شادؔ عارفی۔۔ سوانح حیات
ڈاکٹر مظفر حنفی
انیسویں صدی میں رام پور کامدرسۃالعالیہ ایک مستند مدرسہ تھا جس میں مولوی فضل حق جیسے اساتذہ موجود تھے۔ افغانستان کے علاقہ یاغستان کے قبیلہ ڈوڈال اور زّڑ سے تعلق رکھنے والے خان سیّد ولی خاں اور بعد ازاں انھیں کے توسط سے اُن کے عزیز خان محمد عارف اللہ خاں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے رام پور آئے۔ مدرسۃ العالیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سیّدولی خان کو اسی مدرسہ میں منطق اور فلسفہ کے مدرس کی حیثیت سے ملازمت مل گئی اور رام پور کے مشہور پٹھان عثمان خاں رزّڑ نے اپنی بیٹی کا نکاح اُن کے ساتھ کر دیا۔ عارف اللہ بھی مدرسۃالعالیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ولی خان کے ساتھ رام پور میں ہی مقیم ر ہے۔ اُسی زمانے میں نواب علاء الدین خاں ، والی ریاست لوہارو، رام پور آئے اور اپنے ولی عہد کے لیے ایک مولوی کی فرمائش کی۔ نواب کلب علی خاں حکمرانِ رام پور نے سیّد ولی خاں کی سفارش کی اور نواب علاؤ الدین احمد خان انھیں اپنے ہمراہ لوہارو لے گئے جہاں وہ نواب لوہارو کے بچَوں کے اتالیق اور پھر قاضی شہر کے منصب پر فائز رہے۔ عارف اللہ خاں بھی ولی خاں کے ساتھ گئے اور لوہارو میں تھانیدار کی حیثیت سے اُن کا تقرر بھی ہو گیا۔ آگے چل کر خان سیّد ولی خان نے اپنی بڑی صاحبزادی خورشید بیگم کا عقد عارف اللہ خاں کے ساتھ کر دیا۔
ریاست لوہارو میں عارف اللہ خان اور خورشید بیگم کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے۔ سیّد احمد خاں ، سعید اللہ خاں اور احمد علی خاں عرف لڈّن۔ ان میں سے آخر الذکر اُردو ادب کے شادؔ تھے، جو والد کے نام کی رعایت سے خود کو شاد عارفی لکھتے تھے۔ عبادتؔ بریلوی اُن کا سنہ پیدائش ۱۹۰۶ء بیان کرتے ہیں اور خلیل الرحمن اعظمی نے ۱۹۰۱ء لکھا ہے لیکن ہر دو حضرات کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
شادؔ کی تاریخِ پیدائش کہیں دستیاب نہیں ہو سکی۔ سنہ پیدائش کے بارے میں بھی اُن کے اپنے بیانات متضاد ہیں ۔ بعض مقامات پر اپنی والدہ کے حوالے سے ۱۹۰۳ء کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ زیادہ بوڑھا ہونا کوئی پسند نہیں کرتا۔ اور کہیں اپنے والد کے بیان کردہ سنِ پیدائش ۱۹۰۰ء کا حوالہ دیتے ہیں ۔ میری تحقیق کے مطابق،جو رام پور میں اُن کے اعزّا اور بچپن کے دوستوں کی تصدیق پر مبنی ہے، اُن کا سنہ پیدائش ۱۹۰۰ء ہے۔ خود شادؔ عارفی نے جہاں ۱۹۰۳ء کا ذکر کیا ہے وہاں والدہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ زیادہ بوڑھا ہونا پسند نہیں کرتے اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خواتین اپنی اور اپنے بچّوں کی عمریں گھٹا کر بتانے کی عادی ہوتی ہیں ۔ ۱۹۰۰ء کی تائید میں شادؔ کا ایک شعر بھی ملتا ہے:
زہے قسمت تریسٹھ سال کا ہو کر کہا میں نے
نومبر ۶۳ میں وصیؔ اقبال کا سہرا
اور نومبر ۱۹۶۲ء کے ایک خط میں رقمطراز ہیں :
’’ اس وقت میری عمر ۶۲ سال ہے۔ ۱۹۰۰ء میری پیدائش ہے اس لیے سنہ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں ۔
شادؔ عارفی کی ایک عزیزہ طاہرہ اختر نے بھی اپنے مضمون ’’ شادؔ عارفی‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے تھے نیز اپنے والد کی پنشن (۱۹۰۹ء) کے وقت اُن کی عمر نو سال تھی۔ وصی اقبالؔ کے مضمون ’’ شادؔ عارفی سے ایک ملاقات‘‘ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے عشق کا حادثہ شادؔ کو تیرہ برس کی عمر میں پیش آیا۔ اس عشق کے سلسلے میں اُن کے خاصے جذباتی ہونے کی شہادتیں ملتی ہیں ۔ بیسویں صدی کے تیرہ سال کے لڑکے سے ایسے سنجیدہ عشق کی توقع نہیں کی جا سکتی اگر اُن کی عمر کے متنازعہ فیہ تین سال کا فرق ہٹا دیا جائے تو یہ عشق سولہ سال کی عمر میں ہو گا اور قرینِ قیاس بھی۔ اس طرح شاد عارفی کا سنہ پیدائش ۱۹۰۰ء ہی طے پاتا ہے۔
۱۹۰۹ء میں عارف اللہ خاں ملازمت سے سبکدوش ہو کر اہل و عیال کے ساتھ رام پور چلے آئے جو شاد عارفی کی نانہال تھی۔ اُن کے پَرنانا عثمان خاں رزّڑ رام پور کے مشہور سردار تھے جن کا ذکر ’’ تذکرۂ کاملانِ رام پور‘‘ میں موجود ہے۔ اور رام پور کا ایک محلہ آج بھی ان کی مناسبت سے گھیر عثمان خاں کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۹۰۹ء سے ۸؍ فروری ۱۹۶۴ء یعنی اپنی تاریخ وفات تک شادؔ عارفی مستقلاً ریاست رام پور ہی میں مقیم رہے۔ باپ اور نانا اُنھیں مولوی بنانا چاہتے تھے چنانچہ کلام پاک اور عربی صرف و نحو کی کتابیں انھوں نے خود پڑھائیں ۔ بعد ازاں شادؔ کو حکیم غلام حیدر عرف عمّی میاں کے مکتب ’’ دبستانِ حیدری‘‘ میں داخل کر دیا گیا جہاں انھوں نے اسمٰعیل میرٹھی کی اُردو ریڈروں کے علاوہ فارسی کی ’’ گلستان‘‘، ’’ بوستان‘‘، ’’ دستور صبیان‘‘ وغیرہ بھی پڑھیں ۔ پھر حکیم یوسف علی خاں نے انھیں ’’دیوانِ حافظ‘‘ اور رام پور کے مشہور حافظ ریل نے ’’سکندر نامہ ‘‘ اور’’ شاہنامہ ‘‘ پڑھایا۔ شادؔ عارفی انگریزی تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن عارف اللہ خاں اس کے خلاف تھے۔ اپنے ماموں کرامت علی خاں ( کوتوال رام پور) کی سفارش سے بڑی لے دے کے بعد شادؔ نے اسٹیٹ ہائی اسکول ( حامد اسکول) میں داخلہ لے لیا۔
گھر پر عارف اللہ خاں نے شادؔ عارفی اور ان کے بھائیوں کے لیے چھوٹی چھوٹی تلواریں اور ڈھالیں بنوا رکھی تھیں اور تلوار کے ہاتھ سکھاتے تھے۔ ۱۹۱۸ء میں دسویں جماعت میں پہنچے تھے کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ بڑے بھائی ناکارہ ثابت ہوئے اس لیے خاندان کا بوجھ اٹھارہ سال کی عمر میں ہی شاد عارفی کے کاندھے پر آ گیا۔ ریاست لوہارو سے عارف اللہ خاں کی پنشن قدرے کم ہو کر والدہ کے نام منتقل ہو گئی، کچھ شادؔ عارفی ٹیوشن وغیرہ سے کما لیتے، گھر کا خرچ لشٹم پشٹم چلتا رہا۔ اُن کی تعلیم کاسلسلہ بھی منقطع ہو گیا البتہ شادؔ نے پرائیویٹ اُمیدوار کی حیثیت سے الٰہ آباد کے امتحانات ادیب اور منشی،وغیرہ پاس کر لیے اور ہندی زبان کے کچھ امتحانات میں بھی کامیابی حاصل کی۔
شادؔ عارفی نے اپنے خالہ زاد بھائی عتیق الرحمن خاں پر رعب جمانے کے لیے پہلا شعر آٹھ سال کی عمر میں کہا تھا جو حسبِ ذیل ہے:
ہو چکا ہے خیر سے ہشیار تُو
اپنے دَشمن پر اُٹھا تلوار تو
شاعری میں تلوار اُٹھانے کا یہ تصوّر اُن کی فطرت ثانیہ بن گیا۔ انگریزی کی پانچویں کلاس میں راز یزدانی ان کے ہم جماعت تھے اور شاعری سے شغف رکھتے تھے، اسکول سے باہر کے دوستوں میں علی حسن ماہر بھی شاعری کرتے تھے چنانچہ ان لوگوں کے مقابلے میں شادؔ عارفی بھی باقاعدگی سے تک بندیاں کرنے لگے۔ ساتویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے یہ شوق سنجیدگی اختیار کر گیا۔ سمندِ شوق پر ایک تازیانہ یہ بھی ہوا کہ شاد عارفی کے پڑوس میں امیر مینائی کا خاندان رہتا تھا۔ دونوں گھرانوں میں قریبی تعلقات تھے، اس طرح انھیں بچپن سے ہی محمد احمد صریرؔ مینائی کی ادبی صحبتوں میں شرکت کے مواقع ملے صریرؔ کے صاحبزادے اسمٰعیل سے دوستی اور منہاج الدین مینائی کی رغبت دلانے والی رایوں نے شادؔ کے فطری ذوق کو جلا دے کر اُنھیں سنجیدگی سے شعر و ادب کی طرف مائل کر دیا بعد ازاں اپنے دوست علی حسن خاں ماہرؔ کی رائے سے اُنھوں نے مولانا شفقؔ رام پوری کی شاگردی اختیار کر لی۔ شفقؔ صاحب صرف غزلوں پر اصلاح دیتے تھے۔ اُن سے اصلاح کا یہ سلسلہ تقریباً آٹھ دس سال تک چلا پھر شفقؔ رام پوری ’’پیسہ اخبار‘‘ میں ملازم ہو کر لاہور چلے گئے۔ اس کے بعد شادؔ عارفی نے ابو طاہر مجدّدی کی تحریک سے کچھ غزلوں پر جلیلؔ مانکپوری سے بھی اصلاح لی۔ جلیلؔ سے مشورۂسخن کا یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا۔ نظموں میں وہ اپنے اُستاد آپ تھے۔
شاعری میں اپنی راہ الگ نکالنے کی دھُن شادؔ عارفی کو ابتدا ہی سے تھی۔ والد کے انتقال کے بعد عزیزوں کی لوٹ کھسوٹ نے اُن میں بغاوت کا مادّہ پیدا کر دیا چنانچہ حقیقت نگاری، ندرتِ ادا اور طنز کی آمیزش سے لگاتار ایسی تلخ نظمیں اور چونکا نے والی غزلیں کہتے رہے جن کے ردِّ عمل میں ان کے مخالفین اور حاسدین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی گئی۔ اپنی ندرت کی بنا پر رام پور سے باہر بھی اُن کی غزلیں اور نظمیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں ۔ اس ہندوستان گیر شہرت نے اُن کے مقامی حاسدین کی تعداد اور بڑھا دی۔
یہ بھی ہوا کہ شادؔ عارفی نے دو بار عشق کیا اور دونوں مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھا۔ پہلا عشق بلوغت سے قبل شروع ہوا اور اس کا سلسلہ دس سال جاری رہا لڑکی ان کے نانہال کی طرف سے دور کی رشتے دار تھی۔ لیکن خاندانی اعتبار سے ہم مرتبہ نہ تھی اور شادؔ عارفی اس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جہاں اُن کے بڑے بھائی ایک ساقط النسب عورت کے ساتھ دوسری شادی کرنے کے جُرم میں خاندان سے علیحدہ کر دیے گئے تھے۔ لہٰذا شادؔ کواس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت نہیں مل سکی اور وہ دوسری جگہ بیاہ دی گئی۔ عشق میں اس ناکامی نے اُن کے ذہن پر بہت گہرا اثر چھوڑا اور تقریباً تین سال تک ان پر جنونی کیفیت طاری رہی۔ اس کیفیت سے گزر چکنے کے بعد اُنھیں دوسراعشق تارا نام کی ایک لڑکی سے ہوا جس کے پڑوس میں شادؔ بچّوں کو پڑھانے جاتے تھے لیکن یہاں بھی شادؔ عملاً ناکام رہے کیونکہ مذہب آڑے آتا تھا اور اُنھیں اس امر کا شدید احساس تھا کہ اُن کے کسی غلط اقدام سے مسلمانوں پر ہندوؤں کو اعتماد نہ رہے گا۔ اس دوسرے عشق میں ناکامی نے شادؔ کی رہی سہی سکت چھین لی،اب اُن کی مایوسیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، طرّہ یہ کہ اس دوہرے احساسِ شکست کو تا عمر زندہ و تازہ رکھنے کے لیے شادؔ کی دونوں محبوبائیں اُن کے انتقال تک رام پور ہی میں مقیم رہیں ۔
مذکورہ بالا اُلجھنوں اور پریشانیوں نے کچھ ایسے اثرات قائم کیے کہ شاد عارفی مستقل مزاجی کے ساتھ کہیں ملازمت بھی نہ کر سکے۔ عام طور پر ماتحتوں سے جس خوشامدانہ انداز میں گردن ڈال کر چلنے کی توقع کی جاتی ہے وہ شادؔ کے بس کی بات نہ تھی۔ ایک زمانے میں ’صولت پبلک لائبریری‘ رام پور میں اسسٹنٹ لائبریرین کے فرائض انجام دیے وہاں مطالعہ کا اچھا خاصا موقع ہاتھ آیا اور یہ مشغلہ اُن کے لیے بہت دلچسپ تھا لیکن تنخواہ بہت کم تھی، اس کو جلد ہی چھوڑنا پڑا۔ کچھ دنوں مقامی شکر فیکٹری میں اکاؤنٹنٹ رہے پھر مکّا مل( میز فیکٹری) میں ویئنگ سپروائزری کی،وہاں سے چھوٹے تو ایک ’ بلڈنگ کنسٹرکشن کمپنی‘ میں سائیٹ انچارج بنا دیے گئے بعد ازاں رام پور شیرو فیکٹری اور سی۔ او۔ ڈی۔ میں لیجر چیکر کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کارخانوں میں کام کرنے کی مجموعی مدّت تقریباً پندرہ سال ہے۔ اس کے بعد فیکٹریوں کی ملازمت کا سلسلہ ترک کر کے انھوں نے رام پور میونسپل بورڈ میں ٹیکس کلرک کی حیثیت سے ملازمت شروع کی لیکن وہاں بھی زیادہ عرصے تک نہ ٹک سکے پھر ناصر مسعود، پبلک انفارمیشن آفیسر رام پور کی فرمائش پر انھوں نے نیم سرکاری ہفتہ وار (اور بعد ازاں سہ روزہ) اخبار ’’اقبال‘‘ رام پور کی ادارت سنبھالی مگر اُن کے خمیر میں جو بے قراری شامل تھی،اس نے شادؔ عارفی کو یہاں بھی جم کر کام نہ کرنے دیا۔ کچھ دن بعد اسٹیٹ پریس رام پور میں انگلش پروف ریڈر ہو گئے۔ اس ملازمت کا سلسلہ تین سال تک چلا اور وہیں سے بجٹ اکاؤنٹینٹ کی جگہ ترقی مل گئی اور وہ دو سال تک بجٹ اکاؤنٹینٹ رہے۔ آگے چل کر ریاست رام پور کا انضمام شادؔ عارفی کی تنزلی کا باعث ہوا اور انھیں نائب ناظر کے عہدے پر تحصیل سُوار میں منتقل کر دیا گیا، جسے رام پور کا سائبیریا کہا جاتا ہے۔ یہاں قیام کے دوران وہ ملیریا میں مبتلا ہو گئے جس کے تباہ کن اثرات نے تمام عمر اُن کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اپنے تبادلے کے لیے انھوں نے بہتیری کوششیں کیں لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، آخرش استعفا دے کر گھر بیٹھ رہے اور پھر کہیں ملازمت نہ کی۔
بحیثیت مجموعی شادؔ عارفی کی ملازمتوں کاسلسلہ ۱۹۱۸ء سے ۱۹۴۸ء تک پھیلا ہے جس میں تقریباً نو دس سال کے درمیانی وقفوں کو چھوڑ کر انھوں نے مندرجہ ذیل خدمات انجام دیں :
اسسٹنٹ لائبریرین صولت لائبریری رام پور چند ماہ
مقامی کارخانوں کی ملازمتیں پندرہ سال
ایڈیٹر اور سرکاری پریس میں انگلش پروف ریڈر تین سال
بجٹ اکاؤنٹینٹ دو سال
نائب ناظر تحصیل دس ماہ
آخری ملازمت سے وہ مئی ۱۹۴۸ء میں مستعفی ہو گئے۔
ضعیف اور نابینا والدہ کی خدمت میں انھوں نے اپنی ساری عمر گزار دی۔ موصوفہ شادؔ کی وفات سے تقریباً دس بارہ سال پہلے تک زندہ رہیں ۔ بڑے بھائی سیّد احمد خان کو پہلی بیوی کے انتقال کے بعد غیر کفو میں دوسری شادی کر لینے کی بنا پر ماں نے خاندان سے علیحدہ کر دیا تھا، ان کے بچوں کی پرورش و پرداخت شادؔ عارفی نے ہی کی،خود اپنی ذات پر ہزاروں تکلیفیں جھیل کر اپنے بھتیجے فدا احمد خاں اور بھتیجی الیاسی بیگم کی ضروریاتِ زندگی اور تعلیم کا معقول بندوبست کیا، فدا احمد خاں کو معلمی کی ٹریننگ دلائی،انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا، اُن کی شادی کا بندوبست کیا لیکن جب وہ اس لائق ہوئے کہ شادؔ کا سہارا بن سکیں تو شادؔ عارفی نے از راہِ غیرت اُن سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اسی طرح الیاسی بیگم کی شادی بھی شادؔ نے ہی کی اور کچھ عرصے بعد جب وہ بیوہ ہو گئیں تو شادؔ عارفی پھر اُن کے کفیل ہو گئے اور تا دمِ آخر اُن کی اور اُن کے بچوں کی امداد کرتے رہے۔ عبدالبشیر عرف نبّو ( الیاسی بیگم کے لڑکے) کو توشادؔ عارفی بالکل اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے اور خود فاقوں میں گزارنے کے باوجود انھوں نے نبّو اور اُن کے بھائی کی تعلیم اور ملازمت کا انتظام بھی کیا۔ زندگی کے بالکل آخری دور میں اُن کے بڑے بھائی سیّداحمدخاں تقریباً مخبوط الحواس ہو کر شادؔ کے ساتھ ہی رہنے لگے تھے، اس طرح شادؔ پر ایک اور بار بڑھ گیا جسے وہ بڑی فراخدلی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔
ایسا بھی نہیں کہ خوشی کی ٹھنڈی ہوا کا ایک آدھ جھونکا بھی شادؔ عارفی کو زندگی میں نصیب نہ ہوا ہو۔ اسٹیٹ پریس میں پروف ریڈری کی ملازمت کا دور تھا۔ اُن کی والدہ بہت ضعیف ہو چکی تھیں ، جب وہ سو سال سے زیادہ معمر ہو کر بینائی سے تقریباً محروم ہو گئیں تو اُن کے اصرار پر ۳۹یا ۴۰ سال کی عمر میں شادؔ نے رام پور کی تحصیل شاہ آباد کے منوّر شیر خاں نامی ایک غریب لیکن شریف خاندانی پٹھان کی لڑکی پری بیگم سے شادی کر لی اور نسبتاً زیادہ آرام دہ مکان میں اُٹھ آئے۔ یہ غالباً اُن کی زندگی کا سب سے زیادہ آسائش کا دور تھا لیکن قسمت نے یہاں بھی اُنھیں چین کا سانس نہ لینے دیا اور شادی کے ڈیڑھ سال بعد ہی اُن کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔ پری بیگم بڑی اطاعت شعار اور نیک بیوی تھیں ۔ شادؔ عارفی نے اُن کے انتقال کا گہرا اثر قبول کیا اور عمر کے آخری ایام تک انھیں کسی نہ کسی نہج سے یاد کرتے رہے۔
۱۹۵۱ء میں اُن کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا اور شادؔ عارفی نے پریشان حالی میں اپنے مکان کی ضمانت پر قرض لے کر اُن کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کیا، یہ مکان بعد ازاں قرض ادا کرنے کی غرض سے انھیں اپنے ایک رشتہ دار اشفاق حسن خاں کے ہاتھ چھ سوروپے میں فروخت کرنا پڑا۔ اس کے بعد زندگی کے باقی ماندہ بارہ تیرہ سال شادؔ عارفی نے حد درجہ افلاس اور پریشانی کے عالم میں گزارے۔
اس عرصے میں انھیں کم از کم پندرہ کرائے کے مکانات تبدیل کرنے پڑے اور انھوں نے رام پور کے چاروں کھونٹ دیکھ ڈالے۔ کبھی گھیر حسن خاں کو رونق بخشی،کبھی گھیر سیّدانی کو اور کبھی گھیر میر باز خاں کو۔ آج پُرانی کھنڈ سار میں مقیم ہیں ، کل نالے پار میں تو پرسوں حلقے والی زیارت میں ، کبھی پیلا تالاب کے قریب فروکش ہیں اور کبھی بیریاں میں ۔ آخری ایام مزار شاہ ولی اللہ کے قریب ایک مکان میں بسر کیے۔ محمد طفیل مدیر ’’نقوش‘‘ لاہور نے اُن کے اس طرح جلد جلد پتے کی تبدیلی سے تنگ آ کر لکھا تھا۔
’’ شاد صاحب ! خدا کے لیے آپ میرے اوپر رحم کھائیے، اس قدر جلد مکان مت تبدیل کیجئے۔ آپ کی اس قدر تبدیلی مکان سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ شاید آپ خانہ بدوش شاعر ہیں ۔ ‘‘
شادؔ عارفی کے خطوط سے رام پور کے مختلف محلّوں میں اُن کے قیام کا تعین بڑی حد تک ہو جاتا ہے۔ مثلاً ۲۹؍ جولائی ۱۹۵۶ء سے ۱۲؍ جولائی ۱۹۵۹ء تک خطوط محلہ بیریاں سے، ۶؍جنوری۱۹۶۰ء سے ۱۶؍ ستمبر ۱۹۶۰ء تک حلقے والی زیارت سے اور ۱۱؍دسمبر ۱۹۶۰ء سے ۲۶ فروری۱۹۶۱ء تک گھیر میر باز خاں ( جیل روڈ) سے لکھے گئے۔ ۸؍ مئی ۱۹۶۱ء کے ایک خط میں کیت کا پیڑ(متصل پیلا تالاب) کا پتہ درج ہے۔ ۸؍ جولائی ۱۹۶۱ء سے ۲۱؍ اگست ۱۹۶۱ء تک درخت کھیت ( گھیر سیّدانی) میں ، ۲۲؍ اگست ۱۹۶۱ء سے ۲؍ نومبر تک گھیر حسن خاں ( پکّا باغ روڈ) اور یکم جنوری ۱۹۶۳ء سے ۲۷؍ جنوری ۱۹۶۴ء تک مکان نزد مزار شاہ ولی اللہ صاحب میں اُن کے قیام کا پتا چلتا ہے۔ اسی آخری مکان میں ان کا انتقال ہوا۔ اس طرح شہر رام پور میں ہی اُنھوں نے اتنے سفر کیے کہ بیرونی مقامات کے سفر کے مواقع اُن کی زندگی میں بہت کم آئے۔ خلیل الرحمن اعظمی، شاہد احمد دہلوی اور صہباؔ لکھنوی کے نام اُن کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے بالترتیب علی گڑھ دہلی اور لاہور کے سفر کیے تھے۔
بے روزگاری کے ہاتھوں یہ زمانہ اُن پر اتنا سخت گزرا کہ اکثر فاقوں کی نوبت آ گئی،اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ الیاسی اور رابعہ( بھتیجی اور نواسی، جن کے کفیل شادؔ صاحب تھے) بغیر سحری کا روزہ تین دن سے رکھ رہی ہیں ۔ ‘‘
حالت یہ تھی کہ آخری عمر میں گزر بسر کے لیے حق الاصلاح کے طور پر شاگردوں سے ملنے والی قلیل رقومات پر تکیہ تھا۔ اُن سے گزر اوقات نہ ہوتی تو اعزازی طور پر آنے والے رسائل اور کتابیں اونے پونے داموں فروخت کر کے انھیں اپنی اور اپنے لواحقین کی روٹیوں کابندوبست کرنا پڑتا تھا۔ شادؔ عارفی کے خطوط اس تلخ حقیقت کے گواہ ہیں ۔ ملّا بھائی جنرل مرچنٹ رامپور کے نام لکھتے ہیں :
’’ اگر’ آبِ رواں ‘ نہ بِکا ہو تو اب فروخت نہ کریں میں منگا لوں گا۔‘‘
مکتوب بنام سلطان اشرفؔ کا ایک جزو ہے:
’’ آج ’ ساقی‘ کا میرؔ نمبر آ گیا ہے، اس کی قیمت تین روپیہ ہے، قاعدے میں آپ سے ۸؍ لینا چاہیے مگر میں حالات کے تحت مبلغ دو روپے کی آرزو رکھتا ہوں ۔ ‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اس مدّت میں شادؔ عارفی کے ساتھ کہیں کھل کر اور کہیں ہمدردی کے آڑ میں طرح طرح کے ظلم کیے گئے۔ کسی نے انھیں رجعت پرست مقامی استاد شعرا سے بھڑا دیا، کسی نے ترقی پسندوں سے ٹکرا دیا۔ کوئی ہمدرد اُن کے نام پر سیکڑوں کا چندہ وصول کر کے ڈکار گیا۔ آخر ۸؍ فروری۱۹۶۴ء کی تپتی ہوئی دوپہر میں :
’’__’کس کا انتقال ہو گیا بھائی؟‘
دس پندرہ آدمیوں کی انتہائی مختصر جمعیت کے ساتھ جنازہ جاتے دیکھ کر ایک راہرو نے از راہ ترحم پوچھا۔
’ شادؔ عارفی کا__‘ ان میں سے ایک نے جواب دیا اور پوچھنے والا سوالیہ علامت بن گیا:
’ کون شادؔ عارفی؟‘
’شاعر تھے بھئی ایک!‘
اور یہ شاعر مزار شاہ ولی اللہ کے احاطے میں شاہ صاحب کی تربت سے بائیں طرف آٹھ دس قدم کے فاصلے پر سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ‘‘
٭٭