تلاش۔۔۔ سبین علی

 

وہ ایک شاعر اور مصور تھا جو بھٹکتا ہوا اُس بستی میں آن پہنچا تھا جہاں اس کے اطراف میں موجود کل کائنات مٹی دھول اور اندھیروں سے اٹی تھی۔ اس کے ارد گرد نہ تو حسین چہرے تھے اور نہ ہی رنگا رنگ فطری مناظر جنہیں وہ کینوس پر اتار لیتا۔ اس نے اپنی تصویروں میں گرد آلود پاؤں، سوکھے پھول خاردار جھاڑیاں، خالی ڈبے، ٹوٹے ہوئے بنچ اور گہری رات کا سکوت پینٹ کر دیا۔ اپنے شعروں میں کھوٹے سکوں، جانوروں، کالے بد شکل اور محروم انسانوں کے قصیدے لکھ ڈالے۔ اس نے ایک پرانے کھمبے کی مدھم ہوتی روشنی میں بیٹھ کر تصویریں بنائیں تھیں، وہ کھمبا اس کا ہم راز تھا۔ مناسب دیکھ بھال اور گھاس پھوس سے محروم باغ کے جس بنچ پر وہ بیٹھا کرتا تھا وہ بھی اس کا رفیق بن چکا تھا۔

اس کی زندگی میں اس کی پینٹینگز کبھی نہ بک سکیں نہ ہی کوئی اس کے اشعار کا مداح پیدا ہوا۔ وہ کاغذوں میں پڑا رہا اور وقت کی دیمک ایک دن اُسے نگل گئی۔

کچھ عرصہ کے بعد بستی کے لوگوں نے اُس پرانے کھمبے کو جو زنگ آلود ہونے لگا تھا اکھاڑ کر فونڈری میں گلا دیا گیا جِس کی دھات سے تار بنائے گئے اور ان تاروں کو پھر مختلف سازوں میں جوڑ دیا گیا۔ بعد مدت کے ہر تار سے اُس شاعر کے نغموں کی اداس دھنیں گونجیں اور سماعتوں کو نئے ذوق سے ہم کنار کر گئیں۔ باغ میں پڑے لکڑی کے پرانے بینچ پر پرندوں کی ٹولیاں آ کر بیٹھنے لگیں۔ اور اس کی تصویروں کو نئی معنویت عطا کرنے لگیں۔ لوگ یہ سب منظر دیکھتے حیران ہوتے رہے۔ رفتہ رفتہ اس کی تمام پینٹیگز کھوجی گئیں اور عجائب گھروں کی زینت بنیں۔ خستہ کاغذوں پر لکھے اس کے اشعار زبان زد خاص و عام ہوئے۔ کینوس کے قطعات پر بنے مناظر ایک دوسرے کو کئی سوالیہ نشان لیے تکتے اور کاغذوں میں لکھے الفاظ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آخر لوگوں کو اس فنکار کے مرنے کے بعد ان کاغذ کے ٹکروں اور کینوس کے قطعات میں کس شے کی تلاش ہے ؟ شاید آرٹسٹ کی موت کی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے