زندگی در در پھری ہر سمت اور ہر جا گئی
آخرش رازِ سعادت ایک در سے پا گئی
کس قدر عالی مراتب ہستیاں آئیں مگر
ایک ہستی اوّلیں اور آخریں پر چھا گئی
ایک ایسی روشنی نکلی تھی کوہِ نور سے
جو اندھیروں کو ہمیشہ کیلئے دفنا گئی
تا قیامت سبز کر دیں دل کی بنجر گھاٹیاں
اک گھٹا ایسی مقدّس بارشیں برسا گئی
ایک شاہی جو مشقّت اور فقیری میں کٹی
آنے والے کتنے مسکینوں کے دل بہلا گئی
٭٭٭