عزیز جبران انصاری: عصری آ گہی سے متمتع افسانہ نگار۔۔ ۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

بے قراری سی بے قراری ہے

 

کراچی میں مقیم مایہ ناز پاکستانی ادیب اور دانش ور عزیز جبران انصاری نے پاکستانی ادبیات کے فروغ کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان کا ایک عالم معترف ہے۔ گزشتہ چھے عشروں سے اس با کمال تخلیق کار نے تحقیق و تنقید، تاریخ، علم بشریات، نفسیات، صحافت، ادارت، کالم نویسی، سماجی علوم، سیرت نویسی، نعت گوئی، سوانح نگاری، شاعری، انشائیہ نگاری، خاکہ نگاری، یاد نگاری، سفرنامہ نگاری اور افسانہ نگاری میں اپنی فقید المثال خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ عزیز جبران انصاری کے بیس منتخب افسانوں پر مشتمل نئے افسانوی مجموعہ ’’بے قراری سی بے قراری ہے‘‘ کی اشاعت کے بارے میں جان کر دِلی مسرت ہوئی۔ یہ امر لائق صد رشک و تحسین ہے کہ عزیز جبران انصاری کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ موجودہ زمانے میں فن افسانہ نگاری کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس مقبول صنف ادب کو کن خطوط پر استوار ہونا چاہیے۔ ایک زیرک، فعال، مستعد اور عصری آگہی سے متمتع جری تخلیق کار کی حیثیت سے عزیز جبران انصاری نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کو سدا پیش نظر رکھا ہے۔ تاریخ ادب کے مطالعہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بیسویں صدی عیسوی کے وسط سے لے کر اکیسویں صدی عیسوی کے پہلے دو عشروں کے دوران اُردو ادب اور فنون لطیفہ کے معائر میں تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہا۔ اس عرصے میں جو افسانے لکھے گئے ان کے موضوعات با لعموم معاشرتی زندگی کی اس طرح ترجمانی کرتے تھے کہ ان سے قارئین کے فکر و خیال کو مہمیز کرنے میں مدد ملی۔ اُردوافسانہ نگاری کا یہ دور اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس عرصے میں افسانہ نگاروں نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں خُون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی مقدور بھر سعی کی۔ اس عہد کے افسانوں میں پائی جانے والی دروں بینی جہاں احتسابِ ذات کی مظہر ہے وہاں اس کے معجز نما اثر سے زندگی کی تاب و تواں کو حقیقی سمت عطا کرنے میں بھی مدد ملی۔ افسانہ نگاروں نے انسانیت کے وقار و سر بلندی، جہد للبقا کے تقاضوں، جمود کے خاتمے، معاشرتی زندگی کے تضادات کو دُور کرنے، قارئین کی ذہنی بیداری اور جبر کے خلاف ستیز پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ عزیز جبران انصاری کی افسانہ نگاری اُردو افسانہ نگاری کی اُسی درخشاں روایت کا تسلسل ہے۔ اپنی تخلیقی فعالیت کے دوران عزیز جبران انصاری کی سوچ ہمیشہ مثبت رہی ہے۔ کسی کے اسلوب کی تنقیص یا تخریب سے اسے کوئی دلچسپی نہیں وہ ہمیشہ اپنی تعمیری سر گرمیوں میں مصروف رہتا ہے۔ کسی کے ساتھ تقابل یا مسابقت سے اسے کوئی غرض نہیں بل کہ اس کا تخلیقی سفر ہمیشہ خوب سے خوب تر کی جانب جاری رہتا ہے۔ شجرِ حیات کی خزاں رسیدگی کو دیکھ کر ایک حساس اور درد آشنا تخلیق کار کی حیثیت سے عزیز جبران انصاری تڑپ اُٹھتا ہے۔ وہ زندگی کی نو خیز کونپلوں کو آلامِ روزگار کے مسموم بگولوں اور سمے کے سم کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔

عزیز جبران انصاری نے جدید دور کے ذرائع ابلاغ سے انتہائی قریبی اور معتبر ربط بر قرار رکھا ہے۔ اُن کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی مجلہ ’’بیلاگ‘‘ انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ عزیز جبران انصاری جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ابلاغیات کے تیز ذرائع مثلاً برقی ڈاک، ٹیلی فون اور فیکس کے استعمال سے زندگی کی برق رفتاریوں کی تفہیم کی سعی میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ملک، قوم، ملت اور انسانیت کے مسائل کے بارے میں حقیقی شعور پروان چڑھانے میں وہ ہمیشہ گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے تضادات، بے اعتدالیاں، مناقشات اور انصاف کُشی کے اعصاب شکن اثرات ان کے افسانوں کے موضوعات ہیں۔ اپنے افسانوں میں عزیز جبران انصاری نے علاقائی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کے مسموم اثرات کے خلاف کھُل کر لکھا ہے۔ ان افسانوں میں سماجی برائیوں، جہالت، پس ماندگی، غربت و افلاس، نسل کُشی، منشیات، دہشت گردی اور لُوٹ مار کے خلاف نفرت کا اظہار قاری کے لیے حوصلے اور سکون قلب کا وسیلہ ہے۔ اپنی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات و مشاہدات کو افسانوں کے قالب میں ڈھال کر عزیز جبران انصاری نے قارئین کو اس ذائقے کے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی فراہم کی ہے جس نے تخلیق کار کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اہلِ نظر سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ حالات کی صلیب پر لٹکے، چیتھڑوں میں ملبوس، فاقہ کش اور قسمت سے محروم مفلوک الحال طبقے کی زندگی کی تصویر تھوہر کے پتے جیسی اور اس کا ذائقہ حنظل جیسا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان میں پس نو آبادیاتی دور کے مسائل افسانوں کا اہم موضوع رہے ہیں۔ سامرجی دور میں اس خطے میں مغربی تہذیب نے ایسا تار عنکبوت پھیلا یا جس میں مقامی زندگی کی رسوم و رواج اور اقدار و روایات اُلجھ کر رہ گئیں۔ قیام پاکستان کے بعد اس خطے میں حالات کی کایا پلٹ گئی اور اقدار و روایات میں ایک واضح تبدیلی کے آثار دکھائی دینے لگے۔ تخلیق کاروں نے ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب اُس نئے سفر کا آغاز کیا جو ان کے قومی تشخص، ملی وقار، قومی سلامتی اور انفرادی شناخت کے لیے نا گزیر تھا۔ قومی اُفق پر پاکستانی افسانہ نگاروں کے صحت بخش افکار کی جو لانیوں اور تخلیقات کی تابانیوں سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔ عزیز جبران انصاری کی علم دوستی ادب پروری اور انسانیت نوازی ان کے اسلوب میں نمایاں ہے۔ زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق پر ان کی گہری نظر ہے اور ان کے افسانوں میں یہ صداقتیں قاری کو احتساب ذات پر مائل کرتی ہیں۔

عصرِ حاضر میں اُردو زبان و ادب کے تخلیقی منظر نامے کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ادبی اُفق پر فن افسانہ نگاری ایک ایسا نیّرِ تاباں ہے جس کی ضیا پاشیاں نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہیں۔ اُردو زبان و ادب کے شیدائی اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ موجودہ دور میں ہر شخص افسانوں میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جو کوہ سے لے کر کاہ تک ہر موضوع کو اپنی گرفت میں لینے پر قادر ہے۔ جدید دور میں اُردو افسانہ نگاروں نے زندگی کے تمام موسموں کا احوال اپنے افسانوں میں شامل کر کے اس صنفِ ادب کی مقبولیت میں اس قدر اضافہ کر دیا ہے کہ اُردو ادب کے موجودہ دور کو افسانوں کا دور کہا جاتا ہے۔ جسے دیکھو اپنی چشمِ پُر نم میں وفا اور جفا کی یادیں سموئے، جنس و جنوں کا کرب سنبھالے، ہجر و وصال کے رنگ سمیٹے، اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دِل بے قرار کے افسانے پڑھنے کے لیے بے تاب ہے۔ ہر افسانہ نگار کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی زندگی کے معدن سے فطرت کے حقائق کے گہر ہائے آبدار بر آمد کرے۔ جامد وساکت ماحول میں سکوت مرگ کو ختم کر کے طلوعِ صبحِ بہاراں، فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کے موسم کی نوید سنائے اور قاری کے خیابانِ خیال میں گل ہائے رنگ رنگ اُگا کر کشت جاں کو معطر کر دے۔ ان افسانوں میں سیلِ زماں کی روانی، سیلانی مزاج انسانوں کے جذبات کی بے کرانی، غم و اندوہ کی حشر سامانی، انبوہِ عاشقاں کی فتنہ سامانی اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کے نتیجے میں مرگِ نا گہانی کا بیان زندگی کی حقیقی معنویت کو واشگاف الفاظ سامنے لاتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں خیر اور شر کے متحارب روّیوں اور مختلف طبقات کی زندگی کی متصادم کیفیات کو اُردو افسانے میں کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ آج ادب کا قاری یہ سوچ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ وہ تخلیق کار جو ماضی میں یادگارافسانہ لکھتے تھے وہ خودکس طرح افسانہ بن گئے۔ یہی تو تقدیر اور پُر اسرار زندگی کی اعصاب شکن تصویر ہے جس کی مصلحتوں کی گرہ کشائی ممکن ہی نہیں۔ جدید دور کے افسانے جہاں حسن و رومان کے شاخسانے ہیں وہاں یہ عبرت کے تازیانے بھی ہیں۔ اس دنیا کے آئینہ خانے میں قسمت کی لکیریں، سیلِ زماں سے بچنے کی بے سُود تدبیریں اور تقدیر کی تحریریں انسان کو تماشا بنا دیتی ہیں۔ اس حقیقت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا کہ زندگی کے تلخ و شیر یں لمحات، سخت مقامات، جان لیوا صدمات اور انتہائی کڑے اوقات سدا یاد رہتے ہیں۔ اپنی ہمہ گیر اثر آفرینی کے باعث یہ کبھی ذہن سے محو ہو ہی نہیں سکتے۔ زندگی کے دِن پورے کرنے اور مشکل وقت گزارنے کی کوشش میں ہم جہان سے گزر جاتے ہیں مگر وقت ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور کبھی نہیں گزرتا۔ ایام، وقت اور تاریخ کا یہی شعور ہر انسان کی زندگی کے افسانے کی اساس بنتا ہے۔

تاریخ کا ایک سبق تو یہ بھی ہے کہ بھری دنیا میں آج تک کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنے مستقبل کے لیے موثر لائحہ عمل مرتب کر سکے۔ بر صغیر میں برطانوی استعمار کا نوے سال (1857-1947)پر محیط دور تو ختم ہو گیا مگر اس کے بعد ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری نے اس خطے کے باشندوں کو با لعموم اور اُردو تنقید سے وابستہ ادیبوں کو بالخصوص اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ جہاں تک اُردو افسانے کے ارتقا کا تعلق ہے اس میں اردو نقادوں کی مقامی تخلیق کاروں کی تخلیقی کامرانیوں پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ شاید اسی وجہ سے پروفیسر کلیم الدین احمد کی پس نو آبادیاتی دور کی تنقید کے بارے میں عصبیت، خودسری اور خود رائی اس قدر بڑھ گئی کہ اس نے اُردو زبان میں تنقید کے وجود ہی کو عنقا قرار دیا۔ اردو زبان میں افسانوی ادب کی تنقید اس قدر تہی مایہ رہی ہے کہ اس میں گنتی کے جن افسانہ نگاروں کے اسلوب کو زیر بحث لا یا گیا ہے، ان میں یہ چند نام بھی شامل ہیں:

علامہ راشد الخیری (1868-1936)، منشی پریم چند ( دھنپت رائے )(1880-1936)، سید سجاد حیدر یلدرم(1880-1943)، مرزا فرحت اللہ بیگ(1883-1847)، سعادت حسن منٹو (1912-1955)، کرشن چندر(1914-1977)، راجندر سنگھ بیدی(1915-1984)

معاشرتی زندگی میں اکثر افراد کا یہ معمول رہا ہے کہ نا سٹلجیا کے زیرِ اثر وہ ماضی کے کوہ پیکر انسانوں، ان کے فقید المثال کارناموں اور ان سے وابستہ عظمتِ رفتہ کی داستانوں کو للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ زمانۂ حال کو لائقِ اعتنا نہ سمجھنا اور مستقبل سے مایوس ہو کرنا خوش و بیزار، بے چین اور اُ کتائے ہوئے رہنا ایسے لوگوں کی فطرتِ ثانیہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ شاید نئی نسل قضا و قدر کے ان فیصلوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی کہ جو معاشرہ اپنے روز و شب کا حساب اور حال کے سب اعمال کا احتساب نہیں کرتا اُسے اپنے مستقبل کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہیے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ حال کی جملہ کیفیات کا ماضی سے گہرا تعلق ہوتا ہے جب کہ مستقبل کے عزائم کے سوتے بھی حال ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ اُردو زبان کے زیرک تخلیق کاروں نے ماضی میں افسانے کا جو تخم کشتِ جاں میں بویا تھا، حال کے افسانہ نگاروں نے خونِ جگر سے اُسے سیراب کیا اور توقع ہے کہ مستقبل قریب میں اُردو افسانے کا یہ نخل تناور آسمان سے باتیں کرے گا۔ اُردو افسانے کے ارتقا میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ بات چشم کشا صداقتوں کی مظہر ہے کہ علی گڑھ سے شائع ہونے والے ممتاز ادبی مجلے ’’معارف ‘‘ نے اکتوبر 1900کی اشاعت میں سید سجاد حیدر یلدرم کا ایک افسانہ ’’نشے کی پہلی ترنگ ‘‘ شائع کیا جو ترکی زبان سے اخذ و ترجمہ کر کے پیش کیا گیا تھا۔ مصورِ غم علامہ راشد الخیری کا افسانہ ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ ادبی مجلہ مخزن کی دسمبر 1903کی اشاعت میں شامل تھا۔ اس کے چار برس بعد منشی پریم چند کا افسانہ ’’دنیا کا سب سے انمول رتن ‘‘کان پور (بھارت)سے شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’زمانہ ‘‘ 1907 میں شائع ہوا۔ اُردو افسانے کے ارتقا کے حوالے سے صورت حال پر غور کرتے وقت مجھے رام ریاض کا یہ شعر یاد آیا:

کِس نے پہلا پتھر کاٹا  پتھر کی بنیاد رکھی

عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے

آج اُردو نقاد کو ساختیات، پسِ ساختیات، جدیدیت، مابعد جدیدیت، رد تشکیل، رومن جیکب سن، ژاک دریدا، سوسئیر، رولاں بارتھ، میلکم کاولی، ژاک لاکاں، جو لیا کر سٹیوا چیخوف اور موپساں پر قلم بر داشتہ لکھنے سے فرصت کہاں کہ وہ اپنے وطن، اہلِ وطن اور قومی تشخص کی خاطر فن افسانہ نگاری کو اپنے خون جگر سے نمو بخشنے والے تخلیق کاروں کے اسلوب پر کچھ لکھ سکیں۔ اشارہ، نشان، نشان نما اور آوازوں کی باز گشت میں اُلجھے نقاد اُردو افسانے کے بارے میں قارئین کو کسی نشان منزل کا پتا نہ دے سکے۔ قارئین نے اپنے ذوقِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے فن افسانہ نگاری کی زبردست پذیرائی کی ہے مگر حیران کُن بات یہ ہے کہ اُردو تنقید میں اس صنف ادب کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اُردو زبان و ادب کے قارئین کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ بیسویں صدی کے آخری دو عشروں اور اکیسویں صدی کے پہلے سولہ سال کے عرصے میں اردو افسانے کی تنقید غیر امید افزا رہی۔ عالمی ادبیات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر زبان میں کہانی کا وجود اُسی قدر قدیم ہے جس قدر زبان کی قدامت ہے۔ افسانہ نگار کا مزاج بھی عجیب ہوتا ہے، طویل عرصہ تک خرد کی گتھیاں سلجھانے کے بعد ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب اُس کے دِل میں صاحبِ جنوں ہونے کی تمنا انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔

اردو زبان میں فن افسانہ نگاری کے ارتقا پر نظر ڈالنے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس صنف ادب کو نمو کے مراحل طے کرنے میں کافی وقت لگا۔ بیسویں صدی عیسوی کے آغاز کے وقت افسانے کے ابتدائی دور (1900-1930)میں اصلاح اور رومانویت کے دھندلے سے نقوش مِلتے ہیں۔ اُس عہد کے جن ممتاز تخلیق کاروں نے اس صنفِ ادب کی ترویج میں دلچسپی لی ان میں راشد الخیری، پریم چند، سلطان حیدر جوش، نیاز فتح پوری، حجاب امتیاز علی اور مجنوں گورکھ پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ اکثر ناقدین کی رائے کہ اردو افسانے کا یہ ابتدائی دور جو تیس سال پر محیط تھا پہلی عالمی جنگ کے آغاز(28۔ جولائی1914 )کے ساتھ ہی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں انسانیت پر جو کوہِ الم ٹُوٹا اس کے ادبیات پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اردو افسانے کے موضوعات بھی ان اثرات سے بے نیاز نہ رہ سکے۔ تاریخی اعتبار سے اردو افسانے کے ارتقا میں سترہ برس کا عرصہ (1930-1947)بے حد اہم ہے۔ اس عرصے میں جن ممتاز افسانہ نگاروں نے اس صنف ادب کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ان میں احمد ندیم قاسمی (1916-2006)، (ہیرو شیما سے ہیرو شیما تک، پر میشر سنگھ، گور مکھ سنگھ کی وصیت)، احمد علی(1910-1994)(مہاوٹوں کی ایک رات، شعلے، ہماری گلی، قید خانہ، موت سے پہلے )، اوپندر ناتھ اشک (1910-1996) (پلنگ ) اشفاق احمد (1925-2004) (گڈریا، محسن محلہ)، بلونت سنگھ ( جگا )، پریم چند (1880-1936 )(کفن، پوس کی رات)، راجندر سنگھ بیدی (1915-1984)(گرم کوٹ، لاجونتی، بھولا)، سعادت حسن منٹو (1912-1955)(دھواں، ہتک، کالی شلوار)، عصمت چغتائی(1915-1991)(لحاف، بدن کی خوشبو، چھوئی موئی، ننھی سی جان، چوتھی کا جوڑا، کارساز، روشن)، علی عباس حسینی(1897-1969)(ہمارا گاؤں، کچھ ہنسی نہیں ہے، رفیق تنہائی، میلہ گھومنی)، عزیز احمد (1914-1978) (کالی رات)، (غلام عباس (1909-1982)( کتبہ، آنندی، اوور کوٹ، بھنور، ہمسائے، اُس کی بیوی)، کرشن چندر(1914-1977)(مہا لکشمی کا پُل، مامتا)، محمد عمر میمن (1939-1954) (تاریک گلی )، ممتاز مفتی(1905-1995)(آپا، جھُکی جھُکی آنکھیں )

کاروان ہستی نہایت تیز گام ہے معمولاتِ زندگی کا چکر اسی طرح جاوداں چلتا ہے جیسے کنواں چلتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو افسانے میں نئے تخلیق کاروں نے خوب رنگ جمایا۔ قیام پاکستان کے بعد پس نو آبادیاتی دور میں (1947-1960)کے عرصے میں اردو افسانے کی کہکشاں پر جو تابندہ ستاے ضو فشاں رہے ان میں آغا بابر، اشفاق احمد، انتظار حسین، جمیلہ ہاشمی، خدیجہ مستور، رضیہ فصیح احمد، شوکت صدیقی، قدرت اللہ شہاب، قرۃ العین حیدر اور ہاجرہ مسرورکے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

اردو افسانے کے افق پر 1960کے بعد سے ضو فشاں تابندہ ستاروں میں احمد ندیم قاسمی، احمد ہمیش، اسد محمد خان، اعظم کریوی، اقبال مجید، انتظار حسین، انور سجاد، بانو قدسیہ، جمیل ملک، حامد سراج، حسرت کاس گنجوی، حسن منظر، حنیف باوا، خان فضل الرحمٰن خان، خالدہ حسین، رشید امجد، زاہدہ حنا، سعدیہ نسیم، سلیم الرحمٰن، سمیع اللہ قریشی، سلیم عاصمی، شفیق الرحمٰن، شفیع عقیل، شفیع بلوچ، شفیع ہمدم، صابر لودھی، ضمیر الدین احمد، عبداللہ حسین، عرش صدیقی، عزیز جبران انصاری، عذرا اصغر، محمد خان (کرنل)، فرخندہ لودھی، فیروز قیصر، کوثر  چاندپوری، محمد انور (آغا گُل )، محمد منشا یاد، مستنصر حسین تارڑ، نسیم درانی، نسیم سحر، نیلم احمد بشیر اور نیر مسعود شامل ہیں۔

عزیز جبران جیسے ادیب کسی بھی معاشرے کا بیش بہا اثاثہ ہوتے ہیں جوستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش، لوح و قلم میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے تجربات و احساسات کو سچے جذبات سے مزین کر کے زیبِ قرطاس کرتے چلے جاتے ہیں۔ عزیز جبران انصاری کے اسلوب میں فطرت نگاری، حقیقت نگاری، موضوعیت کی مظہر مقصدیت، طبقاتی کش مکش، عام آدمی کی زندگی کی سماجی اور معاشی پریشانیاں اور سرمایہ دارانہ نظام کی نا انصافیاں بہت اہم ہیں۔ یہ افسانے جدید دور کے بدلتے ہوئے طرزِ احساس اور معاصر سماجی، معاشرتی، سیاسی اور عالمی حالات کے تناظر میں لکھے گئے ہیں جو نئے تخلیقی رجحانات کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالمی ادب کے معائر کے اردو افسانہ نگاری میں انجذاب کو تخلیقی عمل کے لیے مفید سمجھتے ہیں مگر عالمی ادب کے بلند پایہ فن پاروں کی چربہ سازی اور نقالی سے انھیں شدید نفرت ہے۔ عزیز جبران انصاری نے اپنے افسانوں میں اپنی گُل افشانی ٔ گفتار سے جو سماں باندھا ہے وہ قارئین کو ایک جہانِ تازہ کی نوید سناتا ہے۔ افسانوں کے کردار، کہانی کی ترتیب، واقعات کے تسلسل اور کرداروں کے اعمال و افعال کا مظہر پلاٹ، ادبی ہئیت، واقعات اور کرداروں کی کش مکش اور افسانے کا مرکزی خیال سب مل کر افسانوں کو دھنک رنگ منظر عطا کرتے ہیں۔ مضبوط و مستحکم واحد تاثر کے حامل ان افسانوں میں رزم و بزم اور کڑی کمان کے تیر جیسی چال کے امین قابل مطالعہ، پر لطف اور دلچسپ مواد کی فراوانی ہے۔ اِس افسانوی مجموعے میں شامل ہر افسانے کا نصف گھنٹے سے دو گھنٹے کی ایک نشست میں آسانی سے مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

افسانہ ’’بے قراری سی بے قراری‘‘ میں ایک چربہ ساز، سارق، جعل ساز اور ملمع سازاستاد قمر اشتیاق کی قلم فروشی کا احوال مذکور ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار شادی شدہ عورت نجمہ کا ہے، جس کا شو ہر ملازم ہے اور ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔ نجمہ نے شہرت کی خاطر شعر و ادب کو وسیلہ بنایا۔ نو جوان اورحسین و جمیل نجمہ کو اسی استادقمر اشتیاق نے اردو اور انگریزی میں ایم۔ اے کرایا۔ اپنی شاعری اور اپنے لکھے ہوئے تنقیدی مضامین نجمہ کے حوالے کیے۔ اس طرح نجمہ کی ہر طرف دھُوم مچ گئی جس کے بعد وہ کینیڈا، امریکہ اور دوبئی کی سیر کرتی رہی۔ ہر جگہ اس کے حسن کی ساحری کے حریص اسیر اور شاعری کے مداح خبیث امیر موجود تھے مگر اس نے بتیس دانتوں میں زبان کے مانند وقت گزارا۔ اس اونچی اُڑان کے نتیجے میں اس کا بیٹا اور شوہر نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے۔ ارض وطن سے پندرہ برس دُور رہنے کے بعد جب اس نے تنہا لاہور میں قدم رکھا تو زمانہ بدل چُکا تھا۔ نجمہ نے اپنے غم کا بھید نہ کھولنے اور گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ کہانی کا اختتام بہت سنسنی خیز انداز میں ہوتا ہے۔ تلاشِ بسیار کے بعد جب نجمہ کے شوہر اور اس کے حقیقی بیٹے نے نجمہ کو پہچان لیا تو وہ اچانک غائب ہو گئی۔ اس طرح یہ کہانی ایک المیہ میں بدل گئی۔ مکالمہ نگاری اور کردار نگاری اپنی مثال آپ ہے۔ شعر و ادب کی شوقین حسین و جمیل نجمہ کا ایک مکالمہ قابلِ غور ہے:

’’نوجوان لڑکیاں اپنے شوق کی تکمیل کے لیے میدانِ سخن میں قدم رکھتی ہیں وہ کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن ادب کے گِدھ اُنھیں اپنے چُنگل میں پھانس لیتے ہیں۔ وہ شہرت کی گنگا میں مد ہوش بہتی چلی جاتی ہیں، ہوش اُس وقت آتا ہے جب اپنا سب کچھ غرق کر چُکی ہوتی ہیں۔ ‘‘

افسانہ ’’ہم اعتبار نہ کرتے تو اور کیا کرتے ‘‘ میں شاعری کی دلدادہ ایک لڑکی شاہینہ کی داستانِ غم بیان کی گئی ہے۔ مصنف نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ اس عالمِ آب و گِل کے جملہ مظاہر جو ہماری نظروں کے سامنے ہیں وہ موہوم خوابوں کے فرغلوں میں لِپٹے ہوئے فریبِ سُود و زیاں کے حسرت ناک مرقعے ہی تو ہیں۔ شاہینہ ایک معمر، عیاش اور بد کردار رنڈوے افسر شارق ندیم کے چُنگل میں پھنس گئی اور اس کی شریکِ حیات بن گئی۔ دولت مند افسر اور نام نہاد شاعر و ادیب شارق ندیم کی پہلی اہلیہ کا انتقال ہو چکا تھا اور اس کا بیٹا بھی دو بچوں کا باپ تھا۔ شارق ندیم ایک بے ضمیر قلم فروش شاعر تھا جو حسین دوشیزاؤں کو اپنا کلام، افسانے اور مضامین دے کر انھیں اپنے دام میں پھنسا لیتا۔ ایک دن شاہینہ نے اپنے شو ہر شارق ندیم کو ایک عورت جمیلہ کے ساتھ دادِ عیش دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ اس کے بعد شاہینہ کو اس کے شوہر نے شدید اذیت و عقوبت میں مبتلا کر دیا اور تشدد کیا۔ ایک اور پچیس سال کی شادی شدہ حسین عورت نعیمہ کی شاعری اور افسانہ نگاری بھی شارق ندیم ہی کی مرہونِ منت تھی۔ نعیمہ شارق ندیم کو انکل کہتی اس کا بھڑوا شوہر اپنی بیوی کو شارق ندیم کی آغوش میں بیٹھا دیکھ کر مسکراتا رہتا۔ شاہینہ نے یہ لرزہ خیز منظر دیکھا کہ اس کے بُڈھے کھو سٹ شوہر شارق ندیم نے نعیمہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا یا تو شاہینہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے خود کشی کر لی۔ اس افسانے میں شاہینہ کا کردار بہت جان دار ہے جس میں جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ موجود ہے۔ کہانی کے اختتام پر قاری سوچنے لگتا ہے کہ کاش شاہینہ نے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے ایک درندے شارق ندیم کی زندگی کی ٹمٹماتی لو کو گُل کر دیا ہوتا۔ کہانی کا مضبوط پلاٹ، عمدہ کردار نگاری اور پر جوش مکالمے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔

اس مجموعے میں شامل افسانہ ’’ذہانت‘‘ تخلیق کار کے گہرے مشاہدے کی عمدہ مثال ہے۔ معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں، بے حسی اور لُوٹ مار سے عاجز بے بس و لاچارانسان قفس کو بھی گوشۂ عافیت سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک سادہ لوح پٹھان مسافر کو رات گئے بغیر ٹکٹ ہونے کے جرم میں ریلوے سٹیشن پر دھر لیا جاتا ہے اور اسے حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔ علی الصبح جب مزید چھان بین کے لیے اُسے تفتیشی افسر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ ٹکٹ دکھا کر یہ کہتا ہے:

’’اصل بات یہ ہے کہ امارے پاس کافی روپیہ پیسا تھا رات کا وقت تھا کوئی سواری بھی نہیں تھی ہم گھر کیسے جاتی۔ سوچا رات آرام سے آپ کا مہمان بنوں اس لیے لاک اپ میں آرام کیا اب اپنے گھر جاتی ہے۔ ‘‘

افسانہ ’’یہ تو ہونا تھا‘‘ اس افسانے میں شمسہ اور امجد کی محبت کی شادی کے موقع پر نئے گھر کے آنگن میں دونوں میاں بیوی کے ہاتھ سے لگائے جانے والے جامن کے پودے کی تیس سالہ رفاقت کا ذکر ہے۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ گزشتہ تیس برس سے جس طرح شمسہ اولاد سے محروم تھی اُسی طرح گھر کے آنگن میں جامن کا پودا بھی بے ثمر رہا۔ اس افسانے میں تقویم جیسے پُر ہول اور خشک موضوع کو مصنف نے پُر تجسس بنا دیا ہے۔ عہدِ گزشتہ کی طرف پلٹ کر دیکھنے کی تکنیک کا بر محل استعمال کر کے مصنف نے اس افسانے کی تاثیر میں اضافہ کیا ہے۔ اگر جنسی اعتبار سے کم زور مردوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کی بیوی کیا گُل کھِلاتی ہے تو وہ کبھی شادی کا نام نہ لیں۔ شمسہ کی وفات کے بعد امجد نے ایک بیوہ عورت تہمینہ سے عقد ثانی کر لیا جو دو بیٹوں کی ماں تھی۔ اس شادی کے چند ماہ بعد امجد پر اسرار حالات میں اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا اسے سخی حسن کراچی کے شہرِ خموشاں میں شمسہ کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔ امجد کی تمام جائداد، پنشن اور گریجویٹی تہمینہ کو مِل گئی۔ افسانہ نگار نے متنبہ کیا ہے کہ انسان کو فطرت کی سخت تعزیروں اور مکافاتِ عمل سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔

افسانہ ’’دلاور‘‘ معاشرتی زندگی میں اصلاح کے جذبے سے لکھا گیا ہے۔ مظلوم طبقے کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ غاصبوں سے اپنا حق لینے کے لیے میدان عمل میں کود پڑیں۔ موضوع کی جانب براہِ راست اور ارادی توجہ سے اسلوب میں نکھار پیدا ہو گیا ہے۔ اشاروں، کنایوں اور علامات کے بر محل استعمال سے مصنف نے اپنے موضوع کو صحیح سمت عطا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جبر کے خلاف یہ آواز اردو افسانے میں بہت اہمیت کی حامل ہے جس کے قارئین کے فکر و خیال پر دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

زندگی کی حقیقی معنویت سے لبریز افسانہ ’’بُرے پھنسے ‘‘میں ایک تکلیف دہ ریلوے سفر کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ ریل کا وہ ڈبہ جس میں بیالیس مسافروں کی گنجائش تھی اس میں ایک سو سے زائد مسافر ٹھونس دئیے گئے۔ اس سفر میں افسانہ نگار کے مشاہدات اور مرقع نگاری کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔

7 اس افسانوی مجموعے میں شامل افسانہ ’’کِس نے کہا تھا لِفٹ لیں ‘‘ میں سماجی برائیوں، چوری، ڈکیتی، رہزنی اور لُوٹ مار کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ قوی مشاہدات، لطیف جذبات، پُر سوز احساسات اور حقیقت نگاری سے مزین منظر نگاری اور کردار نگاری اس افسانے کا نمایاں اور اہم ترین وصف ہے۔ افسانہ نگار نے اس افسانے میں جرائم پیشہ افراد کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کیا ہے۔ عملی زندگی میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ کئی وضیع، لُچے، تلنگے، اُچکے، ٹھگ، لُٹیرے موٹر سائیکل سوار سادہ لوح راہ گیروں کو لفٹ دے کر انھیں ویران علاقوں میں لے جا کر جمع پونجی سے محروم کر دیتے ہیں۔ رخش حیات پیہم رو میں ہے، کوئی نہیں جانتا کہ یہ کہاں جا کے رُک جائے۔ اس کے باوجود لُوٹ مار کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

افسانہ ’’ آخری پونجی ‘‘ ایک مجذوب کی انوکھی خواہش کا اظہار ہے۔ یہ مجذوب جو لباس کے تکلف سے بے نیاز ہے اپنے ہاتھ میں پچاس روپے کا نوٹ تھام کر اُسے ہوا میں لہرا کے اور دھمال ڈال کر یہ کہتا ہے کہ جو ہمارے حکمرانوں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا، اپنی زندگی کی یہ آخری پُونجی وہ اس کی نذر کرے گا۔ کچھ اور نوجوان بھی اس کے ساتھ دھمال میں شامل ہو جاتے ہیں اور ہاتھوں میں نوٹ تھام کر یہی الفاظ دہراتے ہیں۔ ایک ڈرون حملہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں پوری آبادی کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی ہے۔ جب کوئی معاشرہ اپنی تخریب خود کرنے لگے تو اس کی بے غیرتی، بے ضمیری، کور مغزی، بے بصری اور ذہنی افلاس کے نتیجے میں ہلاکت خیزیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف سامراجی طاقتوں کی جنگ میں پس ماندہ اقوام نے اپنی آخری پونجی بھی داؤ پر لگا دی ہے۔ ہم سب عمرِ رواں کی کشتی میں سوار ہیں جو سیل زماں کے تھپیڑے کھاتی ہوئی، گرداب اور منجدھار سے بچتی ہوئی ساحل کی جانب رواں دواں ہے۔ پرِ زمانہ کی برق رفتاریاں پرواز نُور سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ جلد وہ وقت آ پہنچتا ہے جب کشتی اور اس کے مسافراپنی آخری منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سفر تو جیسے تیسے کٹ جاتا ہے مگر ہر مسافر کا پُورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ اس کے بعد دِلِ لخت لخت کے یہ ریزے تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔

افسانہ ’’بے جوڑ ‘‘میں والدین کی طرف سےا پنی اولاد کی شادی کے سلسلے میں ان پر مسلط کیے گئے آمرانہ فیصلوں پر گرفت کی گئی ہے۔ بے جوڑ شادیاں دولھا اور دلھن کی جذباتی تسکین کی راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہو جاتی ہیں۔ افسانے کا کردار باسط اور اس کی اہلیہ نے جوڑ شادی کے بندھن میں جکڑے ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ جب بھی کوئی طربیہ سامنے آتا ہے اور کوئی شخص خوشی سے پھُولا نہیں سماتا تو کوئی نہ کوئی المیہ دبے پاؤں اس کا تعاقب کرنے لگتا ہے۔ اس کے بعد وہ سب خوشیاں جنھیں وہ دائمی سمجھ بیٹھا تھا خیال و خواب بن جاتی ہیں۔ باسط کی جنسی کم زوری اس کی اہلیہ کے لیے زندگی بھر کا بھُگتان بن گئی۔ شوہر کی عدم توجہ کا نتیجہ یہ نکلا کے اس کی بیوی ربڑ کی گڑیا بننے کے بجائے عفت و عصمت اور شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر خانگی بن گئی اور بے لگام جنسی تشنگی کی تسکین کے لیے پہلے تو ایک پڑوسی کی آغوش میں چلی گئی اس کے بعد اس کی منھ زور جنسی بے راہ روی اس قدر بڑھی کہ وہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والی ماہر شکاری بن گئی۔ اس افسا نے میں حقیقت نگاری اور فطرت نگاری عروج پر ہے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے ایک خانگی اور زناخی کی جنس، جذبات اور ہوس کے نفسیاتی پہلو پر بھر پُور انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ باسط کی اہلیہ کے مکالمے جہاں تانیثیت کی قوت کے مظہر ہیں وہاں ایک تیز طرار، زبان دراز اور منھ پھٹ خانگی ذاتی شرم و حیا کا سفینہ غرقاب کر کے نہایت ڈھٹائی سے غراتے ہوئے اپنے قبیح کردار اور بد اعمالیوں سے نہایت ڈھٹائی سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یہ بے غیرت، بے ضمیر اور اخلاق باختہ جسم فروش رذیل خانگی جس سفلگی سے شور و غوغا مچاتی ہے اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:

’’پھر یہ سلسلہ پڑوسی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب میں ماہر شکاری بن چکی تھی۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والاکسی ایک گھاٹ تک کیسے محدود رہتا۔ اب اپنے شکار کو اِس انداز سے شکار کرتی کہ بے چارہ شکاری یہ سمجھتا کہ وہ مجھے شکار کر رہا ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات آپ کو بتاؤں !جب شریف عورت بد کاری کی طرف مائل ہوتی ہے تو بیسوا بھی اُس سے پناہ مانگتی ہے کیوں کہ اُس کے پاس گاہک لذت حاصل کرنے آتا ہے جب کہ اُسے گاہک سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اُس کا مقصود تو دولت ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس ہم جیسی شریف زادیوں کے پیشِ نظر دولت نہیں لذت کا حصول ہوتا ہے۔ اس لیے بیسوا ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی——————— گھاٹ گھاٹ سے پانی پینے والا تشنہ ہی رہتا ہے۔ اُس کی تشنگی سات سمندر بھی نہیں بُجھا سکتے۔ ‘‘

افسانہ ’’ لُٹیرے ‘‘میں شاعروں کی مشاعروں میں شرکت اور سامعین کی داد کو موضوع بنایا گیا ہے۔ شیدی فولاد قماش کے مہا مسخرے جب شہر کے کوتوال بن جائیں تو اہلِ علم و دانش پر کوہِ ستم ٹُوٹ پڑتا ہے۔ پولیس تھانوں میں براجمان یہ سنتری ادب اور فنونِ لطیفہ کے آداب کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس قسم کے اہل کاروں نے دو معمر شاعروں کو رات گئے مشاعرے سے واپس آتے وقت پکڑ لیا اور انھیں حوالات میں بند کرد یا۔ جب ایک شاعر نے دوسرے شاعر سے یہ کہا کہ اس نے تو مشاعرے کو لُوٹ لیا تو سنتری کا شک یقین میں بدل گیا کہ یہ دنوں لُٹیرے ہیں جو ابھی لُوٹ مار کی کسی بڑی واردات سے واپس آ رہے تھے۔ ان کے شریکِ جرم ساتھیوں کے بارے میں بھی سب راز ان سے اُگلوا لیے جائیں گے۔ جب اصل حقائق سامنے آئے تو سب انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ اس افسانے میں مصنف کی حسِ مزاح، طنز اور ظرافت قاری کو خندۂ زیرِ لب پر مجبور کر دیتی ہے۔

افسانہ ’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘جنس و جنوں کے عبرت ناک واقعات سے لبریز کہانی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر شہر کی جسم فروش رذیل طوائفوں سے مراسم استوار کر لیتا ہے اور اپنی خون پسینے کی کمائی ان پیشہ ور طوائفوں پر بے دریغ لُٹاتا ہے۔ اس کے بعد خفیہ عقد ثانی کی نادانی کر لیتا ہے اور اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر کراچی چلا جاتا ہے۔ اس کی دوسری بیوی فوت ہو جاتی ہے تو وہ بھی بیمار ہو جاتا ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں اُس کی پہلی بیوی اور اس کے بچے اس چراغ سحری کی خدمت کرتے ہیں۔ افسانہ نگار نے کہانی پر اپنی گرفت مضبوط رکھی ہے اور کردار نگاری میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔

اس افسانوی مجموعے میں شامل افسانہ ’’کمال ہو گیا‘‘ میں نو دولتیے ادیبوں کی جعل سازی اور مکر کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ جامۂ ابو جہل میں ملبوس ذہن و ذکاوت سے عاری اور فکری اعتبار سے مفلس و قلاش مگر کالا دھن کما کر اپنی تجوریاں بھرنے والے سفہا ادبی تقریبات کے انعقاد اور ان میں مقتدر طبقے کی شرکت کو یقینی بنا کر نمود و نمائش اور جعل سازی سے رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں۔ اس افسانے میں ایک جاہل کو اس کی جہالت کا ایک لاکھ روپے کا چیک دیا جاتا ہے۔ یہ افسانہ پڑھ کر بے اختیار محسن بھوپالی(1932-2007) یاد آ گئے جنھوں نے جہلا کی سر پرستی اور ان پر انعام و اکرام کی بارش پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

اِس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے

مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے

کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

’’مجرم کون؟‘‘ایک مؤثر افسانہ ہے جس میں جاگتی آنکھوں سے دِن کی روشنی میں سہانے سپنے دیکھنے والی ایک شادی شدہ عورت کا حال بیان کیا گیا ہے جس کا شوہر منشیات کا عادی ہے۔ یہ عورت اپنے شو ہر کی ضد اور ہٹ دھرمی سے عاجز آ کر اپنے ہاتھوں سے اپنے معذور شو ہر کو مسلسل منشیات فراہم کرتی ہے۔ اس افسانے میں منشیات کے عادی شخص منشور اور اس کی اہلیہ انیلہ کی زندگی کی دکھ بھری داستان کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انیلا کو جاگتی آنکھوں سے دن کی روشنی میں دیکھے گئے اپنی زندگی کے تلخ حقائق کے آئینہ دار خوابوں کا ان لوگوں سے کہیں زیادہ احساس ہے جو شبِ تاریک میں خراٹوں کے درمیان خواب دیکھتے ہیں۔ ان ہی خوابوں کے سہارے انیلا نے نشے کے عادی شوہر کے ساتھ تیس برس گزارے اور بالآخر اپنے ہاتھوں سے شوہر کا گلا گھونٹ کر اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اس افسانے میں پایا جانے والا تجسس قاری کے فکر و خیال کی دنیا میں ہلچل مچا دیتا ہے۔ اس افسانے میں کرداروں کی کش مکش پُوری قوت سے جلوہ گر ہے۔ پہلے منشور اپنی اہلیہ انیلہ کا گلا دبانے کی کوشش کرتا ہے مگر انیلہ اپنے جاں بہ لب شوہر کی گرفت سے بچ نکلتی ہے۔ اگلے لمحے انیلا اپنے شو ہر منشور کا گلا گھونٹ کر اسے اذیت اور عقوبت سے لبریز زندگی سے نجات دلاتی ہے اور خود بھی اس چھٹکارا حاصل کر لیتی ہے۔

’’ زعفران‘‘ میں نئی نسل کے اُن ہوس پرست جنونی عشاق کی وارداتِ قلبی بیان کی گئی ہے جو وادیِ خیال میں مستانہ وار گھومتے ہوئے جنوری میں جُون بنے پلک جھپکتے میں رنگون پہنچ جاتے ہیں اور ہوا کے دوش پر آواز کی لہروں کے ذریعے پُر فریب سپنوں کے ستون سے جکڑی دِل کو تقویت دینے والی معجون کھانے کی عادی خا تون کو ٹیلی فون کر کے اپنی حرماں نصیبی کا احوال بتاتے ہیں۔ ٹیلی فون پر کی جانے والی اِس گفتگو میں ہوس پر مبنی معا شقوں کی اصلیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مردوں کی بالادستی والے معاشرے میں لبِ اظہار پر تالے لگائے سہمی ہوئی خواتین کے کرب ناک مسائل کو عزیز جبران انصاری نے نہایت فنی مہارت سے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔

’’نوٹ چھاپنے کی مشین‘‘ نہایت عمدہ افسانہ ہے۔ اس افسانے کے مرکزی کردار کا نام ناظم ہے۔ ناظم دبئی میں محنت مزدوری کر کے معقول رقم با قاعدگی سے اپنی بیوی اور بچوں کو بھیجتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی اور بچے یہ کثیر رقم اللے تللے کرنے اور نمود و نمائش کی فضول خرچیوں میں اُڑا دیتے ہیں۔ طویل عرصہ دبئی میں قیام کے بعد جب ناظم مستقل قیام کے لیے واپس وطن لوٹتا ہے تو اپنی رقم کا حساب دریافت کرتا ہے۔ ناظم نے جو زر و مال بھیجا تھا وہ تو سب اس کی بیوی اور بچوں کی پر تعیش زندگی کی بھینٹ چڑھ گیا تھا اب وہ اپنی عیاشی اور اسراف کا حساب کیسے دیتے۔ احتساب کے خوف سے ناظم کی بیوی اور بچے ناظم کے قتل کی سازش کرتے ہیں مگر ناظم کو اس کی بھنک پڑ جاتی ہے۔ اپنے دِل میں اُمید کی شمع فروزاں کیے ناظم اپنے وطن پہنچا تھا مگر صبر و تحمل کی مشعل گُل کر کے اور اپنی جان بچا کر وہ دبے پاؤں گھر سے نکلا اور واپس دبئی چلا گیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ زندگی کی متصادم کیفیات ہی سعیِ پیہم کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔ زر و مال کی ہوس خون کے رشتوں کے اعتماد کو تہس نہس کر دیتی ہے۔

’’ہیں کواکب کچھ۔۔ .۔۔ .۔۔ .۔ ‘‘ اس افسانے میں درباروں اور گدی نشینوں کی زندگی کے پُر اسرار واقعات سے پردہ اُٹھایا گیا ہے۔ پس ماندہ علاقوں میں جہاں شرح خواندگی بہت کم ہے وہاں جعلی پیروں اور قبروں کے حریص مجاوروں کے ساتھ سادہ لوح لوگوں کی کورانہ تقلید کی اساس پر استوار اندھی عقیدت بھی ققنس کے مانند ہے جس کے انڈوں سے یاس و ہراس، قتل و غارت اور لُوٹ مار کے چُوزوں کے سوا کچھ بر آمد نہیں ہوتا۔

’’ادب کا خادم‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک جعلی ادیب کی ہئیت کذائی اس کی جگ ہنسائی کا سبب بن جاتی ہے۔ شاعرہ تمنا شہزاد کے شعری مجموعے ’’ہمیں اپنا بنا لو ناں ‘‘ کی اشاعت کے حوالے سے یہ افسانہ بہت معنی خیز ہے۔ ظاہر شیخ ایک جو فروش گندم نما درندہ ہے اور ادب کے خادم کے روپ میں حسین و جمیل دوشیزاؤں کو میلی نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہے۔ ایک نشست میں یہ گرگ اپنی مہمان شاعرہ تمنا

شہزاد کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے اس کی طرف بڑھتا ہے تو تمنا شہزاد اُس بے غیرت مُوذی پر پستول تان لیتی ہے۔ ادب کے نام نہاد خادم اور جنسی جنونی درندے کو اپنی اوقات معلوم ہو گئی۔ دکھاوا، جعل سازی اور ملمع سازی بھی عجب گُل کھلاتی ہے، معاشرے میں کرگس زادوں، سفید کوّوں، کالی بھیڑوں اور بگلا بھگت مسخروں کی فراوانی کسی بھی قوم کی فکری رفعت کے لیے بہت بُرا شگون ہے۔

’’ آ گہی کا عذاب‘‘ میں افراد کی زندگی پر علم نجوم کے اثرات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ وہ ستارے جو وسعتِ افلاک میں پیہم گردش میں رہتے ہیں، ان سے انسانی تقدیر اور مستقبل کے حالات کا انسلاک کرنا توہم پرستی ہے۔ اس افسانے میں علمِ نجوم کی پیش بینی کے شخصیت پر مرتب ہونے والے اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انسانی زندگی میں مسرتیں اور شادمانیاں گھنگھور گھٹا میں بجلی کی چمک کے مانند ہیں جو آناً فاناً غائب ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ چمک پُوری زندگی کو یادوں کی دائمی تابانی عطا کر کے کٹھن حالات میں بھی ستم کشِ سفر رہنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ توہم پرستی کے بجائے اللہ کریم پر توکل کو زادِ راہ بنانا چاہیے۔ افسانے میں یہ راز پنہاں ہے کہ یہ ضروری تو نہیں کہ انسان سدا ایام کا مرکب بنا رہے اور ہمیشہ مایوسیوں اور محرومیوں کے بے آب و گیاہ ریگستان میں ستم کش سفر رہے۔ وہ دِن دُور نہیں جب ظلم کی شب ڈھل جائے گی اور صعوبتوں کا سفر ختم ہو جائے گا اور دکھی انسانیت کے زخموں کا درماں ہو سکے گا۔

افسانہ ’’غلاظت ‘‘میں گھر سے بھاگے ہوئے نو عمر لڑکوں کے جنسی استحصال اور ہوٹلوں میں بیرا گیری پر مامور کم عمر لڑکوں کے ساتھ ہم جنس پرستی کے گھناؤنے جرم کوسامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانہ

’’شکار ‘‘میں مصنف نے نو عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی بد سلوکی کو موضوع بنا یا ہے اور متاثرہ بچوں کے والدین کو انصاف کی فراہمی میں انتظامیہ کی طرف سے پیدا کی جانے والی رکاوٹ پر گرفت کی ہے۔

عزیز جبران کی افسانہ نگاری میں دنیا داری کے تمام معاملات سمٹ آئے ہیں جن میں جنس و جنون، ہوس زر، دنیا داری اور لا دینی نظریات شامل ہیں۔ مغربی تہذیب کی یلغار نے معاشرتی زندگی کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ہے۔ امریکی نقاد ایڈورڈ سعید (Edward Wadie Said.1935-2003) نے لا دینت اور دنیا داری کے بارے میں لکھا ہے:

"Both of these notions allow us to take account not of eternally stable or supernaturally informed values, but rather of changing base for humanistic praxis regarding values and human life that are now fully upon us in the new century.” (1)

عزیز جبران انصاری کے اس افسانوی مجموعے میں شامل افسانے مشرقی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کی ایک سعی سمجھے جا سکتے ہیں۔ اس افسانوی مجموعے میں شامل ہر افسانے کا ایک الگ مزاج اور منفرد انداز ہے۔ ہر افسانے کے کردار اسی مزاج کے مطابق قاری سے ہم کلام ہو کر اپنی روداد بیان کرتے ہیں۔ تخلیق کار کو زبان و بیان پر جو خلاقانہ دسترس حاصل ہے اس کے اعجاز سے ان افسانوں میں ناول جیسی وسعت اور شاعری جیسی جاذبیت، رنگینی و رعنائی سما گئی ہے۔ ان ادب پاروں میں موضوعاتی تنوع، اسلوبیاتی حسن و دِل کشی، کردار نگاری کا سِحر، مظلوم انسانیت پر حالات کا قہر، مکالمات کی روانی، جذبات کی جو لانی اور دلچسپی کی فراوانی قاری کے لیے سوچ کا محور، تسکین قلب اور روحانی نشاط کے منابع ہیں۔ ان افسانوں میں ذہن و ذکاوت اور قلب و روح کیا تھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی کے انجذاب و انجماد سے استحصالی جبر کے مسلط کردہ حبس اور لُو کے موسم میں بھی جگر میں خنکی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ تخلیق کار کا کمال یہ ہے کہ آہ ہو یا واہ، عنوان ہو یا بیان، موضوع ہو یا مواد، مکالمہ ہو یا روداد اور داد ہو یا فریاد اظہار و ابلاغ کی ہر صورت قاری کے ذہن پر انمٹ نقوش ثبت کرتی ہے۔ یہ افسانے قابلِ مطالعہ واقعات سے لبریز ہیں جنھیں پڑھ کر قاری ہجومِ یاس میں دِل کو سنبھالنے اور ذات کی تنہائی کے کرب سے نجات حاصل کر کے بالائے بام آ کر باہر کے ماحول کو دیکھنے پر مائل ہوتا ہے۔ عزیز جبران انصاری نے حریتِ فکر و عمل کے مجاہد کی حیثیت سے اپنی تخلیقی فعالیت کے دوران معاشرتی زندگی کے تضادات، ہوس کے مارے انسانوں کے باہمی مناقشات اور سماجی بے اعتدالیوں کو موضوع بنا کر استحصالی عناصر کے مکر سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اپنا دِل تھام کر پُر نم آنکھوں سے معاشرتی زندگی کے تلخ اوقات کو دیکھنا، ان کے اسباب پر غور کرنا اوراس کے بعد انھیں پیرایۂ اظہار عطا کرنا اپنے لہو سے ہولی کھیلنے اور مصائب و آلام کے کالے کٹھن کوہسار اپنی جانِ نا تواں پر جھیلنے کے مترادف ہے۔ معاشرتی زندگی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں کے ذمے دار عناصر کے بارے میں کسی اشتباہ کی صورت میں ان افسانوں کا جری تخلیق کار چشم دید گواہ کے روپ میں اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کرتا ہے۔ اس افسانوی مجموعے کی اشاعت سے اردو ادب کی ثروت میں جو اضافہ ہوا ہے وہ پاکستانی ادبیات اور قومی تشخص کے لیے ایک اچھا شگون ہے۔

 

مآخذ

  1. Edward Wadie Said: Humanism and Democratic Criticism, Columbia University Press, New York,2004,Page 61

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے