ظفر گورکھپوری: دیوارِ شاعری کا ایک خوبصورت رنگ ۔۔۔ رشید عباس

 

موت ایک ایسی سچائی ہے جس کا انکار ممکن ہی نہیں۔ جو آیا ہے اُسے یقیناً جانا ہے۔ دُنیا کبھی کسی کی مستقل رہائش نہیں رہی۔ موت و حیات کی یہ گردش تا قیامت یونہی چلتی رہے گی۔ ہر موت متعلقین کو کچھ وقفے کے لیے متاثر ضرور کرتی ہے مگر بعد میں زندگی دوبارہ اپنے معمول پر آ جاتی ہے۔ اب تک نہ معلوم کتنے ساتھیوں کی رُخصتی جھیل چکا ہوں اُس میں ایک اضافہ اورعو گیا۔

ظفر گورکھپوری …..!غالباً۱۹۵۶ء کا زمانہ تھا۔ گھوگھاری محلہ (ممبئی) اردو پرائمری میونسپل اسکول میں میرا تقرر بحیثیت مدرس ہوا تھا۔ میرے ایک ساتھی مدرس علی صاحب تھے جن کا تعلق مشرقی یوپی سے تھا اُنہوں نے مجھے ظفر الدین سے متعارف کرایا تھا بعد میں علی صاحب کا واسطہ ختم ہو گیا اور ظفر باقاعدگی سے میرے پاس آنے جانے لگے۔ اُس وقت تک وہ ظفر گورکھپوری نہیں تھے۔ اُن کی شاعری ابتدائی درجات میں تھی کبھی کبھار دوچار شعرضرورسنا جاتے تھے جو اُن کے روشن مستقبل کا پتہ دیتے تھے۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ میں اچانک کالج اور ملازمت کو خیر باد کہہ کر وطن لوٹ آیا۔ میرا وطن بھساول تقریباً ایک صدی سے کل ہند مشاعروں کے تعلق سے ایک اہم مقام و مرتبے کا حامل رہا ہے۔ مرحوم شکیل بدایونی کو اس شہر سے ایک تعلق خاص تھا۔ انہی کی ایما و اعانت سے میں نے بھساول میں ایک کل ہند مشاعرے کا اہتمام کیا تھا۔ برِصغیر میں شاید ہی کبھی ایک اسٹیج پر اس قدر شعرا یکجا ہوئے ہوں شعرا کی فہرست یوں تھی۔ فراق گورکھپوری، پنڈت گلزار دہلوی، خمار بارہ بنکوی، فنا نظامی کانپوری، نشور واحدی، بیکل اتساہی، شعری بھوپالی، دلاور فگار، ناظر خیامی، رازؔ الہ آبادی، کرشن بہاری نورؔ ، صبا افغانی، شمسی مینائی، مظفر شاہ جہان پوری، ہلال سیوہاروی، راحت اندوری اور ظفر گورکھپوری۔

ظفر کے لیے اُن کی زندگی کا شاید یہ پہلا کل ہند مشاعرہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سامعین علی سردار جعفری، کیفی اورساحر کے علاوہ کسی کو تحت میں سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ ظفرؔ نے تحت میں غزل پڑھی اور خوب داد پائی۔ بعد ازاں اطراف میں جہاں بھی مشاعرہ ہوتا ظفر ضرور مدعو کئے جاتے تھے۔ میرے ہم وطن اوردوست مرحوم نعیم باسط کو پہلی مرتبہ ڈائریکشن کا موقع اداکار قادر خان نے دیا تھا فلم تھی شمع اورموسیقی اوشا کھنہ کی تھی اس کے تین گیت کار تھے وٹھل بھائی پٹیل، اسدبھوپالی اور ظفر گورکھپوری مگر ظفر کے لکھے گیت ہی مقبول ہوئے۔

چونکہ ظفر نے زندگی کو ہر اعتبار سے دیکھا، پرکھا، آزمایا اور نبھایا اس لیے صبر و قناعت اُن کے مزاج کا خاص عنصر تھا۔ عام لوگوں کی طرح وہ کبھی حالات کے شاکی نہ تھے۔ ظفر کی شاعرانہ عظمت میرا موضوعِ سخن نہیں اس کام کے لیے مجھ سے زیادہ قابل اور کامل حضرات ابھی موجود ہیں۔ میں اپنے محدود مطالعے کے باعث صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُردو ادب کے شعری حصے میں سراج الدین بہادر شاہ ظفر کے بعد کسی اور ظفر پر نظر ٹھہرتی ہے تووہ ظفر گورکھپوری ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ آمین

اب ہم جیسے ’’۔۔ ۔۔ جو ہیں تیار بیٹھے ہیں ‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے