مصحفؔ اقبال توصیفی سے ایک ملاقات ۔۔۔ جعفر جری

 

ج: جناب مصحف اقبال توصیفی صاحب ! آج آپ بلا شبہ دنیائے سخن کی ایک معروف شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں مگر ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ شعر و سخن سے آپ کو یہ شغف کب کیوں کر اور کن حالات میں پیدا ہوا؟

م: میری ننہیال اور ددھیال دونوں گھرانوں میں شعر و ادب چرچا تھا۔ اس لیے بچپن ہی سے میرے کان اساتذہ اور شعرائے حال کے اشعار سے آشنا تھے۔ میرے نانا قاضی محمد بنی فارسی زبان میں شعر کہتے تھے اور سوزؔ تخلص کرتے تھے۔ میرے والد کے پھوپھا عبدالجامع جامی بدایونی کی حیثیت بدایوں میں استاذ الاساتذہ کی تھی۔ اپنے عہد کے سبھی نامور شعرا سے ان کے روابط تھے۔ صفیؔ ، نوحؔ ناروی، جگرؔ ، بہزادؔ لکھنوی وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی بدایوں آتا تو جامیؔ صاحب کے گھر کی محفلوں کی رونق بڑھ جاتی۔ میرے والد شاعر نہیں تھے لیکن شعر و ادب کا ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ چچا فرید بخش قادری ( جو میرے والد کے خالہ زاد بھائی تھے۔ فرید چچا خلیل الرحمٰن اعظمی کے ہم جماعت رہے ہیں۔ علی گڑھ میں۔، اور ہماری چچی، مشہور نقاد آل احمد سرور کی بہن ہوتی ہیں۔ ) باقاعدہ شاعر تھے اور اپنے زمانے کے نوجوان شعرائے علی گڑھ اور بدایوں میں خاصے مقبول تھے۔ یوں جب میں نے اپنا آبائی وطن بدایوں چھوڑا تو میں بہت چھوٹا تھا۔ تیسری جماعت کا طالب علم۔ لیکن شعر و ادب کی فضا میں سانس لینا میں نے سیکھ لیا تھا۔

والد کے ساتھ میں حیدرآباد آیا تو میرے دادا عبد الباسط صدیقی مرحوم ( میرے والد کے ماموں جو میرے والد کو حیدرآباد اپنے ساتھ لے آئے تھے اور ان کے سرپرست رہے ) انہیں شعر و ادب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ لیکن بدایوں کے ہونے کے ناطے اور چوں کہ فانی صاحب کا گھر ہمارے گھر سے بس چند منٹوں کے فاصلے پر تھا اس لیے ان کا اور میرے والد کا فانیؔ صاحب کے گھر بہت آنا جانا تھا، اور یہ میل جول اتنا بڑھ گیا گویا ایک ہی خاندان ہو۔ میں نے فانی صاحب کو کیا دیکھا ہو گا لیکن سنا ہے، میری عمر ایک سال سے بھی کم ہو گی۔ فانیؔ صاحب کے انتقال سے بس کچھ عرصہ بلکہ کچھ مہینے پہلے میں اپنی والدہ کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے بدایوں سے شاید آیا تھا اس وقت کی ایک گروپ تصویر تھی ( جو نہ جانے کہاں کھو گئی) جس میں میں فانی صاحب کی گود میں نظر آ رہا ہوں۔ علامہ حیرت بدایونی کا گھر بھی بے حد قریب تھا اور ہمارے گھرانے کے ان کے خاندان سے قریبی مراسم تھے۔ علامہ کے تیسرے صاحبزادے احمد جلیس اور میں، ہم دونوں نے مل کر بچوں کا ایک قلمی رسالہ کہکشاں نکالا تھا۔ جس کا سر ورق علامہ کی چھوٹی بیٹی (مشہور افسانہ نگار جیلانی بانو کی چھوٹی بہن) نے بنایا تھا۔ جب میں انٹرمیڈیٹ سال اول میں پڑھ رہا تھا تو اپنے دو ہم محلہ دوستوں سید علی الدین اور عظیم صدیقی کی مدد سے ہم تینوں نے اپنے تئیں ایک ادبی رسالہ ’’شمع ادب‘‘ کے نام سے باقاعدہ لیتھو پریس میں چھپوایا۔ اس میں محلے کے سبھی اہل قلم شامل تھے۔ اس رسالے کا یہ پہلا اور آخری شمارہ تھا اور اسی میں عارفؔ بدایونی کے نام سے میری پہلی غزل شائع ہوئی۔

ج: آپ کی شعر گوئی کا آغاز۔۔

م: شعر گوئی کا آغاز تو اسکول کے زمانے ہی سے ہو گیا تھا اور میں نے ایک چھوٹی سی بیاض بھی اوروں کی دیکھا دیکھی بنا لی تھی اور جو بھی لکھتا پہلے ادھر ادھر کاغذوں پر محفوظ رکھتا پھر جب مطمئن ہو جاتا تو اس بیاض میں منتقل کر لیتا۔ اس طرح میرے پاس خاصی تعداد میں نظمیں غزلیں جمع ہو گئی تھیں۔ پھر میں نے بچوں کے لیے بھی کچھ نظمیں لکھیں اور ’’کھلونا‘‘، ’’پھلواری‘‘ وغیرہ کو عارفؔ بدایونی کے نام سے بھیجیں۔ اس طرح دو تین سال تک عارفؔ بدایونی کے نام سے بچوں کے رسائل میں میری نظمیں گاہے گاہے چھپتی رہیں۔ بچوں کے لیے ان نظموں کے علاوہ بھی اب میری بیاض میں بہت سی نظمیں غزلیں ایسی جو میرے بالغ احساسات کی عکاس تھیں جمع ہو گئی تھیں۔ آزاد، پابند نظمیں، چند غزلیں ان ہی میں سے ایک نظم اس زمانے کے نہایت معتبر اور مقتدر رسالہ ’’صبا‘‘ کے لیے میں نے بھیجی۔ یہ غالباً 57 ء کے اواخر یا 58 ء کی بات ہے۔

ج: اچھا تو یوں کہا جائے کہ تقریباً پچاس کے دہے میں آپ کے ادبی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اب یہ بتائیں کہ ان دنوں آپ کو اپنے سے سینیئر کن شعرا کی صحبت میسر تھی اور کیا کبھی آپ نے شاعری کے سلسلے میں ان کے مشوروں سے استفادہ کرنے کی بات بھی کبھی سوچی تھی۔

م: ان دنوں ’’صبا‘‘ کے لیے میں نے جو نظم بھیجی تھی و نظم، نظم آزاد کی تکنیک میں تھی۔ سلیمان اریبؔ صاحب ’’صبا‘‘ کے ایڈیٹر بھی تھے، انہوں نے مجھے خط لکھا کہ ’’نظم آزاد‘‘ کی تکنیک ذرا مختلف اور مشکل ہوتی ہے۔ اس باب میں گفتگو کے لیے بہتر ہو، میں ان سے ( سلیمان اریب) یا شاذ تمکنت سے ملوں، میں اپنے گھر سے جو ملے پلی کے محلے میں لبِ سڑک تھا، اس زمانے میں اکثر شام کو سلیمان اریب، عزیز قیسی، انور معظم، وحید اختر، شاذ تمکنت اور دوسرے شاعروں کو گذرتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ( اریبؔ صاحب کا گھر نامپلی سے ملے پہلی ہوتی ہوئی اسی سڑک سے کچھ اور آگے وجئے نگر کالونی میں تھا اور شاذ ملے پلی انوار العلوم کالج کے رو بہ رو ایک گھر میں رہتے تھے )۔ میرے دل میں پہلے ہی سے بڑی خواہش تھی کہ ان شعرا سے ملاقات کا موقع کسی طرح حاصل ہو، یہ خط پا کر، جہاں تھوڑا سا ملال ہوا کہ اریب صاحب یہ نظم نہیں چھاپ رہے ہیں، ساتھ ہی خوشی بھی ہوئی کہ اس بہانے میں اپنے پسندیدہ شاعروں میں کسی نہ کسی سے مل سکوں گا۔ ان سب شاعروں میں مجھے شاذ تمکنت سب سے زیادہ اپیل کرتے تھے، اور میں ایک دن ہمت کر کے شاذؔ سے ملنے ان کے گھر پہنچ گیا۔ میں نے انہیں اریب کا خط اور پھر اپنی نظم دکھائی، شاذؔ ہنسنے لگے۔ میری نظم لوٹاتے ہوئے بولے آزاد نظم کی کوئی تکنیک وغیرہ نہیں ہوتی اگر ہے تو بس یہی تکنیک ہے جو اس نظم میں ہے۔ تمہیں کسی سے کوئی مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دیکھو میں بھی کسی سے مشورہ نہیں لیتا۔ بس لکھتے رہو، اور ان باتوں پر دھیان مت دو۔

میری شاعری کی ابتدا نظموں ہی سے ہوئی۔ باقاعدہ غزل میں نے کافی عرصے بعد لکھی، شاذؔ میری نظمیں پڑھتے اور رائے دیتے جیسے یہ میری نظم نہ ہو بلکہ ان ہی کے ہم عمر کسی established شاعر کی نظم ہو، اپنی نظمیں، غزلیں سناتے، میں اگر کبھی کوئی مشورہ دیتا یا اعتراض کرتا تو یہ خیال کیے بغیر کہ میری بساط کیا۔ میں نے ابھی اس کوچے میں قدم رکھا ہے، میری بات غور سے سنتے اور اگر اس میں کوئی وزن ہوتا تو مان بھی لیتے ( گو ایسا بہت کم ہوتا)۔ اگر میں ان کے کسی خیال یا مشورے سے متفق نہ ہوتا تو برا نہ مانتے، بہت آگے چل کر جب میں نے اپنے پہلے شعری مجموعے کا نام ’’فائزا‘‘ رکھا تو یہ نام شاذؔ کو سخت ناگوار گزرا۔ لیکن انہوں نے برا نہیں مانا بلکہ میری خواہش پر اس مجموعے کے لیے اختر الایمان کی رائے حاصل کرنے میں میری بڑی مدد کی۔ لیکن جہاں تک شاعری کا سوال ہے کسی اور نوجوان مبتدی اور خود سے ۶، ۷ سال چھوٹے کسی اور شاعر کو شاذ وہ درجہ نہ دیتے جو مجھے دیتے رہے۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ انہیں میری شاعری میں کوئی بہت بڑا شاعر بننے کا امکان نظر آتا تھا ( اگرچہ کہ انہیں میری شاعری پسند تھی) بلکہ اس لیے کہ وہ مجھے عزیز رکھتے تھے اس لیے مجھے اپنے ساتھ اپنے پاس بٹھانے میں انہیں کوئی تکلف محسوس نہ ہوتا۔ شاذؔ کسی کو اپنا استاد نہیں مانتے تھے۔ نہ ہی سنجیدگی سے کسی کا استاد بننا انہیں گوارا تھا۔

ایک دن میرے گھر آئے، بولے تمہارے نام عارف بدایونی سے بڑی قدامت پرستی کی بو آتی ہے۔ کوئی اور نام سوچو، ہم دونوں نے مل کر کئی نام سوچے، زیادہ تر نام شاذؔ کے تجویز کردہ تھے۔ ان ہی میں سے ایک نام مصحف توصیفی مجھے اچھا لگا، میں نے کہا میں اپنا نام تین ٹکڑوں میں چاہوں گا۔ جیسے میرے کئی پسندیدہ شاعروں کے نام ہیں۔ ن۔ م۔ راشد، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، عزیز حامد مدنی وغیرہ۔ میں اس میں اپنی عرفیت جوڑ لوں، اقبال۔ بولے ہاں۔ یہ اچھا رہے گا اور میرا قلمی نام مصحف اقبال توصیفی ہو گیا۔

ج: خیر یہ تو رہی ابتدائی دنوں کی بات۔ بعد میں حیدرآباد بیرون حیدرآباد کے کن احباب علم و فن سے آپ اپنی قربت قابل ذکر سمجھتے ہیں ؟

م: ادیبوں اور شاعروں میں مجھے سب سے زیادہ شاذؔ عزیز رہے۔ وہ نہ صرف ایک بہت اچھے شاعر تھے بلکہ بہت ہی جینوئن انسان۔ وہ اپنی خوبیوں سے بے نیاز اور اپنی خامیوں سے پشیمان اور متردد رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے گھر میں ہم افراد خاندان کی طرح آتے جاتے، کوئی نئی نظم یا غزل ہوتی تو فوراً ایک دوسرے کو سناتے۔ شاذؔ نے مجھے ہمیشہ اپنا چھوٹا بھائی اور دوست سمجھا، بلکہ چھوٹا بھائی زیادہ۔

شاذ تمکنت کے بعد مجھے سب سے زیادہ قرب عوض سعید کا حاصل رہا۔ عوض سعید بہت اچھے افسانہ نگار تو تھے ہی وہ نہایت اعلیٰ انسانی صفات کے حامل بھی تھے۔ عوض شاذ اور میں۔ اکثر ہم لوگوں کی شامیں ساتھ گزرتیں اورینٹ ہوٹل میں یا ہم میں سے کسی کے گھر پر۔ بعد میں ستّر کی دہائی میں جب سید خالد قادری حیدرآباد آئے اور انوار العلوم ایوننگ کالج میں لکچرر ہوئے تو شاذؔ کے توسط سے ہمارے اس مخصوص گروپ میں وہ بھی شامل ہو گئے۔ خالد انگریزی اور اردو ادب کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے ہیں جو انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا ہو گا۔ مغنی تبسم کے اکسانے پر شعر و حکمت کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ان کا تنقیدی سفر اور خاکوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور ان کی ادبی صلاحیتیں جن کے پہلے شاذ، عوض اور میں ہی معترف تھے۔ اب ساری اردو دنیا ان سے روشناس ہونے لگی۔ خالد نہایت ذہین پڑھے لکھے اور صائب الرائے شخصیت ہیں اور شاذؔ ، عوضؔ اور نرمل جی کے بعد اب میرے چند قریبی دوستوں میں وہی رہ گئے ہیں۔

ہندی کے مشہور شاعر اوم پرکاش نرمل سے بھی میری دوستی تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ شاذ اور عوض سے۔ ایسا مخلص بے ریا اور دوستوں کیلیے کچھ بھی کر جانے کا حوصلہ رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ نرمل جی میرے بے حد عزیز دوست تھے۔ اب بھی ان کی یاد آتی ہے تو میری آنکھیں بیگ جاتی ہیں۔ وہ مشہور ہندی ماہ نامہ ’’کلپنا‘‘ کے اڈیٹر رہے۔ اور کچھ عرصے کے لیے آندھراپردیش ہندی اکیڈمی کے ڈائرکٹر بھی۔ ان کے توسط سے ہندی ادب کی کئی شخصیتوں جیسے راجہ دوبے، بدری وشال پتی، منندر جی، مرلی دھر شرما، سری رام شرما، پریاگ شکل وغیرہ سے میرے مراسم پیدا ہوئے۔

اورینٹ میں میرے لیے سب سے قابلِ احترام ہستی جن سے ملاقاتوں اور جن کے ساتھ شاذؔ ، خورشید احمد جامیؔ ، عوض اور چند اور احباب کی معیت میں کئی شامیں گذارنے کے اعزاز مجھے حاصل رہا۔ وہ مخدوم محی الدین کی ذات تھی۔ مخدوم صاحب ہمیں اورینٹ سے اٹھا کر ’’جانس‘‘ لے جاتے اور وہاں گھنٹوں شعر و ادب کے حوالے سے بڑی دلچسپ باتیں ہوتیں۔ شاذؔ میری طرف اشارہ کر کے کہتے ’’مخدوم بھائی ! اس نوجوان نے آج ہی ایک بڑی عمدہ نظم لکھی ہے۔ سنیے ‘‘۔ مخدوم کہتے ’’ہاں۔ ہاں۔ کیوں نہیں ‘‘۔ یوں ہماری شاعری سن کر ہماری حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ کبھی کوئی مصرع، شعر، نظم پسند آ جائے تو بے اختیار بیٹھے بیٹھے ہاتھ ملانے کی خاطر ہاتھ بڑھا دیتے۔ یہ ان کے داد دینے کا انداز تھا۔

شاذؔ ہی کی طرح مخدوم محی الدین کے علاوہ میں اختر الایمان اور شاہد صدیقی کا بھی بے حد معترف اور مداح تھا۔ اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’فائزہ‘‘ کے فلیپ کے لیے میں اختر الایمان کے رائے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں نے شاذ سے ان کا پتہ لیا اور انہیں کئی خط لکھے۔ بمبئی کسی دفتری کام سے جانا ہوا تو ان سے ملا۔ ان کے گھر پر۔ ایک بار اختر الایمان کی حیدرآباد میں آمد کے موقع پر ( میری عمر تیس یا اس سے کچھ کم ہو گی)، اختر الایمان مجھے، شاذ اور شاہد صدیقی کو عابد شاپ پر ’’کوالٹی بار‘‘ میں لے گئے۔ شاہد صدیقی نے بیرا سے چار گلاس لانے کے لیے کہا تو شاذؔ نے انہیں ٹوکا کہ اقبال ڈرنک نہیں لیتے۔ اس جملے پر اختر الایمان نے مجھے دیکھا پھر شاذ سے مخاطب ہو کر کہا ’’لڑکا ہے سنبھل جائے گا‘‘۔ شاہد صدیقی مسکراتے رہے۔

علامہ حیرتؔ بدایونی کے گھرانے اور ہمارے خاندان کے قریبی مراسم تھے۔ اس واسطے سے جیلانی بانو اور ( پھر انور معظم سے ان کی شادی کے بعد ) انور صاحب سے بھی وہی یگانگت ہے جیسے علامہ کے دیگر افراد خاندان کے ساتھ رہی ہے۔ مجھ سے چند یا کئی سال سینیئر ایسے شعرا جن سے میری ملاقاتیں رہیں۔ ان میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن سے ملاقات کی نوعیت رسمی رہی کچھ ایسے بھی جنہوں نے میری کم کوئی، کم عمری اور کم مایگی کے باوجود مجھے اپنے حلقہ، احباب میں جگہ دی۔ خورشید احمد جامی، سلیمان اریب، مغنی تبسم، اختر حسن، اقبال متین، عالم خوندمیری، حسن عسکری، انور معظم، وحید اختر، مجتبیٰ حسین، کنول پرشاد کنول۔ اس ملی جلی فہرست میں اور بھی کئی نام ہیں۔

میرے پہلے شعری مجمعے ’’فائزا‘‘ کی رسم اجرا جیلانی بانی کے ہاتھوں انجام پائی۔ جلسے کے صدر شاذ تمکنت تھے۔ جیلانی بانو، شاذ کے علاوہ عالم خوندمیری، مغنی تبسم، حسن عسکری، غیاث متین، یوسف اعظمی، مرلی دھر شرما اور رؤف خلش نے اظہار خیال کیا۔ عوض سعید نے خاکہ پڑھا تھا۔ مغنی صاحب نے اس جلسے میں میری شاعری پر مضمون پڑھا جو بعد میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں چھپا۔ یہی نہیں اس کتاب کا سرورق بھی ان کے مو قلم کا مرہون منت تھا۔ یہ محض ان کی محبت تھی جو آج بھی اسی طرح intact ہے اور مجھے اسی طرح حاصل ہے۔ مغنی صاحب حیدرآباد کی ادبی سرگرمیوں کے روحِ رواں ہیں اور شاید اس ادبی روایت اور تہذیب کی آخری کری جو اس شہر کی شناخت کہی جا سکتی ہے۔ عالم خوندمیری جیسا مفکر اور عالمی ادب پر نگاہ رکھنے والا نقاد کم سے کم میری نگاہ سے نہیں گزرا۔ اختر حسن مجھے بہ حیثیت شاعر پسند کرتے تھے۔ وہ کلاسیکی ادب کا نہایت پاکیزہ ذوق رکھتے تھے۔ میرے دوسرے شعری مجموعے ’’گماں کا صحرا‘‘ کی رسم اجرا کے موقع پر انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا اس سے مجھے بڑی طمانیت حاصل ہوئی۔ مجتبیٰ حسین کی شخصیت اور فن کا میں ہمیشہ مداح رہا ہوں۔ میرے شعری مجموعے ’’دور کنارا‘‘ کی اشاعت کے سلسلے میں انہوں نے جس طرح مجھ سے تعاون کیا اس کے لیے میں ان کا ممنون ہوں۔

سینیئر یا کم و بیش ہم عمر شعرا، ادبا جو مجھ سے کچھ ہی سال چھوٹے یا بڑے ہو سکتے ہیں اور جن سے میرے کبھی دوستانہ مراسم رہے یا آج بھی ہیں وہ ہیں علی احمد جلیلی، امیر حمد خسرو، تاج مہجور، راشدؔ آزر، قدیر زماں، وقار خلیل، ارمان فاروقی، رحمٰن جامیؔ صلاح الدین نیر، حسن یوسف زئی، سید ناظر الدین، حامد مجازؔ ، عاتق شاہ، سید عبدالقدوس، غیاث متینؔ ، روؤف خلش، یوسف کمال، طیب انصاری، یوسف اعظمی، حسن فرخؔ ، مضطر مجازؔ ، محسن جلگانوی، رؤف خیرؔ ، رحمت یوسف زئی، عزیز بھارتی، شفیع اقبال، علی ظہیر، اعجاز عبید، علی الدین نوید، اعتماد صدیقی، مظہر الزماں خاں، بیگ احساس، مظہر مہدی، ستار صدیقی، ظہیر الدین، مصلح الدین سعدی، امتیاز الدین۔۔ ۔ ایک طویل فہرست ہے۔

ج: اساتذہ قدیم سے لے کر حالی اور اقبال تک کے کچھ اشعار گھر میں اور گھر کے باہر لوگوں سے سن رکھے تھے اور نصابی کتابوں میں بھی پڑھے تھے۔ ’’آب حیات‘‘ ملی تو کئی شعرائے قدیم کے حالاتِ زندگی سے واقفیت ہوئی اور ان کے معمولاتِ زندگی اور آپسی تعلقات اور چشمکوں سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ عمر بڑھی تو شوق بھی بڑھا۔ اِدھر اُدھر سے کچھ کتابیں، نیم فلمی، نیم ادبی رسائل پڑھنے میں آئے۔ علامہ حیرت بدایونی کے گھر سے کچھ رسائل ہمارے گھر میں آ جاتے۔ پھر شاذ تمکنت سے ملاقاتیں ہوئی۔ دوستی بڑی تو ہندو پاک کا کوئی ایسا اعلیٰ معیاری ادبی جریدہ نہ تھا جو شاذ کے نام نہ آتا ہو۔ اور شاذ مجھے بڑے شوق سے پڑھنے کے لیے نہ دیتے ہوں۔ میں نے لائبریریوں کے چکر بھی کاٹنے شروع کیے۔ اس طرح مجھے اس ابتدائی دور ہی میں کلاسیکی اور ہم عصر شاعری پڑھنے بلکہ اس کے بالاستیعاب مطالعے کا موقع ملا اور میں نے اساتذہ سے لے کر، دور حاضر تک کے شعرا کا کلام بڑی لگن سے پڑھا۔ اگر مجھے یہ موقع نہ ملتا اور میں اپنے مطالعے اور شعر فہمی کے ابتدائی دنوں سے آئندہ کئی برسوں تک ایک ہی طرز کے شاعروں کے کلام میں محو رہتا اور ان کی فکر اور طرز اظہار کو اپنے حواس پر طاری کر لیتا تو میرے ادبی ذوق اور نگاہ میں جو تھوڑی بہت وسعت پیدا ہو سکی وہ نہ ہوتی۔

متقدمین میں مجھے سب سے زیادہ میرؔ کی تو بات ہی سب سے جدا ہے۔ اردو شاعری کی ساری تہذیب، اس کی لطافت اور اثر پذیری کا مبدا اور مرکز میرؔ کی شاعری ہے جس کے اطراف وقت کے دائرے پھیلتے پھیلتے ہمارے عہد تک پہنچے ہیں۔ مومنؔ ، مولوی فضل حق کے خیال میں اگر عشق عاشقی کے قصوں میں نہ پڑھے تو ان کے فضل و کمال کو دنیا دیکھتی۔ لیکن اگر مومنؔ مولوی صاحب کے خیال کے مطابق عمل کرتے تو ممکن ہے ہمیں ایک اور غالبؔ مل جاتا لیکن مومنؔ کہاں ملتا۔ مومنؔ کو غالبؔ اور اقبال کے تو سبھی معترف ہیں۔ ان با کمال شعرا کے علاوہ مَیں مصحفی، آتش، انیس، حالی، فانی، اصغر، یگانہ، جگر اور فراق کا بھی عاشق و شیدا ہوں۔

میری نوجوانی کے زمانے میں ترقی پسند تحریک کا اثر ابھی پوری طرح زائل نہیں ہوا تھا۔ قدیم طرز کے اساتذہ فن جیسے فانی، اصغر، جوش، جگر کے ساتھ ساتھ کئی ترقی پسند شاعر بھی اپنی رومانیت اور لب و لہجہ کی تازگی کے سبب ہر با ذوق طبقے میں بے حد مقبول تھے۔ میرے ذہن پر بھی ان کا اثر ناگزیر تھا۔ میں بھی فیض، مخدوم، سردار جعفری ( پتھر کی دیوار‘‘ کی پیش تر نظمیں )، احمد ندیم قاسمی، مجاز، جذبی، جاں نثار، مجروح، ساحر، منیب الرحمٰن، اختر انصاری، ان سب شاعروں کا گرویدہ تھا۔ ( اور آج بھی ہوں ) اور ان کی کئی نظمیں اشعار میرے نوک زباں تھے۔ حیدرآباد ہی میں مَیں کئی ترقی پسند شاعروں سے متعارف اور ان کے کلام کا معترف تھا۔ لیکن ترقی پسند نقطۂ نظر سمجھنے میں مجھے ذرا دشواری محسوس ہوتی تھی۔ میری سمجھ میں یہ بات آج تک نہ آ سکی کہ کوئی فلسفہ، کوئی نصب العین، کوئی سیاسی سماجی عقیدہ چاہے کتنا ہی معتبر کیوں نہ ہو اور خیرِ کثیر کا درجہ رکھتا ہو کسی شاعر کی شاعری کا جزو کیسے بن سکتا ہے جب تک کہ اس کے خون میں از خود رواں نہ ہو اور اس کے احساس کا حصہ نہ بن سکے۔ ابھی میں نے جن ترقی پسند مکتب خیال سے تعلق رکھنے والے شاعروں کے نام لیے میرے خیال میں ان کی کامیابی کا راز یہی تھا کہ انہوں نے اجتماعی فکر و احساس کو اپنے داخلی تجربے میں منقلب کرتے ہوئے ایک اعلیٰ تخلیقی اظہار کا درجہ عطا کیا۔

ترقی پسند شعرا کے مقابل، حلقۂ ارباب ذوق کے شاعر بھلے ایک household نام کی حیثیت نہ رکھتے ہوں لیکن ان کی ایک اپنی انفرادی شان تھی۔ عام ڈگر سے ہٹی ہوئی شاعری، نئی فکر، نئے موضوعات، نیا طرزِ اظہار، نطمِ آزاد کے فارم میں لفظوں کی نئی قطار بندی، انسان کو ایک نیا اخلاق بخشنے کی کوشش تاکہ انسان اپنی ذات کے ساتھ مفاہمت پیدا کر سکے اور مزید شکست و ریخت سے بچ سکے۔ حلقے سے جڑے ہوئے شاعروں کا یہ نظریۂ ادب کہ انسانی نفسیات کی گتھیوں کو سلجھائے بغیر اور اپنی ذات کے نہاں خانے کو روشن کیے بغیر انسانی فلاح کا ہر منصوبہ درہم برہم ہو سکتا ہے اور یہ کہ حقیقت کے کئی پہلو ممکن ہیں اور ان میں ہر پہلو کی عکاسی کی ادب میں گنجائش ہے۔ یہ نظریہ ادب مجھے زیادہ معتبر لگتا۔ راشدؔ نے میراجیؔ کے بارے میں جو لکھا ہے کہ میراجیؔ ہمارے عہد کے سب سے زیادہ جدت پرست سب سے زیادہ زر خیز ذہن کے مالک، سب سے منفرد اور سب سے زیادہ بدنام شاعر ہیں۔ تو میرے خیال میں یہ الفاظ میراجی اور راشد دونوں پر صادق آتے ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ ایک قافلہ ہے۔ مختار صدیقی، مجید امجد، قیوم نظر، یوسف ظفر، ظہور نظر، ضیا جالندھری اور بہت سے دوسرے اور مجھے یہ سب بے حد عزیز ہیں۔ ان شاعروں کے علاوہ مجھے جن دو شاعروں نے بے حد متاثر کیا وہ اختر الایمان اور منیر نیازی ہیں۔

اپنے پیش روؤں، ہم عمر یا سینئر شاعروں میں ( کسی ترتیب کے بغیر) ناصر کاظمی، شاذ تمکنت، ابنِ انشا، بلراج کومل، وزیر آغا، خلیل الرحمٰن اعظمی، عمیق حنفی، شہاب جعفری، احمد مشتاق، زبیر رضوی، باقر مہدی، مغنی تبسم، شفیق فاطمہ شعریٰ، ندا فاضلی، شہر یار، بانی، شکیب جلالی، محمد علوی، احمد ہمیش، عادل منصوری، کمار پاشی اور شاہد کبیر میرے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔ نقادوں میں محمد حسن عسکری، آل احمد سرور، خلیل الرحمن اعظمی، وزیر آغا، عالم خوندمیری، شمس الرحمٰن فاروقی، مغنی تبسم، شمیم حنفی، باقر مہدی اور فضیل جعفری ایسے نام ہیں جن کی تحریروں کا اثر میں نے قبول کیا ہے۔

ج: اپنے ادبی کیریئر اور اپنی شاعری پر مختصراً آپ کیا تبصرہ کرنا پسند کریں گے ؟

م: میری شاعری کی ابتدا نظموں سے ہوئی۔ میرے تقریباً نظمیں، ماسوائے چند، آزاد نظم کے فارم میں ہیں پھر کئی سال بعد کچھ غزلیں لکھیں اور یہ سلسلہ بھی چل پڑا اور میں نظم اور غزل دونوں اصناف میں طبع آزمائی کرنے لگا۔ میری شاعری ایسی نہ تھی کہ مشاعروں میں قبولیت کی سند حاصل کر سکے۔ اپنے تخلیقی اظہار کے لیے میرے پاس ایک ہی وسیلہ تھا کہ رسائل میں زیادہ سے زیادہ چھپنے کی کوشش کروں۔ میری پہلی نظم سہ ماہی ’’قند‘‘ ( مردان۔ پاکستان) میں 1959 ء میں چھپی۔ یہ ایک موقر ادبی رسالہ تھا جو تاج سعید کی ادارت میں شائع ہوتا تھا اس کے بعد میری نظمیں، غزلیں ہندو پاک کے سبھی مقتدر ادبی رسائل میں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہیں۔ چند نام یہ ہیں ( پاکستان سے ): ’’قند‘‘، ’’ادبی دنیا‘‘، ’’صحیفہ‘‘، ’’سویرا‘‘، نقوش‘‘، ’’فنون‘‘، ’’ترجمان سرحد‘‘، ’’سیپ‘‘، ’’اوراق‘‘، ’’تخلیق‘‘، ’’تشکیل‘‘ وغیرہ۔ (ہندوستان سے ): ’’صبا‘‘، ’’پونم‘‘، ’’تحریک‘‘، ’’کتاب‘‘، ’’شب خون‘‘، ’’سطور‘‘، ’’معیار‘‘، ’’تناظر‘‘، ’’شعر و حکمت‘‘، ’’سب رس‘‘، ’’شاعر‘‘، ’’ذہنِ جدید‘‘، ’’انتخاب‘‘، ’’سرسبز‘‘ وغیرہ۔ چند اہم انتخاب (anthologies) جن میں میری نظمیں غزلیں شامل ہو سکیں ان کے نام ہیں۔ ’’نئی نظم کا سفر‘‘ ( مرتبہ خلیل الرحمٰن اعظمی)، ’’نئے نام‘‘ (مرتبین۔ شمس الرحمٰن فاروقی، حامد حسین حامد)، ’’نئے کلاسیک‘‘ ( بشر نواز۔ مرہٹواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد۔ مہاراشترا)، ’’اردو کی بہترین شاعری‘‘ ( پرکاش پنڈت۔ اردو ہندی میں )، ’’مشاعرہ‘‘ (پرکاش پنڈت۔ اردو ہندی میں )، ’’1970ء کی بہترین شاعری‘‘ (ترتیب۔ کمار پاشی، پریم گوپال متل)، ’’نئی نظم نئے دست خط‘‘ (مرتبہ۔ شاہد ماہلی)، ’’گجرات کے زخم‘‘ (اردو، تلگو شعری تخلیقات کا انتخاب، سیکیولر ڈیموکریٹک لٹریری کلچرل فورم)، ’’ذہنِ جدید، جدید نظم نمبر‘‘، ’’بیسویں صدی کی بہترین شاعری ( مرتبہ: اوصاف احمد)۔

ج: اب میں آپ سے ایک دو شخصی سوال بھی پوچھنا چاہوں گا۔ ان میں سے ایک یہ کہ حیدرآباد کے علاوہ بدایوں جو آپ کا آبائی وطن ہے اس سے اپنے تعلق کو لے کر آج آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اپنے وہاں کے اجداد سے آپ کس حد تک علمی و روحانی معنی میں فیض یاب ہوئے ؟

م: میں بدایوں میں پیدا ہوا۔ بدایوں بہت پرانا شہر ہے۔ کچھ لوگ 5ہزار سال پرانا شہر کہتے ہیں۔ اس شہر کے قدیم نام ’’بدھ مؤ‘‘ کی روشنی میں اسے گوتم بدھ کے عہد کا شہر بھی قرار دیا گیا ہے۔ سوتھ نام کا ایک چھوٹا سا دریا خاص شہر بدایوں کے کنارے پر ہے۔ اسی دریا کے نام سے وابستہ اس شہر کے محلہ سو تھے میں، مَیں پیدا ہوا۔ امیر خسرو نے بدایوں کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

زبس کز مرکز اہلِ بصیرت منبعِ جوات

بجائے سرمہ در دیدہ کشم خاک بداؤں را

میرے والد کی تعلیم بدایوں اور بریلی میں ہوئی۔ اپنے عہد کی مروجہ تعلیم تھوڑی بہت عربی، فارسی کے علاوہ انہوں نے صرف میٹرک تک تعلیم پائی لیکن اس زمانے میں میٹرک کی بھی اہمیت ہوتی تھی۔ میرے والد کے ماموں محمد عبد الباسط صدیقی اپنی نوجوانی کے دنوں میں کانگریس پارٹی سے وابستہ رہے۔ کچھ دنوں مولانا محمد علی کی رفاقت بھی انہیں حاصل رہی، وہ ملازمت کی تلاش میں حیدرآباد آئے اور محکمۂ آبکاری میں انہیں نوکری مل گئی۔ کچھ عرصے کے بعد وہ میرے والد کو بھی حیدرآباد لے آئے اور محکمہ محاسبی میں انہیں ملازمت مل گئی۔ میرے والد کے ماموں ( میں انہیں ’’دادا‘‘ کہتا تھا) لا ولد تھے انہوں نے میرے والد کی اپنے بیٹے کے مانند ہی پرورش کی۔

بدایوں میں میرے والد کو جو علمی ادبی فضا میسر تھی۔ وہ حیدرآباد میں بھی میسر آئی۔ میرے والد کے پھوپھا حضرت عبد الجامع جامی بدایونی ( تلمیذ احسن مارہروی، جانشینِ حضرت داغؔ دہلوی) کا شمار بدایوں کے نامی گرامی شعرا میں ہوتا تھا۔ ان کے خاص شاگردوں میں اختر غزنوی، رونق بدایونی، جوش بدایونی، جوہر بدایونی، منور بدایونی اور دلاور فگار کے نام قابلِ ذکرہیں۔ میرے والد شاعر نہیں تھے لیکن انہیں اساتذہ کے بے شمار اشعار یاد تھے۔ بدایوں میں انہوں نے اپنے پھوپھا کے گھر محفلوں میں صفی لکھنوی، نوح ناروی، جگر مراد آبادی، دلیر مارہروی، ثاقب لکھنوی، محشر لکھنوی، اسعد شاہجہاں پوری، دل شاہجہاں پوری، سید آلِ رضا لکھنوی اور بہزاد لکھنوی کو دیکھا ہو گا۔ ان اکابرین کا ذکر مولانا جامی بدایونی کے مجموعہ، نعت ’’زادِ آخرت‘‘ میں ان کے دوستوں اور شاگردوں کے تحریر کردہ کئی مضامین میں ملتا ہے۔

میں نے تیسری جماعت بدایوں میں پاس کی اور چوتھی جماعت سے ایم۔ ایس۔ سی تک ساری تعلیم حیدرآباد میں حاصل کی۔

ج: اب میں جو بات پوچھنا چاہوں گا اور جو آج کے ادبی اور سماجی منظر نامے کو نظر میں رکھتے ہوئے انتہائی اہم ہے۔ وہ یہ کہ شعر و ادب کی حرمت میں بتدریج کمی، شدید لسانی اور نظریاتی اختلافات اور گروہ بندی کے اس دور میں آپ بہ حیثیت شاعر یا ادیب اپنی ادبی حیثیت کوبڑی حد تک پسندیدہ اور غیر نزاعی بنائے رکھنے میں کیوں کر کامیاب ہو سکے ؟

م: پتہ نہیں آپ کی میرے بارے میں جو مخلصانہ رائے ہے وہی دوسروں کی بھی ہے یا نہیں۔ بہر حال خدا کا شکر ہے کہ میں خود اپنی ذات اور اپنے کاروبار شعر و سخن کے تعلق سے کسی تشویش کا شکار نہیں اور میرا ایقان ہے کہ اگر آپ مخلصانہ مزاج رکھتے ہوں اور نہ صرف اپنے تئیں بلکہ بہ حیثیت ادیب ادب کے تئیں بھی پوری طرح دیانت دار رہ سکیں تو دشوار گذار راہیں بھی آپ کے لیے ہموار ہو جائیں گی۔ میں ہر اچھے ادیب اور دانشور کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہوں اور بے جا ادبی یا غیر ادبی مباحث سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ج: اب ایک آخری بات جو میں آپ سے جاننا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ اپنے شعر و ادب کے انفرادی تصور اور شاعری کے عصری منظر نامے کے درمیان آپ بہ حیثیت شاعر اپنے آپ کو کہاں اور کس طرح place کرنا چاہیں گے ؟

م: اس سوال کے جواب میں، مَیں چاہوں گا کہ آپ میرے تازہ شعری مجموعے ’’دور کنارا‘‘ کے پیش لفظ کا آخری حصہ پڑھ لیں تو شاید اس سلسلے میں میرے خیالات کسی قدر واضح ہو سکیں۔

دیکھیے ! شاعر بھی ایک عام آدمی، ایک عادی مجرم کی طرح ہے لیکن تھورے سے فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ اسے اپنے جرائم کا احساس ہے۔ وہ جرم تو کرتا ہے، مجرم ہے لیکن پھر اُچک کر جج کی کرسی پر بھی جا بیٹھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلسل سزائیں سناتا رہتا ہے۔ جب وہ انسانی قدروں، اپنے آدرشوں، اپنے خوابوں کو ٹوٹے بکھرتے دیکھتا ہے تو اعلانِ جنگ کر دیتا ہے۔ خود اپنے خلاف بلکہ اس معاشرے کے خلاف بھی جس کا وہ حصہ ہے۔ اختر الایمان نے اپنے مجموعۂ کلام ’’نیا آہنگ‘‘ (1977ء) کے پیش لفظ کی ابتدائی سطور میں لکھا ہے کہ ’’معاشرہ اور شاعر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہی معاندانہ رویہ شعری تخلیقات کی بنیاد ہے۔ یہ معاندانہ رویہ کب شروع ہوا یہ تو نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں شروع ہوا اس بارے میں ضرور قیاس آرائی کی جا سکتی ہے ‘‘۔ یہ قیاس آرائیاں آج بھی جاری ہیں۔ یہ سارا منظر نامہ جو علوم، معاشرے اور تہذیب کی ترقی کے متوازی تاریخِ انسانی کا حصہ رہا ہے، میں بھی اسی ’’کُل‘‘ کا ’’جز‘‘ اور اسی خط کا ایک نقطہ ہوں۔ پھر میرا اپنا محلِ وقوع میری locale ہے، میری داخلی کیفیات ہیں، جنہوں نے مجھے جکڑ رکھا ہے۔ دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کا میرا الگ اپنا انداز ہے۔ شاعری کی زبان انسانی حالات اور ماحول میں تبدیلی اور تغیر سے لا تعلق نہیں رہ سکتی۔ پرانے رموز تلمیحات اور اشارات و کنایات گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اپنی معنویت کھونے لگتے ہیں۔ کبھی یہ آواگون کے فلسفے کے زیر اثر نیا جنم بھی لے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ زماں و مکاں کی ایک بری چھتری کے نیچے ہمارے کچے اینٹوں کے مکانوں کے دروازے، روشن دان، کھڑکیاں اور ان پر لٹکے ہوئے پردے الگ الگ ساخت اور الگ الگ رنگوں کے ہیں تو جب ہمارے تجربات اور ہمارے responses مختلف ہیں تو اظہار کے پیرائے بھی جدا ہونے چاہئیں۔ لیکن عمومی طور پر اچھی شاعری چاہے وہ کسی عہد کی پروردہ ہو، حقیقت کو واہمہ(fantasy) اور واہمے کو حقیقت میں بدلنے کا وصف رکھتی ہے اور یوں نامانوس کو مانوس مانوس کو نامانوس میں بدل دیتی ہے۔

میں نہیں جانتا کہ میں نے جو باتیں کہی ہیں خود میری شاعری پر ان کا کہاں تک اطلاق ہوتا ہے۔ میری شاعری میں میرے عہد کی اور میرے اندر جو کائنات ہے، جو حشر بپا ہے اس کی عکاسی کہاں تک ہو سکی ہے اور وقت میرے حق میں کیا فیصلہ کرے گا؟ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میرے ذہن و دل، خواب و حقیقت، خارج و باطن اور چند پیادہ سانسوں کی وقت کے اس عظیم لشکر سے جنگ میں میرا کیا حال ہوا ؟۔۔ ۔

’’کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا۔ ‘‘۔۔ ۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے