جدید اردو نظم میں ظفرؔ گورکھپوری کا مقام ۔۔۔ خان حسنین عاقبؔ

 

ما قبل آزادی نیز ما بعد آزادی، دونوں ادوار میں شمالی ہند نے اردو ادب و شعر کی سر پرستی کی ہے۔ ما قبل آزادی شمالی ہند میں سیاسی استحکام اور حکمرانوں کا ادبی ذوق اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ما بعد آزادی، دو تین دہا ئیوں تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک اور حسبِ سابق رہا لیکن گذشتہ تین چار دہا ئیوں سے ریاستی حکومتوں کی دو رُخی پا لیسیوں نے اکثر جگہوں سے اردو کو عملاً ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن اردو شعر و ادب اپنی رفتار سے ترقی کرتا رہا۔ خصوصاً ً غزل نے نت نئے گوشوں کو تلاش کیا۔ لیکن آج مجھے بات نظم پر کرنی ہے اسلئے غزل کا ذکر نہیں کروں گا۔ اگر میں براہ راست بات کروں اور کسی رسمی تمہید سے کام نہ لوں تو مجھے کہنا یہ ہے کہ اردو نظم نے اپنی ابتدا سے لے کر اب تک جتنا بھی فاصلہ طے کیا ہے، اور یہ آج جہاں آ کر کھڑی ہے، اس مقام سے آگے بھی کئی مقام آ نے ابھی باقی ہیں کہ زمانہ تغیرات سے عبارت ہے۔ لیکن آج تک یہ جہاں آن کھڑی ہوئی ہے، اس میں جن جن شعرا نے اپنا الگ راستہ بنا یا ہے ان میں ظفرؔ گورکھپوری کا نام ابتدائی فہرست میں رکھا جائے گا۔ ظفر گورکھپوری، زبیرؔ رضوی، محمد علوی، ندا فاضلی وغیرہم ہمارے عہد کے ایسے نمائندہ بزرگ شعراء ہیں )جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے )جو اردو شعر و ادب میں نظم کی نئی روشوں (جدتوں ) اور تازہ کار لہجوں کے امین ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے جدید اردو نظم کی دلداری کی اور اس کی عکاسی بھی کی ہے۔

اگر ادب و شعر کو مقصدیت سے نتھی کر دیا جائے تو بقول افلاطون، ’’ادب برائے زندگی اور جمالیات خاص طور پر اخلاقیات اور فلسفہ کے ماتحت ہے۔ ‘‘ اسی بات کو مغربی نقاد وِنٹرس (Winters) نے کہا تھا۔ “poetry is a statement in words about a human experience.” یعنی شاعری نام ہے انسانی تجربات کو الفاظ میں بیان کرنے کا۔ غالبؔ بھی کہاں پیچھے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا ؎

ما نہ بودیم بدیں مر تبہ راضی غالبؔ

شعر خود خواہش آں کرد کہ گر دد فنِ ما۔

ظفرؔ کی شاعری مندرجہ بالا ضابطوں کی پابند شاعری ہے۔ نئے عہد نے زندگی کو جتنے پہلوؤں سے بر تا ہے، ان سے کئی گنا زیادہ موضوعات شاعری کے دامن میں آن گرے ہیں۔ اکثر شعراء نے موضوعات پر ہاتھ ڈالا ہے لیکن ظفرؔ نے جس خوش سلیقگی سے ان موضوعات کے جدید نظم کے حوالوں کے ساتھ اپنی فکر اور اظہار کا محور بنایا ہے، وہ بے مثل ہے۔ ان کے یہاں موضوعات کا تنوع اور اسلو بیاتی اور محاکاتی رنگا رنگی اپنی ضو فشانی اور اپنا وجود منوانے پر تُلی نظر آتی ہیں۔ ظفرؔ کی نظم گوئی کا آغاز ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند نظم کے زیر اثر ہوا لیکن انہوں نے میرا جی اور ن۔ م۔ راشد جیسے نظم گویوں کے قبیلے کی رکنیت سے از خود انکار کیا اور صرف ’خود کے لئے کہی گئی ‘ مبہم اور ادق الفہم نظموں کی تقلید سے پرہیز کیا۔ انہوں نے اصطلاحی جماعت بندیوں اور جدیدیت اور ما بعد جدیدیت وغیرہ جیسے از کار رفتہ مفروضات سے بھی دانستہ اجتناب برتتے ہوئے زمانے کو اپنے شعور اور احساس کی آنکھوں سے دیکھا اور پرکھا ہے۔ اسلام میں عقیدتاً اور رسماً، بہ ہر دو طور، ہر کام اللہ کی حمد و ثناء اور دعا کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ظفرؔ اپنے انفرادی لہجے میں دعا کر تے ہیں جو ان کی ایک نظم کا عنوان ہے۔

خدائے بر تر و بالا

ترا ممنون ہوں۔ کیا کیا عطا کیں نعمتیں تو نے

مری اوقات سے بھی کچھ زیادہ دے دیا مجھ کو

مگر

میں ایسا خود غرض، نا شکر و نا فرماں

کہ سب کچھ پتاکے بھی نا مطمئن ٹھہرا

مرے لالچ نے

مٹی، دھوپ، پانی

ثمر، دریا، ہوائیں، پیڑ

سب کو قتل کر ڈالا۔

شاعر کا لہجہ اسے کہاں لے جا رہا ہے۔ اس کا تخاطب تو لازماً خدا ہے، لیکن شاعر اپنی بات، اپنے ذاتی مفاد کی بات نہیں کر رہا ہے، بلکہ وہ سماجی سروکار کی بات کر رہا ہے جو ایک شاعر کا سب سے مقدس فریضہ ہوتا ہے۔ بنی نوع انسان کی نمائندگی کر تے ہوئے شاعر اعتراف کر رہا ہے کہ وہ اس ماحولیاتی عدم توازن کا مجرم ہے جسے اس کی غرض مندی نے بگاڑ دیا ہے۔ وہ توضیح کرتا ہے۔

مرے الفاظ مصنوعی ہیں سارے

میں ہر پہچان اپنی کھو چکا ہوں

نہ چہرہ ہے، نہ آنکھیں

دماغ اکثر یہ مجھ سے پوچھتا ہے

کیا حقیقت میں وہی ہوں میں ؟

فرشتوں نے جسے سجدے کئے تھے

نہیں۔۔ میں وہ نہیں ہوں۔

اور پھر آخر میں وہ اللہ سے دعا مانگتا ہے۔

خدائے بر تر و بالا

مرے تاریک۔ خالی۔۔ خود گزیدہ

سرد سینے کو

عطا کر آگ

اس کو درد کی خوشبو سے بھر دے

مجھے پھر اشرف المخلوق کر دے۔

یہی شاعر کی فکری جہت ہوتی ہے جسے وہ اپنے عقیدے تک بھی کھینچ لاتا ہے۔ یہ اس کا عالمی کرب ہے جو دعا کے توسط سے اس کے قلم سے نکل کر کاغذ پر بہہ نکلتا ہے۔ اور پھر شاعر اپنے لئے کیا مانگ رہا ہے ؟ کچھ نہیں۔ اگر کچھ مانگ رہا ہے تو انسان کا انسان ہونا۔ جو مشکل ہے۔ آج ایک جانور کا انسان ہونا آسان نظر آتا ہے لیکن ایک انسان کا انسان ہونا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ یہی کرب ظفرؔ سے یہ دعا کرواتا ہے جس پر تمام علم کے انسان آمین کہنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ یہی ایک جدید طرزِ اظہار کا خاصہ ہوتا ہے۔ ظفرؔ کا دکھ بھی کو ئی انفرادی اور ذاتی دکھ نہیں ہے۔ اس کا تصور اسے کہاں کہاں کی سیر کرواتا ہے۔ ایک نظم ’’ تری بے چین آنکھوں کے پرے ‘‘ کا یہ حصہ دیکھئے۔

’’دکانیں، لال ٹینیں، اونگھتے سائے، ڈبل روٹی

سلگتے گوشت کی خوشبو

دھنسا ہوا چہرہ، مہینے بھر کی داڑھی

پھٹی جیبوں کی میلی سی قمیصیں

سنیما گھر کے آگے پوسٹر پر قہقہوں کی

دھول بر ساتا ہوا پاگل

کنارِ آب ننھی مچھلیاں کھاتا ہوا بگلا

محاذ جنگ پر مارے گئے فوجی کی محبوبہ

میں کیا بتلاؤں، تیری گول سی سپنوں بھری

بے چین آنکھوں کے پرے

کیا کیا دیکھتا ہوں۔ ‘‘

یہ ایسی شاعری ہے جو کسی طور اپنے ماحول، اپنے اِرد گِرد سے بے خبر نہیں رہتی۔ شاعر جب اپنے مخاطب کی بے چین آنکھوں کے پرے جھانکتا ہے تو اسے اپنے تجربات یاد آ جاتے ہیں۔ اسے اپنے مشاہدات کے درشن ہوتے ہیں۔ وہ اُن بے چین آنکھوں کی جمالیاتی تشریح کرنے کے بجائے ان کے پرے نکل جاتا ہے، اور اسے اپنا دکانوں کے سامنے سے گزرنا یاد آ جاتا ہے جہاں اس نے لالٹینوں کی روشنی میں کچھ اونگھتے سائے دیکھے تھے۔ سلگتے گوشت کی خوشبو، دھنسا ہوا چہرہ اور مہینے بھر کی داڑھی، یہ علامات معاشی احتیاج کی نشاندہی کر تی ہیں۔ کنار آب ننھی مچھلیاں، اور ان مچھلیوں کو اپنی غذا بناتا ہوا ایک بگلا، یہ محض ایک خوبصورت فطری منظر نہیں ہے بلکہ سر مایہ دارانہ نظام کا اعلامیہ ہے۔ یہاں اس بات کا اعادہ غیر ضروری نہیں معلوم ہوتا کہ جدید اردو نظم کی ہیئت اور اسلوب مغرب سے بر آمد کر دہ ہیں۔ اس لئے اردو میں اسے لسانی تاثر کی originalityکے ساتھ برتنا کمال ہے۔ ظفرؔ کی شاعری کا اختصاص یہی ہے کہ وہ ظاہری محاکات کے حوالوں سے اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی پر قادر ہیں۔ ’اسٹیٹس سمبل‘ ظفرؔ کی ایسی ہی نظم ہے جو معاشرتی منافقت hypocrisy کی عمدہ عکاسی کر تی ہے۔ اس نظم کا اختتامیہ بے حد چونکا دینے والا ہے۔

’’کلب، ڈنر اور ڈانس کی رسیا

صارف کلچر کی مخلوق

ننھی شبنم، ننھے بیج سے

اک بار یہ پوچھے

سر کیسے اونچا ہوتا ہے

عزت کیسے ملتی ہے

کیا شئے ہے اسٹیٹس سمبل؟

اب کوئی بتائے کہ یہ ننھی شبنم، ننھے بیج کے استعارے کس کے لئے استعمال ہوئے ہیں اور شاعر ان استعاروں کے ذریعے کس سے مخاطب ہو رہا ہے اور وہ کن معاشرتی اکا ئیوں پر طنز کر رہا ہے۔ یہی ظفرؔ کی نظموں کا خاصہ ہے۔ ان کے تخیل نے یک لخت شہری زندگی کی منافقانہ رَوِشوں کی جانب سے اپنی فکر کے عدسہ Lenseکا رُخ فطرت کی طرف موڑتے ہوئے ننھی شبنم اور ننھے بیج کی جانب کر دیا اور نئے سر مایہ دارانہ رویوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ بقول فریدوں مشیریؔ ؎

در کجایٔ ایں فضائے تنگ، بے آواز من کبوتر ہائے شعرم را دہم پرواز

ظفر کی شاعری اس لحاظ سے بھی منفرد کہلائے جانے کی مستحق ہے کہ یہ اپنے فوری ماحول سے متاثر ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ چاہے وہ ماحول مکانی لحاظ سے قریب ہو یا بعید۔ یعنی مقامی ہو یا عالمی۔ اور کمال تو یہ ہے کہ ہر صورت میں شاعر اس ماحول کے خلاف مزاحمت کرتا دکھائی دیتا ہے، وہ بھی ایسی مزاحمت جیسی فلسطینی لوگ اسرائیلی غاصبوں کے خلاف کر تے ہیں۔ اور شاعر اسے اپنا فرض تصور کرتا ہے۔ ظفرؔ کی نظم ’ٹکراؤ‘ کا اختتامیہ دیکھئے۔

’’۔۔ ۔۔ ۔۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

پھر لڑیں گے

تو جگ مگ شہر

میں سادہ سا شہری۔۔ دیہاتی سا کچھ

اگر مجھ کو ہرا پائے، ہرا دینا

ابھی تک تو ہرا پایا نہیں ہے

مجھے اپنا بنا پایا نہیں ہے۔ ‘‘

نظم کا یہ حصہ صاف بتاتا ہے کہ شاعر بہ آسانی ’ سَرِ تسلیم خم ‘کرنے کا یعنی submission کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ ایک عظیم آبادی والے، چو بیس گھنٹے مصروف رہنے والے شہر کا حصہ بن تو گیا ہے لیکن واقعتاً وہ ایسے ہی علیحدہ ہے جیسے ہندوستان کے جغرافیائی نقشے میں سری لنکا۔ لیکن اسے فخر ہے کہ وہ اپنی جڑوں اور اپنی اقدار سے اب بھی مربوط ہے۔ مزاحمتی رویے کی ایک اور مثال، ایک اور منظر، نظم ’بہت کمزور ہو تم‘ میں دکھائی دیتا ہے۔

میں بارش ہوں

مری بوندیں خدا کی پھیلی پھیلی اس زمیں پر

کہیں بھی ٹوٹ سکتی ہیں

تمہارا کیا ہے ؟

تم کون ہو؟

ہوا کو، پانیوں کو کاٹنے والے

زمین و آسماں کو بانٹنے والے

مجھے زنجیر پہناؤ گے

مجھ کو روک پاؤ گے ؟

بہت کمزور ہو تم

ہار جاؤ گے !

ایسے احتجاجی اور مزاحمتی رویوں کا آغاز شعر و ادب میں، نیز خصوصاً جدید نظم میں مغرب کے زیر اثر ہوا۔ گو، ان رویوں کا آغاز ترقی یافتہ ممالک سے ہوا لیکن ترقی پذیر ممالک میں کو ئی ملک ایسا نہیں رہا جو ان رویوں سے براہِ راست متاثر نہ ہوا ہو۔ چاہے وہ افریقہ کی apartheid تحریک ہو یا ایشیاء میں ترقی پسند تحریک۔ کلاسیکیت کی دیوانی فارسی شاعری بھی اس سے دامن نہ بچاسکی۔ احمد شاملو کی جدید نظم کے تئیں وابستگی ملاحظے کی شئے ہے۔

’’درخت تناور

امسال

چہ میوہ خواہد داد

تا پرندگاں را

بہ قفس نیاز نہ ماند؟؟

(نظم، ’’تا بستان‘‘ مجموعہ۔ ابراہیم و آتش۔ احمد شاملو)

ظفرؔ نے اپنی مندرجہ بالا نظم ’بہت کمزور ہو تم‘ میں شاعرانہ تعلی سے کام لیتے ہوئے خود کو بارش کے استعارے کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن مقصدیت کے لحاظ سے آخر کار، ما حول میں موجود انسانی وسائل کی کِرم خوردہ ذہنیت کے خلاف اس کے احتجاج اور مزاحمت کا عندیہ بہت واضح ہے۔ ان کے یہاں معاشرتی عدم توازن، مزاحمت اور احتجاج کی لے تیز ضرور ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ظفرؔ کی شاعری میں زمانی اعتبار سے حال کا بیان زیادہ ہے اور ان کی تمثیلات، استعارے اور محاکات نسبتاً واضح ہیں۔ مثلاً ان کی نظم ’بے حا صل‘ کا یہ ٹکڑا دیکھئے۔

’’۔۔ ۔

بھول بھال کر گلی تمہاری

کانکریٹ کی پکی اور

تپتی سڑک پر ہانپ رہا ہوں

اور ابھی کتنا چلنا ہے ؟

اِدھر اُدھر سے دھوپ اُٹھا کر

اپنے سفر کی لمبائی میں ناپ رہا ہوں

وقت کے ساتھ سفر کا شوق!‘‘

ظفرؔ کے یہاں نئی تہذیب کی عیاریاں ان کے جمالیاتی شعور romantic sense کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ اس نظم میں وہ معشوق کی گلی بھول کر اپنے سفر کو نئی تہذیب اور نئی ضروریات سے ہم آہنگ کر تے ہیں اور عشق کے کیف آور تصور سے نکل کر موجودہ زمانے کی تلخ سچائیوں کی رزم گاہ میں آن پہنچتے ہیں اور پھر کانکریٹ کی پکی اور تپتی ہوئی سڑک، دھوپ کی شدت اور سفر کی مسافت کا توشہ دان ساتھ رکھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ظفرؔ کو ایک جانب شہری زندگی کی ہماہمی سے شکایت ہے وہیں وہ پرانی صحت مند اقدار کی گم گشتگی کا نوحہ بھی کر رہے ہیں۔ جب ہم ان کی شاعری کے دروازے پر اس حوالے سے دستک دیتے ہیں تو ان کی واقعاتی اور موضوعاتی نظمیں بے حد خوش سلیقگی سے ہمارا استقبال کر تی ہیں۔ اس خصوص میں ان کی نظم ’مرے چراغوں کو دفن کر دو‘ ایسے قبیل کی نظم ہے جو ماضی اور حال دونوں زمانوں کی اقدار کا تقابل کر تی ہے۔

’’ اصول، اونچے وِچار

حق گوئی

اور دیانت

چراغ کیا کیا

دئے تھے دادا نے باپ کو

باپ نے یہ ورثہ مجھے تھمایا

اور اب بڑھاپے میں، میں نے چاہا

کہ سارا وِرثہ، چراغ سارے میں

اپنے بچوں کو سونپ دوں

مر سکوں، سُکوں سے۔۔ ۔۔ ‘‘

یہاں تک شاعر کا ایقان اپنی اگلی نسل پر قائم نظر آتا ہے لیکن جیسے جیسے نظم proceed کر تی ہے، یہ ایقان، کامل بے اعتباری اور حسرت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

’’بہت چالاک ہیں میرے بچے

وہ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں ’ڈیڈی‘

یہ ساری چیزیں، یہ ٹمٹماتے چراغ سارے

بہت پرانے ہیں

اب ان سے کیا روشنی ملے گی؟

۔۔ ۔۔ ۔

کچھ اور ہے آج کی یہ دنیا

یہ وہ نہیں ہے کہ جس میں کھولی تھیں تم نے آنکھیں۔۔ ۔ ‘‘

یہ نظم نہیں ہے، ظفرؔ کا شخصی کرب ہے۔ یہ ایسی کوفت کا اظہار ہے جو شاعر کو مسلسل اضطراب میں رکھتی ہے اور اس کرب و گھٹن سے تنگ آ کر آخر کار ’ سرِ تسلیم خم ہے ‘ کی بے چارگی بھری و مصلحت آمیز کیفیت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ وہ اپنے ایقان کو submit کر دیتا ہے اور کہہ اٹھتا ہے کہ

’تو میرے بچو !

نئے زمانے میں جینے والو!

بلند دیواروں، اونچی چھتوں کے نیچے، نئے کھلونوں کے ساتھ

مصنوعی زندگی راس آئے تم کو

مرے چراغوں کو میرے ہمراہ دفن کر دو

اندھیری دنیا تمہیں مبارک !!!

ہر شاعر کے نزدیک ماضی کی ایک الگ اہمیت اور افادیت ہوتی ہے۔ اس ماضی کو انگریزی میں nostalgia کہتے ہیں جو شاعر کا سر مایۂ شعر ہوتا ہے۔ پھر یہ ظفرؔ کا ساتھ کیسے چھوڑ دیتا؟ ان کی نظم ’چھوٹا ہوا ہاتھ‘ ملاحظہ کیجئے۔

’’تمہارا ہاتھ تھا بابا !

تھی میرے ہاتھ میں انگلی تمہاری

تمہارے اونچے کاندھوں سے ڈھلک کر

تمہاری صاف ستھری بے شکن چادر کا کونا

مجھے رہ رہ کے چھوتا تھا

کہ مجھ سے راستے کی گرد نہ آ کر لپٹ جائے

تمہارا ساتھ تھا با با !

خدا منھ سے تمہارے بولتا تھا

سچ بولو

کہ سچ سورج ہے باطن کا

محبت ایک دولت ہے۔۔ ۔ ‘‘

اور اکثر شاعروں کے ساتھ مصیبت یہ ہوتی ہے کہ شام ہوتے ہی یا پھر تنہائی کی چادر پھیلتے ہی ان کا یہ nostalgia عود کر آتا ہے اور انہیں ماضی کے گلیاروں کی سیر کرواتا ہے جِسے وہ اپنے رجحان کے مطابق اپنی شاعری میں نظم کر تے ہیں۔ بقول فِراقؔ ؎

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

میں نے اوپر جس نظم کا حوالہ درج کیا ہے، اس میں ظفرؔ کو کسی محبوبہ یا اپنی محبت کے بجائے ایک مشفق اور مربی کر دار کی یاد آتی ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب شاعر کا خیال، اس کا تخیل محترم ہو جاتا ہے اور اس کی ہر بات شخصِ مذکور کی کر دار سازی کر رہی ہوتی ہے۔ اپنے بچپن کا بیان، بابا کا والہانہ ذکر اور پھر ان کی اعلی اقدار پر مبنی نصیحت، اس نظم کے مبادیاتی اجزاء ہیں۔

یوں کہا جائے تو کیا غلط ہو گا کہ ظفرؔ زندگی کی صداقتوں کی شاعر ہیں ؟ وہ بے معنی زندگی کے قائل نہیں ہیں۔ اپنی اسی عنوان کی نظم ’زندگی با معنی ہے ‘ میں وہ یہی پیغام دیتے ہیں۔

’ہاتھ نہ آئے ستارہ

ہاتھ نہ آئے جزیرہ

لیکن ان کے پانے، ان کو چھونے، ان کے پاس جانے کا

جو اک سنگھرش ہے

وہ زندہ رہنا چاہئے

اک اسی سنگھرش سے

زندگی میں کچھ نہ کچھ مفہوم ہے

زندگی با معنی ہے۔ ‘

ظفرؔ کی نظم بے سمت اور بے رُخ خیالات اور موضوعات کے ہمراہ نہیں چلتی۔ وہ بڑی دیدہ ریزی کے ساتھ اپنے خیالات کو خلق کر تے ہیں۔ اور پھر انہی خیالات کے آٹے سے شعر کی روٹی تیار کر تے ہیں۔ ہم نے اکیسویں صدی میں داخل ہونے کو اپنا بڑا کار نامہ سمجھ لیا ہے۔ لیکن ظفرؔ اس اکیسویں صدی کی حقیقت سے خوب واقف ہیں۔ اس لئے وہ اس اکیسویں صدی سے مخاطب ہو کر کہہ اٹھتے ہیں۔

میں نہیں کہتا تو مری خاطر

آسماں اک نیا فراہم کر

جی سکوں میں زمیں پہ عزت سے

ایسی آب و ہوا فراہم کر

یعنی شاعر کا ادراک اس واقعے سے اچھی طرح واقف ہے کہ اکیسویں صدی میں کو ئی اگر ایسی ہوا، ایسا ماحول ہی فراہم کر دے کہ انسان، بلکہ بنی نوع انسان عزت سے اپنی بچی کھچی سانسیں لے کر اپنا رخت سفر باندھ سکے، تو یہی غنیمت ہے۔ لیکن وقت جیسے جیسے آگے بڑھتا جا رہا ہے، یہ امید، نا امیدی میں بدلتی جا رہی ہے۔

ظفرؔ کی نظموں میں طرزِ اظہار کی خوبصورتی، ترسیل و ابلاغ کی منزلوں سے گزرتے ہوئے محاکات کی جدت و ندرت کے نئے پہلو وا ہوتے ہیں۔ میں ان کی نظموں سے کچھ حوالے دے رہا ہوں۔ آپ مکمل نظمیں پڑھے بغیر بھی ان کا مزہ تو لے سکیں گے لیکن اگر مکمل متن پڑھیں گے تو یہ سہ آتشہ ہو جائے گا۔

’ میں اپنی سرخ صبحوں

سبز شاموں

سانولی راتوں کی لاشوں پر کھڑا ہوں

۔۔ ۔۔ ۔

ہنسے کوئی تو اس کے شوخ غنچے میرے ہونٹوں میں

چمک اٹھیں

۔۔ ۔

سرد سینے کو عطا کر آگ

اس کو درد سے بھر دے

مجھے پھر اشرف المخلوق کر دے

( نظم: دُعا)

تو میرے ساتھ ہے لیکن

میں تیرے پاس ابھی آیا نہیں ہوں

میں زندہ ذہن ہوں

سایہ نہیں ہوں

( نظم: تری بے چین آنکھوں کے پرے )

کہ یہ دھیان کی سیڑھیاں ٹوٹ جائیں گی سب

چاندنی آگ کی جھیل بن جائے گی

اور میں۔۔ ۔۔ کرب کی کالی دیوار میں

چُن دیا جاؤں گا

(نظم: کرب کی کالی دیوار)

پُل، مینار، سفینہ، پانی

سب ڈوبیں گے ساتھ

کاش کہ لمبے ہو جاتے

تیری یادوں کے ہاتھ۔۔ ۔

(نظم: غر قابی سے پہلے )

وہ آس کے پاؤں میں بجلی کی جو پازیب تھی

گھٹا کا آنکھ میں جو سُر مہ تھا

ماتھے پر تھا جھومر چاند کا

کہاں کھو آئی دنیا؟

یہ دنیا خوبصورت تھی

یہ بد صورت ہوئی کیسے، خدایا؟

(نظم: یہ دنیا خوبصورت تھی)

ہوا سا وقت اُڑا جا رہا تھا اور منظر

دھُنی کپاس کی مانند ٹوٹ کر بکھرا

(نظم: دوڑ)

وہ دیواریں جو آندھی اور بارش سے کبھی محفوظ رہنے کے لئے

میں نے بنائی تھیں

انہیں خود توڑ دیتا ہوں

کسی ویرانے میں

اپنے خدا کو میں اکیلا چھوڑ دیتا ہوں۔

(نظم: جب کوئی نیا موسم)

غرض ظفرؔ کی نظموں میں لفظیات، علامات، لہجہ اور جدید تشبیہات و استعارات کی تناظر میں بھی تنوع اور وارفتگی پائی جاتی ہے۔

٭٭

ماخذ:

http: //www.urduchannel.in/484-2/

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے