیر رضوی ایک نا مور شاعر، فطری شوخی کے با وصف، ڈوب کر شعر کہنے وا لے، اور ستم یہ کہ دہ غزل کے کم اور نظم کے شاعر زیادہ تھے۔ مگر ہم ان کی شاعری کا لطف ضرور لیتے تھے کہ یہ ہمارا جمہوری حق تھا، اب یہ ان کا انکسار اور معاملہ فہمی کہ وہ ہما ری بے وقعت رائے کو بھی کمال سنجیدگی سے سماعت فر ماتے تھے۔ کبھی ہم ان کو انہیں کا کوئی شعر سناتے تو وہ ہنس کر کہتے کہ ’’اچھا تم نے یاد کر لیا‘‘۔ ہمیں ان کی یہ بات بہت اچھی لگتی تھی کہ وہ ہمیں ہمیشہ ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، اور اب ایک ’’تم‘‘ کہنے وا لا اور رخصت ہوا۔

و جا ہت و نفاست کا پیکر، جسم اکہرا مگر قوی، قد ذرا دراز، اور جا مہ زیبی اس پر سوا، بشرے سے ذہانت عیاں، شرافت کا مجسّمہ، بلکہ مجسّم شرافت، سرا پا اخلا ق، متا نت و سنجید گی کا نمو نہ، مگر خشک مزاجی، نیز بد اخلاقی سے فرسنگوں دور، آداب محفل میں یکتا، حسب موقع مسکراہٹ، ہنسی اور قہقہہ، مگر سب کچھ ایک طے شدہ دائرے کے اندر، مرنجان مر نج، صلح کل کے قائل، مگر اپنے مو قف پر اٹل۔ یہ تھے زبیرؔ رضوی، جو دوستوں کے دوست تو تھے ہی، دشمنوں کو دوست بنا نے کا فن بھی انہیں بہ حسن و خو بی آتا تھا۔ بے نیا زی، قناعت، استغناء، نیز اعتدال، ان کی شخصیت کے روشن پہلو تھے وہ ایسے خواب دیکھنے کے قا یل نہ تھے، جن کے شرمندۂ تعبیر ہونے کا کوئی دور افتادہ امکان بھی نہ ہو، وہ ایسی آرزوؤں کی پر ورش کے حق میں نہ تھے، جن کا حصول نہ صرف محال ہو بلکہ وہ جاتے جاتے، آرزو مند کی شخصیت کو ہی پا مال کر کے گزر جائیں ؎

جو نہ اک بار بھی جاتے ہوئے مڑ کر دیکھیں

ایسی مغرور تمنّاؤں کا پیچھا نہ کرو

زبیرؔ صاحب حقیقی معنیٰ میں جہان تر سیل و ابلاغ کے با سی تھے، وہ خود کہا کرتے تھے، ’’میں ان چند شاعروں، ادیبوں میں شا مل ہوں، جنہوں نے اپنی تمام زندگی ذرائع تر سیل و ابلاغ کے سا تھ بسر کی ہے، میں نے یہاں کھو یا بہت کم ہے، پا یا بہت کچھ ہے ‘‘۔

زبیر صاحب حیرت انگیز طور پر کثیر المطالعہ اور با خبر شخص تھے۔ دور طلب علمی سے ہی راقم نا چیز کی کا وشوں کو انہوں نے لائق توجہ خیال کیا اور تقریباً ہر قا بل ذکر تخلیق پر( خواہ وہ افسانہ ہو، مضمون ہو، خاکہ ہو، یا رپورتاژ) انہوں نے اپنی ناقدانہ و ناصحانہ رائے سے نو از ا۔ ایک مر تبہ تو را قم کو از حد تعجب اس وقت ہوا، جب انہوں نے ایک انگریزی معاصر کے مراسلاتی کا لم کے ایک گو شے میں، اس نا چیز کی چند سطری رائے زنی کو نہ صرف قا بل مطالعہ گردا نا، بلکہ بذریعہ پیغام اس پر اپنی پسند ید گی کا اظہار بھی کیا۔ سچ ہے کہ بڑے لوگ یوں ہی بڑے نہیں بن جا تے، ان کی نظر بڑی با توں کے سا تھ چھو ٹی چھو ٹی با توں پر بھی رہتی ہے اور یہی ان کی بڑائی کا راز ہوتا ہے۔

ان کی کبر سنی کے لحاظ سے ان کی صحت بے مثال تھی لیکن اپنی رخصت دائمی سے تقریباً ایک برس قبل وہ ایک مو ذی مرض کا شکار ہوئے تھے، مزید یہ کہ عمر طبعی کی رعایت سے کئی تکالیف ان کی حیات کی علّت بن گئی تھیں، مگر انہوں نے کبھی اپنی علالت کی تشہیر نہیں کی، نہ کسی کی ہمدردی کے متّمنی ہوئے، اقربا کے علا وہ کسی سے کبھی اظہار حال بھی نہیں کیا۔ وہ تمام تر تکالیف و مصائب کو اپنا ذاتی مسئلہ قرار دیتے تھے۔ ان کی پامردی کا روشن ثبوت یہ تھا کہ، وہ آخر دم تک مستعدو فعال رہے۔ زبیرؔ رضوی نے ایک حیات طویل پا ئی، بڑی شاد مانی اور ایک گو نہ استغتاء کے سا تھ بسر کی اور سیر حا صل کا مرانی کے سا تھ اپنی پیشہ وا را نہ زندگی گزاری۔ انہوں نے شا ید کبھی اپنی حیات کا ایک لمحہ بھی بے مصرف نہیں رہنے دیا۔ حق ملازمت بھی ادا کیا، کام بھی کرتے رہے، پڑھتے بھی رہے، لکھتے بھی رہے، مشغلۂ شعر و سخن کے علا وہ نثر میں بھی اپنے قلم کے جو ہر دکھاتے رہے۔ شعری مجموعوں کے شا نہ بشانہ ان کی نثری تصنیفات بھی ہیں، اور یہ سب ادب کا ایک موقّر باب ہیں۔

زبیرؔ صاحب کا ایک وصف بے مثل اور تھا کہ وہ محض شعر و سخن یا ادب تک محدود نہ تھے، ان کی دلچسپی کا محور و مرکز اگر چہ بڑی حد تک شاعری ہی تھی، مگر اس کی حدود سے با ہر نکل کر انہوں نے تمام فنون لطیفہ، ثقافت، نیز معاشرتی منظر نا مے کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنا یا تھا۔ اسی لئے ان کی تحاریر میں بے محابا تنوع ہے۔ ان کے موضوعات میں مصوری بھی ہے، جہان تمثیل بھی اور پردۂسیمیں بھی۔ ان کی گو نا گوں دلچسپیوں کاتا بندہ ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے تمام تر پیشہ ورا نہ مصر وفیات کو خیر باد کہہ کر آرام کرنا اور ایک بے فعل، با فراغت زند گی گزارنا پسند نہ کیا بلکہ خود کو ہمہ تن مصروف رکھنے کا ایک نیا وسیلہ دریافت کیا، ایک نئی راہ اختیار کی اور ایک ادبی، ثقافتی مجلّہ جا ری کرنے کا منصوبہ بنا یا۔ ’ ذہن جد ید‘ ان کے اس منصوبے کا ثمر تھا۔ انہوں نے بہ نفس نفیس ایک اہم شاعر ہونے کے با وصف اس جریدے میں نہ صرف شاعری کے مقابلے میں نثر کو اوّلیت دی، بلکہ موضوعات کے بے مثل تنوع کے ذیل میں ادب کے دائرے کے با ہر، تمام فنون لطیفہ، نیز ثقافتی تبدیلیوں کو اپنی توجہ کا محور بنا یا۔ اس کا ثبوت ’ذہن جد ید‘ کے وہ بہترّ(۷۲) شمارے ہیں، جن کی پیش کش و  اشاعت ربع صدی کے عرصے کو محیط ہے۔

انہوں نے اپنی لوح کے او پر جو سکّہ بند قطعۂ نثر چسپاں کرنے کے لئے وضع کیا، وہ یہ ہے۔ ’’ بڑی زبان کا زندہ رسالہ‘‘۔ اس طور انہوں نے اوّلاً تو اردو کے ایک عظیم زبان ہونے کا اعلان با لجہر کیا، ثانیاً اپنے پر ور دہ جریدے کو زندہ رسالہ قرار دیا، جس کا سرو کار ’زندگی کے کُل‘ سے تھا۔ فطری طور پر ’ذہن جدید‘ کی وہی بے مثل پذیرائی ہو ئی، جس کا وہ سزا وار تھا، اس عرصہ طویل میں اس پر ہوئے تبصرے، نیز بطور موضوع اس پر کی گئی تحقیقی کاوشیں اس حقیقت کا بینّ ثبوت ہیں۔ یوں تو اردو کا ادبی پر چہ نکالنا اور جا ری رکھنا ہی ایک کمال ہے، لیکن معیاری پر چہ نکالنا، متواتر پچیس برس تک نکالتے رہنا، تمام تر نا مساعد حا لات کے باوجود اس کے معیار کو قائم رکھنا اور کوئی مصلحتی مفاہمت نہ کر نا، اس سے بر تر کمالات ہیں، جنہیں کوئی زبیرؔ رضوی ہی انجام دے سکتا تھا۔

یہ ہماری محرومی رہی کہ زبیر صاحب کے دور آخر میں ہمارا ربط با ہم قدرے کمزور ہو گیا تھا، اور بے وجہ۔ ہم ان کے موقر جریدے ’ ذہن جد ید‘، کی وہ خد مت نہ کر سکے، جو اس کے مدیر و مر تب کا حق وا جب الادا تھا۔ ’ ذہن جد ید‘ کو انہوں نے بڑی زبان کا زندہ رسالہ قرار دیا تھا۔ اس لئے وہ زندہ رہے گا اپنی تمام تر کم مائیگی اور بے و سیلگی کے با وجود راقم مضمون کی تمنّا ہے کہ نہ صرف ’ذہن جدید‘ کی اشاعت جا ری رہے، بلکہ اس کو مزید جلا دی جائے۔ بہ ایں وجہ نا چیز نے رسا لے کی مدیرہ اور زبیرؔ صاحب کی سو گوار اہلیہ محترمہ جمشید جہاں کو اپنی اور اپنے رفقاء کی بلا شرط، بے لوث خدمات پیش کر دی ہیں، اس یقین کے سا تھ کہ اس کا اخلاص اس کا شفیع ہو گا، اس کی تجاویز مقبول ہوں گی اور شا ید اس محدود القلم کو اپنی گذشتہ کوتاہیوں کی تلا فی کا موقع بھی نصیب ہو جائے۔

اس بے قدر و قیمت نگارش کا مو زوں تر ین اختتام یہ ہو گا کہ زبیرؔ صاحب ہی کے ایک شعر کو اتمام گفتگو کا وسیلہ بنا یا جائے، جو درا صل ان کا پیام آخر بھی ہے ؎

میں اپنی داستاں کو آخر شب تک لے آیا

تم اس کا خو بصورت سا کوئی انجام لکھ دینا

[زبیرؔ رضوی کے تمام اشعار: بحوا لہ ریختہ ڈاٹ کام]

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے