غزلیں ۔۔۔ شمیم حنفی

 

نیلے پیلے سیاہ سرخ سفید سب تھے شامل اسی تماشے میں

یورش رنگ نے ذلیل کیا آنکھ گم ہو گئی تماشے میں

 

کوئی بھی ان میں چارہ ساز نہ تھا سبھی بیمار جستجو نکلے

تم ہی سوچو کہ بے دلی کس سے راستہ پوچھتی تماشے میں

 

جسم کا سونا روپ کی چاندی کون سا دھن کسی کے پاس رہا

ایک میرا تمہارا قصہ کیا ساری دنیا لٹی تماشے میں

 

چاند تھا ساحل نفس کے قریب ایک دن میرے دل میں ڈوب گیا

صبح کا راز رائیگاں ٹھہرا شام بھی گھل گئی تماشے میں

 

کبھی دریا کے ساتھ ساتھ بڑھے کہیں ٹھٹھکے کہیں نظر نہ اٹھی

ایک عمر رواں تھی جی کا زیاں سو گزرتی رہی تماشے میں

 

ایک شعلہ ہوس کا بس میں نہ تھا آپ اپنے سے ہاتھ دھو بیٹھے

خاک آغاز خاک ہی انجام آگ ایسی لگی تماشے میں

٭٭٭

لکڑہارے تمہارے کھیل اب اچھے نہیں لگتے

ہمیں تو یہ تماشے سب کے سب اچھے نہیں لگتے

 

اجالے میں ہمیں سورج بہت اچھا نہیں لگتا

ستارے بھی سر دامان شب اچھے نہیں لگتے

 

تو یہ ہوتا ہے ہم گھر سے نکلنا چھوڑ دیتے ہیں

کبھی اپنی گلی کے لوگ جب اچھے نہیں لگتے

 

یہ کہہ دینا کہ ان سے کچھ گلہ شکوہ نہیں ہم کو

مگر کچھ لوگ یوں ہی بے سبب اچھے نہیں لگتے

 

نہ راس آئے گی جینے کی ادا شاید کبھی ہم کو

کبھی جینا کبھی جینے کے ڈھب اچھے نہیں لگتے

٭٭٭

 

 

 

کتاب پڑھتے رہے اور اداس ہوتے رہے

عجیب شخص تھا جس کے عذاب ڈھوتے رہے

 

کوئی تو بات تھی ایسی کہ اس تماشے پر

ہنسی بھی آئی مگر منہ چھپا کے روتے رہے

 

ہمی کو شوق تھا دنیا کے دیکھنے کا بہت

ہم اپنی آنکھوں میں خود سوئیاں چبھوتے رہے

 

بس اپنے آپ کو پانے کی جستجو تھی کہ ہم

خراب ہوتے رہے اور خود کو کھوتے رہے

 

زمیں کی طرح سمندر بھی تھا سفر کے لیے

مگر یہ کیا کہ یہاں کشتیاں ڈبوتے رہے

 

ہمیں خبر نہ ہوئی اور دن بھی ڈوب گیا

چٹختی دھوپ کا بستر بچھائے سوتے رہے

٭٭٭

 

 

 

شعلہ شعلہ تھی ہوا شیشۂ شب سے پوچھو

یا مرا حال مری تاب طلب سے پوچھو

 

جانے کس موڑ پہ ان آنکھوں نے موتی کھوئے

بستیاں دید کی ویران ہیں کب سے پوچھو

 

راستے لوگوں کو کس سمت لیے جاتے ہیں

کیا خبر کون بتا پائے گا سب سے پوچھو

 

دن نکلتے ہی ستاروں کے سفینے ڈوبے

دل کے بجھنے کا سبب موج طرب سے پوچھو

 

وہی دن رات وہی ایک سے لمحوں کا حساب

سخن آغاز کروں عمر کا جب سے پوچھو

 

خامشی بھی تو سناتی ہے فسانے اکثر

کس تماشے میں ہوں یہ بندش لب سے پوچھو

٭٭٭

 

 

 

زیر زمیں دبی ہوئی خاک کو آساں کہو

حرف خراب و خستہ کو ضد ہے کہ داستاں کہو

 

آب سیاہ پھیر دو باب وفا کے نقش پر

شہر انا میں جب کبھی قصۂ دیگراں کہو

 

کون شریک درد تھا آتش سرد کے سوا

راکھ حقیر تھی مگر راکھ کو مہرباں کہو

 

دور خلا کے دشت میں مثل شرار ثبت ہیں

کس نے انہیں خفا کیا کیوں ہوئے بد گماں کہو

 

سنگ سزا کا خوف بھی بستر جاں سے اٹھ گیا

سلطنت جلال کو ٹوٹی ہوئی کماں کہو

 

آئنۂ سراب ہے گرد پس حباب ہے

ٹھہری ہوئی ہے زندگی پھر بھی اسے رواں کہو

 

شام ہوئی تو جل اٹھے رات ڈھلی تو بجھ گئے

ہم بھی یونہی فنا ہوئے ہم کو بھی رائیگاں کہو

٭٭٭

 

 

 

ا قصہ بہت لمبا نہیں بس رات بھر ہے

ایک سناٹا مگر چھایا ہوا احساس پر ہے

 

اک سمندر بے حسی کا ایک کشتی آرزو کی

ہائے کتنی مختصر لوگوں کی روداد سفر ہے

 

میں ازل سے چل رہا ہوں تھک گیا ہوں سوچتا ہوں

کیا تری دنیا میں ہر منزل نشان رہ گزر ہے

 

اس فصیل غم کو سر کرنے پہ بھی کیا مل سکے گا

ایک دیوار ہوا ہے ایک تیرا سنگ در ہے

 

ڈوبنے والے ستارے کو بھلا کب تک پکارے

زندگی کی رات کو سورج کے ہنس دینے کا ڈر ہے

 

دیکھ لے مجھ کو ابھی کچھ روشنی باقی ہے مجھ میں

شام تک اک ریت کا طوفان آنے کی خبر ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے