ٹیری ساؤدرن کے ناول کینڈی کے تعلق سے بعض ناقدین نے یہ رائے دی ہے کہ امریکہ میں سیکس کا تصور کینڈی کے بعد وہی نہیں رہے گا جو تھا۔ اس بصیرت آموز تنقیدی بیان میں ناول اور کلچر کے بنیادی رشتوں کی وضاحت ہو گئی ہے۔ زمانہ اپنی نظر سے اپنے عہد کو دیکھتا ہے جو اس کے اندر موجود پروٹو ٹائپ کا پروردہ ہوتا ہے۔ ثقافتی سطح پر آنے والی تبدیلیاں سڑک اور بازاروں، گھر اور ریستورانوں، انسان کے خارجی عوامل اور باطنی فکر میں موجود ہوتی ہیں لیکن اس کی شناخت سے سماج خود عاری ہوتا ہے۔ وہ تبدیلیاں تو محسوس کرتا ہے اور عہد رفتہ کی اچھی باتوں کو یاد کر کے آہیں بھی بھرتا ہے لیکن تبدیلیوں کے اس خاموش طوفان کی واضح تجسیم اسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب اس کی شناخت فکری احساس کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ کام ہمارے عہد کا فنکار کرتا ہے۔ اس پس منظر میں جب میں ذوقی کے ناول نالۂ شب گیر کو دیکھتا ہوں تو یہ کہنا آسان ہو جاتا ہے کہ اب ہندوستانی معاشرہ میں عورت کا وہ تصور نہیں رہ جائے گا جو پہلے تھا۔
–دادی کی آنکھیں چھت کو دیکھ رہی ہوتیں۔۔۔۔ سب مرد ہیں۔۔۔ حویلی میں جو بھی شان سے کھڑا ہے۔ وہ مرد ہے۔۔ عورتیں تو سواری ہوتی ہیں۔ مارو۔۔ دھکا دو۔۔۔ جان سے مار دو۔۔۔ مگر اُف۔۔۔ بے زبان گائے۔۔۔ ایک حرف شکایت زبان پر نہیں آئے گی۔۔۔۔ (ناول: نالۂ شب گیر)۔
یہ عورت کا ماضی ہے۔ وہ ماضی جس میں عورت ایک گھوڑی ہے، اس گھوڑی کی لگام مرد کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس پر سوار ہوتا ہے، چابک لگاتا ہے اور اپنی مرضی کے راستوں پر چلاتا ہے۔ عورت حویلی کی اندھیری کوٹھری میں محصور ایک ایسا وجود ہے جسے خارج کی علامتوں سے ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا۔ عورت کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ مرد اساس ہے یا مرد کی عملداری میں ہے، ساری علامتیں، سارے استعارے، ساری جمالیات، سارا فلسفہ سب کچھ مرد کے قلمرو میں ہے، وہ اس سلطنت کا بے تاج بادشاہ ہے، کچھ بھی تانیثی نہیں، سب کچھ مرد نما ہے، یا مردوں کی تسکین اور تسلی کا کھلونا یعنی Men’s Toys ہیں۔ ماضی کی یہ المناک صورت حال اور حویلی میں محصور عورت آج کے ثقافتی ڈسکورس میں کہاں ہے۔ کیا اس صدیوں پرانی تصویر میں نئے رنگ ابھرے ہیں۔ کیا عورت نے اپنی علامتیں وضع کی ہیں، اپنے استعارے گڑھے ہیں، اپنی جمالیاتی اقدار کی تشکیل کی ہے۔ ذوقی کا ناول نالۂ شب گیر آج کے ان ہی علائم، استعاروں، نشانات اور عورت کے بدنی شعور سے بحث کرتا ہے۔ ذوقی اپنے ناول کو ہر اس لڑکی کے نام معنون کرتے ہیں جو باغی ہے اور اپنی شرطوں پر زندہ رہنا چاہتی ہے۔
تانیثی ڈسکورس میں بغاوت کے معنی یہ نہیں ہے کہ عورت مرد کی طرح ہو جائے، بلکہ عورت مرد کے متوازی اپنے وجود کا انسانی اور فطری اثبات چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ مرد اس کی شناخت، ایک با وقار لیکن مختلف وجود کی حیثیت سے کرے۔ آج کی عورت حاکم اور محکوم کے کھیل کا خاتمہ اور اپنی شناخت، انفرادیت، ترجیحات، فکر اور جمالیات کو اپنے حوالوں سے تسلیم کروانے کی جد و جہد میں مصروف عمل ہے۔ ظاہر ہے یہ عورت وہ نہیں ہو سکتی جس کا تصور عام طور سے ایک جدید عورت کی جنسی ترجیحات اور اس بدنی آزادی سے کیا جاتا ہے جو پابندیوں کی قائل نہیں۔ ذوقی نالۂ شب گیر میں پابندیوں سے بحث ہی نہیں کرتے، وہ اس ناول کے ثقافتی جغرافیہ میں اس عورت کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو فکری سطح پر آج کی مکمل اور خودمختار عورت ہے۔
ذوقی کی اس تلاش میں ثقافتی پٹھار، پہاڑ، صحرا، جنگل، میدان، ویرانے، سمندر اور ندیاں آتی ہیں۔ عورت کی صورت گری کے سارے عوامل اور ان میں پوشیدہ پدر سری نظام کی ثقافتی بد چلنی کے نتائج ایک ایک کر کے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ذوقی اپنے مخصوص بیانیہ کی کشتی میں سوار عورت کی سماجی حیثیت کی صورت حال کو اس طرح بھی دیکھتے ہیں:
’’عورت آج ایک برانڈ بن چکی ہے۔ ایک ایسا برانڈ، جس کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹ کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے اس سے مدد لیتی ہیں۔ ‘‘ (کچھ نالۂ شب گیر کے بارے میں: مشرف عالم ذوقی)
ذوقی مارکیٹ اکانومی میں عورت کی حیثیت کی بات کر رہے ہیں۔ صارفیت کو فروغ دینے میں عورت کے بدن کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ عورت اپنے بدن کا مکمل شعور رکھتی ہے مرد اساس ثقافتی مزاج اس بدن کے شعور کو ایک لاشعوری عمل میں بدل دیتا ہے یعنی عورت لاشعوری طور پر خود کو صرف اپنے بدنی حوالوں سے شناخت کر کے خوش بھی ہوتی ہے اور لوگوں کی تسکین کا سبب بھی بنتی ہے۔ شیونگ بلیڈ کی تیز دھار اور عورت کے گداز بدن کا کیا رشتہ ہے۔ یہ وہی بلیڈ ہے جس سے عورت کی صراحی دار گردن یا اس کے ہاتھ کی رگ کو صفائی سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ بلیڈ، لہو اور بدن، یہ ایک نئی جمالیات کی تشکیل ہے جو مرد کے اندر ایک حیوانی جنسی ہیجان برپا کرتا ہے۔ عورت Brand Commodity یا اپبھوگ کی وستو سے کچھ سوا ہے۔ اس کی بکنی سے اڑتی خوشبو، شمپو سے لہراتے بال، صابن کے جھاگ میں ڈوبا بدن، کنڈوم کے پیکٹ سے لپٹتا اس کا وجود، وہ پنگھٹ پر بھی ہے اور بروتھل میں بھی، وہ شراب بھی بیچتی ہے اور پوجا کی تھال بھی۔ عورت کا ہر رنگ ایک تجارت ہے۔ اور تجارت عورت ہے۔ اس حقیقت کو ذوقی نے بہت گہرائی سے سمجھا ہے۔ لیکن ذوقی نالۂ شب گیر میں صرف سمجھنے اور سمجھانے تک محدود نہیں رہتے۔ کنڈوم کلچر سے آگے کا سفر کرتے ہیں۔ یہ سفر ذوقی سے زیادہ آج کی عورت کا سفر ہے اور سفر کرتی ہوئی یہ عورت صارفیت کی محدود دنیا سے چھلانگ لگا کر اپنی منفرد شخصیت سے ہمیں آگاہ کرتی نظر آتی ہے۔
جنس انفرادی شناخت کا وسیلہ رہا ہے لیکن یہ ذات کی حد تک محدود نفسیات تھی، ہمارے عہد میں جنسی تلذذ کی ’’پوشیدہ شخصی نفسیات‘‘ کا بازاری استحصال ماضی کے اخلاقی ضابطوں سے آزاد ہو کر بازاری صنعت کا ایک حصہ بن چکا ہے، اور ہمارے اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت نے اس بحث کو خارج کر دیا ہے جہاں جنسی موضوعات پر گفتگو اخلاقی گراوٹ کی مثال سمجھی جاتی تھی۔ ہمارے مشترکہ سماجی شعور میں اب جنسی علامتوں اور شخصی انفرادیت میں اس کے رول کی اہمیت پوشیدہ گفتگو کا حصہ نہیں بلکہ اس کا اظہار مختلف حوالوں سے پوری طرح برہنہ ہے۔ اس برہنگی میں صارفیت نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انفرادی شناخت بنیادی طور پر پدر سری معاشرے میں مرد کی مردانگی اور عورت کی ہیجانی نزاکت یا اروٹک (Erotic) پیاس کو بجھانے کی صلاحیت سے گہرا رشتہ رکھتی ہے۔ شادی ڈاٹ کام اور اس قسم کے دوسرے پورٹل کی مقبولیت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ سماجی زندگی میں شادی کے ادارے کی اہمیت اور اس کے تقدس پر یقین رکھتے ہیں، یا سماج میں جنس بجائے تلذذ کے عمل تولید کی اہمیت کے پیش نظر اہم ہے، بلکہ یہ پورٹل عورت مرد کے قانونی رشتوں میں مضمر جنسی یا اروٹک (Erotic) پہلو کی انفرادی ترجیحات کو مصنوعات میں تبدیل کر کے انہیں فروخت کر رہے ہیں۔ شادی کے یہ پورٹل غیر محسوس طریقے سے نوجوان نسل کے اندر اروٹک لذت کے نشہ کو انجکٹ کرتے ہیں۔ آج شادی سے پہلے مناسب پارٹنر کی تلاش اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے اس بات کا یقین ہو جائے کہ پارٹنر اور باتوں کے علاوہ اروٹک لذت کے معاملے میں تلاش دہندہ کے معیار کے مطابق ہے یا نہیں۔ پورٹل کا کام بکاؤ مال کو سلیقے سے پیش کرنا ہے۔ دوسری تفصیلات کی اہمیت اس قدر نہیں جس قدر اہمیت اس بات کی ہے کہ پارٹنر کی جسمانی ساخت، اس کی جنسی کشش، اور معاشی پس منظر کیا ہے۔ رشتوں کے روایتی پس منظر میں خاندانی شان اور ذات کا تفاخر کافی اہم ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کی معنویت ختم ہو گئی ہے۔ سماجی روابط کے اس بدلے ہوئے رویوں کی موجودگی اپنی جگہ لیکن یہ فکری ڈسکورس کا حصہ نہیں۔ ذوقی کے ناول نالۂ شب گیر میں اس کی شناخت کیسے ہوتی ہے یا ذوقی بدلے ہوئے معاشرتی رویوں کو ایسے پورٹل کے پس پردہ کس طرح دیکھتے ہیں، ذوقی سماجی رویوں میں آئی اس تبدیلی کا دل خراش منظر نامہ کچھ یوں پیش کرتے ہیں۔
’’وہ ایک بار پھر مسکرایا۔ ’’مجھے جانے کی جلدی ہے۔ در اصل میں سوچ رہا تھا۔ نہیں، جانے دیجئے۔ کسی بھی چیز کو تاڑ کی طرح کھینچنے میں میری دلچسپی نہیں ہے۔ بھاگتی دوڑتی دنیا میں الجبرے کے فارمولے کی طرح میں نے زندگی گذاری ہے۔ دو پلس دو برابر چار۔ سمجھ گئے نا۔ میرا پروپوزل ہو سکتا ہے، آپ کو پسند نہیں آئے۔ مگر سوچئے گا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ نہیں پسند آئے تو آپ جا سکتے ہیں۔ کوئی جہیز لیتا ہے۔ کسی کی کوئی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کسی کی کوئی۔ میرے پاس سب کچھ ہے۔ خود سے حاصل کیا ہوا۔ اس لئے مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔ ‘ وہ ایک لمحے کو ٹھہرا اور دوسرے ہی لمحے جیسے نشانہ سادھ کر اس نے گولی داغ دی۔۔۔
’’ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے بہتر ہے کہ ہم ایک رات ساتھ ساتھ گذاریں۔‘‘
پیش کردہ اقتباس سے بظاہر معنویت کی بصیرت کا اخراج ہوتا نظر نہیں آتا لیکن آپ اس اقتباس کو شادی ڈاٹ کام کے ذریعہ رابطے میں آئے اور شادی کے مقصد سے کسی ہوٹل میں گفتگو کے لیے یکجا ہوئے ایک خاندان اور اس نوجوان کے پس منظر میں دیکھیں جو اپنی ہونے والی دلہن کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے خود موجود ہے۔ سماجی رویوں میں خاموش تبدیلیوں کو اب آہٹ کی طرح نہیں ایک دھماکے کی طرح پیش کرنا ہو گا، ذوقی نے ہمارے عہد کے مزاج کی نبض کو کچھ اس طرح اپنی گرفت میں لیا کہ ہماری چیخیں نکل گئیں۔ یہ بدلتے وقت اور حالات کا سفاک اظہار ہے کہ اب نئی نسل اس مطالبے تک آ پہنچی ہے جہاں پکوان کا ذائقہ چکھ کر خریدنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ عورت کی تذلیل کی اس سے زیادہ اور کیا انتہا ہو سکتی ہے کہ اس کی شخصیت اب سونگھنے، چکھنے اور چکھ کر مسترد کر دینے والی شئے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ شادی ڈاٹ کام کے پس پردہ چلنے والے ثقافتی مزاج میں آئی تبدیلی کوا س حقیقت کے ادراک سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ عورت کے ساتھ ایک رات گذارنے کا مطالبہ در اصل سیکس بم کی خریداری کا عمل ہے جس میں مضمر دھماکے کا احساس ہی یہ طے کر سکتا ہے کہ میرج کانٹرکٹ ممکن بھی ہے یا نہیں۔ سماجی سطح پر اب ایسی صورتحال یا ناول نگار کا یہ مشاہداتی انکشاف عجوبۂ روزگار نہیں۔ یہ اب ہماری عصری زندگی کا قابل قبول رویہ ہے۔ ڈیٹنگ اب ایک عام چلن ہے اور کنواری بیٹیوں کے والدین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ معاملہ یہ نہیں کہ شادی سے پہلے عورت اور مرد کا آزادانہ اختلاط اخلاقی سطح سے گری ہوئی بات ہے۔ یہ ذوقی کا مسئلہ نہیں ہے۔ ذوقی کا مسئلہ یہ ہے کہ آزادانہ اختلاط ایک بات ہے اور عورت کو اس طرح ٹیسٹ کرنا جیسے قربانی کے بکرے کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھتے ہیں بالکل دوسری بات۔ اسی پس منظر میں ذوقی کنڈوم کلچر کو ایک انہدامی صورت حال کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے سائے مہیب اور محیط ہوتے جا رہے۔ عورت کو یہاں صرف ٹٹولنے کا عمل نہیں جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا، بلکہ اسے چھونے، اس کا لمس محسوس کرنے، اس کے گداز سے لطف اندوز ہونے، اس کی گہرائیوں میں جھانکنے اور اس کی روح کو کانٹے دار ہتھیار سے زخمی کرنے کے عوامل بھی شامل ہیں۔ بہرحال اگر روایتی معاشرتی رویے کو سامنے رکھیں تو اس مطالبے کو عورت انتہائی بے دردی سے ٹھکرا دے گی۔ کیا آج کی عورت یا لڑکی بھی ایسی ہی ہے۔ ذوقی کے اس ناول کی کردار ایسی نہیں ہے۔ وہ اس آفر کو قبول کر لیتی ہے۔ تنہائی میں جب اس مرد کا سامنا اس کردار سے ہوتا ہے تو عورت کی شخصیت کا وقار اسے ایک دہشت میں مبتلا کر دیتا ہے، وہ ایک ایک کیچوے کی طرح لجلجا اور بے دست و پا نظر آتا ہے۔ ایک خوف اور اپنی بے معنویت کا شکار یہ مرد اپنی مردانگی کے تفاخر کا اظہار کیے بغیر وہاں سے بدحواسی کے عالم میں بھاگ جاتا ہے۔
ذوقی کے ناولوں اور بیشتر افسانوں میں تواترسے ایک اصطلاح ہمارے سامنے آتی ہے ’کنڈوم کلچر‘۔ یہاں رک کر اس بات کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آخر ذوقی اس اصطلاح کے حوالے سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔ یہ اصطلاح کس صورت حال کی عکاسی ہے۔ کنڈوم یا مانع حمل کے غبارے کو ایک ثقافتی پہچان دینے کے پس پردہ کون سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ واضح ہو جانا ضروری ہے کہ کلچر بذات خود تجارتی مزاج کا حامل ہے۔ ہماری ثقافتی نمائندگی کا کوئی بھی ایسا پہلو نہیں جو بازاری نفع نقصان سے باہر ہو۔ ایسی صورت حال میں فنکار کے سامنے ایک مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ مختلف وضاحتوں کی بجائے اپنی فکری اساس کو اصطلاحی رنگ کیسے عطا کر دے۔ عمدہ فنکار جس اصطلاح کو خلق کرتا ہے وہ وقت کے ساتھ فنی فکر اور عوامی گفتگو کی راہ متعین کرتے ہیں۔ کنڈوم کلچر ایک طرف ثقافتی سطح پر رائج اس ذہنی رویے کی نشاندہی کرتا ہے جس کا تعلق جنسی تلذذ سے ہے، اس مانع حمل غبارے کو فروخت کرنے کے اشتہارات اور مختلف پیکج کے ناموں میں جنسی تلذذ کی اشتہا کو جگانے والے علائم اور تصویری نمائندگی کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے، رنگوں، پھلوں اور پھولوں کی خوشبوؤں اور اروٹک تصویروں سے سجا یہ کنڈوم برتھ کنٹرول کی ایک سبیل سے زیادہ جنسی تلذذ کا لازوال ہتھیار بن چکا ہے۔ اس کنڈوم کا جو کام ہے وہ تو پتہ ہے۔ اس کا استعمال ظاہر ہے قانونی طور پر جائز میاں بیوی کے جنسی عمل کے لیے تھا لیکن اب ثقافتی چلن میں یہ نوجوان نسل کی ایک ضرورت اور خانگی زندگی کی کسی ذمہ داری کے بغیر آزادانہ اختلاط اور تلذذ کے وقفوں کو طویل کرتا ہوا کنڈوم ثقافتی ڈسکورس میں افادیت اور تسکین نفس کے عجیب و غریب گھال میل کی علامت ہے۔ لفظ کنڈوم بذات خود نوجوان نسل کے اندر ایک لذت آمیز تحیر پیدا کر دیتا ہے۔ یہ وہ بنیادی ثقافتی مزاج کی تبدیلی ہے جسے ذوقی ہمارے رویوں میں تلاش لیتے ہیں اور اپنی اصطلاح سازی کی بے پناہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ثقافتی ڈسکورس کی اصطلاح بنا دیتے ہیں۔ نالۂ شب گیر ظاہر ہے ثقافتی مکالمے میں جاری نئی دنیاؤں کی دریافت کا عمل ہے۔ یہ اس پروٹو ٹائپ دنیا کو پیش نہیں کرتا جس میں بین کی آوازیں اور مرد کا چابک ایک ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ استحصال کے اس بدلتے منظر نامے میں ثقافتی سطح پر جو نئے زاویے رونما ہوئے ہیں نالۂ شب گیر ان کی ایک شناخت اور سماجی روابط میں دوڑتے ہوئے لہو کی طرح اس کے مخصوص رنگ کو پیش کرتا ہے۔ کارپوریٹ کلچر، صارفیت، مارکیٹ اکانومی، عورت اور کنڈوم، یہ ساری چیزیں مابعد جدید مکالمے کے بیانیہ میں شامل ہیں اور عورت اپنی آزادی میں بھی محکوم ہے۔ اس پورے نیٹ ورک یا جال میں محبوس عورت در اصل آزادی کے مغالطے میں ہے اور ذوقی کے مطابق اس کا نروان اسی میں ہے کہ وہ اس صورت حال کو پہچانے، آزادی جو بذات خود اندیکھے تاروں سے تشکیل شدہ غلام بنانے کا ہتھیار ہے عورت کو اس سراب سے باہر نکلنا ہو گا۔ اس سے برآمد ہو کر عورت کی شناخت کیا ہو گی، یا وہ عورت کیسی ہو گی نالۂ شب گیر میں اس کی وضاحت دو حوالوں سے ہوتی ہے۔ ایک صوفیہ مشتاق احمد کا کردار اور دوسری ناہید ناز۔ دونوں کی الگ الگ دنیا اور اپنا اپنا ماضی ہے اور دونوں نے اپنے لیے اپنا حال اور مستقبل بھی خود منتخب کیا۔
نالۂ شب گیر کا ایک باب ہمارے عہد اور اس میں موجود عورت کے خوف کی علامت ہے۔ اس عورت کو خوابوں میں آگ اور خون، چابک اور جوتے نظر نہیں آتے۔ وہ ایک منظر کے حصار میں ہے۔ مرد اساس سماج نے اس کے لیے یہی منظر نامہ ترتیب دیا ہے۔ ایک بے حد پراسرار اور اتنا ہی بھیانک، کریہہ اور روح کو کپکپا دینے والا منظر۔ قبریں، اندھیرا، چمگادڑیں اور ڈرائکولا۔
’’آدھی رات گذر چکی تھی۔ کمرے میں زیرو پاور کا بلب جل رہا تھا۔ باہر خوفناک آندھیاں چل رہی تھیں۔ پتے سرسرا رہے تھے۔ باہر کوئی جنگل نہیں تھا۔ پھر بھی چمگادڑوں، بھیڑوں، الو، اور طرح طرح کی خوفناک آوازیں رات کے پر اسرار سناٹے کو اور بھی خوفناک بنا رہی تھیں اور یقیناً یہ دستک کی آواز تھی۔۔۔۔ نہیں۔ کوئی تھا، جو دیواروں پر رینگ رہا تھا۔ کیا ویمپائر۔ اف خوفناک آوازوں کا ریلا جسم میں دہشت کا طوفان برپا کرنے کے لیے کافی تھا۔‘‘ (نالہ شب گیر)
باہر جنگل نہیں ہے۔ انسانی سماج ہے، ہماری اور آپ کی دیکھی بھالی دنیا ہے۔ لیکن اس دنیا میں چمگادڑ یں چیخ رہی ہیں، الو بول رہے ہیں، بھیڑوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ تاریکی ہے۔ خوفناک مناظر ہیں اور دستک کی آواز ہے جسے صوفیہ مشتاق احمد سنتی ہے۔ یہ دستک دیوار پر رینگنے کی آواز میں بدل جاتی اور ایک ڈرائکولا کا تصور ابھر آتا ہے۔ خوف کی یہ منظر کشی اور اس سے برسر پیکار عورت آج کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہر لمحہ خوف ہے۔ ہر پل موت ہے۔ سماج کے مرد اساس چہرے کا اتنا سفاک اور اتنا خوفناک منظر نامہ شاید پہلے نہیں لکھا گیا۔ ذوقی مرد اساس سماج کے چہرے کو ڈرائکولا سے تعبیر کرتے ہیں جو عورت کا لہو چوستا ہے اور جنسی تلذذ کی سرشاری میں مد ہوش ہو جاتا ہے۔ لہو کے چوسنے کا یہ عمل کئی سطحوں پر جاری ہے۔ عورت محض ایک شئے ہے جس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے خریدنے اور بیچنے کی روایت تو ہزاروں سال پرانی ہے۔ اب معاملہ بدن کی تجارت کا نہیں ہے تجارت میں بدن کے استعمال کا ہے۔
پوسٹ ماڈرن کلچرل میں جہاں تہذیبیں تہذیبوں سے متصادم ہیں، اور جہاں اس تصادم کی ایک وجہ سیاسی، معاشی اور مذہبی ہے وہیں دوسری وجہ ماحولیاتی بگاڑ بھی ہے۔ ماحولیاتی توازن کے بگڑتے حالات کس طرح انسانی اذہان میں تشدد کو فروغ دیتے ہیں اس کا بہت گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ ذوقی ماحولیاتی توازن کے بگڑتے حوالوں کو بار بار ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ، جنگلوں کی تباہی، گلیشئیر کا پگھلنا، سمندروں کی سطح کا بلند ہونا، سونامی، زلزلے، طوفان، نت نئی بیماریاں، ایڈس، سارس، ذکا ئ۔۔۔۔ ان تمام چیزوں کو ذوقی کارپوریٹ کلچر اور منافع اندوزی کی اندھا دھند دوڑ سے منسلک کر دیتے ہیں۔ قدرتی وسائل کے مسلسل استحصال اور کرۂ ارض کی تباہی کے حالات کی تشکیل۔ دھرتی کی اس آبرو ریزی کو علامتی سطح پر عورت کے استحصال کے روپ میں دیکھنا ایک گہرے فلسفیانہ بصیرت کا اظہار ہے۔ یہاں میں صرف نالۂ شب گیر کے حوالے سے بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ ذوقی کے ناولوں میں موجود مجموعی فلسفیانہ ابعاد کی ایک نہج کی نشاندہی کر رہا ہوں۔ نالۂ شب گیر بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ عورت اور فطرت کی ہم آہنگی یا فطرت کی تانیثیت کا زبردست اظہار وحیدہ کے کردار میں موجود ہے۔ یہ معصوم اور فطرت سے ہم آہنگ لڑکی اڑتے ہوئے پرندوں کے ساتھ اڑتی ہے اور سرسبز پہاڑوں کے سائے میں زندگی کے رنگ بکھیرتی ہے۔ وحیدہ کے کردار کی تفصیلات اور اس میں پوشیدہ تحیر قاری کو ناول کے مطالعے کے بعد ہی معلوم ہو گا۔ میں یہاں اس کردار کی تہوں کو کھولنے سے جان بوجھ کر گریز کر رہا ہوں کہ ذوقی نے ناول کی پلاٹ سازی میں کلاسیکل قصوں کے تجسس کو برقرار رکھا ہے، قاری ہر قدم پر ایک ہی سوال کرتا ہے۔ اچھا! پھر کیا ہوا؟
اس مضمون کا مقصد نالۂ شب گیر کا قصہ یا اس کی تلخیص بیان کرنا نہیں ہے جیسا کہ عام طور سے ہمارے ناقدین کا من بھاتا رویہ ہے۔ میں ذوقی کے اس ناول میں قائم کردہ ثقافتی مکالمے کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ اوپر میں نے بعض بنیادی مباحث کی طرف اشارے کیے ہیں۔ جہاں اس ناول میں عورت ماضی کے صنم خانے کی بت نظر آ رہی ہے۔ تاریخ سنکری گلی میں بوسیدہ ہوتی ہوئی حویلیوں کے اندر جنم لینے والی داستان کے پس منظر سے عورت کے بدلتے ہوئے روپ، اس کے استحصال کی موڈرن اور پوسٹ موڈرن صورتحال نالہ شب گیر میں برہنہ صورت میں موجود ہے۔ حویلی کی کہانیاں اور حرم کے قصے پدر سری معاشرے میں جنسی جمالیات سے گہرا انسلاک رکھتے ہیں۔ یہ قصے صرف زبانی بیانیہ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ان کی دستاویزی صورت عہد وسطیٰ کی پینٹنگ، شاعری اور بعد میں داستانوی بیانیہ میں صاحب ذوق کی تسکین اور تلذذ کا سامان موجود ہے۔ ذوقی نے ماضی کے اس بے رحم اور ظالمانہ پس منظر کو نالۂ شب گیر میں عریاں کر دیا ہے۔ حویلیوں کے اندر اپنے ہی ماموں اور چچاؤں کے ذریعہ جنسی استحصال کی شکار بچیوں اور عورتوں کی گھٹن آلود چیخوں کو کمال فن کے ساتھ کچھ یوں پیش کیا ہے کہ قاری خود ایک جان لیوا گھٹن کا شکار ہو جاتا ہے۔ گھٹن کی اس خوفناک فضا سے جب ہم نکلتے ہیں تو ہمیں صوفیہ مشتاق احمد ملتی ہے۔
صوفیہ مشتاق احمد ہمارے عہد کی عورت ہے۔ جیسا کہ صوفیہ مشتاق احمد کے اس کردار کے تعلق سے بیان کیا جا چکا ہے کہ وہ اس بات سے نہیں گھبراتی کہ کوئی اس کے وجود کا ذائقہ چکھ کر، ایک رات اسے ٹٹول کر اس سے رشتۂ ازدواج میں بندھنا چاہتا ہے۔ وہ اس مرد کے سامنے خود کو برہنہ پیش کرنے سے بھی نہیں گھبراتی۔ یہ ایک نئی شناخت ہے۔ صدیوں سے دبی کچلی عورت خس و خاشاک کے ڈھیر سے سر ابھارنے لگی ہے۔ وہ صوفیہ مشتاق احمد کی جرأت کی صورت ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس کی برہنگی اور شخصیت کے وقار کی تاب لانا شاید آج کے مرد کے بس میں نہیں۔ جب عورت اعتماد کے ساتھ خود کو برہنہ کرتی ہے تو مرد کے پاس سوائے راہ فرار کے اور کوئی راستہ نہیں رہ جاتا۔ لیکن اس جرأت میں شکست کی ایک آواز بھی موجود ہے۔ یہ مزاحمت کافی نہیں ہے۔ ذوقی کو صوفیہ مشتاق احمد سے مختلف عورت کی تلاش ہے۔ ظاہر ہے ناول نگار کی تلاش ہمارے عہد میں موجود کسی عورت پر ہی پڑے گی۔ وہ یہ بھی دیکھنے کی کوشش کرے گا کہ ہمارے عہد کی یہ عورت کن حوالوں سے ایک علیحدہ شناخت پر اصرار کرتی ہے۔
قاری نالۂ شب گیر کی قرأت سے گزرتے ہوئے اچانک چونک اٹھتا ہے جب اس کی ملاقات ناہید ناز سے ہوتی ہے۔ ناہید ناز ایک ایسا کردار ہے جو ہمیں ماضی کی حویلیوں سے بھی جوڑتی ہے جو اب کھنڈروں میں بدل رہی ہے اور جن میں آج بھی کچلی ہوئی عورتوں کی چیخیں گونج رہی ہیں، اور یہی ناہید ہمیں اس دنیا سے بھی جوڑتی ہے جو شاید ذوقی اور نئی نسل کی عورت دونوں کی مشترکہ دنیا ہے، اس دنیا میں ناہید ناز کی شناخت اپنے شوہر مصطفے کمال کے نام سے نہیں ہوتی۔ وہ اپنے شوہر کا نام سرنیم کے طور پر استعمال نہیں کرتی۔ وہ اپنے بچے کو شوہر کی گود میں دے کر مزاحمت اور احتجاج کے جلوس میں خود پتھر پھینکنے سے گریز نہیں کرتی۔ وہ مرد کو یا تو برابری کی سطح پر دیکھنا چاہتی ہے یا مرد کو کسی حد تک محکوم رکھنا چاہتی ہے۔ یہ ایک رد عمل ہے اور بہت ہی خوفناک ردعمل۔ جونا گڑھ کی حویلی میں مردوں کی بالادستی، ماموں، چچا کے جنسی استحصال کے خوفناک مناظر، گھٹی گھٹی چیخیں۔ خشمگیں نگاہیں۔ تشدد، ظلم۔۔ ان مناظر سے گذرتی ہوئی ناہید ناز کی زندگی ایک چیخ کی صورت حویلی سے نکلتی ہے اور ساری کائنات پر چھا جاتی ہے۔
’’آپ بھی جونا گڑھ کے ہیجڑے نکلے۔‘‘
’’مذہب آپ کے گندے انڈر وئیر میں ہوتا ہے۔‘‘
’’محبت کرنے کو آپ بے حیائی سمجھتے ہیں۔‘‘
یہ ناہید ناز کے چند مکالموں کے چنندہ حصے ہیں۔ ان سے اس کردار کی ذہنی کیفیات اور فکری ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ذوقی نے گو کہ باغی عورتوں کے نام نالہ شب گیر معنون کیا ہے لیکن ناہید ناز کا کردار صرف بغاوت تک محدود نہیں ہے یہ پوری طرح بدلی ہوئی عورت ہے۔ عورت کا ایک نئی عورت میں میٹا مارفوسس۔ یہ میٹا مارفوسس کیا ہے اس کا مکمل ادراک تو ناول پڑھ کر ہی ہو سکتا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ مجھے اس تہہ بہ تہہ کردار کی حقیقت کی وضاحت سے روکتا ہے۔ یہ کردار مزاحمت کا استعارہ نہیں بلکہ مرد اساس سماجی نظام میں ایک چیلنج ہے جو موجودہ اقدار کی ہر صورت کو رد کرتا ہے۔ عورت کی اصل حقیقت جو ڈی سماجی De-construction کے عمل سے گزر کر ایک مختلف عورت کے روپ میں Re-construct ہوتی ہے۔
۔۔۔۔
نالۂ شب گیر کے اس اہم کردار کے پس منظر میں فیمنسٹ تھیوری کے کچھ بنیادی مباحث میں ایک سب سے اہم بحث پر نظر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس کے مطابق ایک مرد ناول نگار یا مفکر عورت کے جذبات و احساسات، اس کے اپنے بدنی شعور اور جمالیاتی آگہی کو اس طرح پیش نہیں کر سکتا جیسا کہ خود ایک عورت لکھاری کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں Allan Williamson نے اپنی کتاب Almost a girl: male writers and female identification میں واضح کرتے ہوئے لکھا ہے۔
Certain emotions, certain basic human motives(including۔۔۔ narcissistic display, intense awareness of one’s own body, tender self-surrender, vulnerability) are typed by our culture as ‘feminine’۔ So the man who experiences them – or, especially, who finds them predominant in his own psychic makeup- may face a crisis of gender identity.
ایسے لوگ جو مخصوص تانیثی تجربات کا حسی ادراک رکھتے ہیں یا نفسیاتی سطح پر تانیثی جذبوں کی گہرائیوں سے وابستگی محسوس کرتے ہیں ان کے یہاں شخصیت کی شناخت کا مسئلہ بہت حد تک اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن یہ کرائسس ادبی سطح پر خاصہ اہم ہے۔ اسی کرائسس سے گذرتا ہوا مرد ادیب نسوانی فکر اور نفسیاتی دروبست کا بہت حد تک قریبی جائزہ لے سکتا ہے۔ ویلمسن کے مطابق مرد بھی ’’شرمندگی‘‘ محسوس کر سکتا ہے جب اسے یہ احساس ہو کہ اسے ایک حقیقی مرد کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ایسا اس مرد کے اندر موجود تانیثی نفسیات کے غلبہ کی وجہ سے ممکن ہے۔ شرمندگی کا اظہار ادبی حوالوں سے تانیثی فکریات کے بہت قریب ہو سکتا ہے۔ بہرحال میں یہاں ذوقی کی تحلیل نفسی نہیں کر رہا۔ اصل بات یہ ہے کہ سماجی اور معاشرتی سطح پر عورت کا مقام کہاں ہے یہ ایک بے حد حساس فنکار کافی گہرائی سے جانتا ہے۔ اس قعر مذلت سے نکل کر آج کی عورت کون سے دنیا خلق کر رہی ہے یہ ذوقی جیسا فنکار بتاتا ہے جو شاید عورت کی غلامی کے تجربے کا شعور اپنے اجتماعی لاشعور سے کھود کر نکال لیتا ہے۔
٭٭٭