جہان خوابیدہ کو بیدار کرنے والے شاعر معین احسن جذبیؔ نے برسوں پہلے کہا تھا :
اپنی سوئی ہوئی دنیا کو جگالوں تو چلوں
اپنے غم خانے میں اک دھوم مچا لوں تو چلوں
اور ایک جام مئے تلخ چڑھا لوں تو چلوں
ابھی چلتا ہوں ، ذرا خود کو سنبھالوں تو چلوں
جذبیؔ موت وزیست کے شاعر تھے۔ پیام موت سے خوف زدہ نہ ہو کر فرشتۂ اجل سے مہلت مانگنے کی یہ ادا، یہ خواہش بے مثل ہے، جس کی نظیر اردو ادب تو کجا، شاید عالمی ادب میں بھی مشکل ہی ملے گی۔ اس جرأت مندانہ اظہار تمنّا پر مبنی ان کی نظم ’موت‘ آزادی وطن کے چند ماہ بعد شائع ہوئی تھی، جب ایک نیا ہندوستان متشکّل ہو رہا تھا، بہ قول اقبال بطن گیتی سے آفتاب تازہ پیدا ہو چکا تھا، اور آسمان ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم تمام کر چکا تھا۔ جذبیؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، فانیؔ کے شاگرد رشید تھے، گو ان کے یہاں مکتب میرؔ کے مزاج و رواج کے مطابق حزن و ملال تو ہے، مگر قنوطیت ومایوسی ہرگز نہیں ، زندگی جینے کا حوصلہ ہے، موت سے پنجہ آزمائی کا عزم ہے۔ ان کے کلام میں رومانی جذبات واحساسات کے جلو میں انقلاب کی گونج ہے اور ان کا یہی وصف انہیں اپنے دور کے دیگر شعراء سے ممتاز و ممیّز کرتا ہے۔
یہ چند سطور پیش بندی کے طور پر تحریر کی گئی ہیں ، ورنہ زیر نظر مضمون تاثراتی نوعیت کا ہے، تنقیدی ہر گز نہیں ، نیز یہ جذباتی اظہار نامہ جذبیؔ صاحب کے ساتھ راقم کے تعلق خاطر اور ان مراسم کی اساس پر سپرد خامہ کیا جا رہا ہے جو ایک استاد اور شاگرد کے باہمی روابط کے دائرے سے تجاوز کر کے اکثر و بیشتر بے تکلفی کی حدود میں داخل ہو جاتے تھے، گرچہ یہ حد فاصل دھوپ کی سرحد کے مانند تھی، جس کی جگہ مقر ر نہیں تھی۔ ہماری جسارت اور ان کی عنایت کے طفیل اس خط منحنی کی حدود بدلتی رہتی تھیں ، تاہم ایک محفوظ فاصلہ برقرار رہتا تھا، کہ حد ادب لازم تھی مگر ان باتوں کے با وصف ہمیں جذبیؔ جیسی عظیم ہستی کی ’ہم قدمی‘ کا شرف حاصل تھا۔
ہمیں اپنی اوقات کا ادراک جب بھی تھا اور اب بھی ہے، نیز ہمیں یہ اعتراف ہے کہ ہم جذبیؔ جیسی قد آور شخصیت کے نہ ہم نفس تھے، نہ ہم سفر اور نہ ہی ہم قلم تھے، ہماری کیا مجال کہ ہم کبھی تصور میں بھی ان خیالات کو در آنے دیتے، البتہ ہم ان کے ہم قدم تھے، ان کے ساتھ چہل قدمی، صد قدمی اور بیشتر الف قدمی کرنا ہمارے لئے باعث صد افتخار تھا۔ در اصل ہم قدم ہونا اور دوسروں کو ہم قدم بنانا جذبیؔ صاحب کا محبوب مشغلہ تھا، اس ہم قدمی کی راہ میں عمر کا تفاوت کبھی آڑے نہیں آتا تھا بلکہ یہ موقع خردوں کو زیادہ نصیب ہوتا تھا۔ ہم سے قبل بھی کئی خرد ان کے اس کرم سے فیضیاب ہوئے ہوں گے اور ہمارے بعد بھی، لیکن ہمیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ اپنے قیام علی گڑھ کے دوران کئی برس پر محیط عرصہ ایسا گزرا، جب ہم ہر شام ان کے ہم قدم ہو تے تھے، نہ جذبیؔ صاحب کو قرار تھا اور نہ ہمیں ۔ جب تک ہم علی گڑھ میں رہے، اپنے اس تجربۂ نشاط میں ہم نے کسی اور کو شرکت کی اجازت شاذونادر ہی دی، کیوں کہ جذبیؔ صاحب کا اصول یہ بھی تھا کہ وہ ایک وقت میں ایک ہی شخص کو اپنا ہم قدم بناتے تھے، اول تو وہ ہر کس وناکس کو منہ نہیں لگاتے تھے، نا پسندیدہ اشخاص کو دور سے دیکھ کر ہی منہ بنالیتے تھے، ناک بھوں چڑھا لیتے تھے، پھر کس کی ہمت ہوتی کہ قریب پھٹکتا۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ بھی ہے جودر اصل قصّہ ہے کہ واقعے پر مبنی ہے۔
ایک صاحب جو جذبیؔ صاحب کو سخت ناپسند تھے، انہیں شام کی سیر کے وقت اکثر مل جاتے، بلکہ ان کا راستہ کاٹتے، پھر ان کے قریب آ کرانتہائی فدویانہ مگر در اصل منافقانہ انداز میں پہلے فرشی سلام پیش کرتے، پھر دریافت کرتے کہ ’’حضرت آپ کا مزاج بہ خیر ہے ‘آپ کی بیگم کیطبیعت کیسی ہے اور آپ کے دیگر اہل خانہ کیسے ہیں ‘‘۔ یہ تقریباً روز کا معمول تھا۔ ایک دن تنگ آ کرجذبیؔ صاحب نے ان صاحب کے ایک درخت کی آڑ سے نمو دار ہوتے ہی انہیں اشارے سے روک دیا اور فرمایا ’’دیکھئے، میں بہ خیر ہوں ، میری اہلیہ بخیر ہیں ، میری تمام تر اولادیں خیریت سے ہیں اور میرا کتا بھی ٹھیک ہے۔ اب کچھ اور پوچھنا ہے آپ کو ؟‘‘یہ سننا تھا کہ وہ صاحب سلام عرض کرنا بھی بھول گئے اور ایک دوسرے درخت کی اوٹ میں پنا لے لی۔ اس دن کے بعد وہ بے چارے بجائے راستہ کا ٹنے کے کنّی کاٹنے لگے، یوں یہ سلسلہ تمام ہوا۔
ہماری اور جذبیؔ صاحب کی شام کی ’قدما قدمی‘ میں کبھی کوئی شریک نہ ہوتا تھا، البتہ کچھ مستشنیات تھیں ، ہمارے دوست پروفیسر علی احمد فاطمی الہٰ آبادی، جو اس حقیقت کے معترف ہیں کہ ان سے علی گڑھ کا تعارف ہم نے کرایا اور جذبیؔ صاحب سے بھی ان کی پہلی ملاقات ہمارے ہی توسط سے ہوئی تھی، وہ ان دنوں کبھی اپنی تحقیق کے سلسلے میں اور اکثر ہم سے یا چند اور احباب سے ملاقات کی غرض سے مہینے میں ایک آدھ بار ضرور علی گڑھ آتے تھے، وہ بھی جذبیؔ صاحب کے مداح تھے اور ان سے گفتگو کا موقع تلاش کرتے تھے، لہٰذا جب ان کا ورود ہوتا تو ہم ان کے لئے سڑک خالی کر دیتے اور اس دن جذبیؔ صاحب کی ہم قدمی کا شرف ان کے حصے میں آتا۔ ہماری علی گڑھ بدری کے بعد بھی فاطمی نے اس روایت کو زندہ رکھا، مگر انہیں زیادہ مواقع نہیں ملے کہ پردیسی تھے۔
یہ جذبیؔ صاحب کی ذرّہ نوازی ہی تھی کہ جب تک ہم علی گڑھ میں رہے ان کی ہم قدمی کا شرف اوّل ہمیں حاصل رہا، جب ہم دانش گاہ سیّد کے منظر نامے سے غائب اور عازم دہلی ہوئے تو ہماری جانشینی ہمارے عزیز دوست مسعود مرزا نیازی نے سنبھالی، انہوں نے بھی برسوں جذبیؔ صاحب کی معیت میں شام کی سیر کی، جذبیؔ صاحب کے دور آخر تک وہ ان کے یہاں حاضر باش رہے۔ مسعود اب بھی علی گڑھ میں مقیم ہیں ، مگر افسوس کہ جذبیؔ صاحب نہیں ، وہ تو عالم بالا کی سیر کو جا چکے، ممکن ہے کہ وہاں بھی چہل قدمی ہی کر رہے ہوں ۔
معین احسن جذبیؔ اسم بامسمّیٰ تھے، وہ احباب و تلامذہ کے معین تھے، بہر حال اور ہمہ وقت تھے۔ ان کا کردار احسن تھا، اعلیٰ تھا، ارفع تھا اور وہ اپنے تخلص کی رعایت سے جاذب بھی تھے، جذبیؔ بھی تھے، عملاً تھے، یعنی سب کے ساتھ جذب ہو جاتے تھے، اس طرح گھل مل جاتے کہ ہم جیسے خردوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنے بڑے شاعر ہیں ، فانیؔ کے شاگرد رشید ہیں ، جوشؔ کی بارگاہ میں بار یاب رہے ہیں ، فیضؔ کے ہم عصر ہیں اور مجازؔ کے اتنے گہرے دوست کہ ایک جان دو قالب۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کا قد اتنا بلند تھا کہ اگر ہم ٹوپی لگائے ہوتے اور نگاہ اٹھا کر انہیں دیکھنے کی کوشش کرتے تو ٹوپی گر جاتی، ہم لوگ ذرّہ تھے اور وہ آفتاب، ہم لوگ قطرۂ شبنم تھے اور وہ آسمان۔
جذبیؔ صاحب سے ہماری پہلی شناسائی ان کے کلام کے توسط سے ہوئی، ان دنوں ہم درجہ ہفتم یا ہشتم کے طالب علم ہوں گے، تاہم ہمارے مطالعے کی سرحدیں نصاب سے کئی برس آگے تک وسعت پذیر تھیں ، جو ہاتھ لگتا اسے پڑھنے لگتے۔ شاید درجہ یازدہم کی کوئی نصابی کتاب تھی، اس میں جذبیؔ صاحب کی ایک غزل شامل تھی اور ان کا مختصر تعارف بھی مندرج تھا، غزل تو ہماری سمجھ میں کیا آئی ہو گی، البتہ اچھی لگی، کیوں کہ اشعار کی نغمگی اکثر زبان سے نامانوس افراد کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ حافظؔ وخسروؔ کے کلام پر وہ لوگ سر دھنتے ہیں جنہیں فارسیکی ’ف‘ نہیں آتی۔ خیر اس طرح ہم جذبیؔ نام کے ایک شاعر سے واقف ہوئے، جس کی تخلیق، میرؔ ، غالبؔ ، حالیؔ ، اقبالؔ اور جوشؔ کے ساتھ شریک نصاب تھی۔ ہمارے لئے ان کی بلندی کی یہی پہچان کافی تھی، پھر جیسے جیسے شعور آتا گیا حسر تؔ ، فانیؔ اور جگرؔ کے ساتھ ہم مجازؔ اور جذبیؔ کی شعریات سے بھی لطف اندوز ہونے لگے۔ اس پس منظر میں ہم علی گڑھ آئے اور مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو وہاں شعراء اور ادبا کا ایک پو را نگار خانہ ہمارے سامنے رقصاں تھا، رشید احمد صدیقی، معین احسن جذبیؔ ، قاضی عبدالستار اور شہریار، یہ چند بڑے فن کار تھے جو ہمیں چلتے پھرتے نظر آتے اور وہ سب ہم جیسے ادب کے مجنوں کے لئے اصنام سے کم نہ تھے۔ سال دو سال بعد اس بزم میں بشیر بدرؔ بھی شامل ہو گئے، لیکن ہم انہیں اپنے دوستوں میں شمار کرتے تھے۔ اردو اور شعر و ادب سے عشق کے بر وصف ہمارا زیادہ وقت اپنے مضامین کی درس گاہوں کی بجائے شعبۂ اردو کے چکر کاٹنے میں گزرتا، جہاں کچھ دوست بن گئے تھے اور انوار کی چائے بھی ہمیں بہت مرغوب تھی۔ یہ ہماری کم نصیبی کہ ہم جذبیؔ صاحب کے درسی شاگرد کبھی نہیں رہے، لیکن ہم نے ان سے استفادہ خوب کیا، بھر پور کیا۔
جذبیؔ صاحب سے ہمارا اوّلین، باقاعدہ تعارف ہمارے بزرگ دوست جاوید کمال نے کرایا، جاوید کمال خود بہت اچھے شاعر تھے، جذبیؔ صاحب ان کی شعر فہمی کے قائل تھے اور انہیں اپنی نئی غزل سناتے تھے، مگر زمانے نے ان کی قدر نہیں کی، شاید اس لئے کہ وہ کسی شعبۂ اردو میں استاد نہیں تھے۔ خیر جاوید کمال صاحب کا ذکر پھر کبھی کہ تفصیل کا متقاضی ہے اور سردست قصّہ جذبیؔ صاحب کا سنانا مقصود ہے۔ ہم جاوید کمال صاحب کے ساتھ چائے کے شغل میں محو تے کہ اچانک جذبیؔ صاحب نے قدم رنجہ فرمایا، ہم نے کھڑے ہو کر سلام عرض کیا اور ایک جانب سمٹ کر انہیں جگہ دی، اس عظیم شاعر سے ہماری یہ پہلی بالمشافہ ملاقات تھی، انہوں نے ہماری طرف زیادہ توجہ نہیں دی اور جاوید کمال سے گفتگو کرتے رہے، پہلے گرد و پیش کے معاملات پر بات ہوتی رہی، پھر گفتگو کا رخ اچھی بری اور بڑی شاعری کی طرف مڑ گیا۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ جذبیؔ صاحب نے اپنی شاعری کی جانب ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیا، دنیا بھر کے سخنوروں کا ذکر کرتے رہے، خود بھی لطف لیتے رہے اور ہم لوگوں کو بھی محظوظ کرتے رہے۔
پھر ملاقاتیں معمول بن گئیں ۔ وہ رطب اللسان رہتے، جاوید کمال موقع بہ موقع مصرعہ اٹھاتے اور ہم با ادب با ملاحظہ خاموش سامع بنے رہتے۔ شاید جذبیؔ صاحب کو ہماری یہ وضع پسند آئی کہ ہم ان کی بات کان ڈال کر سنتے تھے، اسی لئے انہوں نے اپنی کم آمیزی کے باوجود ہمیں قریب آنے کا موقع دیا۔ اس دوران ہم سے ایک حماقت ہو گئی، ہم نے جذبیؔ صاحب سے کلام شاعر بہ زبان شاعر کی فرمائش کر ڈالی۔ ہماری توقع کے برعکس جذبیؔ صاحب کے چہرے کا رنگ بدل گیا، انہوں نے کمال ترشی سے فرمایا ’’صاحب زادے، ہم اپنا کلام یوں نہیں سناتے، جو کچھ کہا ہے، دو مجموعوں کی شکل میں موجود ہے، کتب خانوں میں بھی اور کتب فروشوں کے یہاں بھی، بس انہیں پڑھ لیجئے ‘‘۔ ہم دم بخود تھے، کیوں کہ یہ رد عمل ہماری امیدوں نہیں ، تصورات سے بھی پرے تھا۔ ہمارا واسطہ تو ایسے شاعروں سے پڑا تھا جو بطور رشوت چائے پلاتے تھے اور بلا فرمائش اپنا کلام سناتے تھے۔ خیر صاحب !اس سے قبل کہ جذبیؔ صاحب بکھرتے، جاوید کمال نے بات سنبھالی اور موضوع بدلتے ہوئے کہا ’’رات ایک غزل سرزد ہو گئی ہے، میں اسے پیش کرتا ہوں ‘‘۔ ’’جی ضرور‘‘ جذبیؔ صاحب نے سرد ہوتے ہوئے کہاکہ اور ہم نے اپنی جان کی خیر منائی۔ جاوید کمال کی غزل حسب معمول اچھی تھی، اس لئے باتیں پھر گرما گرم ہو گئیں ۔ بعد میں ہمیں جاوید کمال نے بتایا کہ جذبیؔ صاحب اس طرح کی برملا فرمائشوں سے بہت چڑتے ہیں اور صرف بے تکلف دوستوں کو ہی اپنا کلام سناتے ہیں وہ تو مشاعروں میں بھی مارے باندھے ہی جاتے ہیں ۔
اس واردات کے بعد آہستہ آہستہ جذبیؔ صاحب نرم ہوئے، ہماری نیاز مندانہ گفتگو اور ادب و شعر پر ہماری با ادب تبصرہ آرائی سے بتدریج مانوس ہوتے گئے، پھر نوبت یہ آئی کہ وہ ہمیں تنہائی میں بھی اپنے اشعار بے تکلف سنانے لگے اور ہمارا امتحان لینے کی غرض سے فرماتے، ’’کچھ سمجھ بھی رہے ہو کہ یونہی ‘‘اور یہ سب تھا ہماری دل آسائی کی خاطر۔ بہر کیف ہم مؤدبانہ عرض کرتے کہ ’’آپ نے اس شعر میں یہ امر ملحوظ رکھا ہے، فلاں معاملے کی طرف اشارہ کیا ہے فلاں رعایت رکھی ہے اور کئی قوافی میں ندرت ہے ‘‘۔ ’’ہوں ۔ سمجھتے ہو‘‘۔ جذبیؔ صاحب جیسے خوش ہو کر کہتے ’’اپنی تعریف پر نہیں ، ہماری فہم پر ‘‘۔ ہم عرض کرتے ’’ہم نے آپ جیسے بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرتے کرتے کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے، یہ اسی کا فیض ہے ورنہ ’’من آنم کہ من دانم ‘‘۔ پھر جذبیؔ صاحب کچھ مسرور کچھ مطمئن ہو جاتے۔ ان کے ذریعے ہماری فہم کا اعتراف ہمارے لئے کسی سند سے کم نہ تھا۔ اکثر وہ اپنی نئی غزل بھی سناتے اور ہم جیسے کم مایہ کی رائے طلب کرتے، ایک طالب علم کے لے یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ ایک دن پتہ نہیں کس خیال یا جذبے کے تحت انہوں نے ہم سے بلا تمہید ایک سوال کیا۔ ’’تم شعر تو نہیں کہتے ہو؟۔ ہم نے دست بستہ عرض کیا ’نہیں ، بالکل نہیں ‘۔ جذبیؔ صاحب نے بڑے مطمئن لہجے میں فرمایا۔ ’’اچھا کرتے ہو۔ ‘‘وہ بات تو وہیں ختم ہو گئی، مگر ہم آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہیں اس امر پر سکون تھا کہ ہم جیسا کم فہم، اُردو کے شعری سرمائے کو مزید پراگندہ کرنے باز رہا، یا ان کا اطمینان اردو کی شعری دنیا میں رواں دواں ، کساد بازاری کے ذیل میں تھا، کہ ہم اس وبا سے محفوظ رہے۔
جذبیؔ صاحب کا محبوب موضوع ذکر مجازؔ تھا، وہ مجازؔ کی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ ۔ مجازؔ کے ایسے ایسے لطیفے سناتے جو کہیں شائع نہیں ہوئے تھے، فرماتے کہ ’مجازؔ تو مجسم لطیفہ تھا، اس کا ہر جملہ، ہر فقرہ مزاح کا شاہکار تھا۔ وہ جب بات کرتا تو لطیفے برستے تھے۔ انہوں نے ہمیں مجازؔ کے بے شمار لطیفے ایسے سنائے، جو ہم نے پہلے کبھی نہ سنے تھے نہ پڑھے تھے۔ جذبیؔ صاحب کہتے تھے کہ مجاز کے آدھے لطیفے بھی صفحۂ قرطاس پر نہیں آئے ہیں ۔ وہ یہ بھی کہتے کہ ہمارے سنائے ان لطیفوں کو لکھ لو، محفوظ کر لو، ہمارے بعد انہیں سنانے والا کوئی نہیں ملے گا۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ جذبیؔ صاحب کی یہ تمام تر قصہ گوئی سر راہ ہوتی تھی، چلتے پھر تے اور ٹہلتے، وہاں نہ کاغذ ہوتا تھا، نہ قلم، پھر لکھے کیسے جاتے۔ ہمیں حیرت ہے کہ اپنے زبردست حافظے کے باوجود جذبیؔ صاحب نے مجازؔ کے لطائف اور جملے بازی پر مبنی کوئی کتاب ترتیب نہیں دی، شاید وہ اس سلسلے میں سنجیدہ نہ تھے۔
برسوں یہ معمول رہا کہ ہم شام کو سائیکل پر کہیں جاتے ہوتے اور دوسری جانب سے جذبیؔ صاحب اپنی چھڑی گھماتے خراماں خراماں آتے ہوئے نظر آتے، ہم سائیکل سے کود کر سلام عرض کرتے اور ان کے ساتھ ہولیتے۔ یہ ناطے شدہ ملاقاتیں کبھی شبلی روڈ کے نکّڑ پر ہوتیں ، کبھی باب فیض کے سامنے اور کبھی لال ڈگّی کے موڑ پر۔ ہم سائیکل کا ہینڈل تھامے ان کے ہم قدم بنے رہتے اور ان کی پر لطف اور پر مغز گفتگو جاری رہتی۔ منزل ہوتی تھی ریلوے کینٹین، اکثر کھڑے کھڑے اور کبھی کبھار بیٹھ کر چائے پی جاتی۔ جذبیؔ صاحب کی شریفانہ وضع داری یہ تھی کہ ملاقات چاہے سر راہ ہو، کسی موڑ پر یاکسی چائے خانے میں ، وہ ہمیں چائے پلائے بغیر رخصت نہیں کرتے تھے، ہم اگر سچ کہیں تو ان سے ملاقات کا ماحصل ادبی و علمی استفادے کے علاوہ چائے کی ایک دو پیالیاں بھی ہوتی تھیں ، کیوں کہ طالب علمی کے اس دور میں مفت کی چائے بھی ایک نعمت سے کم نہ تھی۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا، جذبیؔ صاحب شام کی سیرکے عادی تھے، پیدل چلنے کے شوقین تھے، ان کے ساتھ ہماری ہم قدمی برسوں جاری رہی، نہ ان کا دل بھرتا تھا اور نہ باتیں ختم ہوتی تھیں ۔ ہمیں یہ اعتراف ہے کہ ہم نے ان گشتی محفلوں میں جتنا کچھ حاصل کیا وہ بڑی بڑی ادبی نشستوں و علمی مذاکروں پر بھاری تھا اور یہی ہماری ہم قدمی کا ماحصل تھا۔ گور کیؔ نے اپنی جد و جہد بھری زندگی کو اپنی دانش گاہ قرار دیا ہے اور ہماری درس گاہ ان دنوں یونیورسٹی سے ریلوے اسٹیشن تک جانے اور واپس آنے والی طویل شاہراہ تھی، ہمارے فاضل مدرس جذبیؔ صاحب تھے اور ہم ان کے شاگرد خوش بخت۔
جذبیؔ صاحب کے علاوہ بھی ہم نے متعدد اساتذہ سے علمی استفادہ کیا، جن میں قابل ذکر ہیں ہاشم قدوائی صاحب، سلامت اللہ خاں صاحب، اشتیاق عابدی صاحب اور اقبال حسن صاحب اور سر فہرست ہیں قاضی عبدالستار صاحب، جو ہمارے استاد گرامی ہیں ۔ تاہم جذبیؔ صاحب کا معاملہ ان سب سے مختلف نوعیت کا تھا جو اپنی جگہ یاد گار ہے۔ ایک عجیب و غریب بات تھی کہ جذبیؔ صاحب مختلف شعراء کا ذکر تو کرتے تھے، مجازؔ کے علاوہ جوشؔ ، فیضؔ اور فراقؔ کا، کبھی کبھار اپنے استاد فانیؔ کو یاد کرتے اور کبھی اپنے محسن میکشؔ اکبرؔ آبادی کو بھی۔ مگر ان کی گفتگو کا موضوع شعری ادب بہت کم ہوتا تھا، ان کے درس ہمیشہ افسانوی ادب کو محیط ہوتے تھے، بالخصوص عالمی ادب۔ ان کے پسندیدہ فن کا رٹالسٹائے، گورکی، چیخوف اور موپساں تھے، انہوں نے ان تمام مشاہیر کی تخلیقات کو پڑھ نہیں رکھا تھا، پی رکھا تھا، وہ ان کے فن پر بڑی تفصیل سے، بڑی گہرائی سے بات کرتے، ان کی عظمت کا اعتراف کرتے اور اکثر فرماتے کہ یہ اردو، ہندی والے کیا لکھیں گے، مغربی فن کار پہلے ہی سب کچھ لکھ چکے اور انسانی حیات، کردار، مزاج اور فطرت کے ایسے ایسے پہلو اجاگر کر چکے کہ اب کچھ بچا نہیں ہے۔ البتہ وہ اردو میں داستانوں کے زبردست مداح تھے، تمام تر داستانوں کا با لاستیعاب مطالعہ بار ہا کر چکے تھے۔
ایک بار ہماری ملاقات کتب خانہ آزاد کے گوشۂ اردو میں ہوئی، ہم پتا نہیں کس فراق میں تھے، تبھی ہم نے دیکھا کہ جذبیؔ صاحب داستانوں سے معمور ایک بڑی سی الماری سے نبرد آزما تھے۔ ہمیں دیکھ کر مسکرائے اور دریافت کیا ’’تم داستانیں پڑھتے ہو ‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ فلاں فلاں پڑھ لی ہیں اور فلاں فلاں ابھی ارادے کی منزل میں ہیں ۔ ہماری بات سن کر خوش ہو گئے اور فرمایا، داستان پڑھنا آسان نہیں ۔ ایک تو زرد کاغذ اور پھر ضخامت بے پناہ۔ ایک ایک داستان کی سات سات بلکہ نو نو جلدیں ہیں ، وہ بھی جہازی سائز میں ، پڑھتے پڑھتے چشمہ لگ جاتا ہے، عدسوں کا نمبر بدل جاتا ہے۔ مگرداستانیں پڑھنا ضروری ہے، اردو کا بیش قیمت اور اصلی سرمایہ انہی میں ہے ‘‘۔ داستانیں دکھاتے دکھاتے ان کا رخ بدلا اور کلاسیکی شاعری کی طرف آ گئے۔ انہوں نے ہمیں میرؔ کی کلیات دکھائی، جو کسی داستان کی طرح ضخیم تھی، پھر دیوان غالبؔ سے گزرتے، ذوقؔ اور داغؔ کو مس کرتے اقبالؔ تک پہنچ گئے، اقبالؔ سے آگے کسی خانے میں جوشؔ کے ہمسایہ جذبیؔ صاحب کے دونوں مجموعے رونق افروز تھے، ہم نے ادب سے اٹھائے اور منشا ظاہر کیا کہ آج انہیں مندرج کرا کر اپنے کمرے پر لے جائیں گے۔ ’’ارے، یہ تمہارے پاس نہیں ، تم نے پڑھے تو ہیں ‘‘؟ہم نے جواباً عرض کیا کہ ہم نے پڑھے تو دونوں ہیں ، کسی استاد سے مستعارلے کر، لیکن ہمارے پاس ہیں نہیں ۔ بس پھر جذبیؔ صاحب مہربان ہو گئے، جوشؔ کا ایک مجموعۂ کلام ہمیں اپنے نام پر درج کرا کر دیا اور بولے ’’اپنے دونوں مجموعے ہم تمھیں دیں گے ‘‘۔ در اصل اس وقت تک ان کے دو مجموعہ ہائے کلام ’فروزاں ‘ اور ’سخن مختصر‘ ہی شائع ہوئے تھے، ’گداز شب‘ بہت بعد میں آیا اور ’کلیات جذبی‘ تو ان کی وفات کے بعد ہی شائع ہو سکی۔
اس دن شام کو ہماری چاندی ہو گئی۔ ہم جذبیؔ صاحب کے دولت کدے پر گئے تو پر تکلف چائے کے ساتھ انہوں نے اپنے دونوں مجموعے دستخط شدہ عنایت فرمائے۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ پھر پوچھنے لگے کہ جوشؔ کا کلام پڑھا ؟ ہم نے کہا کہ بس ایک نظم پڑھ سکے، پھر یہاں چلے آئے۔ ’’اچھا، مگر پورا پڑھنا، کہیں اٹکو تو مجھ سے پوچھ لینا۔ جوشؔ قدرے مشکل پسند تو ہے مگر زبان کا بادشاہ ہے، تراکیب اور تمثیلات اس کے ہاتھ کے کھلونے ہیں ‘‘۔ در اصل جذبیؔ صاحب جوشؔ کے بڑے مداح تھے، ہم نے مجازؔ کے بعد ان کی زبان سے سب سے زیادہ ذکر جوشؔ کاہی سنا۔ وہ جوشؔ کی شاعرانہ عظمت کے قائل تھے، وہ اس بات سے بہت جزبز ہوتے تھے، کہ فیضؔ اور ان کے حواری جوشؔ کی عظمت کو تسلیم نہیں کرتے تھے، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ایک مرتبہ انہوں نے ترقی پسندوں کی کسی تقریب میں برسر محفل کہہ دیا تھا کہ ’’ہم سب ترقی پسند شاعر ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہو جائیں ، تب بھی ہمارا اجتماعی قد جوشؔ کے انفرادی قد سے بلند نہیں ہو سکتا، ہم بونے ہی رہیں گے ‘‘۔
جذبیؔ صاحب نے ہمارا حوصلہ اتنا بڑھا دیا تھا کہ ہم اکثر شام کو ان کے دولت کدے پر بھی جا دھمکتے تھے، ان کی سیر کے وقت سے عین پہلے، وہاں چائے بھی ملتی اور وائے بھی۔ اور اس کے بعد ہم قدمی کاسلسلہ۔ جذبیؔ صاحب کے فرزند ارجمند سہیل احسن ہمارے دوست تھے، وہ ان دنوں چپکے چپکے شاعری کرتے تھے، تاہم ان کی سخن آرائی کی اطلاع پوری یونیورسٹی کو تھی، ماسوا ان کے والد محترم جذبیؔ صاحب کے۔ دل چسپ بات یہ کہ ہم جب بھی جذبیؔ صاب سے ملنے جاتے تو سہیل کبھی ہماری محفل میں شریک نہیں ہوتے تھے، ان سے تو ہماری ملاقاتیں بازار شمشاد کے چائے خانوں میں ہوتی تھیں اور وہاں سنجیدگی کا رواج شاذ و نادر ہی ہوتا تھا۔ جذبیؔ صاحب سے ہماری ہم قدمانہ ملاقاتوں کے علاوہ دوسری نوعیت کی ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں ، ان کے دولت کدے کے علاوہ نجی محفلوں میں ، کسی چائے خانے میں اور کتب خانوں میں ۔ یہ ان کی قلندرانہ شان تھی کہ وہ ہماری خاطر کہیں بھی بیٹھ جاتے، چائے پیتے، بلکہ پلاتے، جگہ کیسی ہی غیر معیاری ہو، گفتگو ہمیشہ معیاری ہوتی تھی۔ اکثر ہم دیکھتے کہ ان کی قیام گاہ پر یا کہیں اور بھی کوئی نوجوان آتا، ان سے چند لمحے بات کرتا اور رخصت ہو جاتا۔ یہ ان کے ملاقاتی نہیں تھے بلکہ ان کے چہرے شاذ و نادر ہی نظر آتے تھے، ہم نے تفتیش کی تو انکشاف ہوا کہ یہ سب وہ غریب اور نادار طالب علم تھے جن کی مدد اور کفالت جذبیؔ صاحب بڑی خاموشی اور راز داری سے کرتے تھے اور ہم نے اس مرد قلندر کی زبان سے اس ضمن میں کبھی اشارتاً بھی کچھ نہیں سنا۔ یہ علی گڑھ کی روایت تھی، اس کے استادوں کی شان تھی، لیکن اب یہ سب محض قصۂ پارینہ ہے۔
جذبیؔ صاحب باضابطہ ادبی جلسے جلوس سے دور ہی رہتے تھے، حتّیٰ کہ مخصوص نشستوں سے بھی حتی الامکان پہلو تہی کرتے تھے، ہم اپنے دور کے کامیاب محفل بازوں میں شمار تھے اور بڑے ماہر بزم آرا۔ ہماری چھوٹی چھوٹی محفلوں میں بڑے بڑے لوگ آتے تھے، لیکن ہمارے ساتھ اپنی تمام تر محبت، الفت اور عنایت کے باوجود جذبیؔ صاحب ہماری برپا کی ہوئی کسی شعری محفل میں جلوہ افروز نہیں ہوتے تھے۔ ہاں ، ہم نے ایک مرتبہ انہیں اپنی اس عزلت نشینی کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا، اور یہ بھی ایک مثال تھی۔ یہ قصہ دور خسروی کا ہے۔ خسرو صاحب خوش خلقی، خوش لباسی، خوش خرامی اور خوش گفتاری میں اپنی مثال آپ تھے، ان کا ادبی ذوق خوب کڑھا ہوا اور شعری مذاق رچا ہوا تھا، بات بات پر شعر سناتے اور اچھے شعر پر سر دھنتے تھے، اس خاکسار کو یہ افتخار حاصل تھا کہ اس کے سنائے ہوئے کئی شعر وہ لکھوا کر جیب میں رکھ لیتے تھے اور اور بعد میں ان اشعار کو دیگر محفلوں میں برمحل استعمال کرتے تھے۔ ان کی شریک حیات طیبہ خسرو بھی ادب شناس اور ادیب و شاعر نواز تھیں ، اسی ذیل میں ہم ان کے یہاں بار یاب تھے اور انہیں طیبہ آپا کہتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے اپنی رہائش گاہ یعنی وائس چانسلر لاج پر ایک با وقار شعری محفل منعقد کی، یونیورسٹی کے اہم شعراء اور چنیدہ اساتذہ کو مدعو کیا گیا، تقریباً تمام تر شعرائے عظام نے دعوت قبول فرما لی اور بمع کلام بلاغت نظام شرکت کا وعدہ کر لیا، مگر ایک مرد آزاد، یعنی جذبیؔ نے شرکت کی حامی نہیں بھری اور طیبہ آپا کے فرستادہ قاصدوں کو ٹرخاتے رہے، جذبیؔ صاحب علی گڑھ کے سب سے قد آور شاعر تھے اور ان کی شرکت کے بغیر کوئی بڑی شعری محفل وقار اور استناد حاصل نہیں کر سکتی تھی، اس لئے ان کی آمد ضروری تھی۔
اب یہ ہفت خواں سر کرنے کی ذمہ داری ہمارے سرڈالی گئی، پورے معاشرے کو معلوم تھا کہ ہم جذبیؔ صاحب کی بارگاہ میں بار یاب بھی ہیں اور بے باک بھی۔ خیر ہم نے ڈرتے ڈرتے بیڑا اٹھا یا اور حاضر ہو گئے ان کے در پر۔ جذبیؔ صاحب حسب عادت مسکرائے اور ہماری استدعاسن کر فرمایا ’’تم جانتے ہو میں عام طور پر مشاعروں میں نہیں جاتا اور سرکاری مشاعروں میں تو بالکل نہیں ‘‘۔ ہم نے کہا کہ طیبہ خسرو کا معاملہ مختلف ہے، وہ آپ کی مداح ہیں اور خسرو صاحب بھی ادب نواز ہیں ، ہمارے خیال میں آپ کو کوفت نہیں ہو گی ‘‘۔ ہمیں فخر ہے کہ ہماری خاطر جذبیؔ صاحب نے اپنا اصول توڑا اوراس بزم شعر و سخن میں شامل ہوئے۔ قاضی عبدالستار صاحب بھی شاعری سے اپنے تمام تر انغباض کے با وصف اس محفل میں تشریف لائے، سامع کی حیثیت سے۔ محفل کیا تھی، ایک ادبی کہکشاں تھی، کوئی بیس بائیس شاعر تھے۔ علی محمد خسرو صاحب میزبان خصوصی تھے اور آل احمد سرور صاحب صدر محفل۔ جذبیؔ صاحب نے اپنی نئی غزل سنائی اور داد بھی بے حساب وصول کی۔ اگرچہ وہاں کئی جواں سال، ہر دل عزیز اور مقبول شعراء مثلاً بشیر بدرؔ اور شہریار بھی موجود تھے۔ جذبیؔ صاحب کے بعد صدر محترم کا نام پکارا گیا، نظامت غالباًنسیم قریشی مرحوم کر رہے تھے۔ سرور صاحب مائک پر آئے تو عقبی نشست سے کسی نے کہا کہ اب استاد کی باری ہے۔ تبھی قاضی صاحب نے برجستہ اور بہ آواز بلند کہا کہ ’’استاد تو پڑھ چکے، اب مدرس کی باری ہے ‘‘۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ جذبیؔ صاحب کے ساتھ ہوئی تقدیم و تاخیر کی نا انصافی کی جانب تھا۔ خسرو صاحب نے ایک نگاہ درست انداز سے ان کی جانب دیکھا اور سب کچھ سمجھ کر مسکرا دیئے۔
جذبیؔ صاحب اگرچہ دکتور ادب تھے، مگر انہیں اس بات سے چڑ تھی کہ کوئی انہیں ڈاکٹر صاحب کہہ کر مخاطب کرے، کسی نے ڈاکٹر صاحب کہا اور وہ ناخوش ہوئے، پھر بڑا برا منہ بنا کر کہتے کہ ’’ارے بھائی، نوکری کرنا تھی تو ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی بھی کر لی، اس میں کون سا کمال ہے اور اس کا ادب یا شاعری سے کیا تعلق ہے۔ جذبیؔ صاحب کی بات درست تھی، جوشؔ تو بہ مشکل آٹھویں جماعت پاس تھے اور ایم اے کے نصاب میں ہیں اور ان پر تحقیقی مقالے مسلسل لکھے جاتے ہیں ۔
جذبی صاحب کے دو جملے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ۔ وہ اکثر ہم جیسے نو واردان ادب کو تلقین کرتے کہ ’’ادب کاتا اور لے دوڑی کا نام نہیں ، اپنی تخلیق مکمل کر کے تکیے کے نیچے چھپا دو اور دنوں بعد نکال کر پڑھو، تب فیصلہ کرو‘‘۔ صراحتاً وہ مزید کہتے کہ ’’روم بھی ایک دن میں نہیں بنا تھا، برسوں لگے تھے ‘‘۔
ایک بار انہوں نے ایک دل چسپ واقعہ سنایا کہ ایک نوجوان شاعر، جنہیں جدے دیت بلکہ تجریدیت کا خبط تھا، ایک دن اپنا مجموعۂ کلام لے کر ان کے پاس آئے اور ملاحظہ و مطالعہ کے بعد رائے زنی کی استدعا کی۔ جذبیؔ صاحب نے ان کی کتاب کا عنوان دیکھا، اس کے اوراق پلٹے اور پوچھا کہ بھئی اس عنوان کے معنی تو بتائیے۔ ان صاحب نے سینہ تان کر کہا کہ ریگستان کی ایک ایسی جھاڑی جسے اونٹ بھی نہیں کھاتا۔ اس پر جذبیؔ صاب نے برجستہ فرمایا کہ میاں آپ نے ہمیں اونٹ سے بھی گیا گزرا سمجھا ہے ؟ستم ظریفی یہ کہ بعد میں ان نا شاعر کا بڑا غلغلہ ہوا، ان پر انعامات و اکرامات کی بارش ہوئی، انہیں وہ اعلیٰ سرکاری انعام بھی ملا جو غریب جذبیؔ کو بھی نصیب نہیں ہوا، مگر آج محض چند برس بعد کوئی ان کا نام بھی نہیں لیتا اور جذبیؔ آج عشروں بعد بھی جذبیؔ ہیں ، ہمیشہ رہیں گے۔
جذبیؔ صاحب کو اردو دنیا کے بیشتر انعامات و اعزازات ملے، ماسوا ایک دوسرکاری انعامات کے۔ ایک مرتبہ انہیں مرکزی حکومت کی جانب سے پدم شری کی پیش کش ہوئی تو انہوں نے سرکاری قاصد سے پوچھا کہ اس اعزاز یا خطاب کے ساتھ پیسے کتنے ملیں گے، جب جواب نفی میں ملا تو انہوں نے وہ اعزاز قبول کرنے سے صاف ان کار کر دیا۔ اسے جذبیؔ کی طلب ثروت پر محمول نہیں کرنا چاہیے بلکہ پورے نظام پر ایک برجستہ طنز سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔
اپنی تمام تر شان استغنا کے باوجود ایک زمانے میں جذبیؔ صاحب پر مکان کی تعمیر کا شوق سوار ہوا، شاید بیگم صاحبہ کے مسلسل اصرار پر۔ ان دنوں چہل قدمی اور ٹہل قدمی سب موقوف ہو گئی اور جذبیؔ صاحب اپنے دوست، شاعر میکشؔ بدایونی کی قیادت میں صرف مکان سازی اور عمارتی سازو سامان کی فراہمی میں مصروف رہنے لگے۔ جذبیؔ صاحب اس میدان میں نووارد بلکہ نو سیکھیے تھے اور میکشؔ صاحب اس فن کے ماہر، کیوں کہ وہ ایک بنگلہ نما مکان کے مکین تھے اور اُس کے اردگرد ان کے کئی مکان کرائے داروں کامسکن تھے، حتیٰ کہ شاگرد پیشے بھی ذریعۂ آمدن بن گئے تھے۔ ہم اکثر جذبیؔ صاحب کو میکشؔ صاحب کے ساتھ کبھی جالی، کبھی کھڑکی جیسی غیر شاعرانہ اشیاء کے ساتھ متوحش انداز میں رکشے میں لدے پھندے اور سازوسامان کے بیچ پھنسے دیکھتے اور دل ہی دل میں کڑھتے کہ اچھے بھلے شریف انسان اور شاعر اعظم کو یہ کیا دھن سوار ہوئی کہ اپنا محبوب مشغلہ شام کی سیر بھی قربان کیے، ڈھویا ڈھائی میں مصروف ہیں ۔ وہ شاید منٹوؔ کے اس قول سے متفق نہیں تھے کہ بے وقوف مکان بناتے ہیں اور عقل مند اس میں رہتے ہیں ۔ خیر جذبیؔ صاحب کا مکان بنا اور خوب شاندار بنا، سبکدوشی کے بعد وہ اس میں منتقل ہو گئے تھے اور آج وہ ان کے ورثا کے تصرف میں ہے۔
غلط بخشی ہمارے ملک اور معاشرے کا طرۂ امتیاز ہے اور علی گڑھ اس کا ایک اہم مرکز۔ جذبیؔ صاحب اپنی تمام تر شاعرانہ عظمت، شہرت و مقبولیت کے باوجود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر نہ ہو سکے۔ ہر چند کہ اس وقت تک پروفیسری کی وہ درگت اور خواری نہیں ہوئی تھی جو آج ہے اور نہ ہی یہ منصب اتنا ارزاں ہوا تھا، جیسا کہ اب ہے، مگر اتنا گراں بھی نہ تھا کہ جذبیؔ جیسے عالم، فاضل اور لائق استاد کی دستار کا سرخابی پر نہ بن سکتا۔ لیکن جذبی صاحب کو نہ صرف مسترد کیا گیا بلکہ جن صاحب کو یہ منصب تفویض ہوا وہ جذبیؔ کے ہم پلّہ تو کیا ان کا پاسنگ بھی نہ تھے، ان کی شاعری تو خیر برسبیل تذکرہ تھی اور ان کی لیاقت و شہرت کا دارومدار محض ایک مضمون پر تھا، جو انہوں نے اوائل عمری میں لکھا تھا اور پھر وہیں مقیدّ مقام ہو گئے تھے، آگے نہ بڑھ سکے تھے۔ مگر وہ نہ صرف پروفیسری پر قابض ہوئے بلکہ کرسی صدارت شعبہ پر بھی براجمان ہوئے۔ جذبیؔ صاحب نے اس کے بعد جیسے تیسے اپنا وقت پورا کیا اور کبھی اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی شکل نہیں دیکھی۔ خسرو صاحب جو اس وقت تک جذبیؔ کے مداح ہو چکے تھے، انہوں نے اس حق تلفی کا ازالہ ان کی خدمات کو توسیع دے کر کیا اور یہ سب کچھ بلا شرط اور آزاد نہج پر تھا۔
جذبیؔ صاحب عام طور پر اساتذہ کے علاوہ کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اپنے ہم عصروں کو تو قطعاً نہیں ۔ غالبؔ اور اقبالؔ کے احترام کے با وصف ان کا پسندیدہ شاعر کون تھا، مولانا الطاف حسین حالیؔ ۔ وہ اکثر ان کا ایک شعر زیر لب گنگنایا کرتے تھے ؎
یاران تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے
یہ شعر غالباً ان کے جذبۂ محرومی کی ترجمانی بھی کرتا تھا، ممکن ہے کہ انہیں یہ احساس رہا ہو کہ انہیں ادب میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ سزاوار تھے، بہر کیف نقادوں نے انہیں ان کا جائز مقام دیا ہو یا نہ دیا ہو لیکن ان کی شاعری ان کی لازوال شہرت کی ضامن ہے، وہ اکثر کہتے بھی تھے کہ ’’میری شاعری کے پاؤں ہیں ، جن سے وہ چلتی ہے اور چلے گی، اسے کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں ‘‘۔ بیسویں صدی کی شعری روایت جن چند ناموران سخن سے عبارت ہے ان میں ایک روشن اور تابناک نام معین احسن جذبیؔ کا ہے۔ وہ ترقی پسند بھی ہیں ، رومانیت پرست بھی، مگر سب سے بڑھ کر وہ ایک اچھے اور بڑے شاعر ہیں ، ان کے چند شعر بہتوں کے کے دواوین پر بھاری ہیں اور یہی وصف انہیں جاوید بناتا ہے۔
٭٭٭