بائیں پہلو کی پسلی ۔۔۔ احمد رشید

اس رنگ منچ پر ایک اور سانحہ رو نما ہوا یہ پہلا ہے نہ آخری۔ میری تخلیق اس بے مانند بے مثل ربّا کی منشا ہے اگر میری مرضی شامل ہوتی تو جسِد خاکی جو اشرف المخلوقات ہے کے بجائے میں زمین پر اُگا ہوا درخت خلق ہوتی جو میرے لئے باعثِ افتخار اس لئے ٔہوتا کہ انسان کی ضروریات زندگی میں مجھ ادنیٰ کی بھی حصّہ داری ہو جاتی پھر نہ تو دنیاوی آزمائش ہوتی نہ حساب و کتاب کی گنجائش اور عقوبت میں میزان سے نجات حاصل ہوتی۔ میں آفس سے آنے کے بعد آسودہ حال تھکن اوڑھ کر بستر پر دراز ہو گئی آنکھیں آہستہ آہستہ اپنے آپ بند ہونے لگیں لیکن نیند کی دیوی قید نہ ہو سکی۔۔ روشنی کی کشتی پر سوار خلا کے اس پار چاروں طرف پانی ہی پانی صرف پانی۔ ایک عجیب محیر العقول کائنات کا شاید آخری سرا عمودی سمت کی جانب۔
ایک غیبی ندا فضا میں گونجی ’’اگر نہ پیدا کرتا اے حبیب بر گزیدہ ہر آئینہ نہ پیدا کرتا میں آسمان و زمین اور ساری مخلوق‘‘
درمیان میں بے پناہ سکوت،اتھاہ خا موشی۔ چاروں طرف ہٗو کا سا عالم، فقط ہو۔ سلسلۂ وقت ٹوٹا ہوا۔ نہ صبح و شام، نہ شب و روز۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔
آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے قصّہ یوں ہے کہ پانی مخلوق ہوا۔ پانی سے ہر ایک جاندار چیز۔ زمین بنائی، زمیں کے اوپر پہاڑ قائم ہوئے ٔ۔ زمین میں برکت رکھی اور رہنے والوں کے لئے غذائیں بھی اس پر مقرر کر دیں۔
آسمان کے وجود میں آنے سے پہلے سارا خلا دھوئیں کی طرح تھا۔ پھر آسمان اور زمین کے ملاپ سے دنیا بسائی گئی آسمان سے سورج کی شعاعیں آئیں، گرمی پڑی، ہوائیں اٹھیں، اُن سے گرد اور بھاپ اوپر چڑھی، پھر پانی بن کر مینھ برسا، جس کی بدولت زمین سے طرح طرح کی چیزیں پیدا ہوئیں۔
اسی درمیان … ابو البشر کو منتخب کھنکتی ہوئی مٹی سے بنایا گیا
میری تخلیق باعثِ سکون وقرار اس لئے ہوئی کہ عالمِ تنہائی میں کوئی ہم جنس ابو البشر کا نہیں تھا۔ اور بے جفت بے حاجت ہی کی مرضی تھی کہ اُن کا جفت و ہمسر پیدا کرے جب وہ بے قرار اور بے سکون ہوئے، عالمِ تنہائی سے خوف زدہ ہوئے تو ان کو خواب میں ڈالا گیا وہ ایسے سوئے کہ نہ نیند آئی نہ بیدار ہوئے اس صورت میں ایک ہڈی بائیں پہلو سے اس طرح نکلوائی کہ اس سے اس کو درد و دالم نہ پہنچا اگر پہنچتا محبت عورتوں کی دلِ مردوں کے نہ ہوتی خیر ہوئی یہ دردِ تخلیق میرے سر جاتا… اس ہڈی سے مجھے بنایا۔ مجھ کو بنایا نیک روئی و ملاحت اور حسن و جمال۔ اس کو بخشیں زیرکی و شرم اور شفقت و کمال۔
میری خوبصورتی پھر عالم تنہائی اوپر سے پابندیِ حق ابو البشر بے چین ہو گئے۔ ابھی غمِ طاق ختم نہیں ہوا تھا اب غمِ جفت کا روگ لگ گیا۔
روشنی کی کشتی لنگر انداز تھی میں بستر پر دراز، آنکھیں بند تھیں، نہ نیند نہ بیداری، نیند آنکھوں سے بہت دور… میں خلاؤں سے بہت دور نکل چکی تھی… پانی بھی دور دور تک نہیں تھا۔ چاروں طرف نا قابلِ بیان خوبصورتی کا منظر تھا۔ اس درخت پر نظر گئی کہ جڑ اس درخت کی چاندی کی اور ڈالیاں سونے کی پتّیاں زبرجد سبز کی تھی۔ نہایت خوش وضع اور خوبصورت …
’’سبحان اللہ کیا خوبصورت درخت ہے؟ حس جمال پھڑکی
میں نے تجھے بخشا اُس درخت کو مگر اس سے میوہ مت کھانا کیونکہ تو مہمان ہے میرے گھر کا‘‘ غیب سے ندا آئی
’’اس درخت کے پاس جا‘‘ ایک آواز آئی
’’صبر کر‘‘ غیبی ندا
مجھ کج عقل کی مت ماری گئیِ۔ لالچ اور خواہش میں آ گئی … ایک عجیب تذبذب کا عالم تھا … ہاں اور نا کی کشمکش تھی… صبر اور خواہش کی اس جنگ میں صبر ہار گیا۔ شجرِ ممنوعہ کے کھانے کا انجام یہ ہوا کہ ستر کھُل گے ٔ۔ الزام میرے سر گیا۔
آخر کار مجھے اور ابو البشر کو اس اعلیٰ و ارفع مقام جہان بھوک، پیاس، بے ستری، دھوپ نہ تھی سے دار المعصیت و دار العداوت میں امتحان کے لئے پھینک دیا گیا… دوٗر … بہت دوٗر
’’آج بھی اُسی امتحان اور آزمائش سے گزر رہی ہوں‘‘ وہ بڑبڑائی… آنکھیں بند ہیں … نیند کوسوں دور ہے … نہ نیند ہے نہ عالمِ بیداری… نہ چین ہے نا بے چینی … آنکھیں پانی میں ڈوبی ہیں۔
دونوں بحالتِ ندامت و انفعال، گر یہ و زاری میں مصروف ہو گئے۔ ایک تو بے گھری کا غم دوسرے جدائی کا الم۔ ایک دوسرے کو پانے کی جستجو میں برسوں بیت گئے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کہ فاصلہ ختم ہی نہیں ہو تا۔ اگر فاصلہ مٹتا ہے تو طوفان کھڑا ہوتا ہے۔
چلتے چلتے فاصلہ ختم ہوا … دونوں ملے ایک دوسرے کی رودادِ غم سنی… سلسلۂ زندگی آگے بڑ ھا۔ جب میں بحسن و جمال بصورت اقلیما خلق ہوئی تو قابیل کے ہاتھوں ہا بیل کا پہلا قتل روئے ارض پر رو نما ہوا… وجہ قتل میرا جمال ہوا، الزام میرے سر ہوا… میں سوچتی ہوں اس میں میرا کیا قصور؟… میرا ’’غازہ‘‘ کی طرح بے جمال ہونا بھی میرے لئے وبال۔ میرا حسن و جمال شر کا استعارہ۔ میرا بے جمال ہونا باعثِ اذیت اور حقارت جبکہ نہ جمال میرا نہ بے جمال ہونے میں دخل میرا… میری تخلیق، گناہ اور بہکاوے کی دلیل جبکہ یہ سب کرشمۂ کاتبِ تقدیر، کمالِ عزّ و جل۔
مجھ ابلا ناری کی کہانی بھی عجیب و غریب ہے۔ مخالف جنس کا ذکر ہی کیا۔ زیادتی کے عمل میں ہم جنسوں نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ نند بھابی، ساس بہو، دیورانی جٹھانی، ماں بیٹی سب ایک دوسرے کے سا تھ پیکار میں مبتلا ہیں۔ چونکہ مرد، عورت کا عاشق ہوتا ہے اور جب عورت ناز و انداز کے ساتھ اپنے ہم جنسوں کے خلاف کان بھرتی ہے تو پھر ایک بڑا فساد رو نما ہوتا ہے۔ آج صبح ہی میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی تھی۔
’’رحم مادر میں قتل کرنے کی خواہش ماؤں میں زیادہ دیکھی جا رہی ہے۔ آج جدید دور میں رحم مادر میں اولاد کی جنس معلوم کر لی جاتی ہے۔ کلینک میں جنس معلوم کرنے کی اصل وجہ اسے ضائع کرنا ہے۔ لڑکیوں کی نا دانی یا کسی زیادتی سے حاملہ ہو جانے پر بد نامی کے ڈر اور خاندانی وقار کی وجہ سے حمل ضایع کروا دیا جاتا تھا۔ اب جہیز اور کنیا دان کی وجہ سے رحم مادر میں قتل کا سبب ہے۔ لڑکیوں کو خرچ اور لڑکوں کو آمدنی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے تعلق سے عدمِ تحفظ کا احساس والدین میں بڑھ رہا ہے کیوں کہ روز افزوں جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اس وحشت ناک عمل کی محض اس لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ اس سے انہیں زیادہ کمائی ہوتی ہے‘‘
آنکھیں بند ہیں، نیند کوسوں دور ہے … نہ نیند ہے نہ عالمِ بیداری… وہ خبر کا تجزیہ کرنے لگتی ہے …
: جدید دور میں تہذیبی انحطاط کا نام ’’ماں‘‘ ہے!
: ڈاکٹری زندگی کو موت کے مہنہ سے چھیننے کا پیشہ ہے لیکن ڈاکٹر موت کا دوسرا نام ہے۔
: لیڈی کے اندر جب ماں، بیٹی، بہن جیسے پاکیزہ رشتہ مرتے ہیں تب ڈاکٹر پیدا ہوتی ہے۔
: خاندانی وقار کی خاطر بیٹی کا اسقاطِ حمل ضروری ہے لیکن بیٹے کا ناجائز جنسی عمل باعث افتخار ہوتا ہے۔
: جہیز اور کنیا دان مرد کو ویشیہ کی طرح خریدنے کا ذریعہ ہے پھر بھی عورت غلام اور مرد ما لک و مختار ہوتا ہے!
: روز افزوں جنسی جرائم میں اضا فہ … یہاں مرد بھول جاتا ہے کہ وہ عورت جو ماں ہے اسی کے گندے خون سے پیدا ہوا ہے!
خبر کے تجزیہ کے دوران اسے یاد آیا چند سال پہلے اسی زمین پر مجھے بصورت چترا چتا میں زندہ جلا کر دھرم ادھیکاریوں نے اپنی تہذیبی عظمت میں چار چاند لگائے تھے۔ میرا قصور یہ تھا کہ میرا پتی مر گیا جیسے میں اپنی مرضی سے بیوہ ہو گئی۔ میرے پتی کو جینے کی تمنّا بہت زیا دہ تھی… میں سوچتی ہوں وہ بھگوان تھا تو پھر مرا کیوں؟… میرا پتی مرا اور سزا بھی مجھے ہی ملی … چلو اچھا ہوا پل پل جلنے سے ایک بار جل گئی قصّہ ختم ہوا۔ لیکن معاملہ جیون پر یم کا ہے۔ میں تو پتی کے پریم میں جل گئی… کیا میرا پتی، میرا سوامی، میری چتا میں جلتا؟ نہیں نہیں پتی دیو … نہیں … نہیں میرا سوامی … میں تو داسی ہوں … داسی بننا گوارہ … لیکن دیو داسی!؟… بچپن میں باپ کی ملکیت، جوانی میں شوہر کی، بیوگی میں اولاد کی مملوکہ… جبکہ آدھی زمین کی میں مالک اور آدھا آسمان میرا ہے پھر بھی میں کنگال!
آنکھیں بند ہیں۔ نیند کوسوں دور ہے۔ نہ عالم بیداری نہ عالم نیند۔ ذہن کے پٹ کھلے … اڑن طشتری پر سوار تمام عالم کی سیر
مجھے بصورت پانڈورہ (Pandora) تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا۔ اور جب ایفروڈایٹ (Aphrodite) یعنی کام دیوی کا روپ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تو میری پر ستش کا آغاز ہو گیا۔ ایک دیوتا کی بیوی ہوتے ہوئے تین مزید دیوتاؤں سے آشنائی کا چرچہ عام ہوا۔ میرے بطن سے کیوپڈ پیدا ہوا کہا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی دوست کی لگاوٹ کا نتیجہ ہے … میں دیوی تھی … میں دیوی ہوں۔
میں نے مذہبی پیشواؤں اور وقت کے حکمرانوں کے پیروں تلے اپنی زلفیں بچھا کر ان کو عزت دی پھر بھی انہوں نے فلورا نامی کھیل میں … اپنی دیوی کو بر سرِ عام برہنہ دوڑا کر رسوا کیا اور خود لطف اٹھا کر مجھے بد نام کیا۔ پتھر پڑ جائیں ان عقلوں پر میری (Mary) کو ایشور کا روپ دے کر عبا دت کرتے ہیں اور اس کے بیٹے کو صلیب پر لٹکا کر آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں۔ یہ کیسی عزت ہے؟ کہ مجھے گناہ کی ماں۔ ایک نا گزیر جدائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مر غوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر دلربائی… ایک آراستہ مصیبت کہا گیا۔ میری پیدائش شرمندگی کا باعث۔ اپنی جہالت کو غیرت اور خود داری کے دبیر پردے سے ڈھانکتے ہوے ٔ مجھے زندہ در گور کر کے فخر محسوس کیا گیا۔
’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی‘‘
وہ خوف کے مارے پسینہ پسینہ ہو گئی اُسی لمحہ آنکھیں کھل گئیں اور اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ باہر بجلی تڑکی اسے لگا دور کہیں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا ہو، آسمان نے گہرا سیاہ رنگ کا کمبل اوڑھ لیا تھا چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا کمرا سیاہی میں ڈوب گیا تھا۔ اس کی آنکھیں کوئلے کی چھت اور تاروں بھرے آسمان کا فرق محسوس کرنے لگیں کیونکہ آسمان اور چھت کا فرق مٹ گیا تھا۔
’’شاید لائٹ چلی گئی‘‘
اس نے موم بتّی جلائی … اندھیرے میں ہلکی سی روشنی بھی راہ نمائی کرتی ہے۔ وہ باتھ روم میں داخل ہوئی اور نل کھول کر بیٹھ گئی … اس کی تھکن مٹی کی طرح زائل ہونے لگی۔ اس نے نیلی جھیل چاندی کے بدن پہ لپیٹی اور آئینہ کے سا منے بیٹھ گئی جس میں اس کا عکسِ بدن دھندلا دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔ کنول جیسے چہرے پر پاؤڈر کی تہہ جمائی اور دونوں شعلوں پر غازہ لپیٹ کر اس کی دہک میں اضافہ کیا۔ اپنی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں جھانک کر خود شرما گئی اور اپنے آپ میں سمٹنا شروع کر دیا۔
اچانک لائٹ آ گئی چاروں طرف خوشبو میں ڈوبی ہوئی روشنی پھیل گئی۔ اس کے اوپر سحر سا طاری ہو گیا۔ بستر پر دراز ہو گئیِ… ہلکا ہلکا نیند کا خمار طاری ہونے لگا… وہ خواب کی باہوں میں چلی گئی… چہار جوانب دھواں دھواں … اندھیرا ہی اندھیرا … خواب، دھواں اندھیرا… خوابوں کی کشتی پر سوار، چاند کے اس پار، اس کا سفر جاری ہو گیا گھپ اندھیرا جیسے بحرِ ظلمات نے اپنے پر پھیلا دئے ہوں … پوری کائنات اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔
اچانک صبح صادق کی مانند ایک نوٗر چمکا آسمان پر گیا اور زمین پر روشنی کی طرح پھیل گیا۔ سارا عالم بوئے مشک و عنبر و عوٗد میں ڈوب گیا۔ عالم تجردّی میں ہزاروں برس تسبیح و تہلیل میں مصروف رہا بعدہ اس نور نے عالمِ خلوت سے عالمِ صورت اختیار کی اور فرمایا ’’میں پیدا ہوا ہوں نور کل سے اور میرے نور سے ساری مخلوق‘‘
پو ری کائنات بقعہ نور بن گئی، چہار سمت انوار کی بارش ہونے لگی مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب بس نور ہی نور از بس سارا عالم بحرِ نور میں ڈوب گیا ایک ابر کا ٹکڑا نورِ مجسّم پر سایہ بن گیا اور وہ نورِ مجسّم سارے عالم پر سا یہ بن گیا۔ جب نورانی آنکھوں نے سارے عالم پر طائرانہ نظر ڈالی تو آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔ ہر جانب افراتفری کا عالم تھا۔ ظلم و ستم کی آندھی زوروں پر تھی… زمین خاک و خون سے آلوٗد ہو رہی تھی… آسمان سسک رہا تھا۔
میری بد حالی کی داستاں یہ تھی کہ میری پیدائش کی خبر سنتے ہی چہرے پر کلونس چھا جاتی شرم کا داغ لگنے سے میرا ہی خون منہ چھپاتا پھرتا اور سوچتا ذلّت کے ساتھ رہے یا ذلّت کو مٹی میں دبا دے۔
اس نے فرمایا ’’وہ گھر جنت جیسا خوبصورت ہے جس میں لڑکیاں ہوتی ہیں اور لڑکیاں اس کے لئے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی‘‘
اس طرح ظلم و بربریت سے نجات دلا کر ہمیں عزت و وقعت دلائی۔ قانونِ فطرت کی روشنی میں مکمل ضابطۂ حیات ترتیب دیا اور کائنات میں غایت درجہ کا اعتدال و توازن کا اجالا بکھیر دیا۔ جس میں فطرتِ انسانی کے مخفی پہلو اس کی جسمانی ساخت، حیوانی جبلت اور انسانی سرشت کا پورا پورا دھیان رکھا۔
اچانک وہ خواب سے بیدار ہوئی چاروں طرف نظر دوڑائی کمرا روشنی اور خوشبو میں ڈوبا ہوا ہے، آنکھیں ایسی چکا چوند ہوئیں کہ ’’بس ایک جھماکا روشنی کا لے گیا آنکھیں میری‘‘ … یہ کیسی نئی روشنی ہے کہ دکھائی نہیں دیتا؟… یہ کیسی بیداری ہے کہ نیند نہیں ٹوٹتی؟ … گھڑی پر نظر گئی۔ ’’ابھی آٹھ بجے ہیں‘‘ ۔ وقت کبھی نہیں رُکتا … لیکن شاید رفتار سست ہو گئی ہے … بار بار تانگہ کی طرح پیچھے کو لوٹتا ہے۔ ٹیبل پر رکھے اخبار کی ایک سرخی پر اس کی نظر گئی ’’عورت قید و بند، پابندی اور رکاوٹ سے آزاد‘‘ کسی امریکن مصنفہ کا بیان
وہ سوچتی ہے لیکن حقیقی عورت کو کیا ملا؟ اگر ملا ہے تو مرد بن کر ملا، عورت کی حیثیت سے آج بھی ویسی ہی ذلیل ہے۔ عزت اگر ہے تو اس مردِ مؤنث یا زنِ مذّکر کے لئے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت، مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو۔
’’عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے، حالانکہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرِ عام آنے کا خیال بھی نہیں کر سکتا‘‘ اچانک اس کے منہ سے نکلا وہ زیرِ لب مسکرائی دیوار کے کلینڈر پر بنی ہوئی تصویر پر اس کی نظر گئی مرد و عورت نیم برہنہ بوس و کنار میں مصروف نظر آئے۔
اسے خیال آیا فاطِر السمٰوٰتِ و الارض نے جوڑے بنائے تاکہ ان کے پاس سکون حاصل کرو… وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو‘‘
وہ سوال کرتی ہے کیا یہ جسمانی ربط ہے، دل کا لگاؤ یا روحوں کے اتصال کا تعلق ہے‘‘
مختلف سوالوں سے الجھتے ہوئے … وہ پلنگ سے اٹھی … کھڑکی کے پٹ کھولے، ہلکی سی ہوا کا سرد جھونکا اندر داخل ہوا … باہر چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا، سڑک موٹر گاڑیوں اور اسکوٹروں کے بے ہنگم شور میں ڈوبی ہوئی گاڑیاں کہاں جا رہی ہیں؟… پتہ نہیں … ایک سفر ہے بے منزل سفر… کبھی اندھیرا، کبھی روشنی … اندھیرے کا سفر … اندھیرے سے اندھیرے تک کا سفر … ماں کے پیٹ سے زمین کے پیٹ تک اندھیرے کا سفر… وہ ماں اور زمین کے فرق کو جاننے میں مصروف ہو گئی۔ جس طرح کھیت میں کسان کا کام محض بیج بونا ہی نہیں اس کو پانی دینا، کھاد مہیا کرنا، اس کی صیانت کرنا بھی ضروری ہے … پھر کسان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ انتظار کرے اس کی پیداوار کا … یہ ذمہ داری ہے اس کی پرورش اور اس کی رکھوالی کا پورا بار سنبھالے … وہ کھڑکی سے آہستہ آہستہ پلنگ پر آ گئی… اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی
معمول کے مطابق صبح کا اٹھنا… سر پر شور اٹھائے سڑک پر دوڑنا… کیو لگانا… انتظار کرنا… بس کا چلنا… دھوئیں کا لباس پہننا … آفس کی کٹ کٹ بوس کی ڈانٹ ایک کڑوے گھونٹ کی طرح پینا… یہ غلامی ہے یا آزادی؟ … وہ سوچ نہیں پا رہی کیا اخبار کی خبر غلط ہے؟۔ میں کونسی صبح کی منتظر ہوں، پھر وہی اُکتا دینے والی زندگی کا مرکز … دائرہ کا ایک نقطہ… کیا میں قیدی ہوں؟… حالانکہ فعل اور انفعال دونوں ہی اس کارخانۂ حیات و کائنات کو چلانے کے لئے یکساں ضروری ہیں … ایک شے تاثیر دوسری شے تاثر ہوتا ہے لیکن میری زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے … روز تھکی ماندی آفس سے لوٹنا… سر سے پاؤں تک تھکن دھونا… انتظار کرنا وہ آئے گا… اس کے ساتھ گھومنا… کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھنا… چائے پینا گھر لوٹنا ہر روز یہی معمول… مجھے کس کا انتظار ہے؟… یہ سلسلہ روزِ ازل سے آج بھی جاری ہے کہ فاصلہ ختم ہی نہیں ہوتا… اگر فاصلہ مٹتا ہے تو پھر کوئی نیا طوفان کھڑا ہوتا ہے … یہ انتظار ہے یا نارِجہنم… چاروں طرف آگ ہی آگ۔ اس میں نہ جلتا ہے نہ محفوظ رہتا ہے … نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے … آگ نہ ہوئی میرا مقدر ہو گئی… پھر وہی قید… حبسِ دوام کی سزا جو پانچ سال پہلے میں نے مختار کے ساتھ قبول کی تھی… وہ مختار تھا … میں مجبور… وہ حاکم تھا اور میں محکوم… وہ بھگوان تھا اور میں داسی… وہ میری مرضی تھا۔ تعلیمی دور میں، آرزوئیں اور تمنائیں تھیں … منزل پانے کی جستجو… میرے جاگتے خوابوں میں وہ داخل ہوا اور میری زندگی پر چھا گیا۔
جب اجلی دھوپ نے اپنے پر سیمنٹ لئے تو سورج کا قتل ہوا اور سرخ سرخ خون دوٗر مغرب تک پھیل گیا … مقتول سورج کا عکس بوند بوند جھیل میں ٹپک رہا تھا۔ میں اس کے ایک کنارے پر مختار کے گرم آغوش کے سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ اس وقت میرا اپنا وجود کچھ بھی نہ تھا ایک ایسا رقیق مادّہ جو جس برتن میں گرتا ہے ویسی ہی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ موسم بڑا خوشگوار تھا، چاروں طرف سبزہ اگا ہوا تھا، سرمئی اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا… فضا پر مسرت تھی، خُنک ہوا سبک خرام تھی… دوش پر میرے گیسو محو رقص تھے۔
’’ایسا لگتا ہے شفق پر سرمئی چادر چھا رہی ہے‘‘ مختار نے میرے چہرے پر پڑی ہوئی زلفیں ہٹاتے ہوئے کہا
’’ہاں اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے‘‘
’’محسوس میں بھی کر رہا ہوں … چلو اس اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کر لیں‘‘ مختار نے اپنی باہوں کے دائرہ کو تنگ کیا۔
’’کیسے؟‘‘
’’تمہیں قیدی بنا کر‘‘
’’مجھے بھی تنہائی سے رہائی مل جائے گی‘‘
اور میں قید ہو گئی… ہر روز کی طرح سورج کا نکلنا… صبح کے معمولات سے فراغت حاصل کرنا… آفس چلے جانا… گھر واپس ہونا… پھر اپنی اپنی تھکن کو چائے کے ساتھ نگلنا… شام کا مختصر کھانا لینا… تھوڑی دیر بازار میں چہل قدمی کرنا… کبھی کبھی کوئی اچھی فلم کا دونوں کا ایک ساتھ دیکھنا… میں نے نوکری کے ساتھ ساتھ ایک ہاؤس وائف کی تقریباً سب ہی ذمہ داریاں اوڑھ لی تھیں … حالات اور مصروفیات میں، میری پوری حصّہ داری تھی… لیکن میں مختار کی حصّہ داری ڈھونڈنے لگی۔ یہیں سے عورت کی زندگی میں انتشار شروع ہوتا ہے اور بگاڑ تک نوبت آ جاتی ہے۔ کچھ دن کے بعد زندگی کے معمولات میں فرق پڑنے لگا جو میری امیدوں کے خلاف تھا… زندگی سکڑ کر بہت مختصر ہو گئی تھی۔ نوکری کے بعد مجھے صرف گھر دیکھنا تھا اور مختار آزاد تھا، گھریلو زندگی سے اسے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اکثر اکیلے ٹہلنے نکل جانا، تھک ہار کر سو جانا چونکہ میں عورت ہوں اسی لئے میری پابندیاں زیادہ ہیں ایسا وہ سوچتا تھا۔ صدیوں کی مظلومی و محکومی نے عورت کے ذہن سے عزّت نفس کا احساس مٹا دیا تھا اور میں بھی اس امر کو بھول گئی تھی کہ میرا بھی کوئی حق ہے، عورت کا کوئی مقام بھی ہے۔ مجھے سب کچھ برداشت تھا لیکن دیر رات گئے گھر لوٹنا پسند نہیں تھا۔
’’میں تمہارا انتظار کرتی رہتی ہوں، اور تم آوارہ گردی کرتے ہو‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘
’’مطلب صاف ہے، تم اوٗب گئے ہو مجھ سے‘‘
میں خاموش ہو گئی، کمرے میں سکوت طاری تھا… وہ بھی بستر پر لیٹ گیا۔ بیڈ شیٹ پر پڑی ہوئی لکیر جو ہم دونوں کے درمیان ابھر آئی تھی وہ اس وقت اور گہری ہو گئی جب میں نے بائیں جانب کروٹ لی اور اپنی آنکھیں بند کئے خاموشی سے لیٹ گئی… کمرے کی کفن پوش دیواروں پر رات کی سیاہی گہری ہو رہی تھی اور سناٹے میں ڈوبی ہوئی تمام آوازیں لاش کی طرح تابوت میں قید ہو گئی تھیں … میں مسہری سے کمر لگا کر بیٹھ گئی… دیوار پر ٹنگے کلینڈر پر نظر گئی … جسم نے آشنا سی لذت محسوس کی، کبھی برف کی پرتیں اس کی انگلیوں کے گرم گرم لمسں سے پگھلی تھی… وہ رات بڑی حسین تھی، حسین رات رنگین بھی ہوتی ہے … نرم بستر پر گلاب کی پنکھڑیاں بکھری تھیں، ماحول معطر تھا میں مختار کے آغوش میں سمٹ گئی تھی آنکھیں بے نام بے خودی کے عالم میں دور کہیں سفر میں نکل گئیں … چھوٹا سا کمرہ یاقوت اور زمرد کے بنے محل میں تبدیل ہو گیا… بیلا۔ چمیلی اور گلاب کی مہک سے فضا معطر تھی… پشت پر نہر گنگنا رہی تھی… جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا، شہد سے زیادہ میٹھا تھا… پرندے آسماں پر چہچہا رہے تھے۔ ہوا نہ سرد تھی، نہ گرم ایک عجیب مستی بھرا ماحول تھا… نہ مرنے کا غم تھا اور نہ جینے کی چنتا… تمنّا آرزو اور امیدوں سے لبریز کائنات تھی۔ خواب آور زندگی تھی۔ خوبصورت اجلی راتیں دن کی طرح روشن… دن رنگین رات کی طرح حسین۔ خوشبو، رنگ اور پریم میں ڈوبا ہوا سارا عالم تھا۔ چند لمحوں کے لئے میں صدیوں کی غلامی بھول گئی تھی… میں بھول گئی تھی کہ میں عورت ہوں صرف اتنا یاد رہ گیا تھا… کہ میں معشوقہ ہوں … ایک محبوبہ ہوں … دل کی رانی ہوں جس پر میری حکمرانی ہے اور مرد میری سلطنت ہے اگر حکم کروں تو ستاروں سے میرا دامن بھر دے جب عورت ایسے بے مہار طوفان میں بہتی ہے تو یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ مرد ایک ٹھوس مادہ ہوتا ہے جس کی اپنی صورت اور اپنا ایک جحم ہوتا ہے جو ٹوٹ کر ناقابل تقسیم جُزبن کر ایٹم کی طرح خطرناک ہو جاتا ہے۔ میں نے پہلو بدلا برابر میں مختار دنیا و ما فیھا سے بے خبر سو رہا تھا… جو میرے ایک ایک لمس کو چاٹتا تھا
’’تم شاعری سے زیادہ حسین اور لذّت آفریں ہو‘‘
’’غزل پڑھنے لگے‘‘
’’غزل محبوب کی پیکر تراش ہوتی ہے۔ لیکن تم تصّوراتی حقیقت ہو‘‘
اس وقت ہم جھیل میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے … کائنات اپنے محور پر گھوم رہی تھی۔ آسمان کے گرد زمین چکر لگاتی ہے مگر لگتا ہے کہ آسمان گھوم رہا ہے۔ اچانک ہوا کے چلنے سے کھڑکی کے پٹ کھلے اور کلینڈر کھڑ کھڑ انے لگا جیسے ساعتوں کی گنتی کر رہا ہے۔
’’زندگی کے لئے ذہنی ملاپ کے ساتھ ساتھ جسمانی ہم آہنگی بھی ضروری ہے‘‘
’’تم مرد لوگ جسم کے آگے کچھ نہیں سوچ سکتے‘‘
میں نے ذہنی ملاپ کو بنیادی شرط کہا ہے‘‘
شاید یہی اختلاف رائے ہماری محبت کی بنیاد بنا تھا اور دوستی کا رشتہ رفتہ رفتہ محبت کے رشتہ سے ہم کنار ہونے لگا جہاں مرد اور عورت ایک دوسرے سے ضرب ہو کر ایک عدد بن جاتے ہیں …
اچانک کلینڈر کھڑکھڑانے لگا… میں نے چونک کر دیکھا… مختار گہری نیند میں سویا ہوا ہے۔ چین کی نیند وہی سوتے ہیں جو بے غم ہوتے ہیں …
معمول کے مطابق صبح ہوتی… مختار بیڈ ٹی کے درمیان اخبار پڑھتا… ’’عراق تباہ ہوا‘‘ ، ’’افغانستان برباد ہوا‘‘ جب جب دنیا میں طاقت کا توازن بگڑے گا تباہی بربادی آئے گی… ایک طاقت دوسری طاقت سے ڈرتی ہے اس کی عزت کرتی ہے توازن برقرار رہتا ہے۔
’’میں محسوس کر رہی ہوں، ہم دونوں کے درمیان سے محبت زائل ہو رہی ہے‘‘
’’تم کیسے کہہ سکتی ہو‘‘ آنکھوں کے نیچے سے اخبار ہٹاتے ہوئے
’’مجھے ایسا لگتا ہے‘‘
’’یہ تمہارا وہم ہے‘‘
’’اور آپ کیا سوچتے ہیں‘‘؟
’’در اصل جب ہم دونوں ایک دوسرے کو پانے کی جستجو میں تھے … تو ملنے کے لئے ہر لمحہ بے چین رہتے تھے اور ان لمحوں کی ملاقات کو قیمتی بنانے کے لئے ہمیں انتظار کرنا پڑتا تھا… میں اکثر آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر ہر زاویہ سے اپنے بال سنوارتا، شیو بناتا، خوشبو لگاتا تھا۔ لیکن اب وہ نہ انتظار کی کیفیت ہے اور نا ہی وصل کی لذت!
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اکثر نو محبت کی شروعات کریں … ملاقات کے سلسلے قائم کریں … محبت کی باتیں کریں … سیر و تفریح کریں … ریسٹورنٹ جائیں …
’’کیا تم پاگل ہو گئی ہو… میں گھبرا گئی ہوں ان معمولات سے … زندگی کتنی تنگ ہو گئی ہے۔ آفس اور گھر کے درمیان میں!… ایسا لگتا ہے ازدواجی زندگی درمیان سے غائب ہو گئی ہے … مرد پورے طور سے مکمل اور عورت ادھوری ہو گئی ہے … یا بیچ میں کہیں مر گئی ہے‘‘
ہم دونوں کے درمیان دراڑ پڑ گئی نہ ٹوٹنے والی۔ وہ اس وقت اور گہری ہو گئی کہ مختار راتوں کو غائب رہنے لگا… دیر سے گھر لوٹنا اس کا معمول بن گیا … میرے اعتراضات بے معنی ہو کر رہ گئے۔
ہر جوڑ کا آخری نتیجہ توڑ ہوتا ہے۔ ایک دن میں نے علیحدگی اختیار کر کے رہائی حاصل کر لی… وہ لمحہ اس قدر قیمتی تھا کہ صدیوں کے قیدی پکھیرو کو فضا میں چھوڑ کر آزاد کر دیا گیا ہو۔
رات کا اندھیرا کافی گہرا ہو گیا تھا … اس اندھیرے پر خاموشی کا سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا… وہ پلنگ پر سر پکڑے بیٹھی تھی… باہر سڑک پر موٹر گاڑیاں دوڑ رہی تھیں … کبھی روشنی کبھی اندھیرا… مجھے کس کا انتظار ہے؟… کیوں انتظار ہے؟ پھر وہی… رہائی اور قید کا سلسلہ… ٹیبل پر رکھے اخبار کو اٹھا لیا …
’’عرب بہاریہ‘‘ جلی خبر… لبنان میں انقلاب… شام میں انقلاب کی دھمک… اخبار کو اس نے ٹیبل پر رکھ دیا … گھڑی پر نظر گئی دس بج رہے تھے، اس کے چہرے سے اکتاہٹ اور کراہیت کے آثار نمایاں ہو رہے تھے … اچانک کواڑ کی چُر… چُر… ر… ر سے وہ چونک گئی… سامنے شاہین کھڑا مسکرا رہا تھا۔
’’معاف کرنا… میں لیٹ ہو گیا‘‘ شاہین نے شرمندگی کا احساس کیا
’’اچھا ہوا، آپ لیٹ ہو گئے …
’’تمہیں انتظار گراں خاطر گزرا ہو گا… لیکن اب نہیں گزرے گا‘‘ اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
’’میں بھی یہی چاہتی ہوں، اب نہ گزرے‘‘ کڑوا گھونٹ نگلا
’’حبسِ دوام کی سزا دینے کے لئے ابّا راضی ہو گئے ہیں‘‘ شاہین نے مسکراتے ہوئے باہوں میں سمیٹنے کی کوشش کی
’’یہ سزا کا سلسلہ کب تک چلے گا؟‘‘ پیچھے ہٹتے ہوئے … نہیں … نہیں شاہین مجھے معاف کر دو… معاف… اب مجھے کوئی سزا نہیں چاہئے … مجھے … مجھے رہائی چاہئے مجھے انتظار ہے ایک ایسی قوت کا جو رات کی ظلمت کو پھاڑ کر صبح کی روشنی نمودار کر دے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے