غزل ۔۔۔۔ جلیل عالی

 

کسی موسم ہوا سے دوستی آغاز کرتے

پرندے دشت کے سارے شجر ہمراز کرتے

 

اک اوجِ شوق سے گر دیکھتے اِس شہرِ جاں کو

مناظر حیرتوں کے اور ہی در باز کرتے

 

فروزاں تھے لہو میں درد کے مہتاب جتنے

سب اُس کے عکس تھے کس سے کسے ممتاز کرتے

 

بجھا کر آفتاب اب اس کا ماتم کر رہے ہیں

گہن تو اک ذرا سا تھا نظر انداز کرتے

 

یہیں ان وادیوں کی گونج بنتے گیت اپنے

انہی خاموش جذبوں کو جو ہم آواز کرتے

 

کوئی تو سطر عالی کہکشاں صورت چمکتی

کہیں تو سحر کوئی پھونکتے اعجاز کرتے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے