تنہائی ۔۔۔ باسط آذر

 

 

ہیلو پیاری زینا ۔

میں تمہارا زیناریو  ۔ پریشان مت ہونا ، میں وہی زیناریو جو پہلے سیمبو تھا ، وہی قبائلی جو وحشی تھا ، اب میں مہذب ہو گیا ہوں تو اپنا نام بدل لیا ہے۔

تم سناؤ کیسی ہو ، ہمیشہ کی طرح تمہارا جواب اس بار بھی نہیں آیا ۔

اوہ شاید تم پہلے سیمورا تھیں ۔ اور مجھے ویسے ہی تمہارے ناموں کا علم نہیں ہوتا جیسے تمہیں میرے ناموں کا علم نہیں ہو پاتا ۔ مگر یوں تو خطوط ہمیشہ بھٹکتے رہیں گے ۔

چلو خیر ہے ۔ بھٹکتے رہنا تو لازم ہے ، پیغام پہلے بھی کب پہنچے ہیں کسی تک ۔ ہر بار جواب لکھنے کے بعد وقت بدلتا ہے اور اسی لمحے کچھ ہو جاتا ہے مگر جس کے پاس پہنچتا ہے وہ سب خیریت کی اطلاع پاتا ہے ۔ جبکہ لکھنے والا تو اس کے چند لمحوں بعد لکھنے یا سننے کے قابل نہیں رہتا ۔ وقت کبھی ٹھہرا کیا ؟

کیا حادثات نے کسی کے جواب آنے تک انتظار کیا ؟

سو یونہی چلنے دو ۔ ہم بھی کونسا ٹھہرے ہیں ۔ تم بھی بدل جاتی ہو اور میں بھی ۔ میری ماں میرا باپ ، بہن بھائی بھی اور ہمارے بچے بھی ۔

مگر یہاں کتنی سہولت ہے کہ میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں ۔ آنکھیں بند کر کے تمہیں دیکھتا ہوں اور آنکھیں کھول کر خط تحریر کر دیتا ہوں ۔رات ہونے پر ڈائری اٹھاتا ہوں اور اس میں سب رقم کر دیتا ہوں ۔

اچھا اب بس اتنا ہی شام ہونے والی ہے اور میں نے اپنے ماں باپ کو بھی خط لکھنا ہے ۔

فقط تمہارا

زیناریو

٭٭٭

(تشکر: کہانی ڈاٹ کام)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے