مارچ 2021 کا دور۔ کورونا وائرس کی وبا نے قیامت صغریٰ کا منظر برپا کر رکھا ہے۔ کہیں لاک ڈاؤن، کہیں کرفیو تو کہیں دفعہ 144 کا نفاذ-
لوگ گھروں میں مقید ہیں۔ عوام الناس کے لئے تفریح، خبریں، اور باہر کی دنیا سے تعلق بنائے رکھنے کا واحد ذریعہ موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے۔ جس کے ذریعہ دنیا جہاں کی اچھی بری خبریں ملتی رہتی ہیں۔ ہر روز صبح نیند سے جاگنے کے بعد دیگر ضروریات زندگی میں سب سے اہم اور ضروری کام فون کا دیدار ہوتا ہے جو تنہائی میں بھی ہمیں سب کے ساتھ ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
ایسی ہی ایک صبح کو جب ہم نے ایک واٹس گروپ میں حاضری لگائی تو دیکھا کہ گروپ میں ماسک کے بارے میں زبردست مباحثہ ہو رہا ہے۔
در اصل دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے کورونا کی وباء سے بچنے کے لئے ماسک (نقاب) کے استعمال کو لازمی قرار دیا ہے۔ کچھ سال پہلے تک یہ ماسک صرف مخصوص پیشہ سے تعلق رکھنے والے افرادہی استعمال کیاکرتے تھے۔ جیسے طبیب یا سائنسدان وغیرہ۔ بھلا ہو اس وباء کا کہ اس نے ہر کس و ناکس کو نقاب لگانے پر مجبور کر دیا- اور جب نقاب عام ہونے لگا تو اس کے مختلف اقسام اور فائدے نقصانات، استعمال کا طریقہ وغیرہ پر بھی تذکروں کا سلسلہ شروع ہوا- کچھ مہربان جو اردو کے قدردانی. ہیں ان سب کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ *ماسک* کا اردو ترجمہ کیا ہو سکتا ہے ؟ اور وہ سب سر جوڑ کر—— اوہ! معذرت!
نہیں نہیں آج کل تو کرونائی دور میں جوڑنے کی بات ہی نہیں کرنی ہے بلکہ اس بارے میں سوچنا بھی نہیں ہے۔ یہ دور تو فاصلوں کا دور ہے۔
جس کے بارے میں برسوں پہلے بشیر بدرصاحب نے کہا تھا کہ
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو!
دو گز کی دوری قائم نہیں رکھیں گے تو دوگز زمین میں دفن ہونے کے لئے تیار رہنا ہے۔
اس دور کے لحاظ سے سر جوڑ کر بیٹھنے والے محاورہ کے بجائے ” فاصلہ بنا کر بیٹھنے ” والے محاورہ کا استعمال کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے خیر!
ماسک کے بارے میں گفتگو کا آغاز واسا گروپ میں ارسال کی گئی ایک پوسٹ کو لے کر شروع ہوا جس میں لکھا تھا کہ "لکھنو میں اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقد ماہرین لغت کے ورچول یا فضائی اجتماع میں یہ فیصلہ ہوا کہ ماسک (mask) کو اردو میں "غلاف لب و رخسار” کہا جائے گا”۔
خبر ارسال ہونے کی دیر تھی کہ کمال میاں نے اپنا کمال دکھاتے ہوئے کہا کہ "لگتا ہے ماہرین لغت سے چوک ہو گئ۔ جو انہوں نے
“ناک” کو اس غلاف کا حصہ نہیں بنایا۔ اس سے تو ناک کی ناک کٹ جائے گی۔ ماہرین لغت کو چاہئے کہ اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں اور ناک کو اس میں ضرور شامل کریں”۔
قدوس میاں کو بھی اس اصطلاح میں ناک کی عدم موجودگی بہت بری طرح کھٹکنے لگی انہوں نے تو ماہرین لغت پر الزام ہی عائد کر دیا کہ "اس اصطلاح میں ناک اور کان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اور ہم اس قسم کی زیادتی کو بالکل برداشت نہیں کریں گے بلکہ ضرورت پڑنے پر زور دار احتجاج بھی کریں گے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ناک اور کان کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا ان دونوں کی اس میں شمولیت لازمی ہو نی چاہئے”۔
ہم سوچنے لگے کہ اگر قدوس میاں کی بات مان لی جائے تو پھر اصطلاح یوں ہو گی کہ "غلاف ناک، اور لب و رخسار”
تب بھی کان تو باہر ہی نکلے رہیں گے! ہماری مراد غلاف سے باہر۔
اس وائرس کے نخرے تو دیکھئے جناب کہ وہ انسانی جسم میں داخل بھی ناک اور منہ کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ اس لئے کان اس ضمن میں بالکل آزاد ہیں۔ اس کے باوجود وہ اس غلاف کو سنبھالنے کا بہت ہی اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ غلاف کے ٹکے رہنے کا سارا دار و مدار انہیں کے کندھوں پر ہے۔ وہ نہ ہوتے تو یہ غلاف کہاں ٹک پاتا بھلا؟
ایسے میں مہتاب میاں شاعرانہ لہجہ میں اپنی رائے دیتے ہوئے گویا ہوئے کہ "ماسک کو "نقاب نیم رخ” کہنا زیادہ مناسب رہے گا”۔
یہ ایک عمومی اصطلاح ہے۔ اس سے نہ ناک کو تکلیف ہو گی نہ کان کو کہ ان کا ذکر خیر چھوٹ گیا ہے۔ بلکہ اس اصطلاح میں تو ٹھڈی، جبڑے، داڑھی، مونچھ، بھی خوش ہو جائیں گے کہ ان کا شمار بھی "نیم رخ” میں ہوتا ہے۔
محمد میاں کا جواز تھا کہ "ترجمہ ایسا ہونا چاہئے جس میں وجہ تسمیہ بھی سمجھ میں آئے اور اس شئے کی غرض و غایت کو بھی بیان کرتا ہو جس کا ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ آج کل ہم ماسک کا استعمال Germs protector کی طرح کر رہے ہیں۔ لہذا اس کا ترجمہ "غلاف
حامی الجراثیم” ہونا چاہئے”۔
ہم یہ پڑھ کر سوچنے لگے کہ Germs Protector کا اردو ترجمہ تو "جراثیم محافظ” ہوتا ہے۔ پھر یہ حامی الجراثیم کیا ہو سکتا ہے ؟
ہم اپنے دماغ پر زور دے ہی رہے تھے کہ مہتاب میاں کے اعتراض سے ہمیں اپنے سوال کا جواب مل گیا انہوں نے محمد میاں سے کہا کہ
"یہ تو عربی ترجمہ ہوا جو صحیح بھی نہیں ہے۔ اگر عربی میں ہی کہنا ہو تو اس کو "غلاف یمنع الجراثیم” کہنا ہو گا”
کمال میاں کو ناک کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ اور وہ ناک کو لے کر بڑے متفکر تھے۔ کہنے لگے "یہ سارا معاملہ “ناک” کی وجہ سے بگڑا ہے۔ اس اصطلاح میں ادبی نزاکت کا نہ ہونا ہی اس غلاف کے صحیح نام کے لئے سبب دشواری بنا ہوا ہے ورنہ لکھنو کے ماہرین ادب کچھ اور ہی تجویز کرتے” انہوں نے سارا الزام بے چاری ناک پر دھر دیا –
مہتاب میاں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ "ہاں ناک تو ہمیشہ سے مسئلہ رہی ہے۔ جسے ہم بھول نہیں سکتے۔ اسی سبب "نیم رخ” کہہ کر ناک کو بھی لب و رخسار کے ساتھ شامل کر لیا ہے”۔
بیچاری ناک!
پچھلے ایک سال سے ماسک کا تناؤ سہتے سہتے کہیں "نکٹی” ہو گئی ہے تو کہیں "چپٹی”۔ اس کے باوجود "برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر” کے مصداق ہمیشہ اسی کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کوئی اسے بگاڑ کی وجہ بتا رہا ہے تو کوئی اسے مسئلہ بتا رہا ہے۔”بھائیو! بہنو! ناک سے پنگا نہ لینا۔ اگر اس نے بدلہ لینے کی ٹھان کر ہڑتال شروع کر دی اور بند ہو کر ہوا کے داخلہ پر پابندی لگا دے تو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ تب سمجھ میں آئے گا کہ یہ بگاڑ ہے مسئلہ ہے۔ نعمت ہے کیا ہے؟؟؟؟
اللہ کی اس نعمت کو مسئلہ بنایا اسی کے بندوں نے۔ جو ہر معاملہ میں اس کو گھسیٹتے ہیں۔ یہ ناک ہی در اصل ہماری "انا” ہے۔ جس سے ہم ہارنا نہیں چاہتے۔ شہاب میاں کا استدلال تھا کہ "لب و رخسار تو محفوظ ہو گئے مگر اصل مسئلہ تو ناک کا ہے اور اسے ہی کھلا رکھا گیا ہے۔‘
محمد میاں نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ "ناک چونکہ وقار کی علامت ہے اسی لئے اسے عمداً کھلا ہی چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ وقار جھکتا رہے اور بعض اوقات چھلکتا بھی رہے۔”
شہاب میاں نے یہ سنا تو کہنے لگے "آجکل یہ وقار اسی طرح کھلا رکھا گیا تو اس وقار کی عزت پہ آکسیجن کا ماسک بھی لگ سکتا ہے”
لہجہ میں تنبیہ تھی، اور پھر وہ کہنے لگے کہ "اردو میں ماسک کا متبادل اگر آسان سا کوئی لفظ ہو سکتا ہے تو وہ نقاب ہی ہے۔
ویسے اگر ماسک ہی بولا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ انگریزی کے کتنے ہی ایسے الفاظ اردو میں مستعمل ہیں جو اب اردو لغت کا حصہ بن گئے ہیں”۔
رفعت میاں نے شہاب میاں کی تجویز کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ "ایک لفظ ہی کافی ہے، رہی بات روز مرہ کی گفتگو میں انگریزی زبان کے دوسرے الفاظ کا استعمال کرنے کی تو گلاس اور کپ اتنا عام ہو چکا ہے کہ چاہے وہ پلاسٹک کا بنا ہوا ہو، کاغذ کا یا اسٹیل کا وہ گلاس ہی ہو کر رہ گیا ہے۔ جب کہ کاسہ، جام، پیالہ، مگ، کلیہ سب غائب ہو گئے۔”
شہاب میاں نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ "جی بالکل۔۔ ۔
ان الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے بھی بارہا سوچنا پڑے گا۔ کیونکہ گلاس کے بجائے اگر ہم کاسہ بولیں تو عام افراد تو حیرت سے منھ تکنے لگیں گے اور پڑھے لکھے لوگ سمجھ بیٹھیں گے کہ ہم "کاسہ لیسی” یا "کاسہ گدائی” کی بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ دور تو کاسہ لیسی کا ہی دور ہے۔ ایک وقت ہوا کرتا تھا جب خود نمائی، خود ستائشی کو بے ادبی تصور کیا جاتا تھا۔ اس قسم کے عمل کو بچکانہ اور غیر علمی قرار دیا جاتا تھا۔ مگر اب تو صورت حال یہ ہے کہ لوگ ‘کاسہ لیسی’ کے فن پر عبور رکھتے ہیں اور اسی کو زینہ بنا کر کامیابی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے لوگوں کا رجحان اس جانب جانا فطری ہے۔ ویسے کاسہ گدائی پر ہمیں شاہ عبدالطیف بھٹائی کے یہ اشعار یاد آ گئے۔
ہاتھ میں کاسہ گدائی ہے
دل کی ہر آرزو چھپائی ہے
دور افتادہ منزل جاں سے
رازدارانہ لو لگائی ہے۔
اس بحث و مباحثہ کو دیکھتے ہوئے محسن میاں نے اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ "یہ جعلی پوسٹ ہے۔ نیز اردو اکیڈیمی پر غیر ضروری تہمت بھی۔”
کمال میاں نے تو گویا ٹھان رکھا تھا کہ آج ماسک کی اصطلاح بنانی ہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے یہ کہہ کر میاں محسن کو چپ کروا دیا کہ "اس کو اس طرح سے نہ سونچیں۔ ہو سکتا ہے کہ بات مذاق میں کہی گی ہو لیکن ایک ادبی بحث کا جواز تو بنتی ہے۔ اب تو ماسک زندگی کے لیے جز لاینفک بن چکا ہے۔ جس کی نام رکھائی تو ہونی ہی چاہیے۔”
کمال میاں کو ‘غلاف لب و رخسار’ میں ایک قباحت یہ بھی نظر آئی
کہ وہ غلاف میں رخسار کی موجودگی کے سخت مخالف ہیں اور کہتے ہیں۔ رخسار کی اس غلاف میں کیا ضرورت ہے؟ “غلاف لب و ناک” کہنا کافی ہے۔”
کمال میاں دھیان رہے، آپ کے اس بیان سے امتیازی سلوک کی بو آ رہی ہے۔
یہ سب بحث دیکھ کر ہمارا خون بھی جوش کھانے لگا اور ہم نے بھی ماسک کے لئے ایک لفظ کی تجویز رکھی کہ اسے
’مقنع‘ اگر کہیں تو کیسا رہے گا؟
طارق میاں نے اس میں ایک لفظ کا مزید اضافہ کرتے ہوئے اسے ”مقنع طبی” رکھنے کی رائے دی۔
محمد میاں نے بھی ان کی تائید کی- لیکن مرزا ماں کو یہ لفظ بڑا ثقیل لگا جس کے استعمال سے بد ہضمی کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
ہم نے کہا کہ "ہاں ثقیل تو ہے اور شاید بھونڈا بھی۔ لیکن ماسک کی طرح صرف "واحد لفظی” اصطلاح ہے۔ یہ میم سے شروع ہوتا ہے اور ماسک بھی میم سے اور دونوں چار حرفی ہیں”
مہتاب میاں جن کی طبیعت شعریت اور لطافت سے مزین ہے۔ انہیں تو ‘مقنع’ ایک آنکھ نہ بھایا انہوں نے کہا کہ "مقنع کا مطلب ‘نقاب پوش’ ہے نا! یہ تو بہت بھونڈا لگ رہا ہے لطافت تو چھو کر بھی نہیں گزری۔ ”
محمد میاں نے مہتاب میاں کے جواز کو رد کرتے ہوئے دلیل پیش کی کہ
"ترجمہ کے بھی کچھ قواعد ہوتے ہیں اگر ہم اس ضمن میں طبع آزمائی کر رہے ہیں تو ترجمہ کی غایت کو سمجھنا چاہیے نہ کہ مزاج کو (شاعرانہ غیر شاعرانہ، لطیف کثیف)”
بات یہاں تک پہنچی تو کمال میاں کو احساس ہوا کہ "ہمیں اردو میں mask کا متبادل ڈھونڈنا چاہیے ترجمہ نہیں”
محمد میاں نے ان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ "درست فرمایا۔ لیکن متبادل ایسا ہونا چاہیے جو جمہور کو بھی سمجھ میں آ سکے۔
اگر میں حیدرآباد میں کسی سے کہوں کہ "جناب آپ نقاب لب و رخسار لگانا بھول گئے” تو جواب ملے گا "بڑے میاں نکل گئے شاید کیا کیا کچ بول ریں۔ تکیوں کو غلافاں چڑاتے سو سنے تھے اپن۔ اب انوں کونسے کی غلافوں کے باتاں کر ریں۔ ہلّو پتلی گلی سے نکل جانا۔ نئی تو اور کیا کیا سناتے کی انوں” اور پھر یہ جا وہ جا۔
کمال میاں نے اب ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت سمجھی اور کہنے لگے کہ "ان سب باتوں کا نتیجہ کچھ نہیں نکلنے والا۔ بس ایک پر لطف جھگڑا ہے۔ بقول اس مصرعہ کہ: "وہ کہتے ہیں میرا دل ہے میں کہتا ہوں میرا دل ہے”
ہشام میاں کو شاعری سوجھی اور ایک فی البدیہہ شعر ان پر وارد ہو گیا کہ:
نقاب لب و رخسار لگانے لگے ہیں آپ
آنکھوں سے دل کی بات بتانے لگے ہیں آپ
کرونائی دور نے آنکھوں کو باتیں کرنا اور مسکرانا سکھا دیا ہے۔ کیونکہ ہونٹوں کی مسکراہٹ تو ماسک نے چھین لی ہے۔
محمد میاں نے شعر پڑھا تو کہنے لگے "بہت خوب۔۔ لیکن یہ face mask کم اور کسی حسینہ کا گھونگھٹ زیادہ لگ رہا ہے۔”
"شاعری میں رومانس کا ہونا تو ضروری ہے”۔
ہشام میاں نے صفائی پیش کی۔ لفظ گھونگھٹ میں اتنی کشش تھی کہ جیسے ہی گھونگھٹ کا ذکر نکلا لوگ ماسک کو چھوڑ کر گھونگھٹ کے بارے میں گفتگو پر اتر آئے۔ یہ ایک بہترین مثال ہے (Distraction ) انتشار توجہ اور ( Diversion) اجتناب تفرج کی۔ جو عام طور پر نوجوانوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں لفظ "گھونگھٹ” کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ کسی بھی عمر والوں کو منحرف کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
آئے اب لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھ لیجئے کہ گھونگھٹ کے بارے میں لوگوں نے کیا کیا کہا۔
لفظ گھونگھٹ سے مرزا میاں کو اس موضوع پر کہے گئے مختلف شعراء کے اشعار اور مختلف فلموں کے نغمے یاد آ گئے۔
"گھونگھٹ”۔ بھئ واہ کیا پیارا لفظ استعمال کیا ہے”۔ انہوں نے چٹخارے لیتے ہوئے کہا۔ قمر جلالوی صاحب کی غزل کا مطلع ہے:
آئے ہیں وہ مزار پہ گھونگھٹ اتار کے
مجھ سے نصیب اچھے ہیں میرے مزار کے
ابن انشاء کا رنگ کچھ اور ہی ہے:
کھولے جب چاند سے اس مکھڑے کا گھونگھٹ عاشق
کیوں نہ پھر لیوے بلائیں تیرے چٹ چٹ عاشق
ایک اور لہجہ یاد آ گیا:
کون گھونگھٹ کو اٹھائے گا ستم گر کہہ کے
اور پھر کس سے کریں گے وہ حیا میرے بعد
کچھ سال قبل فلم ’ہم ہیں راہی پیار کے‘ نے ایک بڑا پیارا نغمہ دیا تھا:
گھونگھٹ کی آڑ سے دلبر کا دیدار ادھورا رہتا ہے
جب تک نہ پڑے عاشق کی نظر سنگھار ادھورا رہتا ہے
جوہی چاؤلہ اور عامر خان پر فلمایا گیا یہ گیت نغمہ و رقص کا خوبصورت امتزاج تھا۔ دونوں اداکار فن میں ڈوب کر سرشاری کا مظاہرہ کرتے ہیں جو دلوں کو چھو لیتا ہے”۔
شہاب میاں کو چھیڑ خانی سوجھی تو انہوں نے اکبر الہ آبادی کے ایک شعر کو ’اُپٌر نٍچٌے‘ کر کے یوں لکھا کہ:
بے ماسک نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا "نقاب” وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ "ناک” پہ مردوں کے پڑ گیا۔
ہشام میاں نے نقاب کے حوالے سے ایک قطعہ یوں پیش کیا کہ
ہم جو گئے ان کے گھر رسمی سلام و دعا رہی
گہرے رشتوں کے بیچ یہ عام وبا رہی
کہنے کو تو بہت کچھ تھا درماں لب و رخسار رہا
کچھ نظریں ان کی جھکیں کچھ ہماری خیریت کی ناکام ادا رہی!
جب لوگ موضوع سے ہٹنے لگے تو ہم نے بھی وہاں سے ہٹنے میں ہی عافیت سمجھی۔
ماسک کے لئے پانچ اصطلاحات کی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ کاش ان تجاویز کی نمائندگی ماہرین لغت تک ہوتی تو بہت ممکن ہے کہ کوئی ایک اصطلاح کو قطعیت دے کر لغت میں شامل کر لیا جاتا۔ اس سیر حاصل مذاکرہ کا کچھ تو فائدہ ہوتا اور ہم اس نام رکھائی کی خوشی میں لڈو کھاتے۔ لیکن کیا کریں اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ’’ہم بوم پکارا تو بھوت کرتے مگر کرنے کے کاماں نئیں کرتے!‘‘
٭٭٭