مصحف اقبال توصیفی۔ لمسی کیفیتوں کا منفرد شاعر ۔۔۔ شکیل الرحمٰن

 

بیس پچیس برس پہلے کی بات ہے میری کتاب ’’یہ باتیں ہماریاں ‘‘ میں مصحف اقبال توصیفی کی نظم ’’فائزا‘‘ کا ذکر آیا تھا، عصمت شکیل (رفیقۂ حیات) کے نام ایک خط میں اس نظم پر اظہار خیال کیا تھا، غالباً اس سے قبل اس نظم کا ذکر کسی کتاب میں آیا نہ ہو گا۔ بہت وقت گزر گیا نظم ذہن پر نقش ہے:

کبھی پتھروں کے ذخیرے سے خاکستری رنگ کا

ایک پتھر اٹھایا ہے

اور اس میں تاریخ کے ابتدائی زمانے کا اک جانور

فائزا دیکھ کر

سوچتا رہ گیا ہوں

کہ یہ جانور آج تک ایک پتھر سے چمٹا ہوا ہے

اسی ایک پتھر میں یہ دفن ہے

کبھی ایسا لگتا ہے جیسے

میرا جسم بھی ابتدائی زمانے کا پتھر ہے کوئی

وہ پتھر کہ جس میں مری روح سمٹی ہوئی ہے

مری روح میں فائزا ہے

( فائزا Fossil)

میں نے لکھا تھا مصحف اقبال توصیفی نئی حسیات اور نئی لمسی کیفیتوں کے شاعر ہیں، وہ حسیات اور وہ لمسی کیفیت کہ جن سے نئی شاعری میں نئی رومانیت جنم لے رہی ہے، ان کے شعری مجموعے ’’فائزا‘‘ (1977) ’’گمان کا صحرا‘‘ (1994)اور ’’دور کنارا‘‘ (2005) کے کلام سے میری بات بہت حد تک درست ثابت ہوتی ہے، ’’فائزا‘‘ میں ’فائزا‘ کا استعارہ اس عہد کے فرد کے باطن کی جس تصویر کو ابھار رہا ہے اس سے ایک عجیب پر اسرار سناٹے اور خاموشی کا احساس ملتا ہے جو گھٹن تھی وہ بھی ختم ہو چکی ہے، جسم میں روح اسی طرح سمٹی ہوئی ہے کہ جس طرح پتھر پر ابتدائی زمانے کے کسی جانور کا نقش چمٹا ہوتا ہے۔ صدیوں پرانے جانور کے نقش کی طرح صدیوں کے تجربوں سے آشنا روح دفن ہے۔ یہ اس دور کی شاعری کی نئی رومانیت ہے کہ جس کی معنی خیزی کا بیان آسان نہیں ہے اور جس کی پر اسرا جمالیاتی کیفیتیں سرور بخشتے ہوئے چبھنے لگتی ہیں۔ مصحف اقبال توصیفی نے ’’فائزا‘‘ کے پیش لفظ میں ’’فائزا‘‘ کے استعارے کی وضاحت اس طرح کی ہے:

’’فائزا (Physa) ایکFossil کا نام ہے، Fossils یا سنگوارے زندگی کے اُن ابتدائیForms کی باقیات ہیں جو کروڑوں برس پہلے زمین پر بستے تھے اور پتھروں میں دب کر اُن پر اپنے حجرائے ہوئے نقوش چھوڑ گئے ہیں، وہ مختلف عناصر جو زیر زمیں، سطح زمین، اور خلائے بسیط میں وقت کے ایک وسیع Span پر کار فرما رہے ہیں ان Forms کے بتدریج ارتقا کا سبب بنے ہیں جس کی منتہیٰ موجودہ آدمی ہے ‘‘۔ (فائزا ص: 11)

اس گہری معنی خیز علامت سے شاعر نے زبان و مکاں میں اپنی بنیادوں (Roots) کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، یہ ایک پرکشش علامتی عمل ہے۔ وقت کے پتھروں تلے دبے جانے کتنی صورتیں ہیں، جانے کتنے مناظر ہیں، جانے کتنی خوشبوؤں میں ماضی اپنے جلال و جمال کو لیے جانے کتنی تاریک گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ شاعر کا مضطرب رومانی ذہن ماضی کے حسن و جمال تک پہنچا چاہتا ہے۔ یہ ذہن ماضی اور حال میں ایک تشتہ پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ زندگی کے طویل سفر کی پہچان ہو سکے، موجودہ زندگی کو نئی حرارت ملے، مصحف اقبال توصیفی کے ایسے تجربوں سے ان کی لمسی حسیاتی کیفیتوں کی پہچان ہوتی ہے۔

نظموں کو پڑھتے ہوئے اکثر محسوس ہوا کہ شاعر تلخ شیریں تجربوں کو سمیٹے اپنے باطن میں اُترا ہوا ہے، اس کی حسی لمسی کیفیتوں سے تجربوں کے مختلف رنگوں اور رنگوں کے مختلف ’ شیڈس‘(Shades) کی پہچان ہوتی ہے۔

ذات ؍ باطن حسی تجربوں کا مرکز ہے۔ حسی تجربے مضطرب کرتے ہیں اور شاعری جنم لیتی ہے۔ کم سے کم وقت میں بات کہہ دی جاتی ہے، اختصار کا حسن لیے بات مکمل ہو جاتی ہے، حسی تجربے پھیلے ہوئے نہیں بلکہ گہرے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نظم طویل نہیں مختصر ہوتی ہے، اختصار ہی حسی لمسی تجربوں کے اظہار کا سب سے بڑا وصف ہے۔ ایک خوبصورت مختصر نظم ہے ’’تنہائی‘‘ اس میں ساحل اور امواج بحر و طوفاں سے ایک تصویر ابھاری گئی ہے جو زندگی کی شکست و ریخت کا احساس دیتے ہوئے وجود کے استحکام کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ مصحف اقبال توصیفی کی مختصر نظمیں شاعر کے حسی تجربوں کے اظہار کا عمدہ ذریعہ بن گئی ہیں ’’تنہائی‘‘ ان کی نظموں کا ایک مرکزی موضوع ہے۔ ’’ہمزاد‘‘ میں تنہائی کے ٹوٹے آئینے میں شاعر اپنا چہرہ دیکھ رہا ہے۔

یہ کون ہے، جس کو تک رہا ہوں

بوجھل ہیں نمی سے کس کی آنکھیں

بے رنگ،ا تھاہ، یہ سمندر

بے نور، بجھی بجھی سی آنکھیں

جُز میرے یہاں کوئی نہ ہو گا

یا کون ہے غم گسار میرا

تنہائی کے ٹوٹے آئینے میں

میں دیکھ رہا ہوں اپنا چہرہ!

(ہمزاد)

شاعر کا مشاہدہ (Observation) بہت تیز ہے، چھوٹے بڑے تجربوں کی گہرائیوں میں اتر جانے کی کوشش ملتی ہے۔ ’’دفتر سے گھر تک، ’’قید‘‘، ’’وقت‘‘، ’’رائگاں ‘‘، ’’کینچلی‘‘، ’’انتظار‘‘ وغیرہ پہلے مجموعہ کلام ’’فائزا‘‘ کی عمدہ نظمیں میں ’بعض نظموں میں تحیر کی کیفیت متاثر کرتی ہے۔ ’انتظار‘‘ میں تحیّر کا حسن ہی متاثر کرتا ہے:

ہو بوڑھا …… ندی کے کنارے

یہی سوچتا تھا

’’وہ کب آئے گی … وہ کب آئے گی

یہی سوچتے سوچتے شام ہو جائے گی‘‘

اسی دھیان میں رات ڈھلنے لگی

اسی فکر کا شور سورج کی تلوار سے کٹ کے

شبنم کا قطرہ بنا

بوڑھے گالوں پہ ٹھہرا نہیں

… ندی گنگنانے لگی

’’وہ آنے لگی‘‘

دوسرے لمحے

سرد، گہری، انوکھی سیہ، چپ

مرے جسم کو یخ زدہ کر گئی

خوف سے میری آنکھیں کھلی رہ گئیں

وہ بوڑھا

… ابھی تو یہیں تھا؟!

یہ ڈرامائی منظر شاعر کے تخیلی فکر کا عمدہ نمونہ ہے، تحیّر کا جمال متاثر کرتا ہے۔ ’ولیم ولسن‘ میں ( ایڈگرایلن پوکا ایک کردار) بھی تحیر کے جمال کی پہچان ہوتی ہے:

کیا خبر …اُس نے سنی

کچھ تو زنجیر میں جھنکار ہوئی

ورنہ وہ گہری سیہ خاموشی

میں نے کہا ’’تم … پھر… تہ…‘‘

اور اک بجلی کا کوندا مری آواز سے پہلے لپکا

جانے وہ کون سا لمحہ تھا حرف

کوہ کو زیر زمیں کاٹ گئے

میرے قدموں تلے لاوا تھا، چٹانیں سر پر

میرا ہم شکل، وہ دانا

کاغذی اس کا بدن، ناک ذرا پچکی ہوئی خون سے سرخ ایک پہاڑی ندی

جو اُسے لے کے نشیبوں کی طرف جاتی تھی

اور وہ چیخ

رات بھر

آسمانوں پہ جو منڈلاتی تھی !

مصحف اقبال توصیفی نئی شعر جمالیات کے ایک منفرد تخلیقی فنکار ہیں، نئی حسی کیفیتوں سے جس شعر جمالیات کی تشکیل ہو رہی ہے اس کے ایک ممتاز شاعر ہیں، بات کہنے کا انداز ان کا اپنا ہے۔ لمحوں کے تجربوں کے مختلف انداز طرح طرح سے ظاہر ہوئے ہیں، مثلاً ایک جگہ سچائی کا احساس اس طرح ملتا ہے:

کتنے دیپوں کا یہ سفر جو نیا، انوکھا، انجانا تھا

لیکن صبح کی کرنوں کے طوفاں کا کوئی ٹھکانا تھا

وت کو کس نے روکا … وقت کو آخر جانا تھا !!

(وقت کو کس نے روکا)

اور دوسری جگہ لمحوں کا شعری تجربہ اس طرح ہے:

میں ایک نقطہ …… اگر میں پھیلوں

تو دشتِ امکاں کی وسعتیں تک محیط کر لوں

یہ سب زماں و مکاں کی دولت

میں اپنی مٹھی میں بند کر لوں

(صفر)

مصحف اقبال توصیفی کے کلام میں وقت کے گزر جانے کا احساس اکثر بہت شدید ہو جاتا ہے۔ انہیں خود اس بات کا احساس ہے:

’’زندگی، خلا میں گھومتے ہوئے ایک نقطے کی طرح ہے ایک جلتا بجھتا ستارہ۔ یہ نقطہ یہ وقفہ اس قدر مختصر ہے کہ اسے طول دینے کی ساری کوششیں بڑی عجیب لگتی ہیں ‘‘ (پیش لفظ۔ گماں کا صحرا)

’’گزرتے ہوئے وقت کو روکنے کی (کوشش ناتواں ) لیکن وقت کو کس نے روکا؟

آسمان پر وہ نقطہ جو میں ہوں تنہا نہیں، ایسے ہزاروں نقطے ہیں جو مل کر وقت کی ایک لکیر بن جاتے ہیں ‘‘ (ایضاً)

ابھی جی بھر کر حسن کو دیکھا بھی نہیں پوری چاہت کا اظہار بھی نہیں کیا کہ وقت گزر گیا۔

تجھ سے جانے کتنی باتیں کرنی تھیں

تیرے بالوں کی اک لٹ کو

تیرے ہونٹوں، پھر اپنے ہونٹوں تک لانا تھا

تیرے سرہانے

اَن دیکھے خوابوں کی قطاریں

تیری آنکھوں کے ساگر میں نیندوں کی کشتی

میں تیرا مانجھی۔۔

کتنے دیپوں کا یہ سفر جو نیا، انوکھا، انجانا تھا

لیکن صبح کی کرنوں کے طوفاں کا کوئی ٹھکانا تھا

وقت کو کس نے روکا … وقت کو آخر جانا تھا !!

(وقت کو کس نے روکا)

وہ جو اک حساب کی تھی گھڑی

وہ گھڑی تو کب کی گزر گئی

وہ جو درد تھا ترے ہجر کا

جو مہک رہا ہے ہواؤں میں

وہ جو چاند تھا ترے وصل کا

جو مرے بدن کی گپھاؤں میں

میری روح تک میں اتر گیا

وہ جمال تھا۔۔ تری آنکھ کا

کہ ان آنسوؤں کی نمی تھی وہ

کہ رگ گُلو کا تھا وہ لہو

وہ جوا برابر برس گیا

مرا زخم زخم نہا گیا

مری کشتِ جاں بھی ہری ہوئی

وہ جو ایک حساب کی تھی گھڑی

وہ گھری تو کب کی گزر گئی!

( ایک نظم۔ گماں کا صحرا)

جدید شاعری میں وقت کے المیہ کا مطالعہ ہو گا تو یہ نظمیں نظر انداز نہیں ہوں گی۔ ایسی نظموں میں ماضی کی رومانیت کا چھلکتا ہوا رس بھی ہے اور وقت کے المیے کا شدید احساس بھی۔

مصحف اقبال توصیفی غزل کے بھی بہت چھے شاعر ہیں۔ ان کے یہ اشعار توجہ چاہتے ہیں:

کیا پتھر کی بھاری سل ہے، ایک اک لمحہ ماضی کا

دیکھو دب کہ رہ جاؤ گے اتنا بوجھ اٹھانے میں

……..

میں کب سے اپنے چاہنے والوں میں قید ہوں

سب کی زباں کو میرے لہو کا میرے لہو کا مزہ لگا

۔۔ ۔

میرے بدن پہ ہو گی ہزاروں برس کی گرد

آنکھوں ہی میں چھپی ہوئی

صدیوں کی پیاس تھی

(فائزا)

اک عمر ہو گی مجھے خود سے ملے ہوئے

جیسے مجھے اب اپنی ضرورت نہیں رہی

۔۔ ۔

میں قیدی جسم و جاں، کون مکاں کا

زمیں آکاش اور پاتال اس کے

(گماں کا صحرا)

اس نے سنایا ہم کو اپنے دل کا قصہ آج عجیب

ہم جس کو پتھر کہتے تھے، کیسا دھڑکا آج عجیب

دن میں جانے کب گھس آیا صحرا میرے کمرے میں

دفتر سے لوٹے تو دیکھا گھر کا نقشہ آج عجیب

۔۔ ۔

گہری نیلی جھیل بنائیں

آنسو کی دیوار اٹھائیں

لب پتھر ہیں اور لہو میں

لفظوں کی یہ سائیں سائیں

۔۔ ۔

کبھی ذرہ کبھی صحرا ہوں میں

اپنی ہی آنکھ کا دھوکا ہوں میں

مصحف اقبال توصیفی کا کلام نئی شاعری کی رومانیت کی ان جہتوں کی نمائندگی کرتا ہے کہ جن میں روح یا باطن کے ارتعاشات (Vibrations) اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ارتعاشات اس عہد کا رد عمل ہیں، شعور، انتشارِ زندگی سے متاثر ہوتا ہے تو بڑی گھٹن پیدا ہوتی ہے، شعری تجربے باطن سے زندگی کے انتشار اور فرد کی گھٹن کے ارتعاشات کو طرح طرح سے نمایاں کرتے ہیں، کبھی ان کا آہنگ متاثر کرتا ہے اور کبھی Soundless Soundکا تاثر ملتا ہے جسے ہندوستانی جمالیات نے ’’اجاپ‘‘ (Ajapa) کہا ہے، ’’یہ بے آواز‘‘ آواز احساس اور جذبے کو چھو لیتی ہے۔

’’دور کنارا‘‘ میں ’’تم کہتے ہو ……‘‘، ’’درد کا نام پتہ مت پوچھ‘‘، ’’نیم دائرے ‘‘، ’’میں یہ چاہتا ہوں ‘‘، ’’دکھ کا امرت‘‘، ’’ایک نظم …… تمہارے نام‘‘ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن میں اس قسم کے شعری تجربے ملتے ہیں:

تم کہتے ہو تو مان گے

ورنہ ہم نے یہ دیکھا ہے

کوئی دکھ ہو، کوئی راحت ہو

کوئی پیماں، کوئی چاہت ہو

ہم نے دیکھا ہم اپنے ہی

اشکوں سے جل تھل ہوتے ہیں

کوئی لاش ہو بیتے لمحوں کو

اپنے کاندھے شل ہوتے ہیں

(تم کہتے ہو ……)

ہزار لاکھ کروڑوں برس میں بکھرا وقت

زمیں کے گزرے ہوئے کَل کا ایک حصہ ہے

زمیں کے گزرے ہوئے کَل میں میرا کل بھی ہے

مرے لہو کے بھی سکّے ہیں اُن خزانوں میں

زمیں نے جن کو لُٹایا ہے آسمانوں میں

وہ ننھے ننھے ستاروں کے ٹمٹماتے چراغ

جو میرے اشکوں سے تابندہ ہیں … وہ گول سا چاند

وہ چرخہ کاتتی بڑھیا جو اس میں بیٹھی ہے

وہ میری ماں کی طرح ہے … وہ میری بیٹی ہے !!

(نیم دائرے )

ہم وہ دیوتا ہیں

جنہوں نے خوابوں کے منتھن کے بعد

دکھ کا امرت پیا ہے

دکھ جو وشال ہے

جس کا سمے سے کوئی رشتہ نہیں

یہ کیسا دکھ ہے

کیسا امرت؟

یہ ہم نے تم سے کیا مانگ لیا

نارائن ! نارائن !!

(دکھ کا امرت)

مصحف اقبال توصیفی کا کلام پڑھتے ہوئے محسوس ہوا جیسے شاعر میں جو تخلیقی صلاحیتیں ہیں ان کا اظہار ہونا ابھی اور باقی ہے۔ ذات اور معاشرے کے پیتھوس (Pathos) کی اس میلوڈی، کا انتظار کر رہا ہوں جس سے زیادہ سے زیادہ جمالیاتی انبساط حاصل ہو۔ مجھے یقین ہے مایوسی نہیں ہو گی۔

شاعر کے چند خوبصورت اشعار سنیے:

یہ کب سے نہیں روئیں یہ کب سین ہیں سوئیں

ان جاگتی آنکھوں پر تم ہاتھ ذرا رکھنا

وہ چاند جو تکتا ہے کھڑکی کی سلاخوں سے

دروازے سے آئے گا، دروازہ کھلا رکھنا

۔۔ ۔

اُس گھر کے دیوار و در سے جانے کیسا رشتہ تھا

گھوم گھوم کر ہم نے دیکھا دروازوں پر تالے تھے

۔۔ ۔

نظر میں رہے خوش لباس اور بھی

مگر ایک رنگِ بدن بھی تو ہے

(دور کنارا)

مصحف اقبال توصیفی کی شاعری حسی، لمسی، کیفیتوں کی خوبصورت شاعری ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے