اردو قارئین کے لیے گراں قدر تحفہ
محمد مجاہد سید
مشرقی و مغربی ادبیات پر گہری نظر رکھنے کے سبب جب شمس الرحمان فاروقی غالب کے مقام کا تعین کرتے ہیں تو لائن و برائن کا سائنٹفک انداز ساتھ ہی ساتھ ان کی مشرقی اقدار سے دل چسپی اور ہمدردی بھی نہایت متاثر کن اور مسحور کن ہوتی ہے۔
غالب کے چند پہلو شمس الرحمان فاروقی کی یہ مختصر سی کتاب غالب سے متعلق ان تنقیدی مضامین پر مبنی ہے جو 1984 سے 1998 کے درمیان ’’فرمائش یا مجبوری‘‘ کے تحت لکھے گے ہیں۔ مصنف کے اعتذار کے باوجود ان مضامین کو غالب کا جدید تعارف کہا جا سکتا ہے۔ ان کو اندازہ ہے کہ غالب پر کچھ نئی بات کہنا اب نہایت دشوار ہو گیا ہے کیوں کہ برصغیر میں غالب کی شخصیت اور شاعری پر کافی حد تک کام ہو چکا ہے لیکن اس کتاب کے مطالعے کے بعد کہنا پڑتا ہے کہ شمس الرحمان فاروقی کی فکر رسا نے ان مختصر مضامین میں انوکھے انداز سے غالب کا تعارف کروایا ہے جس سے کتاب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
شمس الرحمان فاروقی نے غالب کے مطالعے کے لیے مشرقی اور مغربی طرزِ تنقید کو اپناتے ہوئے کلاسیکی تنقید سے سائنٹفک تنقید کے زمانے تک غالب کی اہمیت و مقام کی جانب اشارہ کیا ہے۔ نوآبادیاتی ذہن اور تہذیبی بحران کے ذیلی عنوان سے وہ غالب کے ذہن کا بڑا سائنٹفک جائزہ لیتے ہیں۔ ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
غالب جیسے ذہنوں کو جو پرانی تہذیب کے پاس دار تھے لیکن جنھیں بدلتی ہوئی دنیا کا احساس بھی تھا، وجود کی سطح پر یہ خوف اور شک پیدا ہوا کہ اشیا اور حقائق کیا واقعی ویسے ہی ہیں جیسے کہ ان بزرگوں کے تصورِ کائنات میں تھے یا اشیا اور حقائق کچھ اور ہیں ؟ یا اگر وہ کچھ اور نہیں تو کیا ان کو دیکھنے کے طریقے کچھ اور بھی ہیں اور یہ طریقے سے مختلف ہیں جو انھوں نے اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اپنے تہذیبی شعور سے حاصل کیے ہیں ؟
شمس الرحمان فاروقی اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تہذیبی بحران، زمانے پر تصوف و فلسفے کے اثرات، مغربی تہذیب کے نوآبادیات پر اثر، غالب کا انیسویں صدی کے تہذیبی بحران سے گزر کر استہفامیہ شاعری کرنا اور مشرقی ذہن میں پیدا ہونے والی اتھل پتھل اور تبدیلی، مشرقی شاعری خصوصاً اردو غزل کا اس بحران سے متاثر ہونا اور اس بحران کا غالب کے سوالیہ اشعار میں جھلکنا، سب امور پر بڑے دل نشین انداز میں گفتگو کی ہے۔ موصوف نہایت کثیر المطالعہ ہیں۔ اس خوبی کے سبب ان مضامین میں انھوں نے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اتر کر گفتگو کی ہے۔ ایجاز و اختصار ان کے مضامین میں حجابات کے بجائے روشن اشارے ثابت ہو کر قاری کے ذہن میں ہلچل پیدا کرتے ہیں۔ درجِ ذیل اقتباس ان کی غالب شناسی پر دلالت کرتا ہے:
’’یہ بات ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ مشرقی شعریات، مشرقی تہذیب اور مشرقی نظریہ ٔ کائنات سے پوری ہمدردی اور واقفیت کے بغیر غالب کا مطالعہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ غالب ہمارے پہلے بڑے جدید شاعر اور آخری بڑے کلاسیکی شاعر ہیں۔ غالب کے بارے میں بہت لکھا گیا ہے لیکن ان کا حق ادا ہونا اس وقت شروع ہو گا جب انھیں کلاسیکی اور جدید دونوں تصورات کی روشنی میں بہ یک وقت پڑھا جائے۔ ‘‘
شمس الرحمان فاروقی نے اٹھارویں صدی کے ہندوستان میں فارسی شناسی، لغت نگاری اور فارسی زبان میں تخلیقی کام کے سن بلوغ پر پہنچنے کی جانب بھی خوب اشارہ کیا ہے اور انیسویں صدی میں فارسی کے عمومی زوال میں انگریزوں کے حصے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں غالب کی فارسی گویوں کی اعتبار شکنی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انھوں نے بڑی خوبی سے اس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے کہ غالب کے ہندوستانی فارسی گویوں کو فارسی کے معتبر نہ ماننے سے جہاں قدیم ہندوستانی فارسی گویوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا وہیں ہندوستانی فارسی گویوں کو اعتبار شکنی سے خود غالب بھی ہندوستانی فارسی ادبیات و شعر میں غیر معتبر ٹھہرے۔
ہندوستانی اور ایرانی فارسی کی بحث میں شمس صاحب غالب کے مختلف خطوط کے حوالہ جات دے کر کامیابی سے ثابت کر دیتے ہیں کہ غالب کی ہندوستانی فارسی گویوں کی اعتبار شکنی کی مہم ان کی ’’زبان کے حرکی عمل سے بے خبری‘‘ کے باعث تھی۔ انھوں نے غالب کے عہد پر گفتگو کرتے ہوئے اس امر کی جانب بھی نہایت مدلل انداز میں اشارہ کیا ہے کہ 1857ء کے بعد ہندی مسلم ادب و ثقافت کے خلاف انگریزوں کا تعصب حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا اور خود ہندوستانیوں کے دل میں اپنے خلاف نفرت اور اپنی اقدار کے بارے میں شک و شبہ پیدا ہو چکا تھا۔
خواجہ الطاف حسین حالی کے کارنامے کا بیان کرتے ہوئے وہ اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ بہر طور حالی نے ہندوستانی فارسی گویوں اور خاص کر غالب کی تنقید کو ایران پرستی کے اس قلادے سے نجات دلائی جو انیسویں صدی سے اور خود غالب سے انھیں ورثے میں ملا تھا۔ حالی اور عبدالرحمان بجنوری کی نئی تنقید سے نقصان کے ساتھ غالب کو یہ فائدہ ہوا کہ انھیں مغربی شاعر کی طرح پڑھا جانے لگا۔
اردو تنقید کی مغرب زدگی اور احساس کم تری کی جانب متعدد اشارات کرتے ہوئے مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ جدید معاشرے میں شاعر ایک کارآمد فرد اور لفظوں کے صنائع کا درجہ رکھتا ہے۔ انھوں نے اردو تنقید کے ارتقا اور یوروپی زبانوں میں اردو غزل کی شعریات پر بھی بڑے وقیع انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب 108 صفحات پر مشتمل ہے۔ جناب جمیل الدین عالی کی توجہ اور اصرار کے باعث انجمن ترقی اردو پاکستان نے اسے شائع کر کے قارئین ِ اردو کو ایک گراں قدر تحفہ دیا ہے۔
٭٭٭