ایک چاقو کا فاصلہ ۔۔۔ توصیف بریلوی

 

عصمت چغتائی پر صد سالہ عالمی سیمینار کا آخری دن تھا۔ آڈیٹوریم فکشن نگاروں، نقادوں، پروفیسروں، ریسرچ اسکالروں، فیمنسٹوں، کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور صحافیوں کے علاوہ دیگر دیسی اور بدیسی ادیبوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک مضمون اور خاکے پڑھے گئے، تقریریں بھی بڑی پر جوش ہوئیں۔ کچھ فیمنسٹوں نے تو کھل کر اظہار خیال کیا، یہاں تک کہ بات Sexual Freedom تک جا پہنچی۔ پھر کسی طرح اختتام کا وقت آیا اور صدر نے کچھ دیر عصمت کی خوبیاں بیان کرنے کے بعد اظہار تشکر کیا۔ میں جیسے ہی باہر نکلا میرے موبائل فون نے Vibrate ہونا شروع کر دیا۔ موبائل اسکرین دیکھتے ہی مجھے غصہ آیا اور اسی لئے میں نے کال رجیکٹ کر دی اور بھیڑ میں نظر دوڑانے لگا۔ کال دوبارہ آئی لیکن میں نے پھر وہی کیا اور اپنے ہاسٹل کی طرف چل دیا۔

روم پر پہنچتے ہی میں نے WhatsApp آن کیا، اس میں محترمہ کے شکوے اور غصے سے بھرے ہوئے میسج پہلے سے ہی میرا انتظار کر رہے تھے۔ لکھا تھا کہ تم بہت بیکار آدمی ہو، انسانیت کے ناطے ہی میرا فون رسیو کر لیتے۔ میں اتنی مصیبت میں تھی اور تم اپنا غصہ لئے بیٹھے تھے۔ میرے ساتھ کی ساری لڑکیاں جا چکی تھیں اور میں اکیلی رہ گئی تھی۔

میں: مجھے لگا کہ تم مجھے منانے کے لئے فون کر رہی ہو اسی لئے میں نے رسیو نہیں کیا۔

وہ: نہیں، میں تم سے صرف یہ گزارش کرنا چاہتی تھی کہ پلیز مجھے میرے ہاسٹل تک چھوڑ دو۔ اندھیرا ہو چکا تھا اور کوئی رکشہ بھی نہیں مل رہا تھا، ورنہ تم سے کبھی نہ کہتی۔

میں: اوہو…بڑی عجیب ہو تم، پہلی بات یہ کہ جب ہم دونوں میں دوستی ختم ہو گئی تو فون کیوں کیا…؟

دوسری یہ کہ تم تو بڑے مضبوط ارادوں والی بولڈ لڑکی ہو اور تیسری سب سے خاص بات یہ کہ تم لیڈی چنگیز خاں کا سیمینار Attend کرنے کے بعد بھی ڈر رہی تھیں۔

وہ: اوہ…Shut Your Mouth، تم بہت بولتے ہو۔ تھوڑا سا ڈر تو لگتا ہی ہے۔

میں: Ok، اب تم ناراض نہ ہو کیونکہ مجھے ایسا کچھ نہیں پتہ تھا کہ تم اکیلے جانے میں ڈرتی بھی ہو، لیکن تمہیں مجھے فون نہیں کرنا چاہئے تھا…جبکہ ہم لوگوں میں دوستی ختم ہو چکی تھی۔

وہ: مجھے نہیں پتہ، لیکن مجھے لگا کہ تم انسانیت کے ناطے میری مدد کرو گے، بھلے ہی بات نہ کرتے۔

اس طرح کافی دیر تک ہم لوگوں کا آن لائن جھگڑا ہوتا رہا اور یہ طے ہوا کہ کل ہم دونوں کو ایک بار پھر سے ملنا چاہئے اور مل کر ایک Break-up Party کرنی چاہئے۔ اس لئے جگہ بھی کچھ ایسی طے کی جہاں ہمارے ہم جماعت اکثر نہیں پہنچتے، تاکہ ہم لوگ اطمینان سے جھگڑ سکیں۔ دیر رات تک مجھے اس بات کا افسوس بھی رہا کہ کاش وہ فون میں نے رسیو کر لیا ہوتا تو اس کو بائک پر بٹھا کر اس کے ہاسٹل تک ساتھ جانے کا موقع مل جاتا۔

اگلی صبح میں لائبریری کے اسٹیک -۴ میں پہنچ گیا، جہاں وہ پہلے سے ہی منتظر تھی اور ایک کتاب اس کے ہاتھ میں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ مسکرا کر کھڑی ہوئی اور قریب پہنچ کر میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ اس نے بھی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ ہم دونوں کھڑکی کے پاس والی کرسیوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔ کل والے آن لائن جھگڑے کو نہ وہ بڑھانا چاہ رہی تھی اور نہ ہی میں۔ ہم دونوں کافی دیر تک بڑے سلیقے سے ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے اور مسکراتے رہے۔ کبھی کبھی میں جذباتی بھی ہو رہا تھا جس کی وجہ سے میری آنکھیں نم ہو جاتیں، آخر کار وہ سمجھ گئی تب میں نے کھڑکی سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کا بہانہ کر دیا اور نمی کو آنسوؤں کی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی جذب کر لیا۔ اچانک میری نظر اس کے ہاتھوں پر پڑی جو کافی مضبوط دکھائی دے رہے تھے، میں بے جھجھک ہو کر بولا…کیا میں تمہارے ہاتھ چھو سکتا ہوں؟

اس نے بھی ایک سیکنڈ گنوائے بغیر مسکراتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ میرے ہاتھوں میں دے دئے۔ اس کے ہاتھ مضبوط اور بھاری تھے۔

تمہارے ہاتھ اتنے سخت کیوں ہیں؟ میں نے پوچھا۔

خاندانی ہیں، اس نے بڑے وقار سے کہا۔

میں کافی دیر تک اس کا ایک ہاتھ پکڑے بیٹھا، باتیں کرتا رہا۔

اب ہم دونوں ایک دوسرے سے روزانہ ہینڈ شیک کیا کریں گے …

نہیں …اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔

تو ایک کام کرتے ہیں، ہم گلے ملا کریں گے … میں مسکرایا۔

وہ بھی مسکرائی اور بولی…میرے ہاتھ تو تم نے دیکھ ہی لئے ہیں نا، اور میری مسکراہٹ پھُر ہو گئی۔

اب بتاؤ…کس ریسٹورنٹ میں چل کر ہماری دوستی کی Happy Ending کرنا پسند کرو گی؟ جیسا کہ کل طے ہوا تھا۔

نہیں میرا موڈ نہیں ہے، وہ کسمسائی۔

اگر میرا زیادہ خرچ نہیں کروانا چاہتی ہو تو کینٹین بھی چل سکتی ہو۔ وہ بدستور بیٹھی رہی اور ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ اصل میں وہ میرے ساتھ جانا ہی نہیں چاہتی تھی۔

پھر مجھے نہ جانے کیا سوجھی کہ میں نے اس کو Multiplex میں فلم کے لئے آفر کر دیا۔ اس نے نہ تو منع کیا اور نہ ہی ہاں کیا بلکہ ایک بڑا ہی بے تکا سا سوال کیا…بتاؤ تمہیں میرے دونوں ہاتھ کیسے لگے …؟ سوال سن کر میں تھوڑا سا گھبرایا اور گھبرانے والی بات بھی تھی۔

پھر وہ دھیرے سے مسکرائی اور بڑے پیار سے مجھے سمجھانے لگی، پتہ ہے اس شہر میں میرے کئی رشتے دار ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ میں کبھی بھی Cinema نہیں گئی ہوں اور نہ ہی جانا چاہتی ہوں، پلیز دوبارہ کبھی نہ کہنا۔

افف ف…! تم رشتے داروں کی فکر نہ کرو چہرے پر نقاب اور آنکھوں پر گاگل لگا لینا کوئی بھی نہیں پہچانے گا، لیکن وہ میری تجاویز میں بالکل دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔

میرے ابو ایک معزز شخص ہیں، میں ایسا کوئی کام نہیں کر سکتی جس سے انھیں کوئی تکلیف پہنچے، وہ مجھ سے کہنے لگی اور میں اس کی باتوں سے اب بور ہو رہا تھا۔

کیا ہم اب بھی دوست رہیں گے …؟

’’میں تو دوستی توڑنے کی بات کر ہی نہیں رہی ہوں لیکن تمہیں فرینڈ کی نہیں گرل فرینڈ کی ضرورت ہے، شاید…‘‘

اگر تم چاہو تو میں کسی لڑکی سے تمہارے لئے …

نہیں نہیں تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو، ایسا نہیں ہے۔ ویسے تم بہت اچھی ہو۔

اب میری تعریف کر کے میرا موڈ خراب مت کرنا پلیز…!

کیوں …؟ اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے؟

کیونکہ مجھے پتہ ہے میں خوبصورت نہیں ہوں اس لئے No Compliment۔

ارے …تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو، تم خوبصورت ہو یا نہیں اس کا فیصلہ تم نہیں دوسرے کریں گے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے:

”Everything has its beauty but not everyone sees it.”

تم بہت خوبصورت ہو اور تمہاری باتیں تو مجھے کسی پیاری گڑیا جیسی لگتی ہیں جب تم باتیں کرتے وقت بیچ بیچ میں ٹھندی ٹھنڈی سانسیں لے کر بات کرتی ہو…

افف ف…! اس نے اپنے ہونٹوں کا دائرہ بنا لیا جو مجھے بہت اچھا لگا۔ دائرہ بنا لینے سے اس کے ہونٹوں پر باریک باریک سلوٹیں نظر آنے لگیں تو میں نے اس سے کہا…بچپن میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے جب نانی کے گھر جاتا تھا تو وہاں ندی کے شفاف پانی کے نیچے کی ریت میں ایسی لکیریں دیکھتا تھا، جیسی تمہارے ہونٹوں پر دکھائی دیں۔ تمہارے ہونٹ واقعی بہت خوبصورت ہیں …میں نے اس کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔ نتیجتاً اس نے بھی کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھا اور میں دم بخود ہو گیا۔

اس طویل ملاقات کے بعد ہم دونوں بہت کم ملے لیکن WhatsApp پر باقاعدہ لڑتے جھگڑتے رہے۔ کبھی کبھی میں اسے Cinema چلنے کو کہتا رہا اور وہ بدستور ٹالتی رہی۔ ’’سوچیں گے‘‘ ، ’’دیکھیں گے‘‘ یہ کہہ کہہ کر وہ میری بے چینی بڑھاتی رہی۔ کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی میں اس کا Type نہیں سمجھ پایا تھا۔

ایک شام…

ہیلو… کہاں ہو جناب؟

بس اپنے روم پر آرام فرما رہا ہوں۔

کیا میرے ساتھ کافی پینا پسند کرو گے ابھی…؟

ابھی…

ہاں ابھی …میں کچھ ہی دیر میں پہنچ رہی ہوں۔

Ok۔

کچھ ہی دیر میں ہم دونوں ایک کیفے میں کافی پی رہے تھے۔

ویسے یہ تو بتائیے میڈم!اس مہربانی کی وجہ کیا ہے؟

بس کافی کا موڈ ہوا اور آ گئی، واپسی پر تمہارے ساتھ اپنے ہاسٹل جانا چاہوں گی۔

تم ہاسٹل تک میرے ساتھ چلو گے نا…؟

ہمم م…ہاں بالکل، My Pleasure۔

’’تم بہت پر اسرار ہو…‘‘ میں نے کہا۔

’’کون میں …؟‘‘

’’ہاں تم۔‘‘

اندھیرا دھیرے دھیرے پھیل رہا تھا، ہوا بھی سرد ہو چلی تھی۔ ہم دونوں اب آہستہ آہستہ یونیورسٹی کی سڑک پر چل رہے تھے۔ ماحول پر ایک قسم کا سکوت طاری تھا۔ سامنے اس کا ہاسٹل دکھائی دے رہا تھا اور وہ بھی خاموش تھی۔

تم واقعی بہت خوبصورت ہو …میں نے اچانک کہا، لیکن وہ نہ تو سٹپٹائی اور نہ ہی خوش ہوئی۔ میں اس کے قریب اور قریب ہوتا چلا گیا، اتنا کہ میری سانسیں اس کے چہرے کو چھونے لگیں۔ اس کے دہکتے ہونٹوں کو چھو لینے کی شدید خواہش دل میں مچل رہی تھی لیکن…

تبھی مجھے میرے پیٹ پر کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ ابھی بھی بے حس کھڑی تھی اور اس کی آنکھیں کسی بھی تاثر کو نہ ظاہر کرتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ رہی تھیں۔ میں اس کی طرف سے پلٹا اور بوجھل قدموں سے اپنے ہاسٹل کی طرف چل دیا۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے